کرپشن کیونکر

کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کی برائی نہیں بلکہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔


Zuber Rehman August 31, 2016
[email protected]

کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کی برائی نہیں بلکہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ طبقاتی نظام میں جب ایک طبقہ دوسرے طبقے کا استحصال کرتا ہے تو نتیجتاً ایک جانب دولت کا انبار اور دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کا انبوہ اکٹھا ہو جاتا ہے۔ کرپشن کی عمومی طور پر دو اقسام ہوتی ہیں۔

ایک کالا دھن اور دوسرا سفید۔ کالے دھن میں منشیات کی پیداوار اور تجارت، اسلحہ سازی، اسمگلنگ، رشوت، ریبیٹ، کک بیکس اورکمیشن وغیرہ اور سفید دھن میںشریفانہ طور پر دولت بٹورنا، جیسا کہ پانچ کروڑ کی ز مین پا نچ لا کھ میں خرید کر دس کروڑ میں فروخت کرنا، منی لانڈرنگ، سونے اور ڈالرکا لین دین، چپراسی کو ڈائریکٹر بنانا، میٹرک پاس کو وزیرتعلیم بنانا، چپکے سے آف شورکمپنیوں میں رقم رکھنا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب لوگ الحاج، شرفاء اور خاندانی کہلاتے ہیں، جب کہ چھوٹی چھوٹی چوری کرنے، بٹوا، موبائل اور موٹربائک چھیننے والا ڈاکو،چور اور بھوک سے تنگ آ کرجسم فروشی کرنے والی عورت طوائف کہلاتی ہیں، بھوک اور بیروزگاری سے تنگ آ کرخودکشی کرنے والوں کی موت کو ''حرام موت'' کہا جاتا ہے، جب کہ ملکی مسائل کے اصل ذمے دار پارلیمنٹ کے بیشتر اراکین، دانشور، میڈیا پرسنز، علماء، جاگیردار، سرمایہ دار اور نوکر شاہی ہیں۔

ہمیں انصاف فتوے، مشورے، فیصلے دیکر وہ شرفاء اور مخیر حضرات کہلاتے ہیں۔ دوچارمثالیں کافی ہیں۔ حکمرانوں کی اولاد کے پاس آف شورکمپنیوں کی رقوم کہاں سے آئیں؟ سابق آرمی چیف کے بھائی کہاں سے ارب پتی ہو گئے۔ معمولی صحافی کیسے لکھ پتی ڈائریکٹر بن جاتے ہیں۔ ایک سائیکل سوار مولوی پیجیرو میں کیسے گھومتا ہے، کسی کے پاس ہزاروں ایکڑ زمین کہاں سے آ جاتی ہے۔ کیسے ارب پتی بن جاتے ہیں؟ سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا کچھ ہونا معمول کی بات ہے۔ یہ طبقاتی لوٹ مار صرف پاکستان میں نہیں بلکہ ساری دنیا امریکا، برطانیہ، جرمنی، جاپان، چین، ہندوستان، جنوبی افریقہ، برازیل ہر جگہ ہوتی ہے، اسی کو سرمایہ داری کہتے ہیں۔ اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن ختم نہیںہو سکتی، ختم ہو گی تو صرف انقلاب کے ذریعے۔

اب آئیے ذرا ایک بڑے شہر کراچی کے بنیادی سماجی ادارے بلدیاتی نظام کی کرپشن پر ایک نظر ڈالیں۔ بلدیاتی نظام پر نظر ڈالنے سے سرمایہ داری کی ایک جھلک نظرآ جائے گی۔ بلدیہ کے بہت سے ذیلی ادارے ہو تے ہیں۔ جن میںفائربریگیڈ، ٹیکنیکل سروسز، باغات، سیوریج، ہیریٹیج وغیرہ وغیرہ۔ اے ڈی پی کا اربوں روپے کا بجٹ ہوتا ہے۔ پھراضلاع کے لیے اربوں روپے کا بجٹ ایڈمنسٹریٹر کی صوابدید پر ہوتا ہے۔ جب وہ ٹھیکا دیتا ہے تو پانچ دس فیصد کل رقم میں سے رشوت لیتا ہے، جس کی وجہ سے تعمیرات ہوں، پل ہو یا سڑک، کمزور اور ناکارہ رہ جاتے ہیں۔

پلون کے گرنے کے سانحات ہو چکے ہیں، شیر شاہ کا پل یاد کیجیے۔ شاہ فیصل کالونی سے کورنگی تک ندی پر سے گزرنے والا پل جو ڈیڑھ ارب رو پے کی لاگت سے بنا اس میں کروڑوں رو پے کی مبینہ خورد برد ہوئی، اب بھی اس کی حالت خراب ہے، مختلف جگہوں پہ دراڑیں پڑ گئی ہیں جو کسی بھی وقت گر سکتا ہے۔ شہر قائد کے سب سے بڑے ریلوے اسٹیشن کے سامنے سے گزرنے والی سڑک کی ناگفتہ حالت دیکھیے۔ آگ بجھا نے کا طریقہ کار بھی ہمارے ہاں انتہائی ناقص ہے، اگر پٹرول سے آگ لگے تو اسے فوم کیمیکل کے ذریعے بجھایا جاتا ہے جب کہ یہ ہمیں دستیاب ہی نہیں ۔ منی بسوں اور کوچز مین سی این جی کے سیلنڈر لیڈیز کمپارٹمنٹ میں رکھے ہوتے ہیں ، بدترین ٹریفک اور ٹرانسپورٹ سسٹم ہے۔

ابھی حال ہی میں ٹائر فیکٹری میں آگ لگی تو آگ بجھانے کا کیمیکل ہی موجود نہیں تھا۔ ڈیلیوشن منصوبے کے ذریعے کروڑوں روپے کے ترقیاتی کام کے لیے دوسرے اداروں (محکمہ تعلیم وغیرہ) سے ٹینڈر کرانے میں بھی بڑے پیمانے پر کمیشن وصول کیا گیا جس میں کئی افسران شریک کار ہیں۔ ماڈل کالونی اور ملیر پندرہ نمبرکے پل کی تعمیر کے ٹینڈرکی ڈیل دبئی میں ہوئی، ان پلوں کی تعمیر میں کروڑوں روپے کی رشوت ایک سابق وزیر نے وصول کی۔ ایک ایک شعبے میں کروڑوں روپے کی رشوت دی جا رہی ہیں جس کی کو ئی تحقیق نہیں ہوئی۔ خود ساختہ تنظیمیں بنا کر اس میں پیسے ڈال کرکام چلا تے ہیں۔ اٹھارہ دسمبر دوہزار پندرہ کے ایک روزنامے کی ایک رپورٹ کے مطابق واٹربورڈ کے ڈپٹی ایم ڈی کی تقرری کے لیے ڈھائی کروڑ روپے کی رشوت لینے کے کا معاملہ سامنے آیا۔ ایک افسرکو گزشتہ حکومت کے دور میں کئی سال تک عہدے پر تعینات نہیں کیا گیا، چند سال قبل مذکورہ افسر نے اپنی تقرری کے لیے کچھ سفارشیں کرائیں۔

اس وقت کے وزیر نے مشروط طور پر ان کی تقرری کی حامی بھر لی جس کے اگلے روز واٹر بورڈ میں موجود ان کے ایک فرٹ مین نے ڈھائی کروڑ روپے کے عوض افسر کو ڈپٹی ایم ڈی کا عہدہ دینے کا وعدہ کر لیا۔ طریقہ کار کے مطابق یہ رقم واٹر بورڈ کے تین مختلف ٹھیکیداروں کے ذریعے ادا کرنے کا انتظام کروایا گیا، کراچی کے انڈسٹریل ایریا میں چوری کے پانی کا نظام چلانے والے ایک ٹھیکیدار نے ایک کروڑ روپے کی ادائیگی کی اور دوسرے صنعتی علا قے کا پانی کا دوسرا نیٹ ورک چلانے والی ایک مافیا نے مزید ایک کروڑ روپے کا بندوبست کیا جب کہ ہائیڈرینٹ مافیا کے ایک کارندے نے چالیس لاکھ رو پے ادا کیے۔ یہ ادائیگیاں ہوتے ہی اس افسرکو مختلف ٹھکیداروں اور گروپزکی جا نب سے ماہانہ پانچ دس لاکھ روپے کی وصولیاں شروع ہوگئیں۔

جن لو گوں سے ایک ایک کروڑ روپے وصول کرائے گئے انھوں نے ایک سال تک ڈپٹی ایم ڈی کوکوئی ادائیگی نہیں کرنی تھی بلکہ مذکورہ افسر نے اس رقم کے عوض ایک سال تک ان کے معاملات کا تحفظ کرنا تھا، لیکن سازشی ما فیا کے ایما پر عدالتی آرڈر کا بہانہ کر کے دو ڈھائی مہینے بعد ہی افسرکو عہدے سے ہٹا دیا گیا، بعد میں ان کے ایما پر ادائیگیاں کرنے والے واٹرمافیا کے لوگ ان سے ادائیگی کے لگ بھگ دوکروڑ روپے واپس لینے کے لیے سرگرم ہو گئے۔ یوں افسرکی حالت غیر ہو گئی اور انھیں دل کا دورہ پڑا پھر انھیں اسپتال سے ان کے گھر منتقل کر دیا گیا ۔ اس کے بعد بورڈ کے افسران پھولوں کے گلدستے لے کر ان کے گھر پہنچے یعنی انھیں ادائیگی کا یاد دلانا تھا پھر انھیں دوبارہ دل کا دورہ پڑا اور وہ انتقال کر گئے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا ہی ہوتا ہے، ہاں مگر لوٹ مارکا پیمانہ الگ الگ ہوتا ہے، اگر ہندوستان میں چوون ارب پتی ہیں تو چونتیس کروڑ بے روزگار، چین میں صرف پیپلزاسمبلی میں تراسی ارب پتی ہیں تو ستائیس کروڑ بے روزگار۔ ان کرپشنوں اور لوٹ مارکے نجات کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے غیر طبقاتی یا امداد باہمی کا سماج یا کمیونسٹ نظام۔ اگرآپ اس نظام کا نام الف یا بے رکھ دیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، شرط یہ ہے کہ طبقات نہ ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔