ملاکھڑے کے شیر…میر بحرملھ
سندھ میں ملھ فن پہلوانی کا حصہ ہے جو صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے اور چھوٹے چھوٹے گاؤں میں یہ زیادہ مقبول ہے
سندھ میں ملھ فن پہلوانی کا حصہ ہے جو صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے اور چھوٹے چھوٹے گاؤں میں یہ زیادہ مقبول ہے لیکن اس کو فروغ ملنے سے یہ بین الاقوامی سطح پر بھی کھیلا جانے لگا۔ یہ ملھ کا کھیل خالص طاقت کا کھیل ہے جس میں دوملھ پہلوان آپس میں زورآزمائی کرتے ہیں۔ دونوں میں سے جو زور آور یا پھر عقل مند ہوتا ہے دوسرے کو چت کردیتا ہے۔ اس کھیل میں دو مرتبہ زور آزمائی ہوتی ہے مگر جیت اس کی ہوتی ہے جو دوسری مرتبہ جیتتا ہے۔اس کھیل کو آج بھی سندھ میں میلے میں ملاکھڑے کے طور پرکھیلا جاتا ہے۔ شروع میں بڑے دولت مند ملھ کی بڑی خدمت کرتے تھے۔ انھیں پالتے تھے، ان کے کھانے پینے کا خرچہ اٹھاتے تھے، اب آہستہ آہستہ یہ کھیل حکومت کی توجہ سے ہٹ گیا ہے جس کی وجہ سے ملھ پہلوانوں کو بھی نظر اندازکردیاگیاہے۔
ماضی کے کئی ملھ پہلوان تھے جنھوں نے پورے پاکستان اور بین الاقوامی مقابلوں میں نام کمایا اور خوشحالی زندگی گزاری اور کھیل کو فروغ بخشا ان ناموں میں ایک نام شیرمیر بحر کا بھی ہے جس نے اپنے فن کو بلندیوں تک پہنچایا اور بڑے بڑے انعامات حاصل کیے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ انھیں بھی لوگوں اورحکومت نے بھلادیا۔جب زندہ تھے تو سب ان کے گُن گاتے تھے مگردنیا سے چلے جانے کے بعد کوئی بھی انھیں یاد نہیں کرتا۔
شیر میر بحر 25 سال تک ملھ لڑتے رہے، کبھی بھی نہیں ہارے، مگر افسوس کہ وہ گمنامی کی قبر میں سورہے ہیں، اگر ہم اپنی ثقافتی کھیلوں کو اس طرح سے مٹا دیںگے تو پھر آہستہ آہستہ باقی ثقافتی اور فنی چیزیں مٹتی جائیںگی۔
شیر میر بحر نے خود بھی ملھ کے فروغ کے لیے کئی تنظیمیں پورے سندھ میں بنوائیں اور ملھ پہلوانوں کے لیے سہولتیں دلوائیں لیکن اس کی موت کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا۔ اس وقت بھی محکمہ اسپورٹس میں ملھ اور دوسری Indigenous کھیلوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے جب کہ ایم پی ایز اور ایم این ایز بھی انھیں علاقوں سے منتخب ہوکر آتے ہیں جہاں پر یہ کھیل زیادہ کھیلا اور پسند کیا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ہی ایک ایسے ہی عوامی لیڈر تھے جنھوں نے ملھ کو تسلیم کرتے ہوئے شیرمیر بحر کو قومی کوچ کا عہدہ دیا مگر جب بھٹو اس دنیا سے چلے گئے اور شیر میر بحر گردوں کی بیماری میں مبتلا ہوگئے تو انھیں وہاں سے ہٹایاگیا اورپھر کبھی پاکستان اسپورٹس بورڈ نے کسی کو یہ عہدہ نہیں دیا۔ شیر کو نوکری سے نکال دیا گیا اور ان کی بیماری کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ جب انھیں سول اسپتال کراچی میں داخل کیا گیا تو حکومت کی طرف سے کوئی بھی نہیں آیا اور نہ ہی کسی نے مالی مدد کی۔ آخر کار وہ 28 مارچ کو 1985ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔
شیر میر بحر نے ملھ کو باقاعدہ عملی طریقے سے اپنا بنانے کے لیے اس کی ابتدا لاڑکانہ ضلع کے شہر نتوڈیرو سے کی جہاں پر انھوں نے ہونے آل سندھ ملھ ملاکھڑوں میں چار نامور پہلوانوں کو ہراکر پورے سندھ میں نام پیدا کیا اس وقت احمد لہر، لال محمد پھل، پنجل مہر اور اقبال جوگی ملھ کے نامور پہلوان تھے جن کو ہرانا ایک بڑا کارنامہ تھا اس کے بعد ملھ کی دنیا کے وہ بادشاہ بن گئے اور کئی قومی اور بین الاقوامی مقابلے اور میڈل جیتے۔ 1962ء میں ہالا شہر میں ایک بین الاقوامی ملاکھڑے میں جس کے مہمان خصوصی مخدوم طالب مولا تھے انھوں نے چیکو سلوواکیا کے پہلوان زبیسکو کو ہراکر رستم سندھ کا ٹائٹل حاصل کیا۔ دوسرے بین الاقوامی ملاکھڑا جو 1963ء میں نیاز اسٹیڈیم حیدرآباد میں منعقد ہوا اس میں انھوں نے ہندوستان کے پہلوان ٹائیگر گورنام سنگھ کو ہرایا۔
شیر میر بحر نے ایک اور ملاکھڑے میں اپنا نام روشن کیا جو خیر پور میرس میں لکھی محل میں منعقد ہوا تھا جس میں اس وقت کے صدر محمد ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان بھی موجود تھے۔ اس مقابلے میں شیر میر بحر نے مسلسل تین نامور پہلوانوں کو چت کردیا یہ دیکھ کر ایوب خان نے اپنی نشست سے کھڑے کر ان کو داد دی اور کہا تم واقعی شیر ہو۔ اس کے علاوہ وہ کراچی اسٹیڈیم میں ہونے والے بین الاقوامی ملاکھڑے میں آسٹریلیا کے پہلوان آسٹن جو شیر میر بحر سے قد اور طاقت میں دوگنا تھا دونوں ہاتھوں میں اٹھایا اور گھما گھماکر نیچے گرادیا۔ یہ دیکھ کر وہاں پر موجود تماشائی بے خود ہوکر خوشی میں ناچنے لگے۔ میر بحر کی یہ عادت تھی کہ وہ مسلسل ملھ لڑتا تھا اور کبھی کبھی جاکر آرام نہیں کرتا اپنے ایک حریف کو ہراکر دوسرے کا انتظار وہیں پرکرتا تھا اس پر ملاکھڑا دیکھنے والے نوٹوں کی بارش کردیتے تھے۔
میری یہ خواہش تھی کہ اس ملھ پہلوان کا ایک گوشہ سندھیالوجی میں کھولاجائے اور ان کی پگڑی، کپڑے، کمر سے باندھنے والے اجرک، اس کے سینے میں بندھا ہوا تعویز اور ان کے ایوارڈز، سرٹیفکیٹ وہاں رکھے جائیں تاکہ وہاں پر آنے والے لوگ اپنے ہیرو کی چیزیں دیکھ کر خوش ہوں۔ اس کے علاوہ میری حکومت سے یہ مودبانہ گزارش ہے کہ وہ شیر میر بحرکی قبر کی مرمت کروائیں اور وہاں پر چھوٹا سا مقبرہ بنوائیں۔ ہر سال ان کی برسی یا سالگرہ منائی جائے ان کے نام پر ہر سال ایک ملاکھڑا منعقد کروایا جائے جہاں پر ان کے نام سے کچھ ایوارڈ دیے جائیں اس کے علاوہ ان کے نام سے کبھی سیمینار اور کبھی کوئی کانفرنس یا تقریب کروائی جائے جس سے ہم نہ صرف اپنے ہیرو کو خراج عقیدت پیش کرسکیںگے بلکہ ملھ اور ملاکھڑوں کی پروموشن ہوگی، مزید یہ بھی ہو کہ ان کے بچوں کو ملازمتیں دی جائیں تاکہ ایک ہیرو کے بچے کسمپرسی کی زندگی سے دور رہیں۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ 14 اگست یا پھر 23 مارچ کے موقعے پر شیر میر بحر صدارتی ایوارڈ کے لیے نام بھیجیں جو اس کا حق ہے اگر مزید کچھ ہوسکے تو اس کے نام پر ایک اسٹیڈیم بھی بنایاجائے۔
شیر میر بحر نے اپنے کوچ ہونے کی وجہ سے ملھ کی فروغ کے لیے ایک ملھ ایسوسی ایشن بنائی جس کے صدر جان محمد صابرو اور جنرل سیکریٹری، غلام سرور جتوئی تھے جو اس وقت کے بڑے پائے کے ملھ تھے۔ یہ شیر کی ہی کاوشیں تھیں کہ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں جو بین الاقوامی ملاکھڑا 1974ء میں ہوا تھا اس کی LIVE کوریج پی ٹی وی نے کی تھی اور پہلی مرتبہ یہ پروگرام LIVE دکھایا گیا۔
شیر میر بحر کا اصلی نام علی شیر تھا جو تعلقہ کنڈیارو کے گاؤں مسعودیرو ضلع نوابشاہ میں 26-06-1924 کو علی محمد کے گھر میں پیدا ہوئے تھے انھیں بچپن ہی سے ملھ کے ساتھ بڑی دلچسپی تھی، جس کی وجہ سے انھوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ انھوں نے دو شادیاں کیں جن میں سے سات بیٹے اور تین لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ ان کے بیٹے شہاب الدین نے ایک شیر میر بحر یادگار کمیٹی بنائی ہے مگر مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی خاص کام نہیں ہوسکا ہے۔
میں اس سلسلے میں ایک عرض کروںگا کہ سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاست کے علاوہ سماجی، علمی، ادبی، ثقافتی اور کھیل کی طرف بھی توجہ دیں اور صوبے کے ہیروز کو زندہ اور یاد رکھنے کے لیے ایسے لوگوں کو آگے لایا جائے جنھیں ان کاموں سے خاص دلچسپی ہو ورنہ ہم اپنی شناخت کھو ڈالیںگے۔ ہم اور ہماری زبان تہذیب اور ہمارے ہیروزکو بچانا ہوگا۔ اس سلسلے میں ہمارے ادیب، صحافی، شاعر، مفکر، محقق، سماجی ورکرز اورعلمی شعور رکھنے والے بھی اپنا کردار ادا کریں کیونکہ یہ سب کا مشترکہ ورثہ ہے۔
ماضی کے کئی ملھ پہلوان تھے جنھوں نے پورے پاکستان اور بین الاقوامی مقابلوں میں نام کمایا اور خوشحالی زندگی گزاری اور کھیل کو فروغ بخشا ان ناموں میں ایک نام شیرمیر بحر کا بھی ہے جس نے اپنے فن کو بلندیوں تک پہنچایا اور بڑے بڑے انعامات حاصل کیے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ انھیں بھی لوگوں اورحکومت نے بھلادیا۔جب زندہ تھے تو سب ان کے گُن گاتے تھے مگردنیا سے چلے جانے کے بعد کوئی بھی انھیں یاد نہیں کرتا۔
شیر میر بحر 25 سال تک ملھ لڑتے رہے، کبھی بھی نہیں ہارے، مگر افسوس کہ وہ گمنامی کی قبر میں سورہے ہیں، اگر ہم اپنی ثقافتی کھیلوں کو اس طرح سے مٹا دیںگے تو پھر آہستہ آہستہ باقی ثقافتی اور فنی چیزیں مٹتی جائیںگی۔
شیر میر بحر نے خود بھی ملھ کے فروغ کے لیے کئی تنظیمیں پورے سندھ میں بنوائیں اور ملھ پہلوانوں کے لیے سہولتیں دلوائیں لیکن اس کی موت کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا۔ اس وقت بھی محکمہ اسپورٹس میں ملھ اور دوسری Indigenous کھیلوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے جب کہ ایم پی ایز اور ایم این ایز بھی انھیں علاقوں سے منتخب ہوکر آتے ہیں جہاں پر یہ کھیل زیادہ کھیلا اور پسند کیا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ہی ایک ایسے ہی عوامی لیڈر تھے جنھوں نے ملھ کو تسلیم کرتے ہوئے شیرمیر بحر کو قومی کوچ کا عہدہ دیا مگر جب بھٹو اس دنیا سے چلے گئے اور شیر میر بحر گردوں کی بیماری میں مبتلا ہوگئے تو انھیں وہاں سے ہٹایاگیا اورپھر کبھی پاکستان اسپورٹس بورڈ نے کسی کو یہ عہدہ نہیں دیا۔ شیر کو نوکری سے نکال دیا گیا اور ان کی بیماری کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ جب انھیں سول اسپتال کراچی میں داخل کیا گیا تو حکومت کی طرف سے کوئی بھی نہیں آیا اور نہ ہی کسی نے مالی مدد کی۔ آخر کار وہ 28 مارچ کو 1985ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔
شیر میر بحر نے ملھ کو باقاعدہ عملی طریقے سے اپنا بنانے کے لیے اس کی ابتدا لاڑکانہ ضلع کے شہر نتوڈیرو سے کی جہاں پر انھوں نے ہونے آل سندھ ملھ ملاکھڑوں میں چار نامور پہلوانوں کو ہراکر پورے سندھ میں نام پیدا کیا اس وقت احمد لہر، لال محمد پھل، پنجل مہر اور اقبال جوگی ملھ کے نامور پہلوان تھے جن کو ہرانا ایک بڑا کارنامہ تھا اس کے بعد ملھ کی دنیا کے وہ بادشاہ بن گئے اور کئی قومی اور بین الاقوامی مقابلے اور میڈل جیتے۔ 1962ء میں ہالا شہر میں ایک بین الاقوامی ملاکھڑے میں جس کے مہمان خصوصی مخدوم طالب مولا تھے انھوں نے چیکو سلوواکیا کے پہلوان زبیسکو کو ہراکر رستم سندھ کا ٹائٹل حاصل کیا۔ دوسرے بین الاقوامی ملاکھڑا جو 1963ء میں نیاز اسٹیڈیم حیدرآباد میں منعقد ہوا اس میں انھوں نے ہندوستان کے پہلوان ٹائیگر گورنام سنگھ کو ہرایا۔
شیر میر بحر نے ایک اور ملاکھڑے میں اپنا نام روشن کیا جو خیر پور میرس میں لکھی محل میں منعقد ہوا تھا جس میں اس وقت کے صدر محمد ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان بھی موجود تھے۔ اس مقابلے میں شیر میر بحر نے مسلسل تین نامور پہلوانوں کو چت کردیا یہ دیکھ کر ایوب خان نے اپنی نشست سے کھڑے کر ان کو داد دی اور کہا تم واقعی شیر ہو۔ اس کے علاوہ وہ کراچی اسٹیڈیم میں ہونے والے بین الاقوامی ملاکھڑے میں آسٹریلیا کے پہلوان آسٹن جو شیر میر بحر سے قد اور طاقت میں دوگنا تھا دونوں ہاتھوں میں اٹھایا اور گھما گھماکر نیچے گرادیا۔ یہ دیکھ کر وہاں پر موجود تماشائی بے خود ہوکر خوشی میں ناچنے لگے۔ میر بحر کی یہ عادت تھی کہ وہ مسلسل ملھ لڑتا تھا اور کبھی کبھی جاکر آرام نہیں کرتا اپنے ایک حریف کو ہراکر دوسرے کا انتظار وہیں پرکرتا تھا اس پر ملاکھڑا دیکھنے والے نوٹوں کی بارش کردیتے تھے۔
میری یہ خواہش تھی کہ اس ملھ پہلوان کا ایک گوشہ سندھیالوجی میں کھولاجائے اور ان کی پگڑی، کپڑے، کمر سے باندھنے والے اجرک، اس کے سینے میں بندھا ہوا تعویز اور ان کے ایوارڈز، سرٹیفکیٹ وہاں رکھے جائیں تاکہ وہاں پر آنے والے لوگ اپنے ہیرو کی چیزیں دیکھ کر خوش ہوں۔ اس کے علاوہ میری حکومت سے یہ مودبانہ گزارش ہے کہ وہ شیر میر بحرکی قبر کی مرمت کروائیں اور وہاں پر چھوٹا سا مقبرہ بنوائیں۔ ہر سال ان کی برسی یا سالگرہ منائی جائے ان کے نام پر ہر سال ایک ملاکھڑا منعقد کروایا جائے جہاں پر ان کے نام سے کچھ ایوارڈ دیے جائیں اس کے علاوہ ان کے نام سے کبھی سیمینار اور کبھی کوئی کانفرنس یا تقریب کروائی جائے جس سے ہم نہ صرف اپنے ہیرو کو خراج عقیدت پیش کرسکیںگے بلکہ ملھ اور ملاکھڑوں کی پروموشن ہوگی، مزید یہ بھی ہو کہ ان کے بچوں کو ملازمتیں دی جائیں تاکہ ایک ہیرو کے بچے کسمپرسی کی زندگی سے دور رہیں۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ 14 اگست یا پھر 23 مارچ کے موقعے پر شیر میر بحر صدارتی ایوارڈ کے لیے نام بھیجیں جو اس کا حق ہے اگر مزید کچھ ہوسکے تو اس کے نام پر ایک اسٹیڈیم بھی بنایاجائے۔
شیر میر بحر نے اپنے کوچ ہونے کی وجہ سے ملھ کی فروغ کے لیے ایک ملھ ایسوسی ایشن بنائی جس کے صدر جان محمد صابرو اور جنرل سیکریٹری، غلام سرور جتوئی تھے جو اس وقت کے بڑے پائے کے ملھ تھے۔ یہ شیر کی ہی کاوشیں تھیں کہ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں جو بین الاقوامی ملاکھڑا 1974ء میں ہوا تھا اس کی LIVE کوریج پی ٹی وی نے کی تھی اور پہلی مرتبہ یہ پروگرام LIVE دکھایا گیا۔
شیر میر بحر کا اصلی نام علی شیر تھا جو تعلقہ کنڈیارو کے گاؤں مسعودیرو ضلع نوابشاہ میں 26-06-1924 کو علی محمد کے گھر میں پیدا ہوئے تھے انھیں بچپن ہی سے ملھ کے ساتھ بڑی دلچسپی تھی، جس کی وجہ سے انھوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ انھوں نے دو شادیاں کیں جن میں سے سات بیٹے اور تین لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ ان کے بیٹے شہاب الدین نے ایک شیر میر بحر یادگار کمیٹی بنائی ہے مگر مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی خاص کام نہیں ہوسکا ہے۔
میں اس سلسلے میں ایک عرض کروںگا کہ سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاست کے علاوہ سماجی، علمی، ادبی، ثقافتی اور کھیل کی طرف بھی توجہ دیں اور صوبے کے ہیروز کو زندہ اور یاد رکھنے کے لیے ایسے لوگوں کو آگے لایا جائے جنھیں ان کاموں سے خاص دلچسپی ہو ورنہ ہم اپنی شناخت کھو ڈالیںگے۔ ہم اور ہماری زبان تہذیب اور ہمارے ہیروزکو بچانا ہوگا۔ اس سلسلے میں ہمارے ادیب، صحافی، شاعر، مفکر، محقق، سماجی ورکرز اورعلمی شعور رکھنے والے بھی اپنا کردار ادا کریں کیونکہ یہ سب کا مشترکہ ورثہ ہے۔