شبنمی ٹھنڈک کا سا احساس

سندھ ایک سرسبزوشاداب خطہ ہے جو ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے


Shabnam Gul August 31, 2016
[email protected]

سندھ ایک سرسبزوشاداب خطہ ہے جو ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے۔ چاہے ساحلی علاقے ہوں، کاچھو و کوہستان، تھر، لاڑ۔ غرض یہ کہ آپ جس طرف بھی نکل جائیںگے آپ کو سبزہ، پہاڑ اور دریا دکھائی دیں گے، ہر منظر سندھ کی اوائیلی تہذیب کا آئینہ دار ہے، گوکہ دور بدل گیا ہے مگر روح آج بھی قدیم ورثے سے جڑی ہے۔

اس بار گورکھ ہل اسٹیشن کی طرف نکل کھڑے ہوئے، حالانکہ گرمی زوروں پر ہے مگر سوچا شاید چھ ہزار فٹ کی بلندی پر موسم معتدل ہو۔ حالانکہ کھیرتھر میں واقع ایک پہاڑ کی چوٹی سات ہزار فٹ کی اونچائی پر واقع ہے جسے ''کتے کی قبر'' کہا جاتا ہے وہاں ایک خوبصورت ہل اسٹیشن کا قیام ممکن ہو سکتا ہے مگر اس وقت گورکھ ہل اسٹیشن سندھ کی وہ واحد تفریح گاہ ہے جو مستقل نظر انداز ہو رہی ہے جب کہ بیسوں سال قدیم یہ پہاڑ فطری حسن سے مالا مال ہے۔

ہمارے ساتھ اس مرتبہ نصرت رانجھانی اور ان کے چھوٹے بچے قافلے میں شامل تھے۔ حالانکہ بھائی عزیز رانجھانی ہمیں کبھی منع نہیں کرتے بچے جس حال میں بھی ہو یا ان کی اہلیہ نصرت کی طبیعت ٹھیک نہ ہو مگر وہ ہمارے ساتھ چل پڑتی ہیں۔ آج بھابھی نصرت کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی مگر ساتھ مل کر سفرکرنے کا اپنا الگ مزا ہے خصوصاً جب ساتھ چلنے والے لوگ ہم مزاج ہوں۔ ان میں صبر و برداشت ہو۔ جب واہی ہاندھی پہنچے تو سخت گرمی تھی، لو کے تھپیڑے جھلسا رہے تھے، کسی دوست نے میاں کو فون کر کے کہا کہ گورکھ پر گرمی ہے جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن وہ تو موسموں کو خاطر میں نہیں لاتے کہنے لگے گرمی ہے تو کیا ہوا کہیں کوئی خوبصورت منظر سے آمنا سامنا ہو ہی جائے گا۔ دو جیپوں میں ہم دشوارگزار راستے طے کرنے لگے۔ چھبیس موڑ مشکل ترین ہیں۔ کہیں کہیں راستے ٹوٹے ہوئے تھے۔ جیپ اونچائی پر رینگ کے چلنے لگتی۔

کبھی اگر پیچھے کی طرف سرکتی تو دھڑکنیں بڑھ جاتیں۔ پیچھے گہری کھائیاں منہ پھاڑے کھڑی ہوتیں۔ جیپ خراب تھی۔ بار بار پیچھے کی طرف سرکتی تو اشتیاق اور عزیز بھائی نے جیپ کو روک کر خواتین اور بچوں کو بہتر جیپ میں بٹھایا اور خود چھکڑہ جیپ میں بیٹھ گئے۔ ان پہاڑوں سے کوئی سرنگ بنا کے راستہ نکالا جائے یا کوئی پل بنا دیں تا کہ راستے کے خطرے قدرے کم ہو سکیں۔ بہت سے لوگ ایک بار گورکھ جائیں تو دوبارہ رخ کرنے کا کبھی نہیں سوچتے۔

گورکھ پر بڑی رونق تھی۔ یونیورسٹی کی بسیں کھڑی تھیں، ایک بڑا سا ریسٹورنٹ اور اس کے ارد گرد برآمدے میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی، کافی لوگ خیموں میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ ایک خوبصورت سا ریسٹورنٹ بھی مکمل ہو چکا ہے جس میں رہائش کے لیے کمرے مل گئے مگر پانی کی سہولت نہ تھی۔

ہم بے نظیر پوائنٹ کی طرف چل پڑے۔ ایک خوبصورت راستہ جو تاحدِ نظر سرمئی پہاڑوں سے آراستہ، جس کے اوپر اکا دکا سرمئی بادل تیر رہے تھے۔ کجلائی آنکھوں جیسے حسین بادل، سورج سے کبھی محبت بھرے دل کی مانند آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔

ہوا میں تازگی کے بجائے آلودگی تھی۔ بہت افسوس ہوا، لوگ کھانا بنا کے کچرا وہیں پھینک دیتے ہیں۔ گورکھ کی بے باک ہوا جو کبھی خود رو جھاڑیوں اور جنگلی پھولوں کی خوشبو سے مہکتی تھی آج قدرے بوجھل اور حبس زدہ محسوس ہوئی۔ اس سے پہلے جب آئے تھے توگورکھ ہر بامعنی خاموشی طاری تھی، فطری ماحول کی خوشبو میں ایک گہرا سحر تھا کہ آنکھیں نیند سے بوجھل ہو جاتیں ہم خوبصورتی کو سنبھال اور سنوار نہیں سکتے۔ چیزیں بکھیر کے یا انھیں منتشر کر کے خوش ہوتے ہیں۔ خدا جانے ہم ایسے کیوں ہیں۔ آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکی۔

میری بیٹی عرین اپنی دوست سندھو رانجھانی کو بھی یہی بات بتا رہی تھی۔ گرمی کم ہوتی جا رہی تھی۔ جیسے جیسے شام بھیگنے لگی گورکھ کا حسن نکھرتا گیا۔ گورکھ کی شام اس قدر حسین کیونکر ہوتی ہے کہ لوگ سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے یہاں پہنچتے ہیں۔ ایک لڑکا اپنے دوست سے لڑ رہا تھا وہ غصے میں آگے گرتا پڑتا جا رہا تھا بڑبڑاتے ہوئے کہ وہ اب یہاں کبھی نہیں آئے گا اور دوست اسے سمجھا رہا تھا مشینی زندگی کے عادی، مشین جیسے لوگوں کے لیے یہاں کیا رکھا ہے گورکھ ایک پر اسرار جوگی کے روپ میں بین بجاتا ہوا۔

ہوائیں بھی کہہ رہی ہوں، ہزاروں سال بیت گئے، تمہارے یہ بے معنی سے لمحے کیا اہمیت رکھتے ہیں جس وقت پر نازکرتے ہو یہی تو تمہارا سب سے بڑا دشمن ہے۔ ایک دن سب کچھ چھن کر افق کے اس پار ڈوب جائے گا۔

گورکھ پہنچ کر مجھے بھی وقت کی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے۔ بے کراں وقت کے سامنے لمحوں کی یہ بونی انسانی تاریخ کس قدر مختصر ہے اور ہمارے قد ہیں کہ آسمانوں کو چھو رہے ہیں اور خیال ساتویں آسمان پر بھٹکتے ہیں۔

میں نے بھابھی نصرت سے کہا تھا میں بادلوں کو زبردستی کھینچ لاؤںگی تا کہ نتھیا گلی کی یادیں دوبارہ تازہ ہو جائیں اور بادلوں کا مختصر سا سایہ کہیں کہیں وادی کے اوپر ڈول رہا تھا، رات کا کھانا عمدہ تھا، خیموں سے گانے بجانے کی آوازیں آ رہی تھیں، خیموں کے قریب آگ پرکھانا پک رہا تھا جس کی روشنی میں خیمے پر اسرار دکھائی دے رہے تھے یکایک پوری وادی بادلوں سے ڈھک گئی، بادل اتنے نیچے اتر آئے کہ کبھی تمام منظر گہری دھند میں کھو جاتے اور سامنے جلتی آگ نوبیاہتا دلہن جیسی دکھائی دیتی، دھند میں ہولے رقص کرتے تھے۔

فضاؤں میں قہقہوں کا جلترنگ بکھر جاتا، کپڑے بادلوں کے لمس سے تر ہو جاتے، بالوں پر اوس کے قطرے چمکنے لگتے، بادلوں، زمین اور جڑی بوٹیوں کی مہک میں ایک انوکھا پن تھا۔ یہ انفرادیت یہاں کھینچ لاتی ہے۔ فطرت کی بے باکی اور اچھوتا پن وہ ان کہی باتیں جو تمام روحیں نہیں سن سکتیں، روح کا سرسبز و شاداب ہونا بھی ضروری ہے خاموشی کے سروں کو محسوس کرنے کے لیے ماحولیاتی آلودگی نے ہماری حسوں کو بے جان کر دیا ہے مگر یہ آلودگی ہم خود پھیلاتے ہیں۔ ہم اپنے دشمن خود ہیں، ہر وقت دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ہم اپنے باغات اور تفریح گاہوں کی کیا حالت بناتے ہیں، کس طرح خوبصورتی کو بدمزگی میں بدل دیتے ہیں۔

لیکن گورکھ کے یہ لمحے کس قدر حسین ہیں، آپ بادلوں کو ہاتھ لگا کر، چھو کر محسوس کر سکتے ہیں۔ تمام سندھ آتش فشاں کی طرح دہک رہا ہو مگر سندھ میں واقع ایک حسین اور نظر انداز خطہ شبنمی احساس سے مہکتا ہے جس کی ٹھنڈک روح میں اترتی چلی جاتی ہے۔ کیا بات ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں