فن اور تنقید
فن پہلے ہے اور تنقید بعد میں، یا تنقید کی فن پارے تک تخفیف لازمی ہے
فن پہلے ہے اور تنقید بعد میں، یا تنقید کی فن پارے تک تخفیف لازمی ہے، کیونکہ تنقید فن پارے کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے، وہ تمام احباب جو فن اور تنقید کے درمیان پیچیدہ تعلق کا فہم رکھتے ہیں، جنھیں اپنے عہد کے تنقیدی نظریات سے مکمل آگاہی ہے، ان کے لیے ایسے سب فکری قضایا کی اہمیت کو ختم ہوئے کافی عرصہ ہو چکا ہے۔ اب ان قضایا کو صرف وہی لوگ دہراتے ہیں جو اپنے عہد کے علوم سے یکسر نابلد ہیں۔
وہ تمام نقاد جو اپنے عہد کی تنقیدی روایت کا گہرا شعور رکھتے ہیں، وہ تنقید اور فن کے درمیان اس ثنویت کو مسترد کر چکے ہیں جو دونوں کے درمیان حتمی تفریق کو جنم دیتی ہے، یعنی دونوں کے درمیان ایک ایسا تضاد جس کی کبھی تحلیل نہیں ہو سکتی۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ تعقلاتی (Conceptually) سطح پر تنقید اور فن کے درمیان ایسا کوئی تضاد موجود ہے تو پھر تنقید اور فن کی یکسر جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ دونوں کے درمیان یہ جداگانہ حیثیت اسی ثنویت کو قائم کرتی ہے جس کے مطابق فن پارے میں کوئی ایسی شے باقی رہ جاتی ہے جس کی تفہیم ممکن نہیں، یعنی فن پارہ ''شے فی الذات'' ہے جس کا مکمل شعور حاصل کرنا ناممکن ہے۔
تنقید اور فن پارے میں حتمی تفریق کو قائم کرنے کا واحد مفہوم یہ نکلتا ہے کہ تنقید اس وجہ سے قابل قدر نہیں ہے کہ وہ فن پارے کے وسط سے برآمد ہوئی ہے بلکہ اس وجہ سے قابل تحسین ہے کہ وہ خود میں کوئی الگ 'شے' ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فن پارے کی تخلیق کا شعور بیک وقت تخلیقی اور تنقیدی شعور بھی ہوتا ہے۔ فنکار وہ پہلا نقاد ہے، جو فن پارے کے اندر خود تنقید کی شناخت کیے بغیر تنقید کو تشکیل دے دیتا ہے۔ تنقید فن پارے کے اندر اس طرح رواں دواں ہوتی ہے جیسے انسانی جسم میں خون۔ فن پارے کی تفہیم کا عمل فن کے اندر سے تنقید کے ظاہر ہونے کا عمل ہے۔ اعلیٰ تنقید اسی وقت ممکن ہے جب تنقید اور فن کی ثنویت کو ختم کر کے ساری توجہ فن پارے کی داخلی حرکت پر مرکوز کی جائے۔ فن پارے کی تفہیم کا عمل جو کہ تنقید کے بغیر ممکن نہیں ہے، اسی کے دوران میں تنقید بطور ایک صنف وجود میں آتی ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی عمل ہے کہ جیسا کسی بیج میں سے کوئی پودا وجود میں آتا ہے۔ تنقید کی 'لازمیت' فن کے اندر موجود ہوتی ہے، فن میں تنقید کی لازمیت ہی اس کے 'حقیقی' ہونے کا علم عطا کرتی ہے۔
اس مختصر بحث کے بعد چند سوالات ذہن میں جنم لیتے ہیں: ایک یہ کہ کیا تنقید پڑھ کر فن پارے کو سمجھا جا سکتا ہے یا تنقید کو پڑھے بغیر محض فن پارے کو پڑھ کر ہی اس کی تفہیم ہو سکتی ہے؟ تنقید پڑھنے سے جو جمالیاتی حظ اٹھایا جا سکتا ہے وہ فن پارے سے محظوظ ہونے والی جمالیاتی مسرت سے مختلف ہوتا ہے۔ تاہم یہ کہنا کہ فن پارے کی تنقید پڑھ کر اس فن پارے کی تفہیم نہیں ہو سکتی، اس کے لیے فن پارے کو پڑھنا لازمی ہے، ایک متضاد نتیجے پر لے جاتا ہے۔ آخری تجزیے میں اس 'نتیجے' پر پختہ ایمان رکھنے والے پہلے ہی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ جو تنقید لکھی گئی وہ کسی فن پارے کی تنقید نہیں تھی، بلکہ خود میں کوئی ایسی شے تھی جس کا فن پارے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایسے سوالات عمومی طور پر غیر تربیت یافتہ اذہان کرتے ہیں۔
اب میں مختصر اس نکتے پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے جس کا آغاز میں ذکر کیا تھا کہ کیا کسی فن پارے کو 'مکمل' طور پر جانا جا سکتا ہے یا اس میں کچھ ایسا رہ جاتا ہے جو ''شے فی الذات'' ہی رہتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک فلسفیانہ قضیہ ہے۔ انسان اور کائنات کا تعلق بھی نقاد اور فن پارے کے درمیان تعلق سے مشابہ ہوتا ہے۔ تفکری جدلیات پر ایمان رکھنے والوں کا خیال ہے کہ جدلیاتی اصولوں کے اطلاق سے کائنات، فن پارے وغیرہ کو مکمل طور پر جانا جا سکتا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو اس کا واحد مطلب یہ نکلتا ہے کہ فن پارے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا جو جدلیاتی تنقید کی دسترس سے باہر ہو۔
فن پارے میں اگر کچھ ایسا باقی رہ جاتا ہے جس کا جدلیات احاطہ نہیں کر سکتی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جدلیات کا ''کلیت پسندی'' کا دعویٰ ناقص تھا۔ اگر فن پارہ میں موجود ہر 'شے' کی شناخت کر لی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلسفیانہ تعقلات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ ہر فن پارے کی تفہیم ان تعقلات کے اطلاق سے ممکن ہے۔ اس جدلیاتی نقطہ نظر کو ہمارے عہد میں جدید آرٹ کی روشنی میں سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جدید آرٹ کی بنیاد پر نقاد یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ فن پارہ مکمل طور پر فلسفیانہ کلیت کے احاطے میں نہیں آتا۔
تاریخی اعتبار سے یہ حقیقت بھی سامنے آ چکی ہے کہ بیسویں صدی کے جدیدآرٹ یعنی سرئیل ازم، دادا ازم، اظہاریت وغیرہ نے اٹھارویں صدی میں قائم ہوئی فن کی اس نامیاتی وحدت کو توڑ کر جزو کو کل سے الگ کر دیا ہے، جب کہ حقیقت نگاری میں جزو، کل کا حصہ تھا۔ حقیقت نگاری اس مقدمے پر قائم تھی کہ ایک اعلیٰ فن پارہ سماج کے محض ظاہری یا سطحی پہلوؤں تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ سماج کے جوہر یعنی ان تضادات کی بھی عکاسی کرتا ہے جو ایک طبقاتی سماج کے وسط میں موجود ہوتے ہیں۔
قدامت پسند نقاد جزو کی کُل سے علیحدگی کو تاریخی، سماجی، سیاسی اور معاشی عمل سے کاٹ کر محض اس 'بنتر' پر ایمان رکھتے ہیں، جو اٹھاوریں صدی کی خصوصیت تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ عہد حاضر کا زوال جدید آرٹ کا زوال نہیں ہے، بلکہ کلیت پسند فلسفوں اور جدید فن اور سماج کی تفہیم کے لیے تیار شدہ ان کے فکری و تنقیدی طریقہ کار کا انحطاط ہے۔ جدید آرٹ کلیت پسند فلسفوں کے لیے ناقابلِ شناخت رہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ''کلیت پسندی'' ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔ جب کہ آرٹ کو انحطاط سے تعبیر کرنے والے اپنے ہی عہد میں 'بیگانگی' کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔