عالم اسلام اقوام متحدہ کے فعال کردار کا منتظر
مسلم دنیا کے لیے اس نے دہرا معیار اپنایا ہوا ہے اور مسلم دنیا کے ساتھ اس کا رویہ نہایت افسوسناک ہے
پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد ایک ایسی تنظیم یا ادارے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا جو امن قائم رکھنے میں معاون ثابت ہو اور دنیا کو جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھ سکے چنانچہ اسی مقصد کے لیے مجلس اقوام کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے قیام میں بڑی طاقتوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس تنظیم نے مختلف ملکوں کے درمیان تنازعات کے حل میں مدد دی اور کئی مسائل کو کامیابی سے حل بھی کیا اس کے علاوہ انسانی فلاح و بہبود کے لیے کام کیے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود یہ تنظیم اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہو گئی اور 1939ء میں دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی۔
اس جنگ میں دنیا نے پہلے سے بھی زیادہ تباہی و بربادی کا سامنا کیا اس طرح دنیا دوسری عالمی جنگ کے بعد شدید بحران کا شکار ہو گئی اور شدت سے ایک بار پھر بین الاقوامی تنظیم کے قیام کی ضرورت محسوس کی جانے لگی جو سابقہ تنظیم کے نقائص سے پاک ہو اور جس کا اولین مقصد قیام امن ہو ان مقاصد کی تکمیل کے لیے جو ادارہ 24 اکتوبر 1945ء کو قائم کیا گیا اسے اقوام متحدہ کہا جاتا ہے۔
ماضی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کردار پر روشنی ڈالی جائے تو بخوبی معلوم چلتا ہے اس نے کس طرح مختلف مسائل (خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے حوالے) سے ان کے حل کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ ماضی کے حوالے سے مشرق وسطیٰ میں سلامتی کونسل کا کردار موثر رہا اور اس نے مختلف اوقات میں سر اٹھانے والے مختلف مسائل کو کامیابی سے حل کرایا۔ لیکن اگر موجودہ دور میں اس کے کردار و افادیت پر نگاہ ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں اس کا کردار نہایت افسوسناک ہے خاص طور پر مسلم ممالک کے حوالے سے اس کا کردار متنازعہ بنتا جا رہا ہے اور مسلم ممالک کا اس پر سے اعتبار کم ہوتا جا رہا ہے۔
مسلم دنیا کے لیے اس نے دہرا معیار اپنایا ہوا ہے اور مسلم دنیا کے ساتھ اس کا رویہ نہایت افسوسناک ہے۔ عراق، افغانستان، فلسطین میں کیا کچھ ہو رہا ہے، اس سے سلامتی کونسل چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے اور اسے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا نام دیا جا رہا ہے۔ فلسطین، افغانستان، عراق و کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے اور اس کے کردار میں کوئی حرارت نظر نہیں آتی۔ مسلم دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے مسلمان مارے جا رہے ہیں، بے گھر کیے جا رہے ہیں، ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ عالمی برادری کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل بھی ان حالات میں منہ میں انگلیاں دبائے بیٹھی ہے۔
26 نومبر 2008ء کو بمبئی میں خودکش دھماکے ہوئے اور بھارت کی طرف سے اس کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالا گیا تب یہ بڑی طاقتیں بیدار و سرگرم ہو گئیں۔ انھیں نظر آ گیا کہ پھر مسلمانوں نے دہشتگردی کر دی اس موقعے پر سوئی ہوئی سلامتی کونسل بھی حرکت میں آ گئی۔ اسرائیل فلسطین میں کیا کچھ کر رہا ہے یہ اسے کیوں دکھائی نہیں دیتا۔ اسرائیل کے معاملے پر سلامتی کونسل و مغربی طاقتیں کیوں بے بس ہیں کیوں اس قدر بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
اسرائیل فلسطین میں جو کچھ کر رہا ہے یا بھارت کشمیر میں جو کچھ کر رہا ہے یا امریکا نے عراق و افغانستان میں جو کچھ کیا وہ دہشتگردی نہیں وہ کھلی بدمعاشی نہیں تو پھر اور کیا ہے۔ اقوام متحدہ یا اس کی سلامتی کونسل دنیا کو اس بات کا کیا جواب دے سکتی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان حالات میں سلامتی کونسل بے بس ہے کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہی ہے اور کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ بڑی طاقتوں کا اس پر تسلط و اجارہ داری قائم ہے جس کی وجہ سے وہ وہی کچھ کرنے پر مجبور ہے جو یہ بڑی طاقتیں چاہتی ہیں۔
عراق نے کویت پر حملہ کیا تو وہ عراق کی کویت پر دہشتگردی تھی، غیر قانونی عمل تھا چنانچہ سلامتی کونسل فوراً حرکت میں آ گئی اور چند ہی دنوں میں اس نے عراق کا کویت پر سے قبضہ ختم کرا دیا، لیکن جب امریکا نے عراق پر حملہ کیا (اور آج تک مداخلت موجودہ ہے) اس کی بقا وسالمیت کو نقصان پہنچایا تو کیا یہ قانونی تھا؟ اسرائیل آج فلسطین پر وحشیانہ مظالم ڈھا رہا ہے اور جب چاہتا ہے وہ ایسا کر گزرتا ہے تو کیا یہ سب وہ قانون کے دائرے میں رہ کر اور بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق کر رہا ہے؟
امریکا کی بدمعاشی اور دہشتگردی اسے کیوں نظر نہیں آ رہی؟ عراق کے بعد اس کی نظریں مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک پر ہیں خاص طور پر ایران، شام و سعودی عرب وغیرہ پر ان حالات میں سلامتی کونسل کیا سوئی ہوئی ہے یا نزاع کی حالت میں ہے یا پھر اس نے جان بوجھ کر ان حالات سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے اور محض رسمی سا بیان دے کر کیوں خاموش ہو جاتی ہے۔
مطلب صاف ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ سلامتی کونسل میں کون سے فرشتے بیٹھے ہیں جو انصاف، قانون اور بین الاقوامی ضابطوں کی پاسداری کریں گے۔ سلامتی کونسل میں بھی تو پانچ بڑی طاقتوں کے نمایندے ہی بیٹھے ہیں جن میں امریکا، برطانیہ، فرانس، چین و روس شامل ہیں اور انھیں ہی ویٹو پاور کا حق حاصل ہے اور اس کے 10 غیر مستقل ارکان کی شاید کوئی حیثیت نہیں اور پھر یہ ممالک کون سے مسلمانوں کے دوست و ہمدرد ہیں کہ مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کریں گے۔ پھر دوسری طرف یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کا شدید فقدان ہے یہ اندرونی طور پر مضبوط و مستحکم نہیں ہیں تب ہی تو غیر مسلم طاقتیں ان کی اس کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں تمام اسلامی ممالک کو مسئلے کے حل کے لیے عملی و ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا اور پائیدار امن قائم ہو۔
اقوام متحدہ کی تشکیل و قیام کے درج ذیل مقاصد تھے۔
(1)۔ بین الاقوامی امن و سلامتی کو قائم رکھنا
(2)۔ ایسے اقدامات کرنا جس سے عالمی امن کو خطرات کم ہوں۔
(3)۔ جارحانہ اقدامات کی روک تھام کرنا۔
(4)۔ بین الاقوامی تنازعات کو انصاف وبین الاقوامی قوانین کے تحت حل کرنا۔
(5)۔ دنیا سے جہالت، بے روزگاری وغربت کے خاتمے کے لیے مل جل کر کام کرنا۔
(6)۔ ایک دوسرے کی حقوق وآزادی کا احترام کرنا۔
(7)۔ معاشی، سماجی، ثقافتی یا انسان دوستی کی نوعیت کے بین الاقوامی مسائل طے کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون حاصل کرنا وغیرہ اس کے اہم اغراض و مقاصد تھے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ حقیقی معنوں میں اپنے تشکیل و قیام کے مقاصد پر پورا اترے اور دیگر اقوام اور ممالک کے ساتھ ساتھ مسلم امہ اور دنیائے اسلام کے مسائل بھی بلاامتیاز اور تمام تر سیاسی مصلحتوں اور تعصبات سے بالاتر ہو کر حل کرے، بصورت دیگر اس کا قیام، اغراض ومقاصد، وجود، اختیارات وفرائض بدستورغیر موثر اور بے معنی ہی رہیں گے۔