قرضوں میں جکڑی معیشت

قرضوں میں جکڑی پاکستان کی معیشت بے بسی کی مورت بن چکی ہے۔ روپے کی قدر مسلسل گر رہی ہے۔


Editorial December 06, 2012
بدامنی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث ملک میں معاشی سرگرمیاں مدھم ہوگئیں. فوٹو فائل

پاکستان کی معاشی صورتحال کی بہتری کا گراف اوپر جانے کے بجائے نیچے ہی نیچے گامزن ہے۔اگر ایک آدھ شعبہ ترقی کر رہا ہے تو اسے معیشت کے استحکام سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ پاکستان میں کسی حکومت نے بھی وطن عزیز کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے کے لیے حقیقی معاشی پالیسی تشکیل نہیں دی بلکہ عوامی امنگوں کے برعکس ڈنگ ٹپاؤ طریقہ اپنایا گیا، اس پالیسی کا نتیجہ قرضوں کے انبار کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔

قرضوں میں جکڑی پاکستان کی معیشت بے بسی کی مورت بن چکی ہے۔ روپے کی قدر مسلسل گر رہی ہے۔وفاقی وزارت خزانہ کے ذرایع نے اس تشویشناک صورتحال کا انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ چار سال میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض کی مالیت میں 20 فیصد اضافہ ہو گیا ہے،یعنی بغیر کچھ لیے دیے غیر ملکی قرضوں کی مالیت میں اضافہ ہوگیا۔ 2008ء میں جس وقت یہ قرض لیا گیا ، اس وقت ایک ڈالر کی قیمت 79 روپے کے لگ بھگ تھی اور اب یہ بڑھ کر97 روپے سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ دیگر غیر ملکی کرنسیوں کی صورتحال بھی ایسے ہی ہے۔بھارتی روپیہ ہمارے تقریباً دو روپے کے برابر ہوگیا، بنگلہ دیشی ٹکہ اور افغانستان کی افغانی کی قدر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان نے 2008ء میں غیر ملکی ادائیگیوں کی صورتحال بگڑنے کے بعد آئی ایم ایف سے 7.5 ارب ڈالر سے زائد قرضہ لیا تھا۔ جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو یقیناً معاشی صورتحال زیادہ تسلی بخش نہیں تھی۔ عوام کو امید تھی کہ ان ووٹوں سے منتخب ہونے والی نئی حکومت معیشت کو بہتر بنانے کے لیے اپنی پیشرو حکومت سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی مگر گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں معاشی صورتحال مسلسل بگڑتی چلی جا رہی ہے۔ اس عرصے میں موجودہ حکومت نے خاصے اقدامات کیے لیکن مجموعی طور پر معاشی اشارے زوال پذیری ہی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ 2008ء میں جب پی پی پی کی حکومت بنی تو اس وقت پاکستان کے ذمے بیرونی قرضہ 38.8 بلین ڈالر تھا۔

موجودہ حکومت کے دور میں چونکہ ملک میں سیاسی غیر یقینی کی فضا چھائی رہی لہٰذا معاشی پالیسیاں اپنا اثر دکھانے میں ناکام رہیں، بدامنی اور لاقانونیت بڑھنے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث معاشی سرگرمیاں مدھم رہیں، حکومتی اخراجات پورے کرنے اور عالمی ذمے داریاں نبھانے کے لیے حکومت کو قرضوں کا سہارا لینا پڑا۔حکومت نے اندرونی طور پر بھی قرضے لیے اور غیرملکی مالیاتی اداروں سے بھی تعاون طلب کیا۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ پاکستان کا بیرونی قرضہ 65 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔

جون 2012ء میں پاکستان کا اندرونی اور بیرونی قرضہ مجموعی طور پر 12,024 ارب روپے کے خطرناک اعشاریے کو چھونے لگا تھا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی معیشت کے لیے اتنے بھاری قرضوں کا بوجھ اٹھانا آسان نہیں ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق موجودہ جمہوری سیٹ اپ قائم ہونے کے بعد قرضوں کی شرح میں سو فیصد اضافہ ہوا ، قرضوں کے اس بھاری بوجھ کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک میں تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا عمل کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ گو حکومت نے غریبوں کے لیے کئی منصوبے شروع کر رکھے ہیں لیکن غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے اور ملک کے غیر یقینی حالات کے باعث معاشی سرگرمیاں پوری رفتار سے جاری نہ رہ سکیں جس کے باعث ملک میں بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا۔افراط زر کے باعث مہنگائی بڑھی اور عام آدمی کی پریشانیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

پاکستان جیسے ملکوں کے لیے یہ مسئلہ بھی بہت گمبھیر ہے کہ اس کے وسائل کا بڑا حصہ غیرملکی قرضوں کی ادائیگی پر صرف ہوجاتا ہے، باقی جو بچتا ہے ، وہ سرکاری مشینری کے اخراجات کی مد میں چلا جاتا ، یوں ترقیاتی منصوبوں ، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے کوئی رقم نہیں بچتی ہے ۔اس صورتحال نے ملک کو پسماندہ کر رکھا ہے۔معاشی پیچیدگیوں کو عام آدمی سمجھتا نہیں ہے لہذا وہ یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر لیے گئے قرضوں کا استعمال کہاں ہوا؟ ترقی کے کون سے مینار بلند ہوئے؟ ملکی ادارے ترقی کی جانب قدم بڑھانے کے بجائے زبوں حالی کا شکار کیوں ہوئے۔عام آدمی جب یہ سنتا ہے کہ حکمران اشرافیہ کے کروڑوں ڈالر غیر ملکی بینکوں میں پڑے ہیں تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا ملکی ترقی کے نام پر لیے گئے قرضے اس کی خوشحالی کے بجائے اس اشرافیہ کی جیب میں تو نہیں جا رہے۔ ریلوے کی صورتحال بگڑتی چلی جا رہی ہے۔

ریل گاڑیوں اور ریلوے پٹڑیوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ ڈیزل نہ ہونے کے سبب ٹرینیں اسٹیشن سے باہر ہی نہیں آتیں۔ متعدد ٹرینیں بند ہو چکی ہیں۔ دوسری جانب بجلی کے بحران نے معیشت کو کاری ضرب لگائی ہے۔ متعدد فیکٹریاں اور کارخانے بند ہونے سے لاکھوں مزدور بے روز گار ہو چکے ہیں۔ سردیوں کے اس موسم میں جب بجلی کی گھریلو کھپت میں کمی واقع ہو چکی ہے' لوڈشیڈنگ کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ حکومت نے بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لیے بڑے پیمانے پر کوئی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا۔ جو آبی منصوبہ بروقت مکمل ہوسکتا تھا ، وہ سیاست کی نذر ہوچکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار ملک کی بگڑتی معیشت میں بہتری کے کوئی آثار نہ دیکھ کر مزید سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ چکا اور اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے میں عافیت سمجھ رہا ہے۔ حکومت بیرون ملک سرمایہ داروں کو پاکستان آنے کی دعوت تو دے رہی ہے مگر جب ملکی سرمایہ کار بیرون ملک بھاگ رہا ہو ایسے میں غیر ملکی سرمایہ کار کیسے اس جانب رخ کرے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمایہ ہمیشہ بہتر امن و امان کی صورتحال کی جانب خود بخود کھچا چلا جاتا ہے مگر عالمی سطح پر پاکستان کی امن و امان کی صورتحال کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔

کراچی پاکستان کا معاشی دارالحکومت ہے لیکن وہاں لاشیں گرنے اور گھر اجڑنے کا ایک منحوس سلسلہ ہے جو رکنے میں نہیں آ رہا ۔تاجر طبقہ بھتہ مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ کوئٹہ اور پشاور بم دھماکوں اور دہشت گردی کی وارداتوں سے لہولہان ہیں۔ ادھر عدلیہ میں زیر سماعت بعض مقدمات نے بھی غیریقینی میں اضافہ کیا ہے۔پنجاب کے کاروباری اور صنعتی شہر توانائی کے بحران کا شکار ہیں۔اس ساری صورتحال نے مل کر ملک کی معیشت کو مفلوج کردیا ہے۔

بلاشبہ اسٹاک مارکیٹیں اچھی حالت میں ہیں، یہ معیشت کے لیے ایک اچھی خبر ہے لیکن سرمایہ کاری کا بہتر ماحول نہ ہونے کے سبب روپے کی قدر میں بھی روز بروز کمی ہونے سے قرضوں کے بوجھ میں خود بخود اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہر سال بجٹ کا ایک بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ اگر اربوں ڈالر کی یہ رقم ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جائے تو ڈانواں ڈول معیشت سنبھل سکتی ہے۔ معاشی خوشحالی اسی صورت میں ممکن ہے جب حکمران اپنے غیر ضروری اخراجات میں کمی کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں خلوص نیت سے ملکی معیشت کی گاڑی کو درست سمت میں گامزن کریں تاکہ پاکستان قرضوں کے بوجھ سے آزاد ہو کر عالمی معاشی پلیٹ فارم پر ایک بہتر مقام حاصل کر سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں