منڈی کی معیشت کا بلیک ہول
ہمارے خطے کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ابھی تک زمین کو ساکن اور سورج کو زمین کے گرد گھومتا دیکھ رہے ہیں.
دنیا کی تاریخ نظریاتی تصادموں سے بھری پڑی ہے اگرچہ ہر دور میں اس دور کے حالات کے پس منظر ہی میں تصادم کا یہ سلسلہ جاری رہا، لیکن اس تاریخ کو ہم مختصر الفاظ میں بیان کریں تو اس تصادمی تاریخ کو ''ماضی اور حال'' کی تاریخ کا نام دے سکتے ہیں۔ اس حوالے سے رجعت پسندی اور ترقی پسندی کی جو اصطلاحیں وضع کی گئی ہیں ان میں بھی بعض بنیادی حقائق کو نظر انداز کیا جاتا رہا، مثلاً اقبال کا شعر تعمیر نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا، منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں۔
بلاشبہ طرز کہن پر اڑنا ایک کٹھن منزل ہے، لیکن اس اڑنے کی وجہ جب تک ہمارے سامنے نہیں آئے گی، طرز کہن پر لعن طعن محض حماقت ہوگی۔ ہماری صدیوں پر پھیلی ہوئی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ہزاروں سال سے زمین ہی کو کُل کائنات سمجھتے آئے ہیں، اب بھی دنیا کی ایک بھاری اکثریت زمین ہی کو کُل کائنات سمجھتی ہے۔ اگر یہ اکثریت محض اس سوچ تک ہی محدود ہوتی تو زندگی کے راستے میں وہ کٹھنائیاں وہ تصادم پیدا نہیں ہوتے جو صدیوں پر محیط ہیں بلکہ اصل وجہ تصادم یہ ہے کہ دنیا ہی کو کُل کائنات قرار دینے کے نتیجے میں جو نظریات جو عقائد وضع کیے گئے وہ کائناتی حقائق سے یقیناً متصادم تھے۔ مثلاً ساڑھے چار سو سال ق م کے عقائدی نظام میں سورج زمین کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے، لیکن اس دور کے فلکیاتی ماہرین نے جب یہ کہا کہ سورج زمین کے گرد نہیں گھومتا بلکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو یہ ماضی اور حال کا وہ تصادم تھا جس کی سزا سقراط کو زہر کا پیالہ تھما کر دی گئی۔
میں اس دور کے کلیسائی رہنماؤں کو رجعت پسند اس لیے نہیں کہوں گا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے تھے سمجھ رہے تھے وہ ان کے ناقص علم اور ناقص معلومات کا نتیجہ ہے۔ اصل رجعت پسندی یہ ہے کہ آج کی کائناتی علوم سے مالا مال دنیا میں ہم اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ کلیسائی عقائد درست ہیں، سقراط اور گلیلیو بکواس کرتے ہیں اور ان کی یہ بکواس چونکہ ہمارے عقائد کی نفی اور توہین ہے لہٰذا یہ واجب القتل ہیں۔ اس منفی فکر کا المناک پہلو یہ ہے کہ انسانوں کی ناخواندہ اور سماجی شعور سے نابلد اکثریت اس حوالے سے ماضی پرستوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے اور حال کو طرح طرح سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یورپ اس دلدل سے چار پانچ سو سال پہلے نکل آیا، لیکن مسلم ممالک خاص طور پر ہمارے خطے کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ابھی تک زمین کو ساکن اور سورج کو زمین کے گرد گھومتا دیکھ رہے ہیں اور اس پسِ منظر میں تشکیل پانے والے عقائد ونظریات کو حرفِ آخر اور ابدی کہنے اور سمجھنے پر مصر ہیں۔ اس کی ایک بھیانک شکل انتہا پسندی اور دہشت گردی کے راستے پر چل پڑی ہے۔ اب ہمارے معاشرے علم و آگہی کے معاشرے ہیں، اگرچہ ہماری آبادی کی اکثریت جہل اور ناخواندگی کی وجہ سے ابھی تک زمین ہی کو کل کائنات اور اس پس منظر میں تشکیل پانے والے عقائد و نظریات کو حرفِ آخر سمجھتی ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ اہلِ علم اور اہلِ عقل ماضی اور حال کے درمیان پُل بننے کے بجائے ایک ایسے موقع پرستانہ اور منافقانہ راستے پر چل پڑے ہیں جو عملاً جہل کا ہی راستہ ہے۔ اس موقع پرستانہ اور منافقانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ صرف عقائد و نظریات کے حوالے سے ہی نہیں کیا جارہا ہے بلکہ اقتصادی اور سیاسی زندگی میں بھی یہی راستہ اپنایا جارہا ہے جس کا نتیجہ ایک شدید فکری سماجی اور اقتصادی انارکی کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
ہر دور میں ایسے ابتر حالات سے انسانوں کو نکالنے کی ذمے داری عالموں، دانشوروں، فلسفیوں نے پوری کی، لیکن ہمارا اجتماعی المیہ یہ ہے کہ تہذیبی ترقی، فکری ترقی کے اس معراج پر کھڑے دور میں دور دور تک کوئی عالم، کوئی دانشور، کوئی فلسفی ایسا نظر نہیں آتا جو دنیا کو اس نظریاتی اور اقتصادی انارکی سے نکالنے کی ذمے داری پوری کرسکے۔ اس کی وجوہات ایک سے زیادہ ہوسکتی ہیں، لیکن ایک بڑی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ منڈی کی معیشت نے ہوس زرکا جو بلیک ہول بنادیا ہے ہر شخص اس بلیک ہول میں کھنچا چلا جارہا ہے۔ کوئی ذمے داری، کوئی اخلاقی قدر،کوئی انسانی شرف، ضمیر کی کوئی آواز اسے اس بلیک ہول میں جانے سے نہیں روک پارہی ہے۔ وہ اپنے سارے علم، ساری آگہی کے ساتھ اس بلیک ہول میں گُم ہوتا جارہا ہے۔ کیا اسے انسانوں کی انفرادی غفلت، علم و آگہی، دانش و فلسفے کی ناکامی کہا جائے یا اس کے ان عوامل و محرکات کو مجرم ٹھہرایا جائے۔
جنہوں نے انسانی تہذیب کی ساری قدروں ضمیر کی ہر خلش کو گرد راہ بناکر رکھ دیا ہے۔ان حوالوں سے یہاں چند اہم مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔ مثلاً دہشت گردی، دہشت گردی ہمارے ملک اور معاشرے کے لیے ہی سب سے بڑا خطرہ نہیں بلکہ ساری دنیا اور جدید تہذیب کے لیے بھی زہر قاتل بن گئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلاتخصیص زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ اس بلا کے خلاف سینہ سپر ہوجاتے، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ کچھ حلقے اس کی بلا واسطہ حمایت کر رہے ہیں، کوئی بالواسطہ، کوئی منافقانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے خیبر سے کراچی تک خونِ غریباں اور خوف و دہشت کی شکل میں موجود ہے۔ کیا یہ رویے خود اپنے مستقبل سے غداری نہیں ہیں؟اقتصادی حوالے سے ہمارا معاشرہ ہی نہیں ساری دنیا 98/2 میں تقسیم ہوگئی ہے۔
یہ اقتصادی استحصال ایک سیدھا سادہ مسئلہ ہے جس کا واحد منطقی حل دولت کی منصفانہ تقسیم ہے، لیکن ہم اس استحصالی نظام کی سفاکیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے گناہوں کو ثواب کے طور پر پیش کرنے میں اپنی ساری صلاحیتیں صرف کر رہے ہیں اور اپنے ملک اور معاشرے کو انفرادی، اجتماعی اور قومی بھیک کے کلچر کی طرف دھکیل کر اس نظامِ ظلم کی بالواسطہ حمایت کر رہے ہیں۔ دنیا کے 7 ارب انسانوں کا عقیدہ ایک ہے، نہ مذہب ایک۔ ہاں اگر اس میں کوئی مشترک قدر ہے تو یہ کہ ہر عقیدے، ہر مذہب کے ماننے والے ایک خدا، ایک آدم پر یقین رکھتے ہیں، اس مشترکہ حوالے سے انسانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی ، محبت، رواداری پیدا کرنے کے بجائے ہم اپنی برتری دوسروں کی کمتری کے نظریات کو ہوا دے کر تعصب، نفرت ، قتل و غارت گری کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ کام جہلا ہی نہیں کر رہے ہیں اہلِ علم بھی کر رہے ہیں۔ ایسی انتہائی گھمبیر صورتحال میں میڈیا ایک انتہائی مثبت اور فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کے لیے میڈیا کے بااختیار لوگوں کی یہ انسانی اور اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ معاشروں کو ترقی، حقیقت پسندی ، عقل و خرد کی برتری کی طرف لے جانے والے خیالات و نظریات کی حوصلہ افزائی اور پسماندگی کی طرف لے جانے والے منفی خیالات و نظریات کی حوصلہ شکنی کریں۔ یہ میڈیا کی اجتماعی اور انفرادی ذمے داری ہے کہ ''وہ کون کہہ رہا ہے'' کے کلچر سے نکل کر ''کیا کہہ رہا ہے'' کے کلچر کی طرف آئیں۔