پھر جاڑے کی رت آئی
جاڑوں کی آمد پر پھولوں سے لے کر بنی آدم تک سب خوش ہیں۔ ہم بھی خوش ہیں۔
پھر جاڑے کی رت آئی۔ پورا نومبر کا مہینہ اس رت نے تذبذب میں گزارا۔ مگر نومبر کے آخر میں ایک ہلکی سی بارش ہوئی۔ سمجھ لو کہ تھوڑی بوندیں پڑیں۔ اور اس کے فوراً بعد دسمبر لگ گیا۔ آنے والی رت شاید ایسے ہی کسی اشارۂ غیبی کی منتظر تھی۔ وہ اشارہ پاتے ہی اس نے قدم بڑھایا اور شہر کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ اور جب ہم نے ابھی صبح باغ جناح میں قدم رکھا تو لگا کہ یہ سب پھول جو اتنے مسکرا رہے ہیں جاڑے کی رت کی خوشی میں راتوں رات کھلے ہیں۔ یہ پھول نام کی مخلوق جو فطرت کی گود میں پل کر آنکھ کھولتی ہے اور آنکھ کھولتے ہی مسکرانے لگتی ہے خوب مخلوق ہے۔ ہر موسم کی آمد پر اپنی نمو اور نمود کے لیے جواز پیدا کر لیتی ہے۔ ارے یہ تو پت جھڑ میں بھی اپنے کھلنے اور مسکرانے کا بہانہ تراش لیتی ہے۔ اقبال کا کیا عجیب شعر اس وقت یاد آیا ہے۔
پتیاں پھولوں کی گرتی ہیں خزاں میں اس طرح
دستِ طفلِ خفتہ سے رنگیں کھلونے جس طرح
خیر مطلب یہ ہے کہ جاڑوں کی آمد پر پھولوں سے لے کر بنی آدم تک سب خوش ہیں۔ ہم بھی خوش ہیں۔ ابھی ہمارا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ جب جاڑا زور باندھے گا تب ہمارا احوال کیا ہو گا۔ میاں نظیر تو یہ کہہ کر گزرگئے کہ؎
تھر تھر کا زور اکھاڑا ہو بجتی ہو سب کی بتیسی
ہر دانت چنے سے دلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
مگر ہم آپ ذرا تصور کریں کہ جب جاڑے کے ساتھ پالا بھی پڑنے لگے گا اور مہاوٹ کی بارشیں بھی برسنے پر تل جائیں گی اور کہرہ اگر اتنا گہرا ہو گا کہ پیادہ پا مسافر کو اپنا رستہ نظر نہ آرہا ہو تو خلقت کا کیا حال ہو گا۔
اصل میں جاڑے کی رت پر موقوف نہیں اپنی آمد پر ہر رت ہر موسم بہت سہانا لگتا ہے۔ وہی موسم آگے چل کر جب انتہا پر پہنچتا ہے اور اپنی اصلیت پر آتا ہے تو اس موسم سے، جس کو ہم نے خوش آمدید کہا تھا، سخت بولا جاتے ہیں اور اس سے نجات کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ جاڑے پالے کے بعد گلابی جاڑا، گلابی جاڑے کے بعد نرم گرم دن کتنے بھلے لگتے ہیں۔ مگر یہی نرم گرم دن جب بھری جون میں اتنے گرم ہو جاتے ہیں کہ زمین تمتمانے لگتی ہے اور تانبا آسمان سے آگ برستی ہے اور لو کے تھپیڑوں سے پھول کملا جاتے ہیں اور ہونٹوں پر پپڑیاں جم جاتی ہیں تو اسی موسم سے ایسے پناہ مانگتے ہیں جیسے عابد و زاہد لوگ جہنم سے پناہ مانگتے ہیں۔ پھر جب ساون کا پہلا چھینٹا پڑتا ہے تو لب و رخسار پھر گلاب کی پنکھڑی بن جاتے ہیں اور طبیعتیں بحال ہو جاتی ہیں۔ باغوں میں جھولے پڑ جاتے ہیں۔ ساون کے گیت گائے جاتے ہیں۔ مگر جب یہی موسم اپنی انتہا پر اتر آتا ہے اور ساون کی جھڑی لمبی کھنچتی چلی جاتی ہے اور امنڈتے سیلاب بستیوں کو بہا لے جانے پر تل جاتے ہیں تو پھر برکھا بہار ہمارے لیے عذاب الٰہی بن جاتی ہے اور ہم نمازیں پڑھ کر بارش کے رکنے کی دعائیں مانگتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ انتہا پسندی بہر صورت، بہر رنگ ایک عذاب ہے خواہ وہ موسم کی ہو یا رنگ و نسل کے نام پر ہو، یا قبیلہ اور قوم کے نام پر یا فرقہ اور مذہب کے نام پر۔
مگر موسم کی انتہا پسندی تو ایک فطری عمل ہے۔ اگرچہ انسانی تاریخ کے بڑے سیلابوں، طوفانوں اور آندھیوں کی توجیہہ اس طرح بھی کی گئی ہے کہ اس طرح انسان کو اس کی بداعمالیوں کی سزا ملتی ہے تو پھر کیا ٹیکنالوجی کو بھی انسان کی بداعمالیوں میں شمار کیا جائے۔ کیونکہ پچھلے برسوں میں جو اس قسم کے طوفان اٹھے ہیں کہ بستیوں کی بستیاں بہہ گئیں اور بہت بڑی خلقت گھر سے بے گھر ہو گئی یہ سب ٹیکنالوجی کی کارستانی ہے۔ جدید انسان نے اپنے نئے سائنسی علوم کے زعم میں فطرت کے عمل میں کچھ زیادہ ہی دخل اندازی شروع کر رکھی ہے۔ دور کیوں جائیں یہ جو اتنی ایجادات اہل مغرب نے اپنی آسائش کے نقطۂ نظر سے کی ہیں۔ موٹریں، ہوائی جہاز، ٹی وی، فریج، فریزر وغیرہ وغیرہ ان سے جو مسموم بھاپ اٹھتی ہے اور فضا میں زہر گھولتی ہے فطرت کے مزاج میں درہمی پیدا کرنے کے لیے اسی کا حصہ بہت ہے۔ اور فطرت کے ردعمل سے ہمیں علامہ اقبال پہلے ہی خبردار کر گئے ہیں کہ؎
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
ہمارے دوست زاہد ڈار کو خیر اب تو صبر آ گیا ہے۔ مگر کتنے سال تک یہ خبریں پڑھ پڑھ کر پریشان ہوتے رہے کہ او، زون میں سوراخ ہو گیا ہے اور وہ پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اگر کسی بری گھڑی میں او، زون پھٹ گیا تو پوری انسانیت کا بولو رام ہو جائے گا۔
ہم نے پوچھا کہ پھر اس کا علاج کیا ہے۔ جواب دیا کہ ہمیں امریکا اور یورپ والوں سے کہنا چاہیے کہ اپنی موٹر کاروں میں تخفیف کریں۔
ہم نے اس عزیز سے پوچھا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور امریکا سے یہ کہنے کی جسارت کون کرے گا۔ اور اگر تم چاہتے ہو کہ اس طرح کی کوئی تحریک شروع کرنی چاہیے کہ تمہاری آواز امریکا تک پہنچے تو تم نے اس وقت غلط آدمی سے رجوع کیا ہے۔ اس کار خیر کے لیے تمہیں مبارک احمد سے تعاون کی اپیل کرنی چاہیے تھی۔
بہت دنوں سے او، زون کے سلسلے میں کوئی نئی خبر ہماری نظر سے نہیں گزری۔ ایسی کوئی خبر آئی ہوتی تو زاہد ڈار کی تشویش میں اب تک بہت اضافہ ہو چکا ہوتا۔ اس کا اطمینان بتا رہا ہے کہ او، زون نے زاہد ڈار کا احسان اٹھائے بغیر ہی کسی صورت اپنے زخم کا اندمال کر لیا ہے۔
لو ہم بہک کر کہاں نکل گئے۔
بات تو جو ہم کر رہے تھے وہ صرف اتنی تھی کہ موسم سرما شروع ہو چکا ہے۔ اس موسم کے کچھ تقاضے ہیں بلکہ بہت تقاضے ہیں۔ سب سے بڑھ کر تقاضا یہ ہے کہ گرم کپڑوں کی فکر کی جائے۔ دوسرے یہ کہ جاڑوں کے اضافے کے ساتھ ہی کتنے بہت سے ذائقے ہماری زبان اور تالو کے بیچ کلبلانے لگتے ہیں۔ گرم کپڑوں کے بندوبست کے لیے تو یار لنڈا بازار سے رجوع کر سکتے ہیں اور کرتے آئے ہیں۔ مگر جن ذائقوں کو ہم یاد کر رہے ہیں ان کا کوئی لنڈا بازار نہیں ہے اور مہنگائی ہے کہ آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ پھر جاڑے کیسے گزریں گے۔
پتیاں پھولوں کی گرتی ہیں خزاں میں اس طرح
دستِ طفلِ خفتہ سے رنگیں کھلونے جس طرح
خیر مطلب یہ ہے کہ جاڑوں کی آمد پر پھولوں سے لے کر بنی آدم تک سب خوش ہیں۔ ہم بھی خوش ہیں۔ ابھی ہمارا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ جب جاڑا زور باندھے گا تب ہمارا احوال کیا ہو گا۔ میاں نظیر تو یہ کہہ کر گزرگئے کہ؎
تھر تھر کا زور اکھاڑا ہو بجتی ہو سب کی بتیسی
ہر دانت چنے سے دلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
مگر ہم آپ ذرا تصور کریں کہ جب جاڑے کے ساتھ پالا بھی پڑنے لگے گا اور مہاوٹ کی بارشیں بھی برسنے پر تل جائیں گی اور کہرہ اگر اتنا گہرا ہو گا کہ پیادہ پا مسافر کو اپنا رستہ نظر نہ آرہا ہو تو خلقت کا کیا حال ہو گا۔
اصل میں جاڑے کی رت پر موقوف نہیں اپنی آمد پر ہر رت ہر موسم بہت سہانا لگتا ہے۔ وہی موسم آگے چل کر جب انتہا پر پہنچتا ہے اور اپنی اصلیت پر آتا ہے تو اس موسم سے، جس کو ہم نے خوش آمدید کہا تھا، سخت بولا جاتے ہیں اور اس سے نجات کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ جاڑے پالے کے بعد گلابی جاڑا، گلابی جاڑے کے بعد نرم گرم دن کتنے بھلے لگتے ہیں۔ مگر یہی نرم گرم دن جب بھری جون میں اتنے گرم ہو جاتے ہیں کہ زمین تمتمانے لگتی ہے اور تانبا آسمان سے آگ برستی ہے اور لو کے تھپیڑوں سے پھول کملا جاتے ہیں اور ہونٹوں پر پپڑیاں جم جاتی ہیں تو اسی موسم سے ایسے پناہ مانگتے ہیں جیسے عابد و زاہد لوگ جہنم سے پناہ مانگتے ہیں۔ پھر جب ساون کا پہلا چھینٹا پڑتا ہے تو لب و رخسار پھر گلاب کی پنکھڑی بن جاتے ہیں اور طبیعتیں بحال ہو جاتی ہیں۔ باغوں میں جھولے پڑ جاتے ہیں۔ ساون کے گیت گائے جاتے ہیں۔ مگر جب یہی موسم اپنی انتہا پر اتر آتا ہے اور ساون کی جھڑی لمبی کھنچتی چلی جاتی ہے اور امنڈتے سیلاب بستیوں کو بہا لے جانے پر تل جاتے ہیں تو پھر برکھا بہار ہمارے لیے عذاب الٰہی بن جاتی ہے اور ہم نمازیں پڑھ کر بارش کے رکنے کی دعائیں مانگتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ انتہا پسندی بہر صورت، بہر رنگ ایک عذاب ہے خواہ وہ موسم کی ہو یا رنگ و نسل کے نام پر ہو، یا قبیلہ اور قوم کے نام پر یا فرقہ اور مذہب کے نام پر۔
مگر موسم کی انتہا پسندی تو ایک فطری عمل ہے۔ اگرچہ انسانی تاریخ کے بڑے سیلابوں، طوفانوں اور آندھیوں کی توجیہہ اس طرح بھی کی گئی ہے کہ اس طرح انسان کو اس کی بداعمالیوں کی سزا ملتی ہے تو پھر کیا ٹیکنالوجی کو بھی انسان کی بداعمالیوں میں شمار کیا جائے۔ کیونکہ پچھلے برسوں میں جو اس قسم کے طوفان اٹھے ہیں کہ بستیوں کی بستیاں بہہ گئیں اور بہت بڑی خلقت گھر سے بے گھر ہو گئی یہ سب ٹیکنالوجی کی کارستانی ہے۔ جدید انسان نے اپنے نئے سائنسی علوم کے زعم میں فطرت کے عمل میں کچھ زیادہ ہی دخل اندازی شروع کر رکھی ہے۔ دور کیوں جائیں یہ جو اتنی ایجادات اہل مغرب نے اپنی آسائش کے نقطۂ نظر سے کی ہیں۔ موٹریں، ہوائی جہاز، ٹی وی، فریج، فریزر وغیرہ وغیرہ ان سے جو مسموم بھاپ اٹھتی ہے اور فضا میں زہر گھولتی ہے فطرت کے مزاج میں درہمی پیدا کرنے کے لیے اسی کا حصہ بہت ہے۔ اور فطرت کے ردعمل سے ہمیں علامہ اقبال پہلے ہی خبردار کر گئے ہیں کہ؎
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
ہمارے دوست زاہد ڈار کو خیر اب تو صبر آ گیا ہے۔ مگر کتنے سال تک یہ خبریں پڑھ پڑھ کر پریشان ہوتے رہے کہ او، زون میں سوراخ ہو گیا ہے اور وہ پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اگر کسی بری گھڑی میں او، زون پھٹ گیا تو پوری انسانیت کا بولو رام ہو جائے گا۔
ہم نے پوچھا کہ پھر اس کا علاج کیا ہے۔ جواب دیا کہ ہمیں امریکا اور یورپ والوں سے کہنا چاہیے کہ اپنی موٹر کاروں میں تخفیف کریں۔
ہم نے اس عزیز سے پوچھا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور امریکا سے یہ کہنے کی جسارت کون کرے گا۔ اور اگر تم چاہتے ہو کہ اس طرح کی کوئی تحریک شروع کرنی چاہیے کہ تمہاری آواز امریکا تک پہنچے تو تم نے اس وقت غلط آدمی سے رجوع کیا ہے۔ اس کار خیر کے لیے تمہیں مبارک احمد سے تعاون کی اپیل کرنی چاہیے تھی۔
بہت دنوں سے او، زون کے سلسلے میں کوئی نئی خبر ہماری نظر سے نہیں گزری۔ ایسی کوئی خبر آئی ہوتی تو زاہد ڈار کی تشویش میں اب تک بہت اضافہ ہو چکا ہوتا۔ اس کا اطمینان بتا رہا ہے کہ او، زون نے زاہد ڈار کا احسان اٹھائے بغیر ہی کسی صورت اپنے زخم کا اندمال کر لیا ہے۔
لو ہم بہک کر کہاں نکل گئے۔
بات تو جو ہم کر رہے تھے وہ صرف اتنی تھی کہ موسم سرما شروع ہو چکا ہے۔ اس موسم کے کچھ تقاضے ہیں بلکہ بہت تقاضے ہیں۔ سب سے بڑھ کر تقاضا یہ ہے کہ گرم کپڑوں کی فکر کی جائے۔ دوسرے یہ کہ جاڑوں کے اضافے کے ساتھ ہی کتنے بہت سے ذائقے ہماری زبان اور تالو کے بیچ کلبلانے لگتے ہیں۔ گرم کپڑوں کے بندوبست کے لیے تو یار لنڈا بازار سے رجوع کر سکتے ہیں اور کرتے آئے ہیں۔ مگر جن ذائقوں کو ہم یاد کر رہے ہیں ان کا کوئی لنڈا بازار نہیں ہے اور مہنگائی ہے کہ آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ پھر جاڑے کیسے گزریں گے۔