اسلام اور عباد ت گاہوں کا احترام

ایسی کتاب جواسلام کی بنیاد رکھ رہی ہے،اس میں دوسرے مذاہب کے معبودوں کی حفاظت کا ذکر ہماری مسجدوں کی حفاظت سے مقدم ہے۔

دین محمدی ﷺ غیر مسلموں کی جان و مال اور ان کے مذاہب کے بارے میں اچھے برتاؤ کا حکم دیتا ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
قرآن کریم ایک عظیم اور مقدس آسمانی کتاب صرف مسلمانوں کی رہنمائی یاحقوق کے لیے نہیں بلکہ یہ تو پوری انسانیت کی فلاح،بھلائی اورراہنمائی کے لیے نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰﷺ پرنازل کی گئی۔

قرآن پاک میں انصاف کے معاملے میںدوست ، دشمن، مسلم،غیرمسلم کی کوئی تمیزنہیں۔اخلاقی یاغیر اخلاقی حدود میںمعیار یکساں ہے اور اس میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی قابل برداشت نہیں سمجھی گئی۔ ہر قسم کا جارحانہ اقدام ممنوع قرار دیاگیا۔قرآن کریم کی بے شمارآیات مبارکہ میں یہ بات دہرائی گئی ہے کہ خدا حدود اللہ سے تجازکرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

اسلام کا بنیادی نظریہ حیات دیگر تمام مذاہب کو صر ف آزادی دینا ہی نہیں بلکہ سیاسی نظام اور معاشرتی ماحول میں ان کی مکمل حفاظت کا انتظام بھی ہے ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ایسی کتاب جواسلام کی بنیاد رکھ رہی ہے ، اس میں دوسرے مذاہب کے معبودوں کی حفاظت کا ذکر ہماری مسجدوں کی حفاظت سے مقدم ہے ۔ اپنے معبودوںکی حفاظت فطری چیز ہے اور یہ اجتماعی نفسیات کی بنیادی حقیقت بھی ہے ۔ ایسے حالات میں جب مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے معبودوں کی حفاظت کواپنی مسجدوں سے بھی مقدم سمجھیں تو یہ حکم در حقیقت انسانیت کی تاریخ میں ایک عظیم الشان انقلاب کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہے ۔ دوسرے مذاہب اور ان کی آزادی کو برقرار رکھنے کاشایدیہی جذبہ تھا۔

جس کے باعث ابتدائی جنگوں میں مسلمانوں نے نہتے شہریوں، بوڑھوں،عورتوں اور بچوں کی ہمیشہ حفاظت کی،کسی مذہب کے پجاریوں، پروہتوں اور راہبوں پر تلوار نہ اُٹھائی اور نہ ہی کسی کی عبادت گاہوں کو مسمار ہونے دیا۔ان جنگوں کا مقصد تمام انسانوں کی آزادی کو بحال کرانا تھا نہ کہ کمزوروںاور مفتوحہ علاقوںکے باشندوںکا استحصال۔ فلسطین کی فتح کے بعد حضرت عمر ؓ بذات خود وہاں پہنچے ان کے ساتھ کوئی حفاظتی فوجی دستہ نہ تھا۔ ایک اونٹ پر وہ اوران کا ملازم باری باری سفرکر تے رہے اور جب حضرت عمر ؓ پہنچے توآپ ؓ اونٹ کے آگے نکیل پکڑے پیدل چل رہے تھے اورآپ کا غلام اپنی باری کے مطابق اونٹ پر سوار تھا۔ غیر مسلم امیر المومنین کے اس انصاف کو دیکھ کر بے حد متاثر ہو ئے ۔ آپ ؓ ایک پادری کے ساتھ محو گفتگو تھے کہ نماز کا وقت ہوگیا اور آپ نے پادری سے باہر جاکر نماز پڑھنے کی اجازت چاہی لیکن پادری نے گرجا ہی میں نماز پڑھنے کی پیش کش کی ۔


حضرت عمرؓ ؓنے جواب دیا، ٹھیک ہے ہم خدا کی زمین پر ہر جگہ نماز ادا کر سکتے ہیں لیکن مجھے ڈر ہے کہ میرے اس عمل سے آئندہ زمانے میں مسلمان اس گرجے کو مسجد میں تبدیل کرنے کا جواز نہ پیدا کرلیں ۔ آپ ؓ کی اس بات کا مقصد واضح ہے کہ آنے والے وقت میں کوئی مسلم کسی غیر مسلم کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا کر مسجد میں تبدیل نہ کر دے۔ آپ کے اس عمل سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ اسلام کا مقصد تمام مذاہب و عقائد کی آزادی کو بحال کرنا ہے نہ کہ دوسروں کی آزادی پر ڈاکہ ڈالنا،ان پر غاصبانہ حملے اور قبضہ کرنا۔ اسی طرح نبی اکرمﷺنے بھی اپنی زندگی میں بنی نجران کے عیسائی وفد کو اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی۔



عیسائیوں نے کہا کہ ہماری عبادت میں موسیقی کی طرز کا غنون استعمال ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ آپ کے خیال میں مسجد میں یہ چیز مناسب نہ ہو لیکن اس کے باوجود آپ ﷺنے ان کو مسجد میں اپنے طور پر عبادت کرنے کی اجازت دی۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیا ایسا حسن اخلاق والا اور فراخ دل پیغمبر ﷺ دوسرے مذاہب کے خلاف کسی قسم کی سختی یا تنگ نظر ی روا رکھ سکتا تھا۔قرآن کریم میں اسلام کی تبلیغ کے لیے قوت بازو یا دبائو کا استعمال قطعاً ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ مسلمانوںکا فرض ہے کہ اپنے عملی کردار سے دوسروں کو متاثر کریں جس کی مثال نبی کریم ﷺ خود ہیں ۔

یہ تو وہ دین محمدی ﷺ ہے جو کہ غیر مسلموں کی جان و مال اور ان کے مذاہب کے بارے میں اچھے برتائو کا حکم دیتا ہے ۔ہمارا دین ایسے لاکھوں واقعات سے بھرا پڑا ہے جن سے تمام مذاہب کو اسلام کی صحیح پہچان ملتی ہے ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج صرف اسلام کو ماننے کی وجہ سے مسلمانوں پر دنیا بھر میںظلم کے پہاڑ توڑے جاررہے ہیں۔ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہور ہا بلکہ روز ازل ہی سے دشمنان اسلام کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ اُنہیں کبھی بھی اسلام کی نورانی تعلیمات کا لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنا برداشت نہیں ہوا ۔ اور اُنہوں اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی ہے ۔جب پاکستان وجود میں آیا تو اسلام مخالف مذاہب نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کر دی ۔

فیروزپور، امرتسر، لدھیانہ اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کی مساجد دینی درس گاہوں اور مزارات کو شہید کیا گیا ۔ مسلمان مرد، عورتوں اور بچوں کو زندہ جلایا گیا۔حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کر کے ان کے بچوں کونیزوں پر لٹکا یا گیا۔روس نے افغانستان پر حملہ کیا توظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔بابری مسجد کوپوری دنیا کے سامنے شہید کیا گیا۔ گجرات فسادات میںدرجنوں مساجد کو شہید اور ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو اسلام کا پیروکار ہونے کی وجہ سے زندہ جلا یا گیا۔اور نہ جانے کیا کیا مظالم ہیں جو مسلمانوں پر صرف اس لیے کیے گئے کہ وہ لا الہ اللہ کا کلمہ پڑھتے تھے۔ اور پوری دنیا نے میڈیا کے ذریعے یہ سب کچھ دیکھا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ اسلام سنہری تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے گریبان میں ضرور جھانکیں کہ آخر کون سا دین حق پر ہے اور اُنہیں کس دین کا انتخاب کرنا چاہئے ۔
Load Next Story