ناانصافی پر کوئی سمجھوتہ نہیں
عدالتیں ان کی حراست اور انھیں جیل میں رکھنے کی ذمے دار ہیں لیکن آج تک کسی کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا گیا۔
مسلمانوں کو اس سے کیا پیغام جائے گا جب نہ تو سول سوسائٹی نے اور نہ ہی الیکشن کمیشن نے گجرات کے سابق وزیر امیت شاہ کو دسمبر میں ہونے والے ریاستی اسمبلی کا انتخاب لڑنے سے روکنے کی کوئی کوشش کی ۔امیت پر الزام ہے کہ اس کے اکسانے پر 2002ء میں گجرات میں مسلم کُش فسادات کے دوران سہراب الدین شیخ اور تلسی رام راجا پت کے خلاف جعلی پولیس مقابلہ ہوا ۔
اور یہ کہ بی جے پی نے امیت کو اپنے امید وار کے طور پر میدان میں اتار دیا ہے جس سے اس الزام کی تصدیق ہوتی ہے کہ وزیراعلیٰ نریندر مودی اور ان کے وزراء مسلمانوں کی نسل کُشی کے منصوبے میں پوری طرح ملوث تھے۔ شاید یہ پارٹی ہندو کارڈ استعمال کرنے پر قطعاً شرمندہ نہیں اور اب یہ گجرات میں عوامی مزاج کو جانچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی کی ساکھ اس کے چوٹی لیڈروں، جے رام جیٹھ ملانی' یشونت سنہا اور شتروگھن سنہا کی پارٹی صدر نتن گڈکری کے خلاف کھلی بغاوت کی وجہ سے پہلے ہی خراب ہو رہی ہے جس پر مشکوک تجارتی کمپنیوں کے ساتھ بزنس میں ساجھے داری کا الزام ہے۔
امیت شاہ کی نامزدگی سے ممکن ہے کانگریس کا بھی کوئی فایدہ ہو سکے لیکن کانگریس اپنا کوئی مخصوص ہدف حاصل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس نے شویتا بھٹ کو گجرات کے انتخابات میں اپنا امیدوار بنایا ہے۔ وہ سنجیو بھٹ کی اہلیہ ہے۔ سنجیو بھٹ وہ پولیس افسر تھا جس نے برسرعام اعتراف کیا تھا کہ وہ اور اس کے دیگر ساتھی افسران نے وزیراعلیٰ کی ہدایت پر مسلمانوں کا قتل عام کرنے والوں' لوٹ مار کرنے اور مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔
بی جے پی کا اپنے حق میں واحد دفاع یہ ہے کہ بھٹ کانگریس کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی ہے جو اپنی پارٹی کے کہنے پر مودی کے خلاف بیان دے رہا ہے۔ کم از کم کانگریس کے بعض لیڈروں کو یہ احساس تو ہونا چاہیے کہ بھٹ کی بیوی کی نامزدگی مودی کو وہ بارود فراہم کر دے گی جس کو وہ پھر استعمال کر سکتا ہے۔ شاید مسز بھٹ کا یہ کہنا درست ہو کہ وہ انتخابات کا انتظار کر رہی تھیں تا کہ انھیں گجرات کی آمرانہ حکومت کی کرتوتوں کو طشت ازبام کرنے کا موقع مل سکے۔ بہت سے لوگ اس کے الزام کو تسلیم کر لیں گے کیونکہ وہ مودی پر نکتہ چینی کی پاداش میں خود بھی دھونس دھمکی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ میرا احساس ہے کہ اگر مسز بھٹ کانگریس کا ٹکٹ قبول نہ کرتیں تو وہ زیادہ مضبوط بنیاد پر کھڑی ہوتیں اور آزاد امید وار کی حیثیت سے تو اس کی وقعت میں کہیں زیادہ اضافہ ہو سکتا تھا۔
مزید برآں اس کا شوہر سنجیو بھٹ ایک حاضر پولیس افسر ہے، گو کہ فی الوقت معطل ہے، وہ بیوی کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے اس کے ساتھ ریٹرننگ افسر کے پاس پہنچا۔ سنجیو بھٹ بطور پولیس افسر اچھی شہرت کا مالک ہے جس کا سروس ریکارڈ بہت شاندار ہے مگر جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ اس کے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت ٹیلی ویژن پر نمودار ہوا تو اس کی ساکھ یقینا ًخراب ہو ئی ہو گی۔ کانگریس کی شویتا بھٹ کو پارٹی ٹکٹ دینے کی وجہ سمجھنا آسان ہے۔ یہ پارٹی گجرات میں ہونے والے مسلم کُش فسادات کو نمایاں کرنا چاہتی ہے۔ حالانکہ قبل ازیں کانگریس نے خود ہی چشم پوشی سے کام لیا تھا ورنہ پارٹی ہلاکتوں کو کبھی منظر سے اوجھل ہونے کی اجازت نہ دیتی۔
لیکن ان ہتھکنڈوں سے پارٹی زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں اس کے بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ لیکن اس سے کم از کم گجرات میں رہنے والے ان ہزاروں ووٹروں کے ساتھ کچھ نہ کچھ انصاف تو ہو سکتا ہے جو خوف اور دہشت کے عالم میں وہاں رہ رہے ہیں اور جنھیں اپنی زندگی میں کسی بہتری کی امید نہیں۔ مودی حکومت کی آشیر باد سے ہونے والے قتل و غارت اور دیگر زیادتیوں کی بازگشت ممکن ہے گجراتیوں کے ضمیر کو بیدار کر دے جنہوں نے قوم کو مہاتما گاندھی جیسی عظیم شخصیت دی تھی۔ ان کا ایسے لوگوں کی حمایت کرنا جن کے ہاتھ خون سے لتھڑے ہوئے ہیں بے حد رقت آمیز ہے۔
مودی اور بی جے پی کے رہنمائوں کے کشف برداروں کی کثیر تعداد ریاست کو تقسیم در تقسیم کرنے کی کوشش کرے گی جو ان کا اصل مطمع نظر ہے لیکن یہ گجراتیوں کا فرض ہے کہ انھیں مسترد کر دیں۔ قوم سیکولر ہے مگر کتنی عجیب بات ہے کہ ان کا نظریاتی موقف اس کے برعکس ہے۔ انھیں علم ہونا چاہیے کہ آئین ہمیں تلقین کرتا ہے کہ بھارتی عوام میں مذہب، ذات پات یا علاقہ کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہ کیا جائے۔ اگر گجرات کے لوگ قومی دھارے میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس سے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے اعتماد میں اضافہ ہو گا بلکہ پوری قوم کے لیے یہ ایک مثبت تبدیلی ہو گی لیکن ابھی تک ان کی روش پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ نہ صرف گجرات میں بلکہ پورے ملک میں مسلمان کمیونٹی خود کو بے بس اور غیر محفوظ محسوس کرتی ہے۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ نوجوان مسلمانوں کو پولیس محض شبے کی بنیاد پر اٹھا کر لے جاتی ہے بعض کو بعد میں چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن بیشتر ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں۔ عدالتیں ان کی حراست اور انھیں جیل میں رکھنے کی ذمے دار ہیں لیکن سب سے بدتر بات یہ ہے کہ آج تک کسی کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ محمد عامر خان جو 14 سال تک جیل میں رہا، دہلی ہائیکورٹ میں اس پر کوئی جرم ثابت نہ ہو سکا۔ حکومت پر لازم ہے کہ اس کی بحالی کے لیے اسے مالی امداد مہیا کرے تاکہ اس کے ساتھ کی جانے والی نا انصافی کا کچھ مداوا ہو پائے۔
اس کے علاوہ بھی مسلمان تقسیم کے بعد سے اس قدر بددل پہلے کبھی نہیں ہوئے جتنے کہ وہ آج ہیں۔ ان میں مایوسی اور ناامیدی پھیل چکی ہے۔ سچر کمیشن رپورٹ جس میں ان کے حالات بہتر بنانے کی تجاویز دی گئی تھیں انھیں ابھی تک نافذالعمل نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود اگر کوئی امید اور اعتماد باقی ہے تو اس کی وجہ ان کی اپنی برادری سے عمومی ہم آہنگی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تقسیم ایک بار پھر اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ یہ حقیقت کہ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد بھارت کے دیگر علاقوں میں اس کے مضمرات نظر نہیں آئے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے ہندوئوں اور مسلمانوں نے ہم آہنگی کے ساتھ آپس میں رہنا سیکھ لیا ہے۔مجھے اس بارے میں پوری امید ہے کہ وہ دن دور نہیں جب مسلمان بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں رہائش کے لیے گھر لینے کے قابل ہو جائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان سخت بددل ہو چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے کچھ نوجوان بسا اوقات دہشت گردی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن اس مسئلہ کا حل انسداد دہشت گردی کے ظالمانہ حربے اختیار کرنے میں ہرگز نہیں ہے، جس طرح کہ بعض انتہا پسند ہندو تنظیمیں کہہ رہی ہیں۔ دونوں برادریوں کو سمجھنا چاہیے کہ قتل و غارت مزید قتل و غارت کو جنم دیتی ہے۔ ان ساری باتوں کے باوجود لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج مودی کو ہی بھارت کے اگلے وزیراعظم کے طور پر نامزد کرنا چاہتی ہیں۔ بی جے پی کے ساتھ سشما کی وفاداری تو سمجھ میں آتی ہے لیکن آخر وہ قوم پر ایک ایسے شخص کو کس طرح مسلط کر سکتی ہیں جو 2000 سے زائد مسلمانوں کے قتل عام میں ایک فریق تھا؟ اگر سپریم کورٹ جعلی پولیس مقابلوں اور دیگر جرائم کے مقدمات گجرات سے باہر کی عدالتوں میں منتقل نہ کرتی تو مودی اور اس کی ٹیم اپنے تمام جرائم کو چھپانے میں کامیاب ہو جاتے۔
برطانوی نمائندے سر جیمز بیوان کا احمد آباد میں مودی سے ملاقات کرنا وزیراعلیٰ پر تنقید کرنے والوں کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔ بیوان نے اپنی صفائی میں یہ کہا کہ برطانیہ ریاست گجرات کے ساتھ اپنی تجارت میں مزید اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ بیوان نئی دہلی میں برطانوی سفیر ہیں گجرات میں نہیں۔ جس طرح کہ گجرات میں تعینات جسویت نے برطانوی ایلچی کے نام اپنے خط میں کہا ہے کہ ''اخلاقیات پر کسی بھی اور وجہ سے سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا'' اور یہ وہی سوچ ہے جس کے لیے مہاتما گاندھی بے جگری سے لڑتے رہے حتٰی کہ اپنی جان تک دیدی۔ امریکا کی طرف سے مودی کو ویزا دینے سے انکار کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہ ایسا تاثر نہیں دینا چاہتے کہ واشنگٹن بھی لندن کی مثال کی پیروی کرے گا۔ یہ پیغام دنیا کے تمام ملکوں میں جانا چاہیے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)