قدرتی آفات میں انسانی واردات
یہاں ایک آمر جنرل کے دور میں تشکیل دیا گیا نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل آج بھی چند دفتری کمروں تک محدود ہے۔
BRUSSELS:
28 نومبر کو پاکستان بھر بالخصوص کراچی سے شایع ہونیوالے چند اردو اخبارات میں محکمہ ریلیف سندھ کا ایک معلوماتی بینر نظر سے گزرا جس میں صدر اور ان کے رفقاء کو اندرون سندھ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس اشتہار میں ثابت کیا گیا کہ حیدرآباد میں واقع محکمہ ریلیف سندھ نے اپنی بھرپور صلاحیتوں، کوششوں اور لگن سے متاثرین سیلاب کی اس طرح مدد کی گویا انھیں کوئی تکلیف یا کسی قسم کا احساس محرومی نہ رہا۔ اس سے قبل کہ محکمہ ریلیف سندھ، اور بالخصوص ریلیف کمیشنر شاذر شمعون جن کی تعریف و تحسین میں ملک کے اہم انگریزی اور اردو اخبارات گزشتہ 2010 سے خبریں شایع کرتے آرہے ہیں، کی حقیقت بیان کی جائے، میں اپنے ہی ایک شایع شدہ کالم کا حوالہ یہاں بطور تمہید پیش کرنا چاہوں گا۔
قدرتی آفات کسی بھی ملک میں نا گزیر نقصان و تباہی کا پیش خیمہ ہوتی ہیں اور ریاست اگر تیسری دنیا کی ہو تو وہاں انسانی صورتحال زیادہ متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ہوشیار، باضمیر حکمرانوں کی ریاستیں عوامی تعاون، بے لوث خدمت اور انسانی جذبے کے تحت قدرتی آفات سے پیشگی حفاظتی اقدامات اٹھاتی ہیں۔ سیلاب، زلزلہ، آتش فشاں، سونامی، طوفانی بارشیں یہاں تک کہ آتشزدگی سمیت کوئلے یا دیگر معدنیات کو نکالنے کے لیے کھودی جانے والی کانیں اور ان میں کام کرنے والے مزدوروں کو حادثے کی صورت میں ریسکیو کی بھرپور کوششیں اور صلاحیتیں صرف کرتی ہیں۔
قدرتی آفات اگر بربادی لاتی ہیں تو یہ ایک طرح کی رحمت بھی ہوتی ہیں جو ان پہلوؤں کی نشاندہی کرتی ہیں جہاں خامی یا کمی موجود ہو اور یہ کہ انسانی مفاد میں کیا بہتر ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک جیسے آسٹریلیا، جاپان، چین اور دیگر کی ریسکیو ٹیموں نے پاکستان میں آنیوالے 2005 کے بدترین زلزلوں میں اپنی خدمات فراہم کیں۔ یہ سب کچھ انھوں نے زیادہ سے زیادہ تجربات سمیٹنے کے لیے کیا کیونکہ ان ممالک کے محب وطن اور ہوشیار حکمران جانتے ہیں کہ کسی بھی میدان میں اپنے لوگوں کی مہارت سے کس طرح ان گنت فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
پاکستان کی مثال اس کے برعکس ہے، یہاں ایک آمر جنرل کے دور میں تشکیل دیا گیا نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل آج بھی چند دفتری کمروں تک محدود ہے جس کا کام محض غیر ملکی امداد کے امکانات کا جائزہ لینا اور متاثرہ مقامات کا سروے کر کے ان کی رپورٹ تیار کرنا ہے۔ دراصل اس ملک میں آنیوالی متوقع قدرتی آفات کے مہینے حکمرانوں کی کمائی کا سیزن ہوتے ہیں۔ پاکستان میں انسانی صورتحال ہو یا قدرتی آفات، حکمران طبقے کی وارداتوں کا سلسلہ ہر گام جاری رہتا ہے۔ گزشتہ تین برسوں سے آنیوالے سیلابوںاور طوفانی بارشوں نے اندرون سندھ اور بلوچستان کی دیہی آبادی کو شدید مفلوج بنایا ہوا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ 2012 کے سیلاب کے باعث اب بھی بیشتر مقامات پر پانی کھڑا ہے جس سے اب بدترین سڑاند اٹھ رہی ہے جو ان خاندانوں کے لیے اذیت ناک ہے جو پانی میں ڈوبے اپنے مکانات کی چھتوں پر اپنی زندگیاں بسر کرر ہے ہیں۔ یہ پانی وہاں کیوں موجود ہے اسے آپ اس مثال سے سمجھ سکتے ہیں جو آگے پیش خدمت ہے۔ سندھ کے ضلع جیکب آباد کی تحصیل تھل یوسی شیر واہ میں موجود 30 سے زائد گائوں کھڑے پانی سے شدید متاثر ہیں تاہم اس کی وجہ یہ پانی نہیں بلکہ ایک علاقائی سیاسی رہنما ہیں جن کا تعلق پی پی پی حکمراں جماعت سے ہے۔
لہٰذا قصور وار نہ تو قدرتی آفت ہے نہ یہ متاثرہ لوگ بلکہ اس کا ذمے دار حکمران طبقہ ہے، کیونکہ مقامی آبادی کے مطابق سیلاب کے پانی کو اب تک یہاں سے گزر جانا چاہیے تھا مگر اس سیاسی رہنما نے گیارہ موریوں (آبی گزرگاہ) کا راستہ بند کر وا دیا جس سے ضلع جیکب آباد کی تحصیل تھل یوسی شیر واہ میں واقع 30 سے زائد گائوں میں سیلاب کے پانی کو گزرنے میں رکاوٹ درپیش ہے جب کہ یہاں موجود غریب آبادیوں کے خاندان بدترین اذیت کا شکار ہیں۔ اس انسانی مسئلے کے پیچھے لالچ اور فنڈز کا حصول کارفرما ہے۔ دوسری طرف الخیر ٹرسٹ اور ہینڈز نامی فلاحی تنظیموں کی جانب سے اس بااثر سیاسی شخصیت کے خلاف پی ڈی ایم اے سندھ، واسا، ایریگیشن منسٹر و سیکریٹری سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو شکایتیں اور درخواستیں پیش کی گئیں تاہم سول سوسائٹی کے تمام ادارے اور ان کے منصب دار ان کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
صوبے سندھ بشمول کراچی کے مستحق، اور غریب خاندانوں کے لیے رفاہی خدمات میں مصروف عمل رہنے والے دو بھائی میرے دوستوں میں شامل ہیںجو نہ صرف کراچی میں کئی دہائیوں سے غریب و نادار سمیت سفید پوش خاندانوں کی مدد میں مصروف رہتے ہیں، بلکہ اپنے رفقاء کے ہمراہ ہر برس عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پرہزاروں غریب اور مستحق خاندانوں سمیت سیلاب متاثرین کو گرانقدر ریلیف پیکیجز فراہم کرتے چلے آرہے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں بدترین سیلاب نے جس طرح اندرون سندھ میں تباہی پھیلا کر مجموعی غربت، محرومی، بھوک و افلاس میں اضافہ کیا وہ ملک کی تاریخ میں قابل ذکر ہے مگر۔۔۔ اس سے بھی زیادہ قابل ذکر اور قابل ستائش یہ ہے کہ موجودہ بدترین جمہوریت، بے روزگاری، غربت، ناانصافی اور مہنگائی کی پیدا کردہ مشکلات کے باوجود خدمت خلق سے وابستہ دونوں بھائی اور ان جیسے کئی دیگر افراد اور ان کی غیر معروف انجمنوں نے نہ صرف سیلاب متاثرین کو بروقت سہارا دیا بلکہ انھیں ہر طرح سے یومیہ خوراک، ماہانہ راشن، پینے کا صاف پانی، کپڑے جوتے فراہم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
کراچی میں سیلاب متاثرین کو رہنے کے لیے نہ صرف ٹھکانہ فراہم کیا بلکہ ان کی واپسی کے لیے بھی بھرپور کوششیں کرتے ہوئے انھیں مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت بہم پہنچائی۔ ایسے فلاح انسانیت کے مشنزکو پورا کرنا تنہا پاکستان جیسی کمزور ریاست کے بس کی بات نہیں اور باالخصوص موجودہ دور حکومت میں تو یہ ریاست خود پر بیٹھی ہوئی مکھی کو بھی اڑانے کے قابل بھی نہیں۔ صوبہ سندھ کے وسیع رقبے پر آباد کروڑوں کی تعداد میں سیلاب متاثرہ افراد کی امداد رسی جیسا سنگ میل عبور کرنا دراصل ان بے لوث (مستند) اسلامی اور نجی سماجی انجمنوں کا کارنامہ ہے جو بغیر کسی منافع اور لالچ کے حصول کے اپنی تمام مصروفیات، وسائل، اور مالی عطیات کو اہل غرباء اور مستحق خاندانوں کی فلاح کے لیے وقف کردیتی ہیں۔
2010 کے سیلاب میں کراچی سے چودہ قابل ذکر نجی کانٹریکٹرز اور اسلامی انجمنوں نے اپنے متاثرہ بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حکومت کی جانب سے تعاون اور مالی سپورٹ کے وعدے اور اپیل پر ان تنظیموں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر سیلاب اور بارش متاثرین کی خدمت کی تاہم جب محکمہ ریلیف حکومت سندھ (حیدرآباد) سے واجب الادا فنڈز ریلیز کرنے کا وقت آیا تو محکمہ کی جانب سے تمام تنظیموں سے ناقابل یقین حد تک کمیشن کا مطالبہ کیا گیا۔ عام لفظوں میں ان فلاحی تنظیموں کو اپنے واجب الادا فنڈز کے حصول میں لاکھوں روپے بطور رشوت ادا کرنی تھی تاکہ سیلاب متاثرین کے لیے دیے جانے والے کروڑوں روپے کے ریلیف پیکیجز پر آنیوالے اخراجات کی اصل رقم وصول کی جاسکے۔
کمیشنر، اسسٹنٹ کمشنر نے ریلیف کمشنر سندھ کی جانب سے ان انجمنوں کے سربراہان کو واضح الفاظ میں باور کرایا کہ کمیشن کا ایک حصہ زرداری جب کہ باقی دیگر جن میں سٹی گورنمنٹ شامل ہے، کا حق ہے۔ یہ تنازعہ بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ میں پہنچا جہاں عدالت نے انجمنوں کے واجب الادا رقوم کی فراہمی کو مکمل طور پر ادا کرنے کا حکم صادر کیا تاہم 2012 کے اختتام تک یہ رقوم ان انجمنوں کو نہیں مل سکی۔ حکومت سندھ کی بددیانتی کے باعث 2011 اور 2012 میں آنیوالے سیلابوں میں 80 فیصد اسلامی اور نجی رفاہی تنظیموں نے حکومت سے کنارہ کش ہو کر صرف اپنے وسائل کی بنیاد پر سیلاب متاثرین کی مدد کی۔ قدرتی آفات میں جہاں غریب عوام بھوک، بیماری اور بے گھر ہونے کا عذاب جھیلتے رہے۔
زرداری حکومت کے خصوصی نامزدکردہ شخص کو محکمہ ریلیف حکومت سندھ کا سربراہ بنایا گیا تاکہ مقامی تنظیموں کے عدم تعاون کے بعد بین الاقوامی ممالک کی توجہ سیلاب متاثرین کی جانب دلا کر ان سے لاتعداد فنڈز بٹورے جائیں تاہم حکومت کی اس کرپشن کی خبر کے بعد غیر ملکی امداد حاصل کرنے میں محکمہ بری طرح سے ناکام رہا جس کی وجہ سے سیلاب سے متاثرہ عوام کو گزشتہ دو برسوں میں وہ ریلیف اور مدد نہ مل سکی جو شفاف اور کرپشن سے پاک لین دین کی صورت میں انھیں مل سکتی تھی۔ پاکستانی تاریخ میں موجودہ حکومت پہلی نہیں تو ان حکومتوں میں سے ضرور ہے جس نے قدرتی آفات کے موقع پر بھی بدعنوانی، اور رشوت ستانی کے معاملات کو بھرپور طریقے سے جاری رکھتے ہوئے اربوں روپے کے فراڈ کیے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک کالم نگار نے خبر پیش کی کہ ایک سروے کے مطابق پاکستان دنیا کے کرپٹ ممالک میں تیزی سے درجے عبور کرتا ہوا ساتویں نمبر تک پہنچ گیا ہے۔ ساتویں پوزیشن پر ایک بدعنوان ملک کی حیثیت سے براجمان ہونا کوئی معمولی بات نہیں ،تاریخی پہلو سے دیکھا جائے تو عموماََ کسی بھی ریاست پر ڈکٹیٹر شپ،یا آمر حکمراں کے دور میں ہی بدعنوانی، اور کرپشن کا عروج مشاہدے میں آتا ہے تاہم پاکستان کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ یہاں جمہوری نظام میں بدترین کرپشن اور افلاس میں اضافے ساتھ ساتھ عوام کے مالی اور جانی سمیت ریاست تک کا تحفظ خطرے سے دوچار ہوتا ہے جب کہ ایک آمر حکمران کے دور میں صورتحال اس سے نسبتاََ کچھ کم ہی ہوتی ہے۔
محکمہ ریلیف حکومت سندھ کی اشتہاری مہم دراصل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے ساتھ متاثرین سیلاب اور متاثرہ کرپشن اور حکومتی بدیانتی کا شکار رفاہی انجمنوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔اس کالم میں بیان کردہ یہ حقیقت اس بے درد حکومت کی ہے جس نے قدرتی آفات میں گھرے لوگوں کے لیے ملنے والی امدادکے خورد برد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ اپنی فطری بددیانتی سے ان مددگار جماعتوں یا فلاحی انجمنوں کو بھی بدظن کر دیا جو ملک پر پڑے کٹھن وقت میں ہر اول دستے کا کام دیتی ہیں۔
28 نومبر کو پاکستان بھر بالخصوص کراچی سے شایع ہونیوالے چند اردو اخبارات میں محکمہ ریلیف سندھ کا ایک معلوماتی بینر نظر سے گزرا جس میں صدر اور ان کے رفقاء کو اندرون سندھ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس اشتہار میں ثابت کیا گیا کہ حیدرآباد میں واقع محکمہ ریلیف سندھ نے اپنی بھرپور صلاحیتوں، کوششوں اور لگن سے متاثرین سیلاب کی اس طرح مدد کی گویا انھیں کوئی تکلیف یا کسی قسم کا احساس محرومی نہ رہا۔ اس سے قبل کہ محکمہ ریلیف سندھ، اور بالخصوص ریلیف کمیشنر شاذر شمعون جن کی تعریف و تحسین میں ملک کے اہم انگریزی اور اردو اخبارات گزشتہ 2010 سے خبریں شایع کرتے آرہے ہیں، کی حقیقت بیان کی جائے، میں اپنے ہی ایک شایع شدہ کالم کا حوالہ یہاں بطور تمہید پیش کرنا چاہوں گا۔
قدرتی آفات کسی بھی ملک میں نا گزیر نقصان و تباہی کا پیش خیمہ ہوتی ہیں اور ریاست اگر تیسری دنیا کی ہو تو وہاں انسانی صورتحال زیادہ متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ہوشیار، باضمیر حکمرانوں کی ریاستیں عوامی تعاون، بے لوث خدمت اور انسانی جذبے کے تحت قدرتی آفات سے پیشگی حفاظتی اقدامات اٹھاتی ہیں۔ سیلاب، زلزلہ، آتش فشاں، سونامی، طوفانی بارشیں یہاں تک کہ آتشزدگی سمیت کوئلے یا دیگر معدنیات کو نکالنے کے لیے کھودی جانے والی کانیں اور ان میں کام کرنے والے مزدوروں کو حادثے کی صورت میں ریسکیو کی بھرپور کوششیں اور صلاحیتیں صرف کرتی ہیں۔
قدرتی آفات اگر بربادی لاتی ہیں تو یہ ایک طرح کی رحمت بھی ہوتی ہیں جو ان پہلوؤں کی نشاندہی کرتی ہیں جہاں خامی یا کمی موجود ہو اور یہ کہ انسانی مفاد میں کیا بہتر ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک جیسے آسٹریلیا، جاپان، چین اور دیگر کی ریسکیو ٹیموں نے پاکستان میں آنیوالے 2005 کے بدترین زلزلوں میں اپنی خدمات فراہم کیں۔ یہ سب کچھ انھوں نے زیادہ سے زیادہ تجربات سمیٹنے کے لیے کیا کیونکہ ان ممالک کے محب وطن اور ہوشیار حکمران جانتے ہیں کہ کسی بھی میدان میں اپنے لوگوں کی مہارت سے کس طرح ان گنت فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
پاکستان کی مثال اس کے برعکس ہے، یہاں ایک آمر جنرل کے دور میں تشکیل دیا گیا نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل آج بھی چند دفتری کمروں تک محدود ہے جس کا کام محض غیر ملکی امداد کے امکانات کا جائزہ لینا اور متاثرہ مقامات کا سروے کر کے ان کی رپورٹ تیار کرنا ہے۔ دراصل اس ملک میں آنیوالی متوقع قدرتی آفات کے مہینے حکمرانوں کی کمائی کا سیزن ہوتے ہیں۔ پاکستان میں انسانی صورتحال ہو یا قدرتی آفات، حکمران طبقے کی وارداتوں کا سلسلہ ہر گام جاری رہتا ہے۔ گزشتہ تین برسوں سے آنیوالے سیلابوںاور طوفانی بارشوں نے اندرون سندھ اور بلوچستان کی دیہی آبادی کو شدید مفلوج بنایا ہوا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ 2012 کے سیلاب کے باعث اب بھی بیشتر مقامات پر پانی کھڑا ہے جس سے اب بدترین سڑاند اٹھ رہی ہے جو ان خاندانوں کے لیے اذیت ناک ہے جو پانی میں ڈوبے اپنے مکانات کی چھتوں پر اپنی زندگیاں بسر کرر ہے ہیں۔ یہ پانی وہاں کیوں موجود ہے اسے آپ اس مثال سے سمجھ سکتے ہیں جو آگے پیش خدمت ہے۔ سندھ کے ضلع جیکب آباد کی تحصیل تھل یوسی شیر واہ میں موجود 30 سے زائد گائوں کھڑے پانی سے شدید متاثر ہیں تاہم اس کی وجہ یہ پانی نہیں بلکہ ایک علاقائی سیاسی رہنما ہیں جن کا تعلق پی پی پی حکمراں جماعت سے ہے۔
لہٰذا قصور وار نہ تو قدرتی آفت ہے نہ یہ متاثرہ لوگ بلکہ اس کا ذمے دار حکمران طبقہ ہے، کیونکہ مقامی آبادی کے مطابق سیلاب کے پانی کو اب تک یہاں سے گزر جانا چاہیے تھا مگر اس سیاسی رہنما نے گیارہ موریوں (آبی گزرگاہ) کا راستہ بند کر وا دیا جس سے ضلع جیکب آباد کی تحصیل تھل یوسی شیر واہ میں واقع 30 سے زائد گائوں میں سیلاب کے پانی کو گزرنے میں رکاوٹ درپیش ہے جب کہ یہاں موجود غریب آبادیوں کے خاندان بدترین اذیت کا شکار ہیں۔ اس انسانی مسئلے کے پیچھے لالچ اور فنڈز کا حصول کارفرما ہے۔ دوسری طرف الخیر ٹرسٹ اور ہینڈز نامی فلاحی تنظیموں کی جانب سے اس بااثر سیاسی شخصیت کے خلاف پی ڈی ایم اے سندھ، واسا، ایریگیشن منسٹر و سیکریٹری سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو شکایتیں اور درخواستیں پیش کی گئیں تاہم سول سوسائٹی کے تمام ادارے اور ان کے منصب دار ان کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
صوبے سندھ بشمول کراچی کے مستحق، اور غریب خاندانوں کے لیے رفاہی خدمات میں مصروف عمل رہنے والے دو بھائی میرے دوستوں میں شامل ہیںجو نہ صرف کراچی میں کئی دہائیوں سے غریب و نادار سمیت سفید پوش خاندانوں کی مدد میں مصروف رہتے ہیں، بلکہ اپنے رفقاء کے ہمراہ ہر برس عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پرہزاروں غریب اور مستحق خاندانوں سمیت سیلاب متاثرین کو گرانقدر ریلیف پیکیجز فراہم کرتے چلے آرہے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں بدترین سیلاب نے جس طرح اندرون سندھ میں تباہی پھیلا کر مجموعی غربت، محرومی، بھوک و افلاس میں اضافہ کیا وہ ملک کی تاریخ میں قابل ذکر ہے مگر۔۔۔ اس سے بھی زیادہ قابل ذکر اور قابل ستائش یہ ہے کہ موجودہ بدترین جمہوریت، بے روزگاری، غربت، ناانصافی اور مہنگائی کی پیدا کردہ مشکلات کے باوجود خدمت خلق سے وابستہ دونوں بھائی اور ان جیسے کئی دیگر افراد اور ان کی غیر معروف انجمنوں نے نہ صرف سیلاب متاثرین کو بروقت سہارا دیا بلکہ انھیں ہر طرح سے یومیہ خوراک، ماہانہ راشن، پینے کا صاف پانی، کپڑے جوتے فراہم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
کراچی میں سیلاب متاثرین کو رہنے کے لیے نہ صرف ٹھکانہ فراہم کیا بلکہ ان کی واپسی کے لیے بھی بھرپور کوششیں کرتے ہوئے انھیں مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت بہم پہنچائی۔ ایسے فلاح انسانیت کے مشنزکو پورا کرنا تنہا پاکستان جیسی کمزور ریاست کے بس کی بات نہیں اور باالخصوص موجودہ دور حکومت میں تو یہ ریاست خود پر بیٹھی ہوئی مکھی کو بھی اڑانے کے قابل بھی نہیں۔ صوبہ سندھ کے وسیع رقبے پر آباد کروڑوں کی تعداد میں سیلاب متاثرہ افراد کی امداد رسی جیسا سنگ میل عبور کرنا دراصل ان بے لوث (مستند) اسلامی اور نجی سماجی انجمنوں کا کارنامہ ہے جو بغیر کسی منافع اور لالچ کے حصول کے اپنی تمام مصروفیات، وسائل، اور مالی عطیات کو اہل غرباء اور مستحق خاندانوں کی فلاح کے لیے وقف کردیتی ہیں۔
2010 کے سیلاب میں کراچی سے چودہ قابل ذکر نجی کانٹریکٹرز اور اسلامی انجمنوں نے اپنے متاثرہ بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حکومت کی جانب سے تعاون اور مالی سپورٹ کے وعدے اور اپیل پر ان تنظیموں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر سیلاب اور بارش متاثرین کی خدمت کی تاہم جب محکمہ ریلیف حکومت سندھ (حیدرآباد) سے واجب الادا فنڈز ریلیز کرنے کا وقت آیا تو محکمہ کی جانب سے تمام تنظیموں سے ناقابل یقین حد تک کمیشن کا مطالبہ کیا گیا۔ عام لفظوں میں ان فلاحی تنظیموں کو اپنے واجب الادا فنڈز کے حصول میں لاکھوں روپے بطور رشوت ادا کرنی تھی تاکہ سیلاب متاثرین کے لیے دیے جانے والے کروڑوں روپے کے ریلیف پیکیجز پر آنیوالے اخراجات کی اصل رقم وصول کی جاسکے۔
کمیشنر، اسسٹنٹ کمشنر نے ریلیف کمشنر سندھ کی جانب سے ان انجمنوں کے سربراہان کو واضح الفاظ میں باور کرایا کہ کمیشن کا ایک حصہ زرداری جب کہ باقی دیگر جن میں سٹی گورنمنٹ شامل ہے، کا حق ہے۔ یہ تنازعہ بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ میں پہنچا جہاں عدالت نے انجمنوں کے واجب الادا رقوم کی فراہمی کو مکمل طور پر ادا کرنے کا حکم صادر کیا تاہم 2012 کے اختتام تک یہ رقوم ان انجمنوں کو نہیں مل سکی۔ حکومت سندھ کی بددیانتی کے باعث 2011 اور 2012 میں آنیوالے سیلابوں میں 80 فیصد اسلامی اور نجی رفاہی تنظیموں نے حکومت سے کنارہ کش ہو کر صرف اپنے وسائل کی بنیاد پر سیلاب متاثرین کی مدد کی۔ قدرتی آفات میں جہاں غریب عوام بھوک، بیماری اور بے گھر ہونے کا عذاب جھیلتے رہے۔
زرداری حکومت کے خصوصی نامزدکردہ شخص کو محکمہ ریلیف حکومت سندھ کا سربراہ بنایا گیا تاکہ مقامی تنظیموں کے عدم تعاون کے بعد بین الاقوامی ممالک کی توجہ سیلاب متاثرین کی جانب دلا کر ان سے لاتعداد فنڈز بٹورے جائیں تاہم حکومت کی اس کرپشن کی خبر کے بعد غیر ملکی امداد حاصل کرنے میں محکمہ بری طرح سے ناکام رہا جس کی وجہ سے سیلاب سے متاثرہ عوام کو گزشتہ دو برسوں میں وہ ریلیف اور مدد نہ مل سکی جو شفاف اور کرپشن سے پاک لین دین کی صورت میں انھیں مل سکتی تھی۔ پاکستانی تاریخ میں موجودہ حکومت پہلی نہیں تو ان حکومتوں میں سے ضرور ہے جس نے قدرتی آفات کے موقع پر بھی بدعنوانی، اور رشوت ستانی کے معاملات کو بھرپور طریقے سے جاری رکھتے ہوئے اربوں روپے کے فراڈ کیے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک کالم نگار نے خبر پیش کی کہ ایک سروے کے مطابق پاکستان دنیا کے کرپٹ ممالک میں تیزی سے درجے عبور کرتا ہوا ساتویں نمبر تک پہنچ گیا ہے۔ ساتویں پوزیشن پر ایک بدعنوان ملک کی حیثیت سے براجمان ہونا کوئی معمولی بات نہیں ،تاریخی پہلو سے دیکھا جائے تو عموماََ کسی بھی ریاست پر ڈکٹیٹر شپ،یا آمر حکمراں کے دور میں ہی بدعنوانی، اور کرپشن کا عروج مشاہدے میں آتا ہے تاہم پاکستان کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ یہاں جمہوری نظام میں بدترین کرپشن اور افلاس میں اضافے ساتھ ساتھ عوام کے مالی اور جانی سمیت ریاست تک کا تحفظ خطرے سے دوچار ہوتا ہے جب کہ ایک آمر حکمران کے دور میں صورتحال اس سے نسبتاََ کچھ کم ہی ہوتی ہے۔
محکمہ ریلیف حکومت سندھ کی اشتہاری مہم دراصل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے ساتھ متاثرین سیلاب اور متاثرہ کرپشن اور حکومتی بدیانتی کا شکار رفاہی انجمنوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔اس کالم میں بیان کردہ یہ حقیقت اس بے درد حکومت کی ہے جس نے قدرتی آفات میں گھرے لوگوں کے لیے ملنے والی امدادکے خورد برد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ اپنی فطری بددیانتی سے ان مددگار جماعتوں یا فلاحی انجمنوں کو بھی بدظن کر دیا جو ملک پر پڑے کٹھن وقت میں ہر اول دستے کا کام دیتی ہیں۔