انصاف میں تاخیر
غلام محمد عرف نوید نے کچھ عرصہ میرے پاس ڈرائیورکی حیثیت سے کام کیا تھا
غلام محمد عرف نوید نے کچھ عرصہ میرے پاس ڈرائیورکی حیثیت سے کام کیا تھا، وہ ایک حساس اور زود رنج انسان تھا۔2010ء میں سیلاب کے بعد جب لوگ کراچی آ کر مختلف کیمپوں میں رہ رہے تھے تو ایک دن وہ اور اس کی بیوی اپنے اور بچیوں کے کپڑوں کی گٹھری بنا کے ایک کیمپ میں بانٹ آئے تھے، جب اس نے مجھے یہ بات بتائی تو میرے دل میں اس کی عزت کئی گنا بڑھ گئی تھی۔
اس کی دونوں بیٹیاں اسکول میں پڑھ رہی تھیں۔ وہ اکثر کہتا تھا ''میں اپنی بیٹیوں کو میٹرک ضرور کراؤں گا اور پھر اس کے بعد کوئی ہنر بھی سکھاؤں گا تا کہ وہ اپنے پیروں پرکھڑی ہو سکیں'' جب کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے چھوٹے بیٹوں کو اس نے مدرسے میں داخل کرا دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد اس نے دوسری جگہ ملازمت کر لی تھی لیکن فون پر رابطہ رہتا تھا۔ بڑی بیٹی نے میٹرک کر لیا توگھر والوں کے دباؤ پر شادی طے کر دی، بہت عرصہ تک کوئی فون نہیں آیا۔ ایک روز اس کی بیوی کا فون آیا اور اس نے پریشانی کے عالم میں بتایا کہ نوید کو ڈکیتی کے الزام میں گرفتارکر لیا گیا ہے اور وہ جیل میں ہے۔
مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا، پتہ چلا کہ داماد چرسی اور نکھٹو نکلا، سسرال والوں کا سلوک اچھا نہیں تھا، بیٹی میکے آ کر بیٹھ گئی تھی، ان لوگوں نے عدالت میں خلع کے لیے مقدمہ دائرکر دیا۔سسرال والوں نے انتقامی کارروائی کے طور پرنوید کے خلاف ڈکیتی کی رپورٹ لکھوا دی اور اب وہ جیل میں پڑا تھا۔ میں نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے وکیل کا نمبر اسے دیا لیکن ان لوگوں نے اپنے طور پرکوئی وکیل کر لیا تھا، جس نے کیس کو اتنا بگاڑ دیا کہ سیشن کورٹ سے ضمانت نہیں ہو پائی اور اب مقدمہ ہائی کورٹ میں چلے گا اور نوید نہ جانے کب تک جیل میں پڑا رہے گا۔
اس طرح کے بیشمار واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غریبوں، مظلوموں اور عام آدمی کے لیے انصاف کے آسان اور تیز حصول کو کیسے ممکن بنایا جائے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو اپنے حقوق کا علم اور ان کے حصول کا طریقہ کار معلوم ہو۔ ریاست انصاف کی فراہمی کے موثر ادارے اور ایسا نظام قائم کرے جس تک لوگوں کی رسائی آسان ہو۔ انصاف ہوتا ہوا اسی وقت نظر آئے گا جب ناانصافی کا شکارہونے والے عوام خاص طور پر غریب اور لاچار طبقات میں یہ صلاحیت پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔ اور قانون کے مطابق ریاستی اورغیر ریاستی اداروں سے ان زیادتیوں کا سدباب کروا سکیں۔
پاکستان کے طبقاتی اور پدرشاہی معاشرے میں غریبوں اور عورتوں کو ثانوی حیثیت حاصل ہے، خواندگی کی شرح بہت کم ہے، عورتوں کے لیے تو باہر نکلنے کے مواقعے بھی کم ہیں، قانونی حقوق کی آگاہی اور وسائل تک رسائی نہیں ہے، اس صورت میں انصاف کا حصول اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ مقدمہ بازی کے اخراجات اور سالوں تک عدالتوں کے چکر لگانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ عورتوں کے لیے تو یہ سب کچھ اور بھی تکلیف دہ اور مشکل ہوتا ہے۔
پاکستان کے عدالتی نظام پر نظر ڈالیں تو ہمارے ہاں سپریم کورٹ آئین کی حتمی محافظ ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف آخری اپیل بھی یہاں کی جاتی ہے۔ اس کی مستقل نشست اسلام آباد میں ہے جب کہ چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں اس کی رجسٹری شاخیں ہیں۔ اس سے نیچے چاروں صوبوں میں ہائیکورٹس ہیں۔ جو اپنے اپنے صوبوں میں انصاف کی فراہمی کی ذمے دار ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں بھی ایک ہائی کورٹ ہے۔ یہ اپنے صوبوں کی نچلی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیںبھی سنتی ہیں۔ سارے سول کورٹس ہائی کورٹس کے تابع ہوتے ہیں۔ مقامی حدود میں ڈسٹرکٹ جج ساری سول عدالتوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ سول عدالتوں کی درجہ بندی کچھ یوں ہے:
1۔ڈسٹرکٹ جج کی عدالت،2۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کی عدالت،3۔ سول کورٹ کی عدالت
٭کریمنل کورٹ یا فوجداری عدالت: پاکستان میں فوجداری طریقہ کار کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1868ء کے تحت بنایا گیا ہے۔ جب کہ جرم کی تعریف اور اس کی سزائیںپاکستان کے ضابطہ تعزیر 1860ء میں ملتی ہیں۔ پاکستان کی اہم فوجداری عدالتیں درج ذیل ہیں:
1۔ہائی کورٹ۔2، کورٹ آف سیشن۔ 3 کورٹ آف مجسٹریٹ
ہائی کورٹس آئینی عدالتیں ہیں جو پاکستان کے آئین کے تحت قائم کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ فوجداری عدالتوں کے اختیارات بھی استعمال کرتی ہیں۔ سیشن کورٹ سیشن جج اور ایڈیشنل سیشن جج پر مشتمل ہوتا ہے۔ مجسٹریٹوں کی بھی تین قسمیں ہیں: ، درجہ ء اول کا مجسٹریٹ،: درجہء دوم کا مجسٹریٹ، درجہ ء سوم کا مجسٹریٹ۔ سارے مجسٹریٹ متعلقہ ڈویژن کے سیشن جج کے ماتحت ہوتے ہیں۔
اسپیشل کورٹس: مخصوص معا ملات کے لیے مختلف قوانین کے تحت اسپیشل کورٹس اور ٹریبونل قائم کیے گئے ہیں جیسے انکم ٹیکس ٹریبونل، لیبرکورٹس، فیملی کورٹس، رینٹ ٹریبونل، انسداد دہشتگردی کی عدالتیں، بورڈ آف ریونیو وغیرہ۔ ان کے اختیارات متعلقہ قوانین میں درج ہوتے ہیں۔وفاقی شرعی عدالت قائم کرنے کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ کوئی بھی قانون قرآن اور سنت کے اسلامی احکامات کے خلاف نہ بنے۔ اگر کوئی قانون اسلامی احکامات کے خلاف ہو تو عدالت متعلقہ حکومت کو نوٹس دے گی اور اپنے فیصلے کی وجوہات سے آگاہ کرے گی۔ یہ عدالت حدود کی سزاؤں سے متعلق کریمنل کورٹس کے فیصلوں کا جائزہ بھی لے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کو وفاقی شریعت عدالت کے فیصلوںکا جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہے۔
قاضی کورٹس کا آئیڈیا 1980ء کے عشرے کے اسلامائزیشن پروگرام کے دوران مقبول ہوا۔ بنیادی طور پرکوشش یہ کی جا رہی تھی کہ موجودہ عدالتی نظام کو اسلام کے ابتدائی دور کے قاضی اور مجلس شوریٰ کے نظام سے بدل دیا جائے۔ قاضی کورٹس خیبر پختونخوا اور بلوچستان میںانصاف کی فراہمی کے لیے قائم کیے گئے لیکن پورے ملک میں یہ آئیڈیا اپنایا نہ جا سکا۔
جرگہ سسٹم 1977ء کے ایک قانون کے مطابق خیبر پختونخوا میں اپنایا گیا۔ اس کا مقصد اس علاقے کے مخصوص معاملات کے حوالے سے پیدا ہونیوالے تنازعات کو طے کرنا تھا جب کہ بلوچستان میں جرگہ سسٹم کا رواج پہلے سے تھا۔
ایک عام پاکستانی سے پوچھے تو ہمارے عدالتی نظام کا سب سے بڑا مسئلہ انصاف کے حصول میں تاخیر ہے۔ آپ سالوں عدالتوں کے چکر لگاتے رہیں، تاریخ پر تاریخ ملتی رہے گی لیکن انصاف نہیں ملے گا اسی لیے لوگ عدالت سے باہر فیصلے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لوگ پولیس کے پاس جاتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں جو اول تو ایف آئی آر درج نہیں کرتی اور اگر کرتی بھی ہے تو اس میں اتنی خامیاں چھوڑ دیتی ہے کہ ملزم بری ہو جاتا ہے۔ جوڈیشل افسروں اور ججزکی تعداد کم ہونے سے بھی مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔
حکومتوں کی نااہلی اورسرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی کے بعد لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے عدلیہ کی طرف دیکھتے ہیں لیکن وہاں سے بھی انھیں ریلیف نہیں ملتا۔ عدالتوں کی کارروائی انگریزی زبان میں ہوتی ہے جسے عام آدمی سمجھ نہیں پاتا خود وکلا میںسے بھی اکثر غلط سلط انگریزی بول رہے ہوتے ہیںاور چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے بقو ل پاکستان بھر میں صرف چند ہی ایسے فاضل جج حضرات ہیں جنہیں انگریزی پر عبور حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انگریزی ایک بین ا لاقوامی زبان ہے اور اس کا سیکھنا ضروری ہے۔
اس پدر سری معاشرے میں جب مرد عدالتوں کے چکر لگا لگا کر تھک جاتا ہے تو سوچیے عورتوں کو کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔ عدالتوں کے ماحول کو عوام دوست بنانا ضروری ہے۔ ججز، وکلا اور پولیس کو عورتوں کے تحفظ کے لیے بننے والے قوانین کے بارے میں مکمل واقفیت ہونی چاہیے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان نے عورتوں کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کے بین ا لاقوامی کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں اور عدالتی کارروائی اور فیصلے اس کی روشنی میں ہونے چاہئیں۔
اس کی دونوں بیٹیاں اسکول میں پڑھ رہی تھیں۔ وہ اکثر کہتا تھا ''میں اپنی بیٹیوں کو میٹرک ضرور کراؤں گا اور پھر اس کے بعد کوئی ہنر بھی سکھاؤں گا تا کہ وہ اپنے پیروں پرکھڑی ہو سکیں'' جب کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے چھوٹے بیٹوں کو اس نے مدرسے میں داخل کرا دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد اس نے دوسری جگہ ملازمت کر لی تھی لیکن فون پر رابطہ رہتا تھا۔ بڑی بیٹی نے میٹرک کر لیا توگھر والوں کے دباؤ پر شادی طے کر دی، بہت عرصہ تک کوئی فون نہیں آیا۔ ایک روز اس کی بیوی کا فون آیا اور اس نے پریشانی کے عالم میں بتایا کہ نوید کو ڈکیتی کے الزام میں گرفتارکر لیا گیا ہے اور وہ جیل میں ہے۔
مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا، پتہ چلا کہ داماد چرسی اور نکھٹو نکلا، سسرال والوں کا سلوک اچھا نہیں تھا، بیٹی میکے آ کر بیٹھ گئی تھی، ان لوگوں نے عدالت میں خلع کے لیے مقدمہ دائرکر دیا۔سسرال والوں نے انتقامی کارروائی کے طور پرنوید کے خلاف ڈکیتی کی رپورٹ لکھوا دی اور اب وہ جیل میں پڑا تھا۔ میں نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے وکیل کا نمبر اسے دیا لیکن ان لوگوں نے اپنے طور پرکوئی وکیل کر لیا تھا، جس نے کیس کو اتنا بگاڑ دیا کہ سیشن کورٹ سے ضمانت نہیں ہو پائی اور اب مقدمہ ہائی کورٹ میں چلے گا اور نوید نہ جانے کب تک جیل میں پڑا رہے گا۔
اس طرح کے بیشمار واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غریبوں، مظلوموں اور عام آدمی کے لیے انصاف کے آسان اور تیز حصول کو کیسے ممکن بنایا جائے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو اپنے حقوق کا علم اور ان کے حصول کا طریقہ کار معلوم ہو۔ ریاست انصاف کی فراہمی کے موثر ادارے اور ایسا نظام قائم کرے جس تک لوگوں کی رسائی آسان ہو۔ انصاف ہوتا ہوا اسی وقت نظر آئے گا جب ناانصافی کا شکارہونے والے عوام خاص طور پر غریب اور لاچار طبقات میں یہ صلاحیت پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔ اور قانون کے مطابق ریاستی اورغیر ریاستی اداروں سے ان زیادتیوں کا سدباب کروا سکیں۔
پاکستان کے طبقاتی اور پدرشاہی معاشرے میں غریبوں اور عورتوں کو ثانوی حیثیت حاصل ہے، خواندگی کی شرح بہت کم ہے، عورتوں کے لیے تو باہر نکلنے کے مواقعے بھی کم ہیں، قانونی حقوق کی آگاہی اور وسائل تک رسائی نہیں ہے، اس صورت میں انصاف کا حصول اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ مقدمہ بازی کے اخراجات اور سالوں تک عدالتوں کے چکر لگانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ عورتوں کے لیے تو یہ سب کچھ اور بھی تکلیف دہ اور مشکل ہوتا ہے۔
پاکستان کے عدالتی نظام پر نظر ڈالیں تو ہمارے ہاں سپریم کورٹ آئین کی حتمی محافظ ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف آخری اپیل بھی یہاں کی جاتی ہے۔ اس کی مستقل نشست اسلام آباد میں ہے جب کہ چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں اس کی رجسٹری شاخیں ہیں۔ اس سے نیچے چاروں صوبوں میں ہائیکورٹس ہیں۔ جو اپنے اپنے صوبوں میں انصاف کی فراہمی کی ذمے دار ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں بھی ایک ہائی کورٹ ہے۔ یہ اپنے صوبوں کی نچلی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیںبھی سنتی ہیں۔ سارے سول کورٹس ہائی کورٹس کے تابع ہوتے ہیں۔ مقامی حدود میں ڈسٹرکٹ جج ساری سول عدالتوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ سول عدالتوں کی درجہ بندی کچھ یوں ہے:
1۔ڈسٹرکٹ جج کی عدالت،2۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کی عدالت،3۔ سول کورٹ کی عدالت
٭کریمنل کورٹ یا فوجداری عدالت: پاکستان میں فوجداری طریقہ کار کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1868ء کے تحت بنایا گیا ہے۔ جب کہ جرم کی تعریف اور اس کی سزائیںپاکستان کے ضابطہ تعزیر 1860ء میں ملتی ہیں۔ پاکستان کی اہم فوجداری عدالتیں درج ذیل ہیں:
1۔ہائی کورٹ۔2، کورٹ آف سیشن۔ 3 کورٹ آف مجسٹریٹ
ہائی کورٹس آئینی عدالتیں ہیں جو پاکستان کے آئین کے تحت قائم کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ فوجداری عدالتوں کے اختیارات بھی استعمال کرتی ہیں۔ سیشن کورٹ سیشن جج اور ایڈیشنل سیشن جج پر مشتمل ہوتا ہے۔ مجسٹریٹوں کی بھی تین قسمیں ہیں: ، درجہ ء اول کا مجسٹریٹ،: درجہء دوم کا مجسٹریٹ، درجہ ء سوم کا مجسٹریٹ۔ سارے مجسٹریٹ متعلقہ ڈویژن کے سیشن جج کے ماتحت ہوتے ہیں۔
اسپیشل کورٹس: مخصوص معا ملات کے لیے مختلف قوانین کے تحت اسپیشل کورٹس اور ٹریبونل قائم کیے گئے ہیں جیسے انکم ٹیکس ٹریبونل، لیبرکورٹس، فیملی کورٹس، رینٹ ٹریبونل، انسداد دہشتگردی کی عدالتیں، بورڈ آف ریونیو وغیرہ۔ ان کے اختیارات متعلقہ قوانین میں درج ہوتے ہیں۔وفاقی شرعی عدالت قائم کرنے کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ کوئی بھی قانون قرآن اور سنت کے اسلامی احکامات کے خلاف نہ بنے۔ اگر کوئی قانون اسلامی احکامات کے خلاف ہو تو عدالت متعلقہ حکومت کو نوٹس دے گی اور اپنے فیصلے کی وجوہات سے آگاہ کرے گی۔ یہ عدالت حدود کی سزاؤں سے متعلق کریمنل کورٹس کے فیصلوں کا جائزہ بھی لے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کو وفاقی شریعت عدالت کے فیصلوںکا جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہے۔
قاضی کورٹس کا آئیڈیا 1980ء کے عشرے کے اسلامائزیشن پروگرام کے دوران مقبول ہوا۔ بنیادی طور پرکوشش یہ کی جا رہی تھی کہ موجودہ عدالتی نظام کو اسلام کے ابتدائی دور کے قاضی اور مجلس شوریٰ کے نظام سے بدل دیا جائے۔ قاضی کورٹس خیبر پختونخوا اور بلوچستان میںانصاف کی فراہمی کے لیے قائم کیے گئے لیکن پورے ملک میں یہ آئیڈیا اپنایا نہ جا سکا۔
جرگہ سسٹم 1977ء کے ایک قانون کے مطابق خیبر پختونخوا میں اپنایا گیا۔ اس کا مقصد اس علاقے کے مخصوص معاملات کے حوالے سے پیدا ہونیوالے تنازعات کو طے کرنا تھا جب کہ بلوچستان میں جرگہ سسٹم کا رواج پہلے سے تھا۔
ایک عام پاکستانی سے پوچھے تو ہمارے عدالتی نظام کا سب سے بڑا مسئلہ انصاف کے حصول میں تاخیر ہے۔ آپ سالوں عدالتوں کے چکر لگاتے رہیں، تاریخ پر تاریخ ملتی رہے گی لیکن انصاف نہیں ملے گا اسی لیے لوگ عدالت سے باہر فیصلے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لوگ پولیس کے پاس جاتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں جو اول تو ایف آئی آر درج نہیں کرتی اور اگر کرتی بھی ہے تو اس میں اتنی خامیاں چھوڑ دیتی ہے کہ ملزم بری ہو جاتا ہے۔ جوڈیشل افسروں اور ججزکی تعداد کم ہونے سے بھی مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔
حکومتوں کی نااہلی اورسرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی کے بعد لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے عدلیہ کی طرف دیکھتے ہیں لیکن وہاں سے بھی انھیں ریلیف نہیں ملتا۔ عدالتوں کی کارروائی انگریزی زبان میں ہوتی ہے جسے عام آدمی سمجھ نہیں پاتا خود وکلا میںسے بھی اکثر غلط سلط انگریزی بول رہے ہوتے ہیںاور چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے بقو ل پاکستان بھر میں صرف چند ہی ایسے فاضل جج حضرات ہیں جنہیں انگریزی پر عبور حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انگریزی ایک بین ا لاقوامی زبان ہے اور اس کا سیکھنا ضروری ہے۔
اس پدر سری معاشرے میں جب مرد عدالتوں کے چکر لگا لگا کر تھک جاتا ہے تو سوچیے عورتوں کو کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔ عدالتوں کے ماحول کو عوام دوست بنانا ضروری ہے۔ ججز، وکلا اور پولیس کو عورتوں کے تحفظ کے لیے بننے والے قوانین کے بارے میں مکمل واقفیت ہونی چاہیے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان نے عورتوں کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کے بین ا لاقوامی کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں اور عدالتی کارروائی اور فیصلے اس کی روشنی میں ہونے چاہئیں۔