نادرا کی ’’نادر شاہی‘‘

قومی شناختی کارڈ کے لیے شہریوں کے ساتھ ہتک آمیز رویے کا ذمے دار کون؟

قومی شناختی کارڈ کے لیے شہریوں کے ساتھ ہتک آمیز رویے کا ذمے دار کون؟ ۔ فوٹو : فائل

کراچی کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو بہت جلد یہ آبادی حیدرآباد سے جاملے گی۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی کا یہ شہر ملک کے ہر حصے سے آئے ہوئے لوگوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے اور اسی لیے منی پاکستان کہلاتا ہے۔ شہر کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اسی تناسب سے یہاں مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

جہاں شہریوں کو پینے کے صاف پانی کے حصول میں دشواری کا سامنا ہے وہیں نکاسی کا نظام بھی درہم برہم ہے۔ ٹرانسپورٹ کے مسائل بھی روز بہ روز بڑھ رہے ہیں۔ آلودگی نے بھی اس شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

حالیہ ہونے والی بارش نے بھی ہمارے اداروں کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔ شہر کے بعض علاقوں میں حصول شناختی کارڈ کی بگڑتی ہوئی صورت حال بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ تمام اور ایسے دیگر مسائل کو حل کرنے کی ذمے داری حکومت پر عاید ہوتی ہے جب کہ کراچی میں کئی شہری، صوبائی اور وفاقی محکمے پھیلے ہوئے ہیں اور حکومت اور شہری خدمت پر مامور ان اداروں کے درمیان رابطہ اور نظم و ضبط دیکھنے میں نہیں آتا۔ اب جب کہ میئر کراچی کا انتخاب ہوچکا ہے لیکن وہ جیل میں ہیں، آئندہ کیا صورت حال بنے گی اس کے لیے وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔

عوام بنیادی مسائل کے حل کے لیے وفاقی اداروں میں بھی جوتیاں چٹخا رہے ہیں، جس کی حالیہ مثال کراچی کے وہ شہری ہیں جو حصول شناختی کارڈ کے لیے گھنٹوں لمبی قطار میں کھڑے رہنے کے بعد مایوس اور محروم گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔ اگرچہ شہر کی دیگر مضافاتی بستیوں میں نادرا دفاتر موجود ہیں، پھر بھی عوام در بہ در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ سچ یہ ہے کہ جس ملک کے حکم ران و عوامی نمائندے بے ضمیر اور کرپٹ ہوں گے وہاں کی عوام بھی بے سہارا اور لاوارث ہوتی ہے۔

اسی قسم کی کچھ صورت حال سرجانی ٹاؤن نادرا آفس کی بھی ہے جہاں عوام کی لمبی قطاریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ قومی شناختی کارڈ کا حصول کتنا مشکل کام بن گیا اس کا اندازہ قطار میں موجود لوگ ہی لگا سکتے ہیں۔ آگ برساتے سورج اور شدید گرمی میں حصول شناختی کارڈ کی امید لیے شہری جب نادرا آفس کے سامنے لمبی قطار میں طویل انتظار کے بعد اپنی باری پر کاؤنٹر پر پہنچتا ہے اور جب کاغذات جمع کروانے کا وقت آتا ہے تو کوئی نہ کوئی کمی بتا کر اسے مایوس کردیا جاتا ہے۔

دوسری جانب تجدید کرانے پر بھی نادرا کا عملہ اعتراض لگا کر سائل کو بھگا دیتا ہے، زیادہ اصرار کرنے پر دادا، پردادا یا 1974 کے زمانے کا شناختی کارڈ طلب کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں عوام دوسرا راستہ اختیار کرنے پر مجبور اور ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ نادرا اسٹاف شناختی کارڈ میں کسی غلطی کو درست کرنا اپنے لیے گالی سمجھتا ہے۔ لاکھوں پاکستانیوں کو غلطیوں سے پُر شناختی کارڈ تھما دیے گئے ہیں، مگر نادرا سے کوئی جواب طلب کرنے والا نہیں۔

کورنگی ٹاؤن کے اقبال کھوکھر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے شناختی کارڈ کے اجرا اور اپنے شناختی کارڈ جس کی معیاد ختم ہوچکی ہے یا شناختی کارڈ میں کسی قسم کی ترمیم کے لیے نادرا حکام کے تمام تر مطالبات مثلاً پرانا 72-70 کا شناختی کارڈ، میٹرک کا سرٹیفکیٹ، برتھ سرٹیفکیٹ، ڈومیسائل، والدین کے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویز کی فراہمی کے باوجود بچوں کے (ب) فارم، شادی کے بعد کا شناختی کارڈ شوہر کے نام کا اندراج اور 18 سال کے بعد نئے شناختی کارڈ کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔


تاہم صبح سویرے لائن میں دھکے کھانے کے بعد کھڑکی پر پہنچ کر بوڑھوں، خواتین اور نوجوانوں سے طرح طرح کے سوالات اور جھڑکیاں عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ کیا ہم پاکستانی نہیں ہیں۔ اقبال کھوکھر کا کہنا ہے کہ اگر کسی طرح شناختی کارڈ کا فارم جمع ہوجائے بھی تو علاقہ ممبر، قومی و صوبائی اسمبلی، کونسلرز و دیگر 18 گریڈ کے افسران سے تصدیق شدہ ہونے پر 45 دن کے بعد شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لیے جب نادرا کے دفتر سے رجوع کیا جائے تو طرح طرح اعتراضات لگاکر درخواست مسترد کردی جاتی ہے۔ میں وزیر داخلہ اور دیگر اعلیٰ حکام نادرا کے افسران بالا سے گزارش کرتا ہوں کہ ہماری UC-5 سو کوارٹر کورنگی کے غریب اور بے بس عوام کے خلاف نادرا آفس کی زیادتیوں کا سختی سے نوٹس لیں اور عوام میں پھیلی بے چینی کو ختم کیا جائے۔

نادرا کے کارناموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کامران رسول ولد فیض رسول سکنہ گلستان جوہر کو ملک سے باہر روزگار کے سلسلے میں دبئی جانے کی پیش کش ہوئی، اس سلسلے کی تمام قانونی دستاویزات مکمل کرلی گئیں۔ آخر میں معاملہ شناختی کارڈ پر آکر رکا، پتا چلا کہ جناب نادرا کے ریکارڈ میں بیوی کے شوہر ہیں۔

 

پورا خاندان یہ سن کر حیرت زدہ رہ گیا اور سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ایک کنوارہ شخص جس کی ابھی شادی ہی نہیں ہوئی کو کس خوب صورتی سے نادرا آفس کے قابل عملے نے شادی شدہ بنادیا۔ بہ ہر حال عادت سے مجبور نادرا آفس کا عملہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے کامران کو ہی قصور وار قرار دے رہا ہے اور اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں۔ اب معاملہ حلف نامے، آفس کے چکر اور مالی نقصان سمیت مختلف قسم کی انکوائری کا سامنا کرنے کے بعد ہر قسم کی تصدیق کے باوجود نادرا عملہ ابھی تک غلطی کو درست کرنے میں ناکام ہے۔

شناختی کارڈ بنانے والے نادرا کے بارے میں عوامی شکایات بڑھتی جارہی ہیں جب کہ نادرا حکام ان شکایات پر کوئی نوٹس لیتے دکھائی نہیں دیتے۔ نادرا کے شعبہ تصدیق کی جانب سے بروقت عمل در آمد نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں نئے شناختی کارڈ زیر التوا ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نادرا کے ویری فیکیشن ڈپارٹمنٹ اسلام آباد میں ہزاروں کی تعداد میں نئے شناختی کارڈ بنانے والوں کا ڈیٹا پڑا ہوا ہے ان میں سے زیادہ تر ایسے لوگوں کی درخواستیں ہیں جن کی فیملی کے اکثر ممبران کے نئے شناختی کارڈ بن چکے ہیں مگر تصدیق کا عمل بروقت مکمل نہیں ہورہا۔

لوگ جب اپنے نئے شناختی کارڈ کے بارے میں نادرا کے دفتر میں رابطہ کرتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ ابھی اسلام آباد سے تصدیق کا عمل مکمل نہیں ہوا جب مکمل ہوجائے تو کارڈ بھی آجائے گا۔ نادرا حکام کا کہنا ہے کہ شناختی کارڈ بنانے سے قبل تصدیق کا عمل لازمی ہے جب تک یہ عمل مکمل نہیں ہوتا کارڈ جاری نہیں ہوتا ہے لہٰذا تصدیق اس لیے لازمی ہے کہ لوگوں نے بڑی تعداد میں جعلی شناختی کارڈ بنوا لیے ہیں۔ تاہم قومی شناختی کارڈ پاکستانی شہری کا حق ہے لیکن اس کے حصول کی راہ میں حائل دشواریوں نے اسے کافی مشکل بنادیا ہے۔ نادرا کا ادارہ قائم کرتے وقت کہا گیا تھا کہ اب جعلی شناختی کارڈ نہیں بنیں گے اور شہریوں کو کارڈ آسانی سے دست یاب ہوگا، لیکن یہ دونوں باتیں غلط ثابت ہوئیں، جعلی شناختی کارڈ بھی بن رہے ہیں اور اصل شناختی کارڈ کا حصول بھی کافی مشکل ہے۔

نادرا کے دفاتر میں جو اسٹاف رکھا گیا ہے وہ شہریوں کو صحیح راہ نمائی نہیں کرتا جس کی بنا پر شناختی کارڈ میں غلطیوں کی شکایات بھی عام ہیں۔ سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ نادرا حکام کو اس ضمن میں کوئی سادہ اور آسان طریقہ کار بنانا چاہیے جس سے شہری قومی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے خوار نہ ہوتے پھریں۔ جب کہ دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کے پرانے شناختی کارڈ میں غلطیاں تھیں ان کے لیے کسی طرح کی راہ نمائی موجود نہیں ہے اور جس طرح پرانے شناختی کارڈ غلط نام پتے اور عمر کے بنے تھے ویسے ہی اب بن بھی رہے ہیں۔ نادرا حکام کو اس جانب توجہ دیتے ہوئے شہریوں کی درست راہ نمائی کے لیے تربیت یافتہ اسٹاف کی ضرورت ہے۔
Load Next Story