کرپشن کے خلاف تحریک
پوری قوم بدعنوانی کی ہر سطح پر وبائی شکل اختیارکرنے کی وجہ سے ذہنی کرب اور اضطراب میں مبتلا ہے
JERSEY CITY:
جسٹس مشیر عالم نے کھاد کی ڈیلیوری میں کروڑوں روپے کی خرد برد کے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کرپشن کا فوری سدباب نہ کیا گیا تو کرپشن دیمک کی طرح ملک اور اداروں کو کھوکھلا کرکے ریاست کو خطرناک انجام سے دوچارکردے گی۔ پوری قوم بدعنوانی کی ہر سطح پر وبائی شکل اختیارکرنے کی وجہ سے ذہنی کرب اور اضطراب میں مبتلا ہے ، جس رفتار سے یہ وبا پھیل چکی ہے اس کو روکنے کے لیے انسداد بدعنوانی کے تمام اداروں کو اپنے تفتیشی عملے اور استغاثہ کی اعلیٰ درجے کی مہارت حاصل کرنے کے لیے منظم طریقے سے تربیت دینا انتہائی ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ''حکمرانوں اور امرا'' کو چاہیے کہ وہ اپنی ''شاہانہ زندگی'' کو ترک کرکے سادہ زندگی گزاریں۔ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ کے محترم جج صاحبان نے کرپشن کی وارداتوں پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے اس کے سنگین نتائج پر روشنی ڈالی اور کہا کہ جس ادارے پر نظر ڈالیں وہاں کرپشن کے پہاڑ کھڑے نظر آتے ہیں۔
کرپشن روکنے کی ذمے داری حکومت کی ہوتی ہے جن ملکوں میں حکمرانوں پر ہی اربوں کی کرپشن کے الزامات ہوں ان ملکوں میں کرپشن کو روکنا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک کی اشرافیہ جس میں حکمران اور اپوزیشن دونوں شامل ہیں اربوں روپوں کی کرپشن کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہماری محترم عدلیہ کی اس حوالے سے تشویش بجا ہے لیکن چھوٹی چھوٹی کرپشن کے خلاف تو احتساب ہوتا ہے لیکن بڑے مگر مچھ کسی نہ کسی طرح احتساب کی زد سے بچے رہتے ہیں جب تک احتساب دباؤ سے آزاد نہیں ہوگا نہ کرپشن کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے گا نہ اس عفریت پر قابو پایا جاسکے گا۔ بلاتخصیص احتساب کے لیے عدلیہ کو آگے آنا پڑے گا ورنہ یہ عفریت ملک و ملت کی تباہی کا باعث بن جائے گا۔
کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کے جسم میں خون کی طرح دوڑتی رہتی ہے۔ حقیقی معنوں میں کرپشن کو روکنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے لیکن اگر عدالتی نظام آزاد اورخودمختار ہو تو کم ازکم کرپشن کی مرتکب بڑی مچھلیوں کوکیفرکردار تک تک پہنچایا جاسکتا ہے۔کرپشن جب ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے تو اس کے خلاف عوامی سطح پر بھی مزاحمت ضروری ہوجاتی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما عمران خان پانامہ لیکس اورآف شور کمپنیوں کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لا رہے ہیں لیکن حیرت ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں اس اہم ترین قومی مسئلے پر عمران خان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونے کے بجائے تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں، چونکہ پانامہ لیکس میں حکمران خاندان بھی ملوث ہیں لہٰذا ہماری محترم اپوزیشن حکمرانوں کے خلاف محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطر سڑکوں پر آنے سے گریزاں ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ احتسابی ادارے حکمرانوں کے باجگزار بنے ہوئے ہیں جب تک احتسابی ادارے بلاتفریق اورآزادانہ کارروائیاں نہیں کریں گے ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔
کرپشن کے پھیلاؤ کا عالم یہ ہے کہ چین جیسے سخت گیر ملک میں کرپشن حکمران پارٹی تک پہنچ گئی ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں کرپشن کے مرتکب حکمرانوں کے خلاف احتساب ہورہا ہے اور کرپشن کے مرتکب حکمرانوں کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا پڑرہا ہے جب تک سوشلسٹ بلاک موجود اور فعال تھا اس سے وابستہ ملک کرپشن سے آزاد تھے لیکن جیسے ہی سوشلسٹ بلاک تحلیل ہوا اور سرمایہ دارانہ نظام کو اپنایا ہمارے سابق سوشلسٹ ملک کرپشن میں مبتلا ہوگئے، روس جہاں کرپشن کا نام نشان موجود نہ تھا اب کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن کرپشن جاری ہے اور آئے دن کرپشن کے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔ پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد برطانیہ سمیت کئی مغربی ملکوں میں احتساب کا سلسلہ جاری ہے اور حکمرانوں کو کرپشن کے الزامات میں ان کے عہدوں سے سبکدوش ہونا پڑرہا ہے۔
کرپشن کی بڑی وارداتیں کک بیک اورکمیشن کی شکل میں کی جاتی ہیں اور یہ کام اس قدر منظم طریقے اور احتیاط کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ کرپشن کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن کی بھاری رقوم کو چھپانے کے لیے ایسے بینک موجود ہیں جن میں اربوں روپے محفوظ رکھے جاتے ہیں ان بینکوں کے قوانین ایسے بنائے گئے ہیں کہ کرپشن کی رقوم کو ہر طرح تحفظ مل جاتا ہے حتیٰ کہ ان بینکوں میں رکھی جانے والی بھاری رقوم کے حوالے سے معلومات حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
بدقسمتی سے پاکستان میں قیام پاکستان کے بعد ہی سے اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر قابض ہے اس لیے اسے ہمیشہ لوٹ مارکی آزادی حاصل رہی ہے۔ کرپشن اور اس قسم کی دوسری برائیوں کے خلاف مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی جماعتیں فعال رہتی ہیں لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی اور مذہبی جماعتیں حکومتوں کی اتحادی بنی ہوئی ہیں۔ عمران خان میں کئی کمزوریاں ہوسکتی ہیں لیکن عمران خان کی جماعت نے کرپشن کے خلاف جو تحریک شروع کی ہے اسے عوام کی مکمل حمایت حاصل ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر طاہر القادری بھی اپنی قصاص تحریک کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خلاف بھی آواز بلند کر رہے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ طاہر القادری، عمران خان کی کرپشن کے خلاف تحریک کا بھرپور ساتھ دیں اور پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں کے مالکان کے خلاف بھرپور طریقے سے جدوجہد کریں ۔ طاہر القادری کے منظم اور نظریاتی کارکن اگر کرپشن تحریک کا حصہ بن جائیں تو پھر اس تحریک کو دبانا ممکن نہیں رہے گا۔ عمران خان اگر ملک کی ٹریڈ یونینوں طلبا تنظیموں اور پیشہ ورانہ گروہوں کو اپنے ساتھ جوڑ لیں تو پھر یہ تحریک اتنی توانا ہوسکتی ہے کہ اسے دبانا ممکن نہیں رہے گا۔
جسٹس مشیر عالم نے کھاد کی ڈیلیوری میں کروڑوں روپے کی خرد برد کے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کرپشن کا فوری سدباب نہ کیا گیا تو کرپشن دیمک کی طرح ملک اور اداروں کو کھوکھلا کرکے ریاست کو خطرناک انجام سے دوچارکردے گی۔ پوری قوم بدعنوانی کی ہر سطح پر وبائی شکل اختیارکرنے کی وجہ سے ذہنی کرب اور اضطراب میں مبتلا ہے ، جس رفتار سے یہ وبا پھیل چکی ہے اس کو روکنے کے لیے انسداد بدعنوانی کے تمام اداروں کو اپنے تفتیشی عملے اور استغاثہ کی اعلیٰ درجے کی مہارت حاصل کرنے کے لیے منظم طریقے سے تربیت دینا انتہائی ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ''حکمرانوں اور امرا'' کو چاہیے کہ وہ اپنی ''شاہانہ زندگی'' کو ترک کرکے سادہ زندگی گزاریں۔ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ کے محترم جج صاحبان نے کرپشن کی وارداتوں پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے اس کے سنگین نتائج پر روشنی ڈالی اور کہا کہ جس ادارے پر نظر ڈالیں وہاں کرپشن کے پہاڑ کھڑے نظر آتے ہیں۔
کرپشن روکنے کی ذمے داری حکومت کی ہوتی ہے جن ملکوں میں حکمرانوں پر ہی اربوں کی کرپشن کے الزامات ہوں ان ملکوں میں کرپشن کو روکنا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک کی اشرافیہ جس میں حکمران اور اپوزیشن دونوں شامل ہیں اربوں روپوں کی کرپشن کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہماری محترم عدلیہ کی اس حوالے سے تشویش بجا ہے لیکن چھوٹی چھوٹی کرپشن کے خلاف تو احتساب ہوتا ہے لیکن بڑے مگر مچھ کسی نہ کسی طرح احتساب کی زد سے بچے رہتے ہیں جب تک احتساب دباؤ سے آزاد نہیں ہوگا نہ کرپشن کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے گا نہ اس عفریت پر قابو پایا جاسکے گا۔ بلاتخصیص احتساب کے لیے عدلیہ کو آگے آنا پڑے گا ورنہ یہ عفریت ملک و ملت کی تباہی کا باعث بن جائے گا۔
کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کے جسم میں خون کی طرح دوڑتی رہتی ہے۔ حقیقی معنوں میں کرپشن کو روکنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے لیکن اگر عدالتی نظام آزاد اورخودمختار ہو تو کم ازکم کرپشن کی مرتکب بڑی مچھلیوں کوکیفرکردار تک تک پہنچایا جاسکتا ہے۔کرپشن جب ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے تو اس کے خلاف عوامی سطح پر بھی مزاحمت ضروری ہوجاتی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما عمران خان پانامہ لیکس اورآف شور کمپنیوں کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لا رہے ہیں لیکن حیرت ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں اس اہم ترین قومی مسئلے پر عمران خان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونے کے بجائے تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں، چونکہ پانامہ لیکس میں حکمران خاندان بھی ملوث ہیں لہٰذا ہماری محترم اپوزیشن حکمرانوں کے خلاف محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطر سڑکوں پر آنے سے گریزاں ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ احتسابی ادارے حکمرانوں کے باجگزار بنے ہوئے ہیں جب تک احتسابی ادارے بلاتفریق اورآزادانہ کارروائیاں نہیں کریں گے ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔
کرپشن کے پھیلاؤ کا عالم یہ ہے کہ چین جیسے سخت گیر ملک میں کرپشن حکمران پارٹی تک پہنچ گئی ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں کرپشن کے مرتکب حکمرانوں کے خلاف احتساب ہورہا ہے اور کرپشن کے مرتکب حکمرانوں کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا پڑرہا ہے جب تک سوشلسٹ بلاک موجود اور فعال تھا اس سے وابستہ ملک کرپشن سے آزاد تھے لیکن جیسے ہی سوشلسٹ بلاک تحلیل ہوا اور سرمایہ دارانہ نظام کو اپنایا ہمارے سابق سوشلسٹ ملک کرپشن میں مبتلا ہوگئے، روس جہاں کرپشن کا نام نشان موجود نہ تھا اب کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن کرپشن جاری ہے اور آئے دن کرپشن کے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔ پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد برطانیہ سمیت کئی مغربی ملکوں میں احتساب کا سلسلہ جاری ہے اور حکمرانوں کو کرپشن کے الزامات میں ان کے عہدوں سے سبکدوش ہونا پڑرہا ہے۔
کرپشن کی بڑی وارداتیں کک بیک اورکمیشن کی شکل میں کی جاتی ہیں اور یہ کام اس قدر منظم طریقے اور احتیاط کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ کرپشن کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن کی بھاری رقوم کو چھپانے کے لیے ایسے بینک موجود ہیں جن میں اربوں روپے محفوظ رکھے جاتے ہیں ان بینکوں کے قوانین ایسے بنائے گئے ہیں کہ کرپشن کی رقوم کو ہر طرح تحفظ مل جاتا ہے حتیٰ کہ ان بینکوں میں رکھی جانے والی بھاری رقوم کے حوالے سے معلومات حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
بدقسمتی سے پاکستان میں قیام پاکستان کے بعد ہی سے اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر قابض ہے اس لیے اسے ہمیشہ لوٹ مارکی آزادی حاصل رہی ہے۔ کرپشن اور اس قسم کی دوسری برائیوں کے خلاف مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی جماعتیں فعال رہتی ہیں لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی اور مذہبی جماعتیں حکومتوں کی اتحادی بنی ہوئی ہیں۔ عمران خان میں کئی کمزوریاں ہوسکتی ہیں لیکن عمران خان کی جماعت نے کرپشن کے خلاف جو تحریک شروع کی ہے اسے عوام کی مکمل حمایت حاصل ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر طاہر القادری بھی اپنی قصاص تحریک کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خلاف بھی آواز بلند کر رہے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ طاہر القادری، عمران خان کی کرپشن کے خلاف تحریک کا بھرپور ساتھ دیں اور پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں کے مالکان کے خلاف بھرپور طریقے سے جدوجہد کریں ۔ طاہر القادری کے منظم اور نظریاتی کارکن اگر کرپشن تحریک کا حصہ بن جائیں تو پھر اس تحریک کو دبانا ممکن نہیں رہے گا۔ عمران خان اگر ملک کی ٹریڈ یونینوں طلبا تنظیموں اور پیشہ ورانہ گروہوں کو اپنے ساتھ جوڑ لیں تو پھر یہ تحریک اتنی توانا ہوسکتی ہے کہ اسے دبانا ممکن نہیں رہے گا۔