ہمارا معاشرہ اور یونان
جمہور میں سے کوئی بھی فرد ایسا نہیں ہے جو حالتِ دگرگوں کو بدلنے کے لیے میدانِ عمل میں آئے ۔
ہمارا معاشرہ اور ریاست اسی کے ساتھ ریاستی ادارے ماسوائے عدلیہ انحطاط پذیر ہیں، کاش ! ہم بحیثیت قوم اس کالم کا آغاز کرتے ہوئے لکھتے کہ دیگر تمام ریاستی ادارے ترقی پذیر ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے کوفت اور کفِ افسوس ملنے کے بجائے کسی بہانے خوش ہی ہوجاتے۔
دیکھا گیا ہے کہ پاکستان سے پہلے یا بعد میں آزاد ہونیوالے ممالک آج ترقی وکامرانی کی راہوں پرگامزن ہیں،کوئی سینہ ٹھونک کرکہتا ہے کہ ہم ایشین ٹائیگر بننے جارہے ہیں،کوئی چاند پر قدم رکھنے کے لیے تیار ہے اور ہم پاکستانی من حیث القوم اب تک جمہوریت لانے کے لیے برسرِ پیکار ہیں، ہم ابھی تک فرقہ وارانہ فسادات میں ہی اُلجھے ہوئے ہیں۔ ہم کو آزاد ہوئے 65 برس ہوچکے ہیں، لیکن آزادی کی قیمت ابھی تک ادا کر رہے ہیں، وہ بھی نہتے اور معصوم لوگوں کی لاشوں پر سیاست کرکے، یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہم پر جابر حکمران قابض تھے اور ہیں۔
جمہور میں سے کوئی بھی فرد ایسا نہیں ہے جو حالتِ دگرگوں کو بدلنے کے لیے میدانِ عمل میں آئے، اوّل تو اقتدار سے چمٹے حکمرانوں کو ہٹانے کے لیے کوئی عوامی تحریک وجود ہی میں نہیں آئی اور جو آئی وہ مرکز میں جاکر اس کی چکا چوند کردینے والی زندگی میں ضم ہوکر عوام سے الگ ہوگئی۔ ان کے نزدیک بھی اقتدار سے چمٹے رہنا باعثِ حصول مراعات بن گیا، اور اب ان کا مقصدِ حیات بھی عوام کے بیچ رہ کر عوام کی کھال اتارنا ہی ہوگیا، چاہے وہ متوسط طبقے کی ہر دلعزیز جماعت ہو یا کوئی اور دوسری جماعت، موجودہ صورتحال کوئی نئی نہیں ہے۔
قدیم تہذیبی خطوں میں یونان ہی میں ایسی صورتحال تھی، لیکن سولن (Solon) 594 ق م میں جب آرکن منتخب ہوا، اس کے آنے سے پہلے یونان کی سیاسی، سماجی، معاشی، فلاحی، ثقافتی اور جمہوری حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی، وہ سولن ہی تھا جس نے سامراجی بتوں کو توڑ کر زرعی اصلاحات نافذ کرکے جمہوری روایت کو آگے بڑھایا، اس کو یونان کا بلاشبہ سب سے بڑا سیاستدان اور قانون سازکہا جائے تو غلط نہیں ہوگا، آپ سب کے علم میں ہے کہ سیاستدان کا کام غلط کو صحیح کرنا اور عوامی خدمت کو اپنا شعار بنانا ہوتا ہے، وہ ایسے اقدامات کرتا ہے جس کی رو سے ایک عام آدمی کو زندگی گزارنے کے ڈھنگ آجائیں اور وہ اچھے اور بُرے فیصلوں پر اپنا حق رائے دہی بلا خوف وخطر دے سکے۔
سولن نے زراعت کے شعبے کو ترقی دے کر ہاریوں کے مسائل حل کیے، جو اس سے پہلے کسی حکمران نے نہیں نافذ کیے تھے، کسانوں کے قرضے معاف کروائے، ان کو امراء کی غلامی سے آزاد کروایا،کاشت کے لیے موثر حکمتِ عملی ترتیب دے کر زمین کا تعین کیا، غریبوں کے ساتھ ساتھ اس نے ریاست کے قابلِ احترام پیشوں کو انھی پیشوں کے ماہرین کو سونپ دیا جس سے یونان کی ترقی کے دریچے وا ہوئے اور پھر سولن کے بعد کلیتھنر (Cleithener) نے سولن کے کاموں کو آگے بڑھایا اور جابر حکمرانوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ایک ایسا قانون نافذ کیا جس کی رو سے اگر جابر حکمران کے خلاف معززین شہر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے تو اس کو ملک بدر کردیا جاتا۔
پھر اس عمل کے بعد جمہور کی طاقت بڑھنے لگی، لہٰذا ایرانی فرمانروائوں نے یونان پر حملہ کیا تو وہ کسی بھی صورت غلبہ نہ پاسکے،ایک زمانے میں ایتھنز(Athense) میں ایسا دور بھی آیا جب عوام الناس پر جابر حکمران مسلط بھی ہوجاتے تو عوام ان کو مار بھگاتے اورعوامی حکومت منظرِ عام پر آجاتی۔ اس طرح یونان میں جمہوری اور شخصی طرزِ حکومت کا ملا جلا سا دور حکومت منظر عام پر آجاتا۔ لیکن بحیثیت مجموعی دونوں طرزِ حکومت کی اولین ترجیح عوام کی فلاح و بہبود ہی ہوتی، یہاں پاکستان میں دورِ جمہوریت ہو یا دورِ شہنشاہی، عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر ان کی ہڈیوں کا سرمہ بنایا جاتا ہے،جس سے دیواروں پر لکھا جاتا ہے ''جمہوریت زندہ باد، عوام زندہ باد'' یہ ایک کھلا مذاق ہے۔
یہاں سنگدل حکمرانوں سے مراد افراد پر مشتمل ایک ایسا گروہ ہے جو شیر کی کھال میں بھیڑیے ہوتے تھے جن کا نعرہ جمہوریت تو ہوتا تھا لیکن ان کی مکروہانہ چالیں غربت کی چکی میں پسے ہوئے مظلوم عوام کو بیوقوف بناتی تھیں وہ دراصل جابر ہی ہوتے تھے۔ لیکن یہ گروہ لفظ ''جابر'' کا استعمال ظالم کے معنی میں نہیں استعمال کرتے تھے بلکہ ہر وہ شخص جس نے عوام کے نام پر سیاسی اختیارات کو اپنے قبضے میں کر رکھا تھا اور وہ ریاست کے حکمران بن بیٹھے تھے انھیں جابر کہا جاتا تھا۔ یونان میں ایسا گروہ عوامی عتاب کا شکار ہوا، ان کی حکومتوں کا طرزِ عمل یہ تھا کہ وہ عوام کے بیچ تو آئے اور ان کی ترقی کی باتیں کرتے، ان سے وعدے وعید کرتے (موجودہ سیاسی ڈھانچے میں ہم سب کو ایسے ہی حکمرانوں کا سامنا ہے) اور پھر عوام کے بیچ رہ کر ہی اپنی عسکری قوتیں (عسکری ونگز) بڑھاتے اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتے تھے۔
تاثر تو یہی دیا جاتا ہے کہ وہ عوامی حمایت لے کر آئے ہیں، درحقیقت (عوام کو عقوبت خانوں میں ڈال کر ان کے حق رائے دہی ان کے کارندے انجام دیتے تھے) لیکن جابر حکمرانوں کو ذاتی اقتدار کی ہوس ہوتی تھی اور وہ اپنے اقتدار کے خواہاں ہوتے تھے۔ ایسے میں ان کی حکومت کو ختم کرنا بہادری و شجاعت سمجھا جاتا تھا۔ ڈریکو (Draco) 621ق م آرکنِ منتخب ہوا، آرکن سے مراد کسی ایسے شخص کے ہیں جسے شہر کے باعزت لوگ باہمی مشاورت سے منصب حکمرانی پر فائز کرتے تھے۔ وہ شہر کے اندرونی معاملات کا نگران بھی ہوتا تھا، ڈریکو کو وسیع اختیارات سونپے گئے اور اصلاحات نافذ کرنے کے بھی، لیکن اس نے اپنے منصب سے وفا نہ کی نہ ہی عوام کی فلاح و بہبود اس کے نظر محبوب رہا، اس کو تو اپنا اقتدار ہی عزیز رہا (ہمارے سیاستدانوں کی طرح ) لیکن ڈریکو نے قوانین عامہ کو تحریری شکل ضرور دے ڈالی اور توڑنے کی سخت سزائیں بھی مرتب کیں۔
اس کے ناقص طرزِ حکومت کی وجہ سے عوام نے اس کو حکومت کے تخت سے گھسیٹ کر زمین بوس کردیا، کاش! ہم بھی اسی جرأت کا مظاہرہ کرسکتے تاکہ آئندہ ایسے حکمرانوں کو حکومتی مشینری کا حصہ آئینی طور پر نہ بننے دیا جائے ۔ دیکھا جائے تو جمہوری نظام حکومت کو پہلی مرتبہ یونان ہی میں عملی شکل دی گئی۔ سیاست ہو کہ فلسفہ، طبعی علوم ہوں کہ فنونِ لطیفہ اور طب کے شعبے میں تو یونان اپنے شباب پر تھا اور ساری دنیا میں یونانی علوم پھیلتے چلے گئے، یونانی اپنے آپ کو ہیلن (Helen) کی اولاد بتاتے ہیں لہٰذا خود کو ہیلنس (Helence) کہتے ہیں۔
یونان نے اپنے نو آبادیاتی دور میں بھی تاجر اور صنعتکاروں کو اپنی جانب راغب کیا جس کے باعث امرلو کو اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا، اسی طرح کی ناگزیر صورتحال پاکستان کے محل وقوع میں بھی نافذ العمل ہونی چاہیے۔ اس سے یہ ہوا کہ صرف جاگیرداروں کو نمائندگی کا حق نہ رہا بلکہ ایک عام شہری بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتا رہا۔ Solon سولن کی اصلاحات کو اور پھر بعداز سولن کلیتھنز کے کام نے امراء اور غرباء کے بیچ حائل زر کی خلیج کو معدوم کردیا اور ہر نفس کو برابری کی بنیاد پر حکومتی انتظامات میں حصہ دے دیا، تو سب یونانی اپنے ملک سے محبت کرنے لگے اور وہ اس کی آزادی، خودمختاری،ترقی اور تجارتی برتری کے لیے ہمہ تن مستعد ہوگئے۔
جب ایتھنز (Athense) میں اور اس کے آس پاس کی شہری ریاستوں میں جمہوریت کی داغ بیل ڈالی جارہی تھی تو اس وقت اسپارٹا اور اس کے قرب وجوار کی ریاستوں میں شاہی طرزِ حکومت تھی، صدیوں پہلے انسانی تہذیب نے نظام حکومت کو برابری کی بنیاد پر آپس میں تقسیم کیا،جاگیردار اور ایک عام شہری کی حیثیت ایک ہی سی ہوکر رہ گئی۔ یہی نظام پاکستان میں رائج ہونا چاہیے، غریب کے بچے کے لیے پیلا اسکول کیوں اور امراء کے بچوں کے لیے ایلیٹ اسکول کیوں؟ سب کو نظامِ تعلیم یکساں و مساوی ملنا چاہیے۔
دورِجمہور کے آنے کے بعد اسپارٹا میں موروثی بادشاہت اور موروثی سیاست کم تو ہوگئیں لیکن ان کی جڑیں قائم رہیں، یونان میں ہر دور میں کوئی نہ کوئی مردِ آہن آتا اور ایوانوں اور محلات کے درو دیوار ہلا دیتا، پرسیس تراتسس (Prisis Tratsus) کی یہی کوشش رہی کہ حکومتی امور میں نچلا طبقہ بلاامتیاز شامل ہو۔ اس نے امراء کی امارت اور غرباء کی مفلسی کے بیچ خلیج پاٹ دی اور یونان میں انقلاب برپا کردیا۔ مگر ترقی ، ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں انسان زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ ہمیں قوی امید ہے کہ ہم ہی میں سے کوئی سولن (Solon) کوئی کلیتھنز یا کوئی پرسیس تراتسس (Prisis Tratsus) آئے گا۔ ہمارے وطن عزیز میں تو کوئی ایسا نہیں، نچلے طبقے کے سیاستدانوں نے عوام ہی میں سے جنم لیا اور انھی کے بیچ نمو پائی، لیکن مرکز کی چکا چوند روشنی میں ان کے انقلابی دعوے بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے، اب کوئی موسیٰ ہی آئے گا۔