انتشار اور عالم اسلام

آج کراچی میں جو لوگ مارے جارہے ہیں، وہ ڈرون حملوں کے تناسب سے کہیں زیادہ ہیں ۔

anisbaqar@hotmail.com

اگر آپ ذرا غورکریں تو معلوم ہوگا کہ اسلامی ممالک چند کو ایک کو چھوڑ کر انتشار کی لپیٹ میں ہیں، بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اچانک یہ انتشار کیوں پیدا ہو رہا ہے اور نہ تھمنے کا نام لیتا ہے بلکہ روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے دور میں ایک جابرانہ حکومت قائم تھی جس کی وجہ سے وہاں حسنی مبارک کے خلاف پہلے زیر زمین تحریک پھر انٹرنیٹ اور فیس بُک تحریک چلتی رہی اور پھر جونہی امریکا نے جمہوریت کی سرپرستی کی اور اسے یہ محسوس ہونے لگا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ آمرانہ طریقے یا فوجی ڈکٹیٹروں کے بجائے اپنے نام نہاد جمہوری نمائندوں سے کام لے کر اپنی سیاسی بالادستی پوری کرے تو اس وقت سے یہ انتشار جلدی جلدی وقوع پذیر ہونے لگے۔

گوکہ ان تمام اہداف کے حصول کے لیے امریکا سے بڑھ کر فرانس تبدیلی میں پیش پیش رہا ہے کیونکہ نوآبادیاتی نظام کی داغ بیل ڈالنے میں فرانس نے ہمیشہ سبقت لی ہے اور جونہی انتشار کسی بھی مسلم ملک میں شدت اختیار کرتا ہے وہاں فرانس بہت جلد بازی سے کام لیتا ہے حالانکہ برطانیہ بھی اس عمل میں کچھ ہی کم ہے مگر سبقت لے جانے کے عمل میں فرانس کو برتری حاصل ہے۔ آپ کو شاید یہ یاد ہوگا یاسر عرفات کی موت پر فرانس نے بڑا واویلا مچایا تھا اور اس افواہ کو شدت بخشی تھی کہ یاسر عرفات کی موت زہر خورانی سے ہوئی ہے مگر اس افواہ کی تصدیق کیے بغیر یاسر عرفات کو سپردخاک کردیا گیا اور ان کی موت کے بعد محمود عباس فلسطین کے بے تاج بادشاہ بن گئے گزشتہ 8 برسوں سے زائد ہوگیا کہ اسرائیل کے حکمرانوں کی نظر میں وہ اعتدال پسند رہنما کا درجہ حاصل کرچکے ہیں، اسرائیل کے خلاف ان کے تمام عزائم دوستانہ ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے پاکستان میں فرینڈلی اپوزیشن Friendly Opposition موجود ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے وہ ایک دوسرے کے خلاف بیان دیتے ہیں یا اس کو یوں سمجھ لیں کہ پاکستانی لیڈران ڈرون حملوں پر امریکا کی مخالفت کرتے ہیں مگر حقیقت میں یہ سب کچھ وہ پاکستانی عوام کو دھوکہ دینے کے لیے کرتے ہیں یقینا ڈرون حملے افسوسناک ہیں۔

جن میں بے گناہ پاکستانی جان سے جاتے ہیں ہم آخر کس منہ سے امریکا کو کچھ کہنے کے قابل ہیں؟ اگر آج کراچی میں جو لوگ مارے جارہے ہیں، وہ ڈرون حملوں کے تناسب سے کہیں زیادہ ہیں، آخر یہ کس ملک کے حملہ آور ہیں؟ اگر امریکی حکومت یہ سوال کرے کہ آپ کی حکومت کی غفلت سے یا عوام کی آپس کی چپقلش یا لیڈروں کی نااہلی سے جو لوگ مارے جارہے ہیں وہ تو کس قدر زیادہ ہیں تو ہمارے پاس کیا جواب ہے؟ اسی طرح اگر ہم کشمیریوں پر بھارتی مظالم اور قتل کرنے والوں کی روداد عالمی پیمانے پر اٹھائیں تو کس طرح اٹھائیں؟ ہمارے گھر میں خود آگ لگی ہوئی ہے اور مرنے والوں کے لواحقین کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کے قتل کے اسباب کیا ہیں اسی لیے ہمارے لیے دنیا میں نہایت برے خیالات پیدا ہورہے ہیں، اگر آپ نوجوانوں کی مایوسی کا اندازہ لگائیں تو آپ کو علم ہوگا کہ ان کی اکثریت ملک سے بھاگ رہی ہے، اچھے اذہان والے لوگ ملک چھوڑ رہے ہیں۔


لہٰذا ہمارے کسی استدلال میں قوت نہیں رہی۔ ابتداء میں عمران خان نے بڑی سخت امریکا مخالف لائن لی تھی اس سے صوبہ سرحد خصوصاً پختونوں میں ان کی قوت بڑھی، ووٹ بینک میں اضافہ ہوا مگر جلد ان کو احساس ہوگیا تو امریکا مخالف جذبات بھڑکانے کم کردیے اور اب وہ صرف یہ فرما رہے ہیں کہ ہم امریکا سے دوستی چاہتے ہیں، مگر برابری کی سطح پر، مگر برابری کی سطح کے لیے اگر آپ کے پاس رقم بھی ہے تو دوستی ہوسکتی ہے، لیکن اس میں کوئی جوہر پیدا کرنا پڑے گا، محض 2 فٹ کی مونچھیں رکھنے سے ہمارے ملک میں جو عالمی ریکارڈ بنائے جارہے ہیں عالمی سطح پر یہ معیار قابل قبول نہیں۔ تہذیب، تمدن، ادب، ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم کہاں کھڑے ہیں، ہمارے ٹی وی پر ان چیزوں کو اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ پانی سے گاڑی چلانے والی بے سر و پیر کی باتیں کرنے کے لیے ہفتہ بھر بحث کی جاتی ہے اور اب تو ملک سی این جی کی لپیٹ میں ہے ہر طرف یہی آہ و بکا ہے اور حکومت اپنی ملکی انڈسٹری کو بے موت مار رہی ہے، پھر عوامی سطح پر ہر لیڈر کا قبلہ دوسرے سے الگ ہے ، صد افسوس ہم ایک مسلمان ملک ہیں، ہمارے یہاں جمعہ کی نماز بھی پولیس کی نگرانی میں، یومِ عاشورہ بھی زبردست نگرانی میں، آخر یہ امت کس طرف جارہی ہے؟ اور اس کا ذمے دار کون ہے؟ اور یہ بات کسی سے چھپی نہیں کہ تقسیم شدہ قومیں دوسری قوموں کو مداخلت کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔

حیف بھارت میں جمہ کی نماز کے لیے کسی پہرے کی ضرورت نہیں، وہاں کوئی خودکش حملہ نہیں ہوتا، مسلمان آسانی سے نماز پڑھتے ہیں، پہرے کی ضرورت نہیں، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ سب آسانیاں ناپید ہوگئی ہیں۔ اس لیے سبز پاسپورٹ اپنا وقار کھو چکا ہے، اگر صورت حال میں تغیر نہ آیا تو پھر ملت کا شیرازہ کیسے قائم رہے گا؟ ابھی بھی امید کی کرنیں باقی ہیں، علامہ طاہر القادری جیسے زیرک، دور اندیش عالم موجود ہیں جو کاروانِ مذہب و حیات کو مسالک سے بلند ہوکر سوچتے ہیں، مگر تنگ نظر لوگوں کی قوت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ سیاسی بساط ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو صرف اپنے ہی چہرے کو دیکھ سکتے ہیں، ان میں اتنی بھی دور اندیشی نہیں کہ برائی کی اصل وجہ اور ترقی کے زریں اصولوں کو تلاش کرسکیں، مثلاً چونکہ مجرم موٹر سائیکل جرائم میں عام طور پر استعمال کرتے ہیں تو پھر موٹر سائیکل یا ڈبل سواری کی بندش کی جاتی ہے جب کہ 18 کروڑ کے ملک میں چند سو افراد ان جرائم میں ملوث ہیں، خفیہ پولیس سراغ رسانی کا عملہ آخر کس لیے موجود ہوتا ہے، کیا یہاں اس پر بھی کچھ غور کیا گیا؟ گویا ملک میں عام لوگوں کو پریشان کرنا ایک روزمرہ کا دستور بن گیا ہے، صنعتی پہیا بند ہوتا جارہا ہے، سرکاری نوکریاں فروخت ہوتی ہیں اور وہ نہ ہونے کے برابر ہیں، عام طور پر امریکا جیسے ملک میں 70 فیصد لوگ چھوٹے کاروبار سے ہی کماتے ہیں یا چھوٹے کاروباری حضرات کے ملازم ہیں۔

بے روزگاری کا بڑھنا بھی ملک میں جرائم میں اضافے کا باعث بنتا ہے، بے روزگار والدین کے غریب بچے انتہا پسندوں کا ایندھن بن جاتے ہیں، اگر آپ جائزہ لیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ اکثر ایسے غریب اور ناخواندہ لوگوں کے بچوں کو استعمال کیا جاتا ہے، غربت، کم علمی اور تنگ دستی ہی اصل وجہ ہیں، کسی اچھے کھاتے پیتے گھرانے کا فرد ہرگز اس کام میں ملوث نہ ہوگا اور نہ اپنی اولاد کو بھیجے گا، ہاں یقینا اکّا دکّا لوگ جو اس کاروبار میں ہوں گے وہ غربا کی بھرتی کرتے ہوں گے مگر اپنے گھر کو دور رکھیں گے اسی لیے پسماندہ علاقے اس کی لپیٹ میں ہیں، ہمارے ملک میں جب افغان جہاد کا سلسلہ شروع ہوا تو ہمارے حکمرانوں کے نزدیک ڈالر کی آمد نے ان کو کھینچ لیا مگر وہ یہ نہ دیکھ سکے کہ اس کے اثرات آنے والے وقت میں کیا ہوں گے گویا پاکستانی قیادت بلند نظری سے کوسوں دور ہے۔ اس لیے وہ عمل اور رد عمل کو محسوس کرنے سے قاصر ہے۔

کم و بیش یہی صورت حال دیگر مسلم ممالک کی بھی ہے مگر وہ اس قدر گمبھیر حالات سے نہیں گزر رہے ہیں، فلسطین ایک چھوٹا سا خطہ ارض وہاں دو حکومتیں ایک محمود عباس کی مغربی کنارے پر دوسری جانب اسماعیل ہانیہ کی غزہ کی پٹی جہاں مشکل سے 20 لاکھ افراد آباد ہیں۔ ترکی اور شام اب ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں یہاں فرانس کی بڑھتی ہوئی مداخلت ہے۔ بحرین، کویت، یمن اور مصر میں تصادم کی کیفیت ہے، اخوان المسلمین کے لیڈر محمد مرسی اور حزب اخلاف کے آزاد خیال رہنما البرادعی اور دیگر لیڈران اپنے حامیوں کے ساتھ قاہرہ میں طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں ایسے میں مصر کا کیا حال ہوگا اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سنگین صورت حال پیدا ہورہی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملائیشیا اور چند ممالک کے علاوہ جو رہنما اقتدار پر براجمان ہیں وہ وسیع النظر نہیں، دل اور دماغ کی وسعت اور بے لوث قیادت نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ مخالف پارٹی کے احساسات اور عوام کی بہتری کے اقدام ہی ترقی کی شاہراہ کے ضامن ہیں۔
Load Next Story