علاقہ غیر
فاٹا پاکستان کا وہ بدقسمت ترین خطہ ہے جو سب سے زیادہ پسماندہ ہونے کے علاوہ حکومتی رٹ سے ہی باہر ہے
فاٹا پاکستان کا وہ بدقسمت ترین خطہ ہے جو سب سے زیادہ پسماندہ ہونے کے علاوہ حکومتی رٹ سے ہی باہر ہے۔ نہ تو وہاں پاکستان میں جاری عام قوانین چلتے ہیں اور نہ ہی عام پاکستانیوں کو حاصل سہولتیں میسر ہیں۔ عوام پولیٹیکل ایجنٹ کے رحم وکرم پر ہیں اس لیے کہ عدالتی نظام کا کوئی وجود نہیں ہے۔ نہ ہی عوام کو جمہوری حقوق حاصل ہیں اور نہ ہی ترقیاتی کاموں کا کوئی رواج ہے۔
تعلیمی پسماندگی، غربت اور دہشتگردوں کی جنت کے طور پر یہ خطہ پوری دنیا میں شہرت حاصل کر چکا ہے۔ یہ علاقہ پاکستان کے شمال مغرب میں افغان سرحد اور خیبرپختونخوا کے درمیان واقع ہے۔ یہ 27 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر محیط ہے اور تقریباً 45 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہی وہ خطہ ہے جسے انگریزوں کے زمانے سے علاقہ غیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے نام سے اب بھی لوگ سہم جاتے ہیں۔ اس خطے پر انگریزوں نے سکھوں سے چھین کر قبضہ کر لیا تھا مگر وہ اس پر اپنی عملداری قائم نہ کر سکے کیونکہ یہاں کے غیور قبائلیوں نے انھیں حکومت کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
گوکہ یہ خطہ افغانستان سے متصل ہے مگر افغان حکومتیں بھی اسے ہتھیانے کی ہمت نہ کر سکیں۔ اس خطے کے قانون سے ماورا ہونے کی وجہ سے اسے انگریزوں کے دور سے ہی مجرموں کی پناہ کا درجہ حاصل رہا ہے۔ برصغیر کے کسی بھی علاقے کے سنگین ترین جرائم میں ملوث افراد جو یقینی طور پر سزائے موت کے مستحق ہوتے تھے بھاگ کر یہاں پناہ لے کر محفوظ ہو جاتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ خطہ علاقہ غیر بنا رہا چونکہ یہاں پاکستان میں رائج قوانین نافذ نہیں کیے گئے تھے چنانچہ یہ بدستور مجرمین کی پناہ گاہ بنا رہا۔ یہاں نہ صرف کھلے عام ہر قسم کا اسلحہ فروخت ہوتا تھا بلکہ چھوٹے اسلحے کو تیارکرنے کی فیکٹریاں قائم تھیں۔
یہاں کا تیارکردہ اسلحہ پاکستان اور افغانستان میں بہت مقبول تھا۔ پہلے یہ علاقہ افیون کی فروخت کے لیے بھی مشہور تھا پھر جب ہیروئن وغیرہ کی مانگ کی ابتدا ہوئی تو یہ ہیروئن اور دیگر منشیات کا گڑھ بن گیا۔ یہاں افیون اور ہیروئن وغیرہ افغانستان سے لائی جاتی تھیں۔ ایک زمانے تک مغربی ممالک کے شوقین مزاج جوق درجوق یہاں کی منشیات حاصل کرنے کی غرض سے آیا کرتے تھے مگر ایسے لوگوں کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد ان کی تعداد اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد اس خطے پر ایک نیا عذاب نازل ہوا۔ یہاں افغان اور پاکستانی طالبان نے ڈیرے ڈال دیے اور اسے اپنی پناہ گاہ بنا لیا۔ اس خطے میں شمالی اور جنوبی وزیرستان واقع ہیں جنھیں طالبان کی جنت کہا جانے لگا۔ طالبان تحریک کا اصل مقصد افغانستان کو نیٹو افواج سے پاک کرانا تھا چنانچہ ان کا نیٹو افواج سے ٹکر لینا تو سمجھ میں آتا ہے مگر بدقسمتی سے انھوں نے پاکستان کو بھی اپنی دہشتگردی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ حالانکہ ان کی پاکستان میں دہشتگردی کاکوئی جواز نہ تھا۔ طالبان کو پاکستان کا یہ احسان کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان نے ہی افغانستان میں قائم طالبان حکومت کو امریکا اور متحدہ عرب امارات کا آشیرباد دلوایا تھا۔ گو کہ بھارت طالبان کی سخت مخالفت پر کمربستہ تھا مگر پاکستان ان کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ آج بھی پاکستان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مصالحت کرانے کے لیے کوشاں ہے تاکہ افغانستان کا مسئلہ بغیر کشت وخون کے حل ہو جائے مگر پاکستان کی اس مصالحانہ کوششوں کو پاکستان کی طالبان سے ملی بھگت قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان کو کھلے عام طالبان کا ایجنٹ کہا جا رہا ہے۔اس سے عالمی طور پر پاکستان کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچا ہے اور بھارت کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔ اس نے کئی امریکی سینیٹرز کے ساتھ ساتھ افغان حکومت کو بھی ورغلا کر اپنا ہمنوا بنا لیا ہے۔ بدقسمتی سے طالبان پھر بھی پاکستان میں دہشتگردی جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے فائدہ اٹھاکر بھارت نے افغان حکومت کی مدد سے پاکستان میں دہشتگردی کا جال بچھا دیا ہے۔ ''را'' نے طالبان کے بعض دھڑوں کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا ہے جن کے ذریعے پاکستان میں مساجد، مدرسوں اور اسکولوں سمیت شہری املاک پر بھی حملے کیے گئے ہیں۔ اب ضرب عضب آپریشن کے ذریعے ملک کو ''را'' کی حمایت یافتہ دہشتگردی سے کافی حد تک نجات مل گئی ہے۔ تمام طالبان گروپ جو برسوں سے فاٹا میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ تاہم اب بھی طالبان کے ''را'' سے منسوب بعض گروپ دہشتگردی میں مصروف ہیں ان میں شامل فضل اللہ گروپ نے سفاکیت کی تاریخ رقم کی ہے۔ اس نے ''را'' کے اشارے پر پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کر کے ڈیڑھ سو سے زیادہ طلبا کو شہید کر دیا تھا۔
ابھی حال میں کوئٹہ میں وکلا پر ہونے والا خودکش حملہ بھی ''را'' نے اپنے زرخرید طالبان سے کروایا ہے۔ ''را'' کے ایجنٹوں اور دہشتگردوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو ہماری ایجنسیوں کی جانب سے روکنے میں ناکامی پر ملک کے تمام ہی حلقے پریشان ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو افغان حکومت کی بھارت نواز سازشوں کو روکنے کے لیے امریکا سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ افغان حکومت اسی کی زیر نگرانی کام کر رہی ہے، مگر ہماری حکومت کی معذرت خواہانہ پالیسی نے دشمنوں کے حوصلے بلند کر دیے ہیں۔
بہرحال یہ بات واضح ہے کہ بھارت امریکا کی آشیرباد کے بغیر افغان حکومت کو اپنا غلام نہیں بنا سکتا تھا۔ بلوچستان کو دہشتگردی کا گڑھ بنانے کے مودی کے اعلان کی سابق افغان صدر حامد کرزئی کی جانب سے ہمت افزائی نے اسے بھارت کا ایجنٹ ثابت کر دیا ہے۔ جہاں تک فاٹا کا تعلق ہے اس کے دہشتگردوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے میں ہماری حکومت کی غفلت شامل ہے۔ اسے اگر شروع سے ہی ملکی قوانین سے آراستہ کر دیا جاتا تو یہ خطہ طالبان کے لیے پناہ گاہ نہ بنتا۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس علاقے کو صوبہ سرحد یا بلوچستان سے منسلک کر دیا جاتا تو یہاں کے لوگ انتہائی پسماندگی کا شکار نہ ہوتے اور ایک شخص کے جرم کرنے پر اس کے پورے خاندان کو سزا نہ دی جاتی۔ یہاں کے لوگوں کی فی کس آمدنی قومی فی کس آمدنی سے آدھی نہ ہوتی۔ اس علاقے کو قومی دھارے میں لینے کے لیے یہاں کے عمائدین اکثر مطالبہ کرتے ہیں۔
نیشنل عوامی پارٹی بھی اسے پختونخوا میں ضم کرنے کے لیے حکومت کو کئی مرتبہ تجویز دے چکی ہے مگر افسوس کہ کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ 1996ء تک یہاں کے لوگوں کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کوئی نمایندگی نہیں تھی۔ اس کے بعد انھیں ووٹ کا حق دے دیا گیا ہے مگر یہاں کوئی سیاسی پارٹی قائم نہیں کی جا سکتی۔ اس خطے کو دہشتگردوں سے پاک کرنے کے لیے ضرب عضب سے پہلے بھی کئی آپریشنز ہوچکے ہیں جن میں بڑا نقصان ہوا۔ یہاں کے لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے کی زحمت بھی برداشت کرنا پڑی ہے۔
اس علاقے کو قومی دھارے میں لینے اور یہاں پائیدار امن کے قیام کے لیے حکومت نے جو اصلاحاتی کمیٹی قائم کی تھی اب اس کی سفارشات وزیر اعظم کو پیش کر دی گئی ہیں، جن کے مطابق اب فاٹا میں فرنٹیئر کرائم ریگولیشن کے بجائے ملکی مروجہ قوانین لاگو کیے جائیں گے۔ پولیٹیکل ایجنٹ سے اختیارات لے کر بااختیار جج صاحبان کے حوالے کیے جائیں گے، ساتھ ہی یہاں انتظامی اصلاحات اور ترقیاتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے گا۔ علاقے کی حیثیت کے بارے میں ایک تجویز یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی طرز پر یہاں کونسل بنائی جائے۔
فاٹا کو ایک الگ صوبہ بنانے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ فاٹا کو صوبہ پختونخوا میں ضم کر دیا جائے دراصل یہی سفارش سب سے کارگر ہو سکتی ہے۔ یہاں کے عوام کی رائے لینا بھی ضروری ہے جس کے لیے جرگے کے انعقاد کے بجائے ریفرنڈم بہترین جمہوری طریقہ ہو سکتا ہے۔ یہاں سے وابستہ بعض مبینہ مفادات سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے اب اصلاحات کے نفاذ میں مزید تاخیر کرنا یہاں کے محب وطن قبائلیوں سے احسان فراموش کے مترادف ہو گا کیونکہ آزاد کشمیر ان ہی کی قربانیوں کا ثمر ہے۔
تعلیمی پسماندگی، غربت اور دہشتگردوں کی جنت کے طور پر یہ خطہ پوری دنیا میں شہرت حاصل کر چکا ہے۔ یہ علاقہ پاکستان کے شمال مغرب میں افغان سرحد اور خیبرپختونخوا کے درمیان واقع ہے۔ یہ 27 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر محیط ہے اور تقریباً 45 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہی وہ خطہ ہے جسے انگریزوں کے زمانے سے علاقہ غیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے نام سے اب بھی لوگ سہم جاتے ہیں۔ اس خطے پر انگریزوں نے سکھوں سے چھین کر قبضہ کر لیا تھا مگر وہ اس پر اپنی عملداری قائم نہ کر سکے کیونکہ یہاں کے غیور قبائلیوں نے انھیں حکومت کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
گوکہ یہ خطہ افغانستان سے متصل ہے مگر افغان حکومتیں بھی اسے ہتھیانے کی ہمت نہ کر سکیں۔ اس خطے کے قانون سے ماورا ہونے کی وجہ سے اسے انگریزوں کے دور سے ہی مجرموں کی پناہ کا درجہ حاصل رہا ہے۔ برصغیر کے کسی بھی علاقے کے سنگین ترین جرائم میں ملوث افراد جو یقینی طور پر سزائے موت کے مستحق ہوتے تھے بھاگ کر یہاں پناہ لے کر محفوظ ہو جاتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ خطہ علاقہ غیر بنا رہا چونکہ یہاں پاکستان میں رائج قوانین نافذ نہیں کیے گئے تھے چنانچہ یہ بدستور مجرمین کی پناہ گاہ بنا رہا۔ یہاں نہ صرف کھلے عام ہر قسم کا اسلحہ فروخت ہوتا تھا بلکہ چھوٹے اسلحے کو تیارکرنے کی فیکٹریاں قائم تھیں۔
یہاں کا تیارکردہ اسلحہ پاکستان اور افغانستان میں بہت مقبول تھا۔ پہلے یہ علاقہ افیون کی فروخت کے لیے بھی مشہور تھا پھر جب ہیروئن وغیرہ کی مانگ کی ابتدا ہوئی تو یہ ہیروئن اور دیگر منشیات کا گڑھ بن گیا۔ یہاں افیون اور ہیروئن وغیرہ افغانستان سے لائی جاتی تھیں۔ ایک زمانے تک مغربی ممالک کے شوقین مزاج جوق درجوق یہاں کی منشیات حاصل کرنے کی غرض سے آیا کرتے تھے مگر ایسے لوگوں کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد ان کی تعداد اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد اس خطے پر ایک نیا عذاب نازل ہوا۔ یہاں افغان اور پاکستانی طالبان نے ڈیرے ڈال دیے اور اسے اپنی پناہ گاہ بنا لیا۔ اس خطے میں شمالی اور جنوبی وزیرستان واقع ہیں جنھیں طالبان کی جنت کہا جانے لگا۔ طالبان تحریک کا اصل مقصد افغانستان کو نیٹو افواج سے پاک کرانا تھا چنانچہ ان کا نیٹو افواج سے ٹکر لینا تو سمجھ میں آتا ہے مگر بدقسمتی سے انھوں نے پاکستان کو بھی اپنی دہشتگردی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ حالانکہ ان کی پاکستان میں دہشتگردی کاکوئی جواز نہ تھا۔ طالبان کو پاکستان کا یہ احسان کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان نے ہی افغانستان میں قائم طالبان حکومت کو امریکا اور متحدہ عرب امارات کا آشیرباد دلوایا تھا۔ گو کہ بھارت طالبان کی سخت مخالفت پر کمربستہ تھا مگر پاکستان ان کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ آج بھی پاکستان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مصالحت کرانے کے لیے کوشاں ہے تاکہ افغانستان کا مسئلہ بغیر کشت وخون کے حل ہو جائے مگر پاکستان کی اس مصالحانہ کوششوں کو پاکستان کی طالبان سے ملی بھگت قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان کو کھلے عام طالبان کا ایجنٹ کہا جا رہا ہے۔اس سے عالمی طور پر پاکستان کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچا ہے اور بھارت کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔ اس نے کئی امریکی سینیٹرز کے ساتھ ساتھ افغان حکومت کو بھی ورغلا کر اپنا ہمنوا بنا لیا ہے۔ بدقسمتی سے طالبان پھر بھی پاکستان میں دہشتگردی جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے فائدہ اٹھاکر بھارت نے افغان حکومت کی مدد سے پاکستان میں دہشتگردی کا جال بچھا دیا ہے۔ ''را'' نے طالبان کے بعض دھڑوں کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا ہے جن کے ذریعے پاکستان میں مساجد، مدرسوں اور اسکولوں سمیت شہری املاک پر بھی حملے کیے گئے ہیں۔ اب ضرب عضب آپریشن کے ذریعے ملک کو ''را'' کی حمایت یافتہ دہشتگردی سے کافی حد تک نجات مل گئی ہے۔ تمام طالبان گروپ جو برسوں سے فاٹا میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ تاہم اب بھی طالبان کے ''را'' سے منسوب بعض گروپ دہشتگردی میں مصروف ہیں ان میں شامل فضل اللہ گروپ نے سفاکیت کی تاریخ رقم کی ہے۔ اس نے ''را'' کے اشارے پر پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کر کے ڈیڑھ سو سے زیادہ طلبا کو شہید کر دیا تھا۔
ابھی حال میں کوئٹہ میں وکلا پر ہونے والا خودکش حملہ بھی ''را'' نے اپنے زرخرید طالبان سے کروایا ہے۔ ''را'' کے ایجنٹوں اور دہشتگردوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو ہماری ایجنسیوں کی جانب سے روکنے میں ناکامی پر ملک کے تمام ہی حلقے پریشان ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو افغان حکومت کی بھارت نواز سازشوں کو روکنے کے لیے امریکا سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ افغان حکومت اسی کی زیر نگرانی کام کر رہی ہے، مگر ہماری حکومت کی معذرت خواہانہ پالیسی نے دشمنوں کے حوصلے بلند کر دیے ہیں۔
بہرحال یہ بات واضح ہے کہ بھارت امریکا کی آشیرباد کے بغیر افغان حکومت کو اپنا غلام نہیں بنا سکتا تھا۔ بلوچستان کو دہشتگردی کا گڑھ بنانے کے مودی کے اعلان کی سابق افغان صدر حامد کرزئی کی جانب سے ہمت افزائی نے اسے بھارت کا ایجنٹ ثابت کر دیا ہے۔ جہاں تک فاٹا کا تعلق ہے اس کے دہشتگردوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے میں ہماری حکومت کی غفلت شامل ہے۔ اسے اگر شروع سے ہی ملکی قوانین سے آراستہ کر دیا جاتا تو یہ خطہ طالبان کے لیے پناہ گاہ نہ بنتا۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس علاقے کو صوبہ سرحد یا بلوچستان سے منسلک کر دیا جاتا تو یہاں کے لوگ انتہائی پسماندگی کا شکار نہ ہوتے اور ایک شخص کے جرم کرنے پر اس کے پورے خاندان کو سزا نہ دی جاتی۔ یہاں کے لوگوں کی فی کس آمدنی قومی فی کس آمدنی سے آدھی نہ ہوتی۔ اس علاقے کو قومی دھارے میں لینے کے لیے یہاں کے عمائدین اکثر مطالبہ کرتے ہیں۔
نیشنل عوامی پارٹی بھی اسے پختونخوا میں ضم کرنے کے لیے حکومت کو کئی مرتبہ تجویز دے چکی ہے مگر افسوس کہ کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ 1996ء تک یہاں کے لوگوں کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کوئی نمایندگی نہیں تھی۔ اس کے بعد انھیں ووٹ کا حق دے دیا گیا ہے مگر یہاں کوئی سیاسی پارٹی قائم نہیں کی جا سکتی۔ اس خطے کو دہشتگردوں سے پاک کرنے کے لیے ضرب عضب سے پہلے بھی کئی آپریشنز ہوچکے ہیں جن میں بڑا نقصان ہوا۔ یہاں کے لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے کی زحمت بھی برداشت کرنا پڑی ہے۔
اس علاقے کو قومی دھارے میں لینے اور یہاں پائیدار امن کے قیام کے لیے حکومت نے جو اصلاحاتی کمیٹی قائم کی تھی اب اس کی سفارشات وزیر اعظم کو پیش کر دی گئی ہیں، جن کے مطابق اب فاٹا میں فرنٹیئر کرائم ریگولیشن کے بجائے ملکی مروجہ قوانین لاگو کیے جائیں گے۔ پولیٹیکل ایجنٹ سے اختیارات لے کر بااختیار جج صاحبان کے حوالے کیے جائیں گے، ساتھ ہی یہاں انتظامی اصلاحات اور ترقیاتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے گا۔ علاقے کی حیثیت کے بارے میں ایک تجویز یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی طرز پر یہاں کونسل بنائی جائے۔
فاٹا کو ایک الگ صوبہ بنانے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ فاٹا کو صوبہ پختونخوا میں ضم کر دیا جائے دراصل یہی سفارش سب سے کارگر ہو سکتی ہے۔ یہاں کے عوام کی رائے لینا بھی ضروری ہے جس کے لیے جرگے کے انعقاد کے بجائے ریفرنڈم بہترین جمہوری طریقہ ہو سکتا ہے۔ یہاں سے وابستہ بعض مبینہ مفادات سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے اب اصلاحات کے نفاذ میں مزید تاخیر کرنا یہاں کے محب وطن قبائلیوں سے احسان فراموش کے مترادف ہو گا کیونکہ آزاد کشمیر ان ہی کی قربانیوں کا ثمر ہے۔