ڈاکٹر مظہر حیدر مسیحائی صفات کا حامل
ایک دانشور، ایک شاعر، ایک سچا انسان ڈاکٹر مظہر حیدر بھی دنیا فانی سے کوچ کر گئے
ایک دانشور، ایک شاعر، ایک سچا انسان ڈاکٹر مظہر حیدر بھی دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔ یہ 27 اگست 2016ء کی صبح کا وقت تھا۔ جب ڈاکٹر مظہرحیدر نے دنیا سے ناتا توڑا اور بعداز نماز ظہر منوں مٹی تلے جا سوئے۔ عمر عزیز کے آخری حصے میں وہ تنہائی کا شکار ہو چکے تھے یا سیاسی تنہائی کا شکارکر دیے گئے تھے اور قواعد وضوابط کی آڑ میں ڈاکٹرمظہر حیدرکی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے بنیادی رکنیت بھی ختم کر دی گئی تھی۔
پارٹی کے جنرل سیکریٹری کی جانب سے یہ اعلان بھی سامنے آیا کہ جو اس رکن سے رابطہ رکھے گا اس کی پارٹی رکنیت بھی ختم کر دی جائے گی تاہمراقم نے ڈاکٹر مظہر حیدر کی پارٹی رکنیت ختم ہونے کے بعد بھی ان سے رابطہ قائم رکھا۔ چنانچہ راقم کی پارٹی سے بنیادی رکنیت بھی ختم کر دی گئی، اب اگلے مرحلے میں چند لوگوں نے جن کا تعلق کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے تھا راقم سے رابطہ رکھا تو ان کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے گئے۔
اگرچہ یہ رابطے سماجی قسم کے تھے نا کہ سیاسی قسم کے بہرکیف فرد واحد کے فیصلوں کو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے فیصلوں کا نام دیا جاتا ہے بہرکیف ڈاکٹر مظہر حیدر کوئی موسمی قسم کے مارکسٹ نہ تھے بلکہ وہ ایسے مارکسٹ تھے جو زمانہ طالب علمی سے ان نظریات سے آگاہ ہو چکے تھے انگریزی، فارسی و اردو زبانوں پر مکمل عبور رکھنے والے ڈاکٹر مظہر حیدر نے عملی سیاست کا آغاز طلبا سیاست سے کیا اور وہ DSF و نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن سے بھی وابستہ رہے۔ بعدازاں وہ 1954ء میں زیر زمین سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے والی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شامل ہو گئے۔ یہ ذکر ہے 60 برس قبل کا۔ بعدازاں جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوئے تو انھوں نے تمام عمر اپنے پیشے سے وفاداری کی اور ایک حقیقی مسیحا ثابت ہوئے اور رزق حلال کے لیے ہی تمام عمر کوشاں رہے۔ یہ باعث تھا کہ وہ تا دم آخر اپنے اہل خانہ کے لیے ایک ذاتی گھر بھی نہ بنا سکے۔
میرے ذاتی مراسم ڈاکٹر مظہر حیدر سے 17 دسمبر 2011ء کو قائم ہوئے۔ واقعہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ مندرجہ بالا تاریخ کو مرحوم حمید اختر کی یاد میں ایک پروگرام پریس کلب کراچی میں رکھا گیا تھا اس گویا تعزیتی پروگرام میں نامور نقاد محمد علی صدیقی، کامریڈ سوبھوگیان چندانی و کامریڈ جہانگیر آزاد نے بھی شرکت کی تھی جب کہ حمید اختر کی صاحبزادی صبا حمید نے بشریٰ انصاری و سکینہ سموں کے ساتھ خصوصی طور پر اس تعزیتی پروگرام میں شرکت کی تھی۔ اس تعزیتی پروگرام میں کامریڈ جہانگیر آزاد نے میرا تعارف ڈاکٹر مظہر حیدر سے کروایا۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے نہایت گرم جوشی سے میرے ساتھ مصافحہ کیا اور میں پہلی ہی ملاقات میں ان کا گرویدہ ہوگیا تھا۔ پھر جب بھی میں ان سے فون پر رابطہ کرتے ہوئے اپنا تعارف کراتا تو وہ ازراہ شفقت فرماتے ایم اسلم میں تو بچپن سے آپ کی تحریریں پڑھتا آ رہا ہوں میں بھلا آپ کو کیسے نہیں پہچانوں گا؟
ڈاکٹر صاحب کی اس بات کے جواب میں یہ عاجز عرض کرتا ڈاکٹر وہ ایم اسلم تو بہت بڑے ادیب تھے اور ان ایم اسلم کو تو علامہ محمد اقبال کا شاگرد رشید ہونے کا بھی فخر حاصل تھا جب کہ یہ خاکسار تو ابھی تک سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہے اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سے جو گفتگو شروع ہوتی تو اس وقت تک جاری رہتی جب کہ فون کرنے والے کا موبائل فون کا بیلنس ختم نہ ہو جاتا۔ سبب یہ تھا کہ دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے ڈاکٹر مظہر حیدر کا انداز نہایت شفیقانہ ہوتا کہ دل چاہتا کہ وہ تادیر اپنی گفتگو جاری رکھیں اور یہ خاکسار سنتا رہے البتہ جب راقم نے باقاعدہ کالم لکھنے شروع کیے تو ڈاکٹر صاحب نے بہت رہنمائی کی مگر افسوس کہ میں ان سے اس قدر ادبی میدان میں فیض یاب نہ ہو سکا جس قدر فیض یاب ہوا جا سکتا تھا۔ اس کا باعث یہ تھا کہ راقم کورنگی میں رہائش پذیر ہے اور ڈاکٹر صاحب کا در دولت ناگن چورنگی کے پاس تھا۔ البتہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی ماہانہ نشست جو کہ گولیمار میں منعقد ہوتی راقم اس میں ضرور شرکت کرتا۔ ابتدا میں مجھے ان ماہانہ نشستوں کی دعوت ڈاکٹر صاحب ہی دیا کرتے تھے جب کہ یہ بھی ڈاکٹر صاحب ہی تھے جنھوں نے دیگر ادبی شخصیات سے مجھے متعارف کروایا۔
ذکر اگر ڈاکٹر مظہر سے ملاقاتوں اور ان یادوں کا ہو رہا ہے تو یہ ذکر بھی ہو جائے کہ گزشتہ برس یعنی 7 مارچ 2015ء کو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سابق سیکریٹری جنرل محترم امام علی نازش کی برسی کے موقعے پر ایک نشست کا اہتمام ایک مقامی ہال میں کیا گیا تو جہاں دیگر مقررین نے امام علی نازش کی سیاسی جدوجہد پر روشنی ڈالی وہیں ڈاکٹر مظہر صاحب کو بھی دعوت کلام دی گئی اس موقعے پر ڈاکٹر صاحب نے بارہا یہ جملہ ادا کیا کہ اسلم صاحب عرض کیا ہے پھر اپنے کلام کا اگلا مصرع پڑھتے۔
حاضرین میں چونکہ نامور ادبی شخصیات و شعرا کرام موجود تھے جن کی نظریں بار بار اس خاکسار کی جانب اٹھ جاتیں۔ یہ تھا ڈاکٹر صاحب کا اس ناچیز سے پیار و شفقت کا انداز، جس کا اظہار و اکثر مواقعے پرکیا کرتے تھے بہرکیف ڈاکٹر کی باتوں اور یادوں کا یہ سلسلہ کبھی نہ ختم ہونے والا ہے مگر مزید کسی یاد یا بات کا یہ کالم متحمل نہیں ہو سکتا، البتہ اتنا ضرور عرض کروں گا کہ ڈاکٹر مظہر حیدر اپنے ترقی پسند مارکسزم پر اس قدر پختہ یقین رکھتے تھے کہ 1996-7ء کا ذکر ہے کراچی بھر میں دو ہی صاحبان ایسے تھے جو کہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رکن ہونے کے دعوے دار تھے ایک ڈاکٹر مظہر حیدر صاحب و دوسرے کامریڈ جہانگیر آزاد البتہ یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ عصر حاضر میں جو بھی ترقی پسند دانشور و ادیب دنیا سے کوچ کرتا جا رہا ہے وہ اپنے پیچھے ایک خلا چھوڑتا جا رہا ہے اور یہ خلا ایسے نہیں جو مستقبل قریب میں پر ہو سکیں۔
نئے کیڈر کا ترقی پسند نظریات کی جانب رجوع نہ کرنا و مزاحمتی ادب مزاحمتی سیاست کا راستہ اختیار نہ کرنا نئے کیڈر کے نہ آنے کا ایک باعث یہ بھی ہے کہ فی الوقت ایسے لوگ بھی سیاست میں داخل ہو چکے ہیں سیاست جن کے نزدیک کچن چلانے کا ایک ذریعہ ہے یوں بھی فی الوقت ترقی پسند سیاسی جماعتوں کی قیادت متوسط طبقے کے ہاتھ میں آ چکی ہے۔ ان حالات میں کوئی محنت کش ایسی جماعتوں میں شمولیت کر کے دریاں ہی بچھانے کے کام آ سکتے ہیں البتہ چاچا مولا بخش جیسے رہنماؤں کی بات دیگر تھی۔ بہرکیف ہم ڈاکٹر مظہر حیدر کو دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اس عزم کے ساتھ کہ ان کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔