صوبوں کے لیے نیا مالیاتی ایوارڈ
وفاق نے رواں برس نیا این ایف سی ایوارڈ صوبوں کو جاری کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے
SPA FRANCORCHAMPS:
خوش آیند اور بہترمستقبل کی نوید دینے والی خبریں شاذونادر ہی اخبارات کی زینت بنتی ہیں، ایک خبر حبس زدہ سیاسی ماحول میں تازہ ہواکا جھونکا ثابت ہوئی ہے، وفاق نے رواں برس نیا این ایف سی ایوارڈ صوبوں کو جاری کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو وسیع آئینی اختیارات حاصل ہوئے ہیں جب کہ وفاق سے ان کی منتقلی کا عمل بھی بتدریج جاری ہے، قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کی مانیٹرنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا تو صوبوں کے نمایندوں نے مسائل پر تعمیری بحث ومباحثہ کیا ، اپنے مسائل بیان کیے،ان کے حل کے لیے وفاق سے درخواست کی، وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ چھ ماہ کے دوران قومی قابل تقسیم محاصل پُول سے صوبوںکومجموعی طورپر817.3ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں جب کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کودہشتگردی کے خلاف جنگ کی مد میں اضافی رقم فراہم کی گئی، چھ ماہ کے دوران ایف بی آرکے ریونیو اور صوبوں میں تقسیم کیے جانے والے شیئرزکے بارے میں تفصیلی جائزہ لیاگیا۔
اجلاس میںصوبوں نے قومی مالیاتی ایوارڈکی تاخیر پر وفاق کے خلاف احتجاج بھی کیا تاہم امید ہے کہ باہمی اتفاق رائے سے نیا این ایف سی ایوارڈ تشکیل پا جائے گا جو صوبوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ نئے مالیاتی ایوارڈ کے لیے صوبوں نے کام مکمل کر لیا ہے جب کہ سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ دسمبر تک ایوارڈ کو حتمی شکل دیدی جائے گی۔ یہ تو ہوئی امید بھری باتیں ۔ اصل میں مالیاتی ایوارڈ سے متعلق تحفظات اور شکایات کے ازالے کا فورم مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، اجلاس میں شریک وزرائے اعلیٰ کو بتایا گیا کہ ایشیائی بینک سندھ میں سڑکوں کی بہتری کے لیے19کروڑ 78 لاکھ 50 ہزار ڈالر قرض دے گا۔ اسی طرح پنجاب ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو بھی مالیاتی ایوارڈ سمیت دیگر وسائل ، قرضوں یا گرانٹ کی تقسیم اس انداز پر ہو کہ کسی صوبے کو شکایت کا موقع نہ ملے اور ہمہ جہتی خیر سگالی اور ہم آہنگی نظر آنی چاہیے۔
گوکہ یہ مالیاتی معاہدہ وفاق کے ساتھ کیا گیا ہے لیکن اس کی ساری رقم سندھ کو ملے گی ۔ اس سے وفاق اور سندھ میں باہمی محبت اور اخوت کا رشتہ مضبوط ہوگا ، یہ محبت دوسری وفاقی اکائیوں تک بھی ایک زنجیر کی صورت مستحکم بنائی جائے، خوش آیند بات ہے کہ اجلاس میں کسی صوبے کی جانب سے رپورٹ میں وفاقی کھاتوں اور مجموعی وصولیوں سے متعلق اعداد و شمار پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا،جب کہ شرکا نے این ایف سی سیکریٹریٹ کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ وفاقی وزیر خزانہ کی یہ یقین دہانی صائب ہے کہ ہم آئین کے مطابق چلیں گے۔ اس سے زیادہ اور کیا چاہیے۔