فلم اور اُس کے اثرات

ایک بات یاد رکھئے گا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم میں بڑی طاقت ہوتی ہے لیکن کیا ہر فلم دیکھنے کے قابل بھی ہوتی ہے؟

ہمارے بچے فلموں میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ لامحالہ ان کے کردار اور شخصیت کو بگاڑنے، انہیں منفی سمت میں موڑنے اور انہیں نفسیاتی طور پر الجھانے کا باعث بنتی ہیں۔

یہ بات 80 کی دہائی کی ہے۔ وہ دہائی جب ہالی ووڈ میں جان وین، اسٹیو میک کوئین، کارلٹن ہنسٹن، عمر شریف، مائیکل کین، راک ہڈسن، پاؤل نیومین اور کلنٹ ایسٹ ووڈ جیسے آفتاب ستارے غروب ہورہے تھے اور ہالی ووڈ کے افق پر سلویسٹر اسٹالن، آرنلڈ شیوار زینیگر، یاں کلاؤڈ وان ڈیم، بروس ولس، ڈولف لنڈرن، ہیریسن فورڈ، ٹام کروز، رچرڈ گیئر، جان کیوسیک، کیون کوسٹنر، جانی ڈیپ سمیت نئی نسل کی ایک پوری نئی کھیپ دنیا بھر کے شائقین فلم کے لئے دلچسپ تفریح کا سامان فراہم کر رہے تھے۔

سن 85 میں اداکار سلویسٹر اسٹالن کی فلم ریمبو ریلیز ہوئی تو میری عمر بمشکل 10 برس تھی۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد میں جیسے سلویسٹر اسٹالن کے سحر میں مبتلا ہوگیا تھا۔ جنگ کے ہیرو اور عسکری تمغہ یافتہ سابقہ فوجی کے افسانوی کردار نے جیسے نو عمر کچے ذہن پر جادو کردیا تھا۔ امریکی سپاہی کا نفسیاتی مسئلہ، کردار کو منفرد بنانے اور اسے ناظرین کے ذہنوں میں پیوست کرنے کا زبردست ذریعہ بن گیا۔ ریمبو کے تمام انداز گویائی اور ردِعمل دینے کے انداز مجھے اِس قدر بھائے کہ اچھے بُرے کی تمیز کئے بغیر یہ غیر محسوس طریقے سے میری ذات کا حصہ بن گئے۔ ریمبو کے بولنے، ریمبو کے دیکھنے کے ساتھ ایسا لگتا کہ جان ریمبو جان جے کا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈِس آرڈر جیسا نفسیاتی مسئلہ میرا مسئلہ بن گیا ہے یا میں نے یہ مستعار لیا ہے۔

سینما پر پیش کئے جانے والے اس کردار کی طاقت تھی جو ایک بچے میں مکمل طور سے حلول کرگئی اور اس کا ذریعہ فلم بنی۔ یقیناً! کسی نے یہ ٹھیک ہی کہا ہے کہ درحقیقت یہی ہے فلم کی طاقت۔ میرے اندر حلول کر جانے والے ریمبو نے میری شخصیت کو غیر محسوس طریقے سے جس انداز میں متاثر کیا، اس کے نتیجے میں میری شخصیت کے اہم ممتاز پہلو اور صلاحیتیں پس پردہ چلی گئیں۔ اس کردار کی زبردست متاثر کن قوت نے میری ان مخفی صلاحیتوں پر جنہیں مستقبل میں ابھر کر سامنے آنا تھا، پر ریمبو کی مصنوعی چھاپ کا دبیز پردہ ڈال دیا۔ میرا حقیقی کردار چھپ گیا اور ایک نقل نے جنم لیا۔ ایک ایسا نقل جس کی کسی اقدار کا تعلق نہ تو میرے خطے سے تھا اور نہ ہی ثقافت سے البتہ نفسیاتی طور پر ریمبو کے کردار کی چھائی نقل دیکھنے والے کو صرف اور صرف منفی انداز زندگی کی جانب گامزن کرتی تھی۔ فلم تو وقت کے ساتھ ماضی کا حصہ بن گئی مگر اس کے کردار کے اثرات نے خفیہ طور پر میری کردار سازی میں اپنا اثر منوایا۔

دوسری طرف اگر جائزہ لیا جائے تو آج ماضی کے مقابلے میں غیر ملکی فلموں کے اثرات نئی نسل میں اس سے بھی زیادہ ہولناک دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی مثال لاہور پولیس کے ایک آپریشن کی ہے جس میں نوجوان ڈکیتوں کو گرفتار کرکے میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ پولیس سربراہ نے ڈکیت گروہ کے حوالے سے چونکا دینے والے انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ گروہ کے تمام کے تمام کارندے پڑھے لکھے اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود صرف اس لئے بینک ڈکیتیاں اور جرائم کرتے ہیں کہ وہ ہندوستانی فلموں سے بے انتہا متاثر ہیں۔ انہوں نے کارندوں کے حوالے سے بتایا کہ ان میں سے اکثر کو سنجے دت کی فلمیں پولیس گیری، واستو اور کھل نائیک اس کے علاوہ سلمان خان کی دبنگ، وانٹڈ اور ایک تھا ٹائیگر بے انتہا پسند تھیں اور وہ ان میں پیش کئے گئے کرداروں سے بے حد متاثر تھے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو آج کی نئی نسل فلموں کی طاقت سے اس حد تک متاثر ہیں کہ وہ ایک قدم آگے بڑھ کرعملی زندگی میں ان پہلوؤں کا اظہار چاہتی ہیں جن سے وہ فلموں کے انداز میں متاثر ہوئی ہیں۔ اہم شخصیات کی زندگیوں پر یا پھر معاشرے میں ظلم و ستم اور استحصال کا شکار افراد کی زندگیوں پر فلمیں ضرور بنتی ہیں۔ تاہم وہ ظلم، استحصال، درندگی اور سفاکیت کا منطقی انجام دکھانے سے قاصر رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کے مسائل کو اجاگر کرنے والی فلمیں مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کمی کے بجائے اضافے کا سبب بن جاتیں ہیں۔


غیرت کے نام پر قتل معاشرے کا حساس پہلو ہے تاہم اس پر بننے والی فلم کے بعد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ٹی وی اور فلموں میں دکھائے جانے والے تفریحی پروگرام اول تو سبق آموز نہیں ہوتے اور بالفرض اگر ہوتے بھی ہیں تو تکنیکی طور پر وہ تمثیلی انداز میں عوام کو کوئی سبق دینے سے قاصر نظر آتے ہیں جبکہ دیکھنے والے جرائم کے نت نئے انداز ضرور سیکھ لیتے ہیں۔

2009 میں ہالی ووڈ کی فلم ''دی فاسٹ اینڈ دی فیوریس'' اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک ایسی فلم تھی جس میں معاشرے میں لاقانونیت کو عمدہ طریقے سے پیش کیا گیا۔ فلم میں دکھائے جانے والی گاڑیوں کی اندھا دھند دوڑ اور تعاقب دیکھ کر میرے دل و دماغ نے مستقبل میں ماحول کو دوچار ہونے والے خطرات کو بھانپ لیا تھا۔ یہ اس فلم کی طاقت تھی جس سے متاثر ہوکر بچے کل، وہی کچھ کرنے والے تھے جو انہوں نے ایکشن کے نام پر اس فلم میں دیکھا تھا۔گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ویسے تو عام استعمال کی چیزیں ہیں اور ہر کسی کی دسترس میں ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ 2009ء میں ایسے واقعات رونما ہونا شروع ہوگئے جس میں نوجوان لڑکے کراچی کی گلیوں اور سڑکوں پر موٹر سائیکلوں کی دوڑ لگاتے پائے گئے۔ یہ رجحان اتنا بڑھا کہ اس نے حادثات کی شرح میں ایک دم سے اضافہ کردیا۔ یعنی اس بحران نے معاشرتی برائیوں کو جنم دیا اور شہری انتظامیہ کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کے ساتھ عام لوگوں کی زندگیوں کو بھی خطرات سے دوچار کیا۔

فلموں میں معاشرے کی برائیوں کو پیش کرنا اور ان برائیوں کے خاتمے اور اس کے سدباب کو پیش نہ کرنا دراصل وہ پہلو ہے جس پر کوئی نہیں سوچ رہا اور یہی وجہ ہے کہ فلم بنانے والوں کو یہ نہیں معلوم کہ فلم میں بُرائی کا خاتمے کا پہلو کس طرح دکھانا ہے کہ وہ دیکھنے والوں کے ذہنوں میں بُرائی اور نیکی کے فرق کو واضح کرسکے۔

ہمارے بچے فلموں میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ لامحالہ ان کے کردار اور شخصیت کو بگاڑنے، انہیں منفی سمت میں موڑنے اور انہیں نفسیاتی طور پر الجھانے کا باعث بنتی ہیں۔ نہ تو فلم اس کا موقع دیتی ہے اور نہ ہی ہم جیسے والدین کو اس بات کا موقع ملتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو نیکی اور بدی یا اچھائی یا برائی میں تمیز کا فن سکھا سکیں اور انہیں بتا سکیں کہ ان کے لئے کیا بہتر ہے۔ ایک بات یاد رکھئے گا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم میں بڑی طاقت ہوتی ہے لیکن کیا ہر فلم دیکھنے کے قابل بھی ہوتی ہے؟

[poll id="1211"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story