صبر کی اہمیت وفضیلت
اور ہم نے ان میں سے جب وہ صبرکر تے رہے کچھ امام و پیشوا بنا دیے جو ہمارے حکم سے ہدایت کر تے رہے۔ القرآن
کسی بھی معاشرے میںکام یابی کے ذرائع تو بے شمار ہیں لیکن موجودہ دور اور حالات کو دیکھتے ہوئے جس چیزکی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ''صبر'' ہے ۔ صبرکے لغوی معنیٰ ہیں روکنا،برداشت کرنا ،ثابت قدم رہنا یا باندھ دینا۔ صبراخلاق فاضلہ میں شامل ہے۔ جس کے بارے میں قرآن حکیم میںارشادفرمایاگیا:
ترجمہ: سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے صبرکیااور نیک عمل کرتے رہے(تو)ایسے لوگوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے''۔ (ھود۱۱:۱۱)
اللہ تعالیٰ نے صابرین کو اہل تقویٰ کاامام بنایااوردین میںان پرکامل انعام فرمایا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: اور ہم نے ان میں سے جب وہ صبرکر تے رہے کچھ امام و پیشوا بنا دیے جو ہمارے حکم سے ہدایت کر تے رہے ''۔(السجدہ۲۳:۴۲)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ تشریف فرما تھے ۔ ایک شخص نے حضرت ابو بکر صدیق ؓکوبُرابھلا کہناشروع کر دیا۔آپﷺ اس شخص کو مسلسل بُرا بھلا کہنے اورحضرت ابو بکرصدیقؓکے صبرکرنے اورخاموش رہنے کو دیکھتے رہے پھر جب اس شخص نے بہت ہی زیادہ بُرا بھلا کہا توحضرت ابوبکرصدیق ؓ نے اس شخص کی کچھ باتوں کا جواب دے دیا ۔ اس پرحضورنبی کریم ﷺ ناراض ہوکروہاںسے روانہ ہو گئے ۔حضرت ابو بکرصدیقؓ،آپﷺکے پیچھے پہنچے اور عرض کی ''یارسول اللہ ﷺ،جب تک وہ شخص مجھے بُرا بھلا کہتا رہاآپﷺ تشریف فرمارہے اورجب میں نے جواب دیا توآپﷺ ناراض ہوکرروانہ ہوگئے۔آپﷺ نے فرمایاجب تم خاموش اورحالت صبر میں تھے تو تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھاجوتمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا ۔ پھر جب تم نے اس کی کچھ باتوں کاجواب دیا تووہ فرشتہ چلا گیااورشیطان آگیااور جس جگہ شیطان ہو وہاں میں نہیں رہتا''۔ ( احمد بن حنبل، المسند،۲:۶۳۴،رقم۲۲۶۹)
لوگوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھاکہ ایمان کیا چیزہے؟ توآپ ﷺ نے فرمایا :'' صبر۔'' (کیمائے سعادت۰۳۶)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے صبرکوارکان ایمان میں سے ایک رکن قراردیااوراسے جہاد،عدل اوریقین کے ساتھ ملاتے ہوئے فرمایا:اسلام چارستونوں پرمبنی ہے۔
۱۔یقین
۲۔صبر
۳۔ جہاد
۴۔ عدل
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا :
'' ایمان میں صبرکی مثال ایسی ہے جسے بدن میںسرہو۔ جس کاسرنہ ہواس کابدن نہیں ہوتااورجسے صبر حاصل نہ ہواس کاایمان نہیں ہوتا''۔ ( امام غزالی، کیمیائے سعادت ۱۳۲)
صبرکی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں اس کاذکر70بارآیا ہے۔ہم نے اپنی زندگیوں میں شایدصبرکااستعمال ترک کر دیا ہے ۔ اس لئے ہم فرسٹریشن،ڈیپریشن یا ٹینشن جیسی مہلک امراض میں مبتلاہورہے ہیں۔ حالاں کہ صبرکااوراس کائناتی اور دنیاوی نظام کاآپس میں بڑا گہراتعلق ہے۔کائنات کے ہر عمل میں صبرکی آمیزش ہے۔ مثلاًچاندستارے اپنے اپنے مدار میں رہتے ہوئے اپناسفرطے کر تے ہیںاوررات کو دن اوردن کورات میںبدلتے ہیں ۔ا یک پودامکمل درخت راتوںرات نہیں بن جاتا ۔آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے۔ پہلے پھول اورپھرپھل آتے ہیں ۔ یہ کائناتی ربط ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں بھی اسے شامل کر کے زندگی میں ربط پیداکریں۔
اگرہم دنیاوی تناظرمیں بھی دیکھیں توکسی بھی منزل کوپانے کے لئے ہرانسان کوبہرصورت صبرکی سیڑھی پر چڑھنا پڑتا ہے۔ا یک ڈاکٹرکو بھی اپنی ڈگری لینے کے لئے پانچ سال تک انتظارکرنا پڑتا ہے ۔گویا یہ صبرہی ہے کہ جو منزل بہ منزل اسے ایک بڑے رتبے سے نوازتا ہے ۔ کسی بھی شے یا شعبے میں لمحہ بہ لمحہ ترقی حاصل ہو تی ہے ۔ اگر انسان صبر نہیں کر تاتووہ مایوسی کا شکارہوجاتاہے۔اس حدیث مبارکہ سے یہ اخذ ہو تا ہے کہ جب کوئی شخص کسی کوبرا بھلاکہے یاگالیاں بکے تواس پرصبرکرتے ہو ئے خاموشی اختیارکی جائے تاکہ جہاںدوسرے کواپنی غلطی کااحساس ہووہاں درمیان میں شیطان کوداخل ہونے کا موقع نہ ملے اوربات آگے نہ بڑھ سکے ۔
دوسری طرف صبرکرنے والے کواللہ کی طرف سے بے حساب اجر بھی عطا ہو تا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ:بلا شبہ صبرکرنے والوںکواُن کااجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گا۔( الزمر،۳۹:۰۱)
بزرگان دین کاقول ہے کہ صبرہزارعبادتوں کی ایک عبادت ہے۔ جس سے انسان روحانی اعتبارسے بلندمقام حاصل کر سکتا ہے ۔لہٰذاضرورت اس امرکی ہے کہ ہم صبرکے دامن کومضبوطی سے تھامیں ۔صبرہی ایک ایسا راستہ ہے جوسیدھامنزل سے روشناس کر دیتاہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے قول وفعل میں اعتدال و توازن اور تناسب رکھتے ہوئے صبر کا دامن تھامنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
ترجمہ: سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے صبرکیااور نیک عمل کرتے رہے(تو)ایسے لوگوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے''۔ (ھود۱۱:۱۱)
اللہ تعالیٰ نے صابرین کو اہل تقویٰ کاامام بنایااوردین میںان پرکامل انعام فرمایا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: اور ہم نے ان میں سے جب وہ صبرکر تے رہے کچھ امام و پیشوا بنا دیے جو ہمارے حکم سے ہدایت کر تے رہے ''۔(السجدہ۲۳:۴۲)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ تشریف فرما تھے ۔ ایک شخص نے حضرت ابو بکر صدیق ؓکوبُرابھلا کہناشروع کر دیا۔آپﷺ اس شخص کو مسلسل بُرا بھلا کہنے اورحضرت ابو بکرصدیقؓکے صبرکرنے اورخاموش رہنے کو دیکھتے رہے پھر جب اس شخص نے بہت ہی زیادہ بُرا بھلا کہا توحضرت ابوبکرصدیق ؓ نے اس شخص کی کچھ باتوں کا جواب دے دیا ۔ اس پرحضورنبی کریم ﷺ ناراض ہوکروہاںسے روانہ ہو گئے ۔حضرت ابو بکرصدیقؓ،آپﷺکے پیچھے پہنچے اور عرض کی ''یارسول اللہ ﷺ،جب تک وہ شخص مجھے بُرا بھلا کہتا رہاآپﷺ تشریف فرمارہے اورجب میں نے جواب دیا توآپﷺ ناراض ہوکرروانہ ہوگئے۔آپﷺ نے فرمایاجب تم خاموش اورحالت صبر میں تھے تو تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھاجوتمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا ۔ پھر جب تم نے اس کی کچھ باتوں کاجواب دیا تووہ فرشتہ چلا گیااورشیطان آگیااور جس جگہ شیطان ہو وہاں میں نہیں رہتا''۔ ( احمد بن حنبل، المسند،۲:۶۳۴،رقم۲۲۶۹)
لوگوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھاکہ ایمان کیا چیزہے؟ توآپ ﷺ نے فرمایا :'' صبر۔'' (کیمائے سعادت۰۳۶)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے صبرکوارکان ایمان میں سے ایک رکن قراردیااوراسے جہاد،عدل اوریقین کے ساتھ ملاتے ہوئے فرمایا:اسلام چارستونوں پرمبنی ہے۔
۱۔یقین
۲۔صبر
۳۔ جہاد
۴۔ عدل
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا :
'' ایمان میں صبرکی مثال ایسی ہے جسے بدن میںسرہو۔ جس کاسرنہ ہواس کابدن نہیں ہوتااورجسے صبر حاصل نہ ہواس کاایمان نہیں ہوتا''۔ ( امام غزالی، کیمیائے سعادت ۱۳۲)
صبرکی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں اس کاذکر70بارآیا ہے۔ہم نے اپنی زندگیوں میں شایدصبرکااستعمال ترک کر دیا ہے ۔ اس لئے ہم فرسٹریشن،ڈیپریشن یا ٹینشن جیسی مہلک امراض میں مبتلاہورہے ہیں۔ حالاں کہ صبرکااوراس کائناتی اور دنیاوی نظام کاآپس میں بڑا گہراتعلق ہے۔کائنات کے ہر عمل میں صبرکی آمیزش ہے۔ مثلاًچاندستارے اپنے اپنے مدار میں رہتے ہوئے اپناسفرطے کر تے ہیںاوررات کو دن اوردن کورات میںبدلتے ہیں ۔ا یک پودامکمل درخت راتوںرات نہیں بن جاتا ۔آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے۔ پہلے پھول اورپھرپھل آتے ہیں ۔ یہ کائناتی ربط ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں بھی اسے شامل کر کے زندگی میں ربط پیداکریں۔
اگرہم دنیاوی تناظرمیں بھی دیکھیں توکسی بھی منزل کوپانے کے لئے ہرانسان کوبہرصورت صبرکی سیڑھی پر چڑھنا پڑتا ہے۔ا یک ڈاکٹرکو بھی اپنی ڈگری لینے کے لئے پانچ سال تک انتظارکرنا پڑتا ہے ۔گویا یہ صبرہی ہے کہ جو منزل بہ منزل اسے ایک بڑے رتبے سے نوازتا ہے ۔ کسی بھی شے یا شعبے میں لمحہ بہ لمحہ ترقی حاصل ہو تی ہے ۔ اگر انسان صبر نہیں کر تاتووہ مایوسی کا شکارہوجاتاہے۔اس حدیث مبارکہ سے یہ اخذ ہو تا ہے کہ جب کوئی شخص کسی کوبرا بھلاکہے یاگالیاں بکے تواس پرصبرکرتے ہو ئے خاموشی اختیارکی جائے تاکہ جہاںدوسرے کواپنی غلطی کااحساس ہووہاں درمیان میں شیطان کوداخل ہونے کا موقع نہ ملے اوربات آگے نہ بڑھ سکے ۔
دوسری طرف صبرکرنے والے کواللہ کی طرف سے بے حساب اجر بھی عطا ہو تا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ:بلا شبہ صبرکرنے والوںکواُن کااجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گا۔( الزمر،۳۹:۰۱)
بزرگان دین کاقول ہے کہ صبرہزارعبادتوں کی ایک عبادت ہے۔ جس سے انسان روحانی اعتبارسے بلندمقام حاصل کر سکتا ہے ۔لہٰذاضرورت اس امرکی ہے کہ ہم صبرکے دامن کومضبوطی سے تھامیں ۔صبرہی ایک ایسا راستہ ہے جوسیدھامنزل سے روشناس کر دیتاہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے قول وفعل میں اعتدال و توازن اور تناسب رکھتے ہوئے صبر کا دامن تھامنے کی توفیق عطا فرمائے ۔