مہاتیر کی بستی سے لوڈ شیڈنگ کی بستی میں واپسی آخری قسط
ہم سنگاپور کا چنگائی ائیر پورٹ دیکھ کرحیران رہ گئے۔
(گزشتہ سے پیوستہ)
بارش تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی، ہم ٹوائے شاپ کے باہر کھڑے ادھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ ہم نےعدیل بیٹے سے کہا کہ وہ سامنے بورڈ لگا ہوا ہے کہ تازہ پھل دستیاب ہیں، وہ ہی لے آؤ۔ جب تک بارش ہو رہی ہے کچھ پھل ہی کھا لیتے ہیں۔ ہماری بات سن کر عدیل ہنسنے لگا۔
مجھے اچھا محسوس نہیں ہوا کہ میں کچھ کہہ رہا ہوں اور یہ ہنس رہا ہے، میں نے کہا اچھا تم رکو میں لے کر آتا ہوں۔ عدیل بیٹا سنجیدہ ہوتے ہوئے کہنے لگا۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ اصل دکانیں ہیں؟ یہ ٹوائے شاپ جیسی دو چار دکانیں اصل ہیں، باقی ساری کی ساری اس سیٹ کا حصہ ہیں۔ ہاں اس کے سامنے جو مشروبات کا ٹھیلا اصل ہے کہیں تو وہاں سے کوئی مشروب لے آؤں؟ میں نےغور کیا تو محسوس ہوا کہ واقعی بیٹا ٹھیک کہہ رہا تھا، میں کھسیانا سا ہوگیا اور اپنی جھینپ مٹانے کے لئے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
بارش ہلکی ہو گئی تھی اور توقع تھی کہ کچھ دور آگے جاتے جاتے بالکل ختم ہو جائے گی ہم چل پڑے۔ تھوڑا دور گئے تو مصری تہذیب کا حصہ سامنے آ گیا۔ دیو قامت مجسمے سامنے نظر آ رہے تھے، بالکل ایسے جیسے کسی دربار کے دروازے پر دربان کھڑے ہوں۔ اس عمارت کے اندر مصری تہذیب کی نمائندگی کی گئی ہے۔ اس عمارت پر سیاحوں کا ہجوم تھا۔ آگے بڑھے تو جراسک پارک سامنے آگیا اسی سے منسلک واٹر اسپورٹس تھیں۔ پانی کی ایک ندی سی سامنے سے آ رہی تھی اس میں گول سی کشتی پانی کے ایک ریلے کے ساتھ آئی جس میں دس یا بارہ فرد بیٹھے نظر آئے۔ ان کے چہروں سے جوش اور خوف ایک ساتھ نظر آرہا تھا۔ بچے یہ رائیڈ لینا چاہتے تھے لیکن رش کا یہ عالم تھا کہ لائنیں لگی ہوئی تھیں اور ویٹنگ ٹائم کم از کم 180 منٹ تھا۔
سفر نامہ، مہاتیر کی بستی میں( گیارہویں قسط)
سفر نامہ، مہا تیر کی بستی میں (دسویں قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (نویں قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (آٹھویں قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (ساتویں قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (چھٹی قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پانچویں قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (چوتھی قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (تیسری قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (دوسری قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پہلی قسط)
عدیل بیٹا کہنے لگا کہ امریکہ میں بھی یہ یونیورسل اسٹوڈیو ہیں لیکن وہاں ویٹنگ ٹائم 15 سے20 منٹ ہوتا ہے۔ اس س مایوس ہو کر ہم وہاں سے نکل آئے۔ آگے چلے تو کارٹون کے ایک مشہور کردار کا شو شروع ہونے والا تھا۔ ہم نے کہا کہ بڑے بچے ناں تو کوئی رائیڈ لے سکے اور ناں ہی کوئی شو دیکھ سکے۔ کم از کم عنایا کو شو، تو دکھا دینا چاہیئے۔ سب نے اتفاق کیا اور ہم اس شو کی عمارت میں داخل ہوگئے۔ شو اندر ہال میں ہونا تھا لیکن باہر ایک جانب جھولا بنا ہوا تھا جسے دیکھ کرعنایا نے مچلنا شروع کر دیا۔ عدیل اسے لے کر اس جھولے میں بیٹھ گیا۔ جھولے میں عنایا کو ایسا مزا آیا کہ وہ جھولے سے نکلنے سے انکاری ہوگئی۔
شو دیکھ کر باہر نکلے اور ٹائم دیکھا تو ہم حیران رہ گئے۔ ہم صبح 9 بجے ہوٹل سے نکلے تھے اور اب شام کے 5 بجے تھے۔ اتنا زیادہ ٹائم گزر گیا اور ہمیں وقت گذرنے کا احساس ہی نہ ہوا، اب جب پتہ چلا تو بھوک نے ستایا۔ ڈزنی لینڈ کے قلعے جیسا جہاں سیٹ لگا ہوا تھا، وہاں موجود ایک ریسٹورنٹ سے ہم نے کھانا کھایا۔ تھوڑی سی اور آوارہ گردی کی اور اسٹوڈیو سے باہر آ گئے۔ اس کے بعد ٹیکسی کے حصول کے باہر آ گئے۔ اب یہاں پھر زگ زیگ والی لائن ہمارے سامنے تھی۔ ٹیکسیاں آتی رہیں، مسافر بھر بھر کے لے جاتی رہیں حتیٰ کے ہماری باری بھی آ ہی گئی۔
ہوٹل پہنچے تو شام کے ساڑھے 6 بجے تھے۔ کمرے میں آتے ہی ہم نے چائے کا نعرہ مارا، جس کا ساتھ عدیل نے باآواز بلند دیا۔ آج کی اس سیر نے بری طرح تھکا دیا تھا لیکن مزہ بھی بہت آیا۔ ہم عمر کے اس حصے میں ہیں کہ اتنی تحریک بھی تھکا دیتی ہے۔ چائے پیتے ہی ہم تو بستر پر دراز ہو گئے، سونے کا تو موڈ نہیں تھا صرف کمر سیدھی کرنا مقصد تھا۔ 9 بجے ہوں گے کہ عدیل ہمارے کمرے میں آ گیا۔ کہنے لگا! آرام کا موڈ ہے یا ذرا شاپنگ مال تک ہو آئیں کچھ چیزیں خریدنی ہیں۔
ہم پھر اٹھ ہی بیٹھے، وہیں سنگاپور شاپنگ مال میں چلے گئے۔ گذشتہ روز تو منی ایکسچینجر ہی بند تھے، آج کرنسی تبدیل کرائی، کچھ چیزیں خریدیں اور واپس آ گئے۔ خواتین پیکنگ میں مصروف ہو گیئں کیونکہ اگلے روز سفر ہی سفر تھا۔ ہمیں پہلے سنگاپور سے ملائیشیا کے کوالالم پور ایئرپورٹ پر اترنا تھا۔ وہاں سے لاہور کی فلائیٹ لینی تھی، اس لئے پیکنگ جلدی جلدی ختم کر کے ہم نیند کی وادی میں اتر گئے۔
اگلے دن جب ہم سنگاپور کے چنگائی ایئرپورٹ پہنچے تو ایئر پورٹ دیکھ کرحیران رہ گئے۔ آتے ہوئے ہم نے غور نہیں کیا تھا، اب جو ہم ایئرپورٹ کے اندر داخل ہوئے تو ایسا لگا کہ ہم ایرپورٹ پر نہیں کسی شاپنگ مال میں پھر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی مختلف ممالک کے ایئرپورٹ ہم نے دیکھے ہیں لیکن اس ایئرپورٹ کا کوئی مثل نہیں ہے۔ سنگاپور ویسے ہی لش گرین ہے اوپر سے ایئر پورٹ بھی لش گرین ہونے کا تصور پیش کر رہا تھا۔ یہ پہلا ایئر پورٹ ہے جو فل کارپٹڈ ہے۔ اس ائیر پورٹ کو سن 2012 میں دنیا کے بہترین ائیر پورٹ کا اعزاز ملا۔
گزشتہ 25 سال سے بزنس کے لئے سفر کرنے والے مسافروں نے اسے دنیا کا بہترین ایئر پورٹ قرار دیا ہے۔ اس ایئرپورٹ پر 360 اسٹور، 160 کھانے پینے کے مقامات ہیں جہاں سفر کرنے والا لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ یہی نہیں اس ایئرپورٹ پر آنے اور باہر جانے والا ہر مسافر اگر اس کے پاس وقت ہو تو اس کے سوئمنگ پول یا یہاں موجود جیکوزی میں ریلیکس کر سکتا ہے۔ اس ایئرپورٹ کے ٹرمینل 2 اور 3 میں فسٹ رن موویز سے مفت میں استفادہ کر سکتے ہیں۔ اس ایئرپورٹ کا ٹرمینل تین دنیا بھر میں اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں1000 بٹرفلائیز موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ بچوں کے ساتھ سفر کر رہے ہیں تو ٹرمینل 2 پرسنگاپور کا روایتی ووڈن بلاک اسٹمپ آرٹ بنانے کی تفریح موجود ہے۔ ہم نے بھی اس تفریح سے لطف لیا، وہاں بلاک ایک لائن میں ایستادہ ہیں، کاغذوں کی وافر مقدار موجود ہے، رنگ وہاں بکھرے پڑے ہیں آپ بلاک پر کاغذ رکھئیے، اس پر رنگ رگڑئیے، بلاک کی تصویر کاغذ پر ابھر آئے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاحوں کے لئے دیگر قابل ِ دید مقامات کی طرح یہ ایئر پورٹ بھی ایک مکمل تفریح گاہ ہے۔
ہم گھوم پھر کر لطف لے رہے تھے لیکن جی نہیں بھر رہا تھا۔ آخر ہماری فلائیٹ کا ٹائم ہوگیا اوراگلے سوا گھنٹے میں ہم کوالا لمپور کے ایئرپورٹ پر تھے۔پی آئی اے کی پرواز حسبِ معمول لیٹ تھی۔ اللہ اللہ کر کے ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے جہاز لاہور کے لئے روانہ ہوا۔ ساڑھے 5 گھنٹے کی پرواز تھی لیکن یہ وقت محسوس نہیں ہوا کیونکہ عنایا کو بھی معلوم ہے کہ جب لائٹ جانے کے بعد دوبارہ لائٹ آتی ہے تو خوشی سے تالیاں بجانی چاہیئے۔ جہاز کے ٹیک آف کے وقت جہاز کی بتیاں بجھیں تو وہ اپنی ماں کی گود میں سمٹ گئی لیکن جونہی پرواز ہموار ہوئی اور جہاز کی بتیاں دوبارہ روشن ہوئیں تو وہ تالیاں بجانا شروع ہوگئی بالکل اسی طرح جیسے لاہور میں لوڈشیڈنگ کے بعد جب لائٹ آتی تھی تو وہ تالیاں بجاتی تھی۔ اس کی تالیاں بجانے کی عادت بے ساختہ ہمیں اس لوڈ شیڈنگ کی یاد دلا گئی جس کا سامنا ہم سب کو لاہور پہنچ کر کرنا تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس۔