سرمایۂ سخن
پہلی منزل شعر فہمی ہے، لطف اندوزی آگے کی منزل ہے۔ یہ اُداس جمال کی پہلی سطح ہے۔
مئی جون 1968ء کی بات ہے علی سردار جعفری کو دل کی تکلیف شروع ہوئی اور انھیں اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ کچھ دن بعد گھر آگئے لیکن ڈاکٹر نے دو تین مہینے آرام کرنے کی ہدایت کی۔ جبری آرام کے اس زمانے میں انھوں نے اپنے حافظے کا امتحان لیا اور بستر پر لیٹے لیٹے وہ تمام اشعار لکھ ڈالے جو بچپن سے یاد تھے اور بیت بازی میں کام آتے تھے۔
ان میں نئے اشعار بھی شامل ہوگئے جو عمر کے ساتھ دل کے خزانے میں جمع ہوتے رہے تھے۔ یہ اچھی خاصی فہرست تھی۔ اس وقت انھیں اُردو اشعار کی ایک لغت تیار کرنے کا خیال آیا۔ ایسی کوئی لغت پہلے سے تھی بھی نہیں۔ اس کی افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ چنانچہ انھوں نے یہ کام شروع کردیا۔ اس کام کے لیے انھیں دو برس کی جواہر لال نہرو فیلو شپ بھی مل گئی۔ لغت کا عنوان انھوں نے ''سرمایۂ سخن'' رکھا اور پہلی جنوری 1969ء کو اس کا پہلا لفظ لکھا۔
آخری لفظ لکھنے کا وقت نہیں آیا کیونکہ اس سے پہلے وہ اس دنیا سے چلے گئے۔ اپنے انتقال سے پہلے انھوں نے ''سرمایۂ سخن'' کی پہلی جلد مکمل کرلی تھی اور دوسری جلد کی تیاری میں مصروف تھے۔ تقریباً ڈیڑھ سو صفحے لکھ بھی لیے تھے۔''سرمایۂ سخن'' کے بارے میں ان کا جو تصور تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا تھا۔ ''اُردو زبان کے پاس ایک خزانہ ہے جو پوری طرح دریافت نہیں کیا گیا ہے۔ یہ ان جواہر پاروں سے بھرا ہوا ہے جنھیں شاعرانہ الفاظ اور تراکیب کہتے ہیں۔ اُردو شاعری کی پیکر تراشی کی یہ نادر مثالیں ہیں۔ ان کی تعداد کا کوئی صحیح اندازہ نہیں کیونکہ یہ پیکر یا شاعرانہ الفاظ بڑے پیمانے پر کسی لغت میں جمع نہیں کیے گئے ہیں۔
''سرمایۂ سخن'' ایک مختصر لغت ہے۔ ایک بڑے کام کی چھوٹی سی ابتداء۔ اس میں تقریباً بیس ہزار الفاظ اور تراکیبیں چند شعراء کے منتخب کلام سے جمع کی گئی ہیں، لیکن اگر پوری اُردو شاعری سے انتخاب کیا جائے تو تعداد چار پانچ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ شعری پیکر تشبیہوں اور استعاروں سے بھی بنتے ہیں اور مرکب الفاظ سے بھی۔ بسا اوقات ایک ہی تنہا لفظ پیکر بن جاتا ہے۔ اس کے اِرد گرد اور بھی پیکر جمع کیے جاسکتے ہیں اور شعر کئی پیکروں کے گلدستے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یہ جواہر سخن ہمارے قدیم اور جدید شعراء کے تخیل نے تراشے ہیں۔ میں نے اس لغت کی تیاری میں یہ محسوس کیا کہ اپنے عہد کے ہم عصر شعراء کو ناقابلِ اعتنا سمجھنا غلط ہے۔
لفظ کی تخلیق کا سلسلہ جاری ہے اور آئندہ یہ رفتار اور تیز ہوجائے گی۔ اس لیے اساتذہ کے ساتھ آج کے جدید شعراء کے یہاں سے بھی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ان کی صناعی کا معیار کلاسیکی صناعی سے مختلف ہے، لیکن پھر بھی صناعی ہے۔ اگر سراج اورنگ آبادی نے ''شاخ نہال غم'' کی ترکیب دی ہے تو فیضؔ نے ''یہ رات اس درد کا شجر ہے جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے'' کہا ہے۔ اگر غالب نے ''نوبہار ناز'' سے دل کی شگفتگی کا سامان کیا ہے تو غالب کے پرستار مجازؔ نے ''شر ناز لالہ رخ'' سے دلوں میں چراغاں کیا ہے۔
''سو رہی ہے گھنے درختوں پر، چاند کی تھکی ہوئی آواز'' فیض کا نیا انداز ہے اور ''پتیوں کی پلکوں پر اوس جگمگاتی ہے'' سردار جعفری کی نئی پیکر تراشی ہے۔ پہلے اس شاعری کی جنت میں صرف حوریں تھیں، اب ہماری شاعری میں اپسرائیں بھی رقص کر رہی ہیں۔ مانی و بہزاد کے نگار خانوں کا ذکر ذرا کم ہوگیا ہے''۔
اس کتاب میں لغت نویسی کے آداب کی پوری پابندی نہیں کی گئی ہے کیونکہ یہ کسی فرہنگ نویس کی نہیں، ایک شاعر کی لکھی ہوئی لغت ہے جو اپنے ذوقِ سخن کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ''سرمایۂ سخن'' میں الفاظ اور تراکیب کو حروف تہجی کی ترتیب سے لکھا گیا ہے۔ سیدھے سادھے معنی کے ساتھ اشعار سے مثالیں دی گئی ہیں اور حسبِ ضرورت ان کا مفہوم بیان کیا گیا ہے تاکہ قاری لطف اندوز ہوسکے۔
پہلی منزل شعر فہمی ہے، لطف اندوزی آگے کی منزل ہے۔ یہ اُداس جمال کی پہلی سطح ہے۔ اس کی شدت کہاں تک ہے، شدید سے شدید تر ہونے کی منزل کہاں ہے اس کے جواب میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلۂ ما نیست''۔ دہلی کے بزرگ صوفی، حضرت بختیار کاکیؒ نے اس شعر پر تڑپ کر جان دے دی۔
کشتہ گانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است
جب کہ دوسرے سننے والے اس سے صرف لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ جس طرح محبوب کے حسن کو بیان نہیں کیا جاسکتا اسی طرح شعر فہمی اور لطف اندوزی کو بھی بیان کرنا مشکل ہے۔
''سرمایۂ سخن'' کے انتخاب میں کئی طرح کے اشعار شامل ہیں۔ مثلاً وہ اشعار جن میں محاورے کا چٹخارہ اور وہ اشعار جن میں پیکر تراشی کا کرشمہ ہے اور وہ بھی جن میں کسی ایک لفظ نے جادو جگایا ہے۔
ان میں نئے اشعار بھی شامل ہوگئے جو عمر کے ساتھ دل کے خزانے میں جمع ہوتے رہے تھے۔ یہ اچھی خاصی فہرست تھی۔ اس وقت انھیں اُردو اشعار کی ایک لغت تیار کرنے کا خیال آیا۔ ایسی کوئی لغت پہلے سے تھی بھی نہیں۔ اس کی افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ چنانچہ انھوں نے یہ کام شروع کردیا۔ اس کام کے لیے انھیں دو برس کی جواہر لال نہرو فیلو شپ بھی مل گئی۔ لغت کا عنوان انھوں نے ''سرمایۂ سخن'' رکھا اور پہلی جنوری 1969ء کو اس کا پہلا لفظ لکھا۔
آخری لفظ لکھنے کا وقت نہیں آیا کیونکہ اس سے پہلے وہ اس دنیا سے چلے گئے۔ اپنے انتقال سے پہلے انھوں نے ''سرمایۂ سخن'' کی پہلی جلد مکمل کرلی تھی اور دوسری جلد کی تیاری میں مصروف تھے۔ تقریباً ڈیڑھ سو صفحے لکھ بھی لیے تھے۔''سرمایۂ سخن'' کے بارے میں ان کا جو تصور تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا تھا۔ ''اُردو زبان کے پاس ایک خزانہ ہے جو پوری طرح دریافت نہیں کیا گیا ہے۔ یہ ان جواہر پاروں سے بھرا ہوا ہے جنھیں شاعرانہ الفاظ اور تراکیب کہتے ہیں۔ اُردو شاعری کی پیکر تراشی کی یہ نادر مثالیں ہیں۔ ان کی تعداد کا کوئی صحیح اندازہ نہیں کیونکہ یہ پیکر یا شاعرانہ الفاظ بڑے پیمانے پر کسی لغت میں جمع نہیں کیے گئے ہیں۔
''سرمایۂ سخن'' ایک مختصر لغت ہے۔ ایک بڑے کام کی چھوٹی سی ابتداء۔ اس میں تقریباً بیس ہزار الفاظ اور تراکیبیں چند شعراء کے منتخب کلام سے جمع کی گئی ہیں، لیکن اگر پوری اُردو شاعری سے انتخاب کیا جائے تو تعداد چار پانچ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ شعری پیکر تشبیہوں اور استعاروں سے بھی بنتے ہیں اور مرکب الفاظ سے بھی۔ بسا اوقات ایک ہی تنہا لفظ پیکر بن جاتا ہے۔ اس کے اِرد گرد اور بھی پیکر جمع کیے جاسکتے ہیں اور شعر کئی پیکروں کے گلدستے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یہ جواہر سخن ہمارے قدیم اور جدید شعراء کے تخیل نے تراشے ہیں۔ میں نے اس لغت کی تیاری میں یہ محسوس کیا کہ اپنے عہد کے ہم عصر شعراء کو ناقابلِ اعتنا سمجھنا غلط ہے۔
لفظ کی تخلیق کا سلسلہ جاری ہے اور آئندہ یہ رفتار اور تیز ہوجائے گی۔ اس لیے اساتذہ کے ساتھ آج کے جدید شعراء کے یہاں سے بھی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ان کی صناعی کا معیار کلاسیکی صناعی سے مختلف ہے، لیکن پھر بھی صناعی ہے۔ اگر سراج اورنگ آبادی نے ''شاخ نہال غم'' کی ترکیب دی ہے تو فیضؔ نے ''یہ رات اس درد کا شجر ہے جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے'' کہا ہے۔ اگر غالب نے ''نوبہار ناز'' سے دل کی شگفتگی کا سامان کیا ہے تو غالب کے پرستار مجازؔ نے ''شر ناز لالہ رخ'' سے دلوں میں چراغاں کیا ہے۔
''سو رہی ہے گھنے درختوں پر، چاند کی تھکی ہوئی آواز'' فیض کا نیا انداز ہے اور ''پتیوں کی پلکوں پر اوس جگمگاتی ہے'' سردار جعفری کی نئی پیکر تراشی ہے۔ پہلے اس شاعری کی جنت میں صرف حوریں تھیں، اب ہماری شاعری میں اپسرائیں بھی رقص کر رہی ہیں۔ مانی و بہزاد کے نگار خانوں کا ذکر ذرا کم ہوگیا ہے''۔
اس کتاب میں لغت نویسی کے آداب کی پوری پابندی نہیں کی گئی ہے کیونکہ یہ کسی فرہنگ نویس کی نہیں، ایک شاعر کی لکھی ہوئی لغت ہے جو اپنے ذوقِ سخن کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ''سرمایۂ سخن'' میں الفاظ اور تراکیب کو حروف تہجی کی ترتیب سے لکھا گیا ہے۔ سیدھے سادھے معنی کے ساتھ اشعار سے مثالیں دی گئی ہیں اور حسبِ ضرورت ان کا مفہوم بیان کیا گیا ہے تاکہ قاری لطف اندوز ہوسکے۔
پہلی منزل شعر فہمی ہے، لطف اندوزی آگے کی منزل ہے۔ یہ اُداس جمال کی پہلی سطح ہے۔ اس کی شدت کہاں تک ہے، شدید سے شدید تر ہونے کی منزل کہاں ہے اس کے جواب میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلۂ ما نیست''۔ دہلی کے بزرگ صوفی، حضرت بختیار کاکیؒ نے اس شعر پر تڑپ کر جان دے دی۔
کشتہ گانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است
جب کہ دوسرے سننے والے اس سے صرف لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ جس طرح محبوب کے حسن کو بیان نہیں کیا جاسکتا اسی طرح شعر فہمی اور لطف اندوزی کو بھی بیان کرنا مشکل ہے۔
''سرمایۂ سخن'' کے انتخاب میں کئی طرح کے اشعار شامل ہیں۔ مثلاً وہ اشعار جن میں محاورے کا چٹخارہ اور وہ اشعار جن میں پیکر تراشی کا کرشمہ ہے اور وہ بھی جن میں کسی ایک لفظ نے جادو جگایا ہے۔