سر درد کی دوائی سے کینسر کا علاج
دنیا بھر کے قیدیوں کی کُل آبادی کا نصف تین بڑے صنعتی ممالک امریکا ، روس اور چین کے جیل خانوں میں ہیں۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو وہ موجودہ طرز کی جیلوں کے تصور سے تہی نظر آتی ہے۔انسانی ظلم و تعدی کے واقعات کی تاریخ میں کوئی کمی نہیں۔لیکن جیلیں بنا کر اُس میں افراد کو محبوس رکھنا ایک نیا اور انوکھا خیال تھا۔غلط طور پر یہ خیال کر لیا گیا کہ اِس طرح سے مجرموں کی اصلاح ہو سکے گی۔ نتیجے کے طور پر معاشرے سے جرائم کی بیخ کنی ہوگی۔مجرم ہر دور میں ہر تہذیب اور معاشرت کے لیے درد ِ سر رہے ہیں۔
مجرموں کی گرفتاری سے لے کر انھیں جرائم کی قرار واقعی سزا دینا بجائے خود مطلوب نہیں ہوتا بلکہ اِس تمام عمل کا محرک معاشرے سے جرائم کا خاتمہ اور مجرمین کی اصلاح ہوا کرتا ہے۔مجرمین کی سزا اور اصلاح کے لیے جدید نظامِ انصاف نے جیل خانہ جات کا نظام متعارف کروایا۔یہ تصور اصل میں مستعار تھا نظریہ افادیت کے بانی اور معروف انگریز فلسفی جرمی بینتھم (15-02-1748تا 06-06-1832) کے ''پینوپٹی کون'' کا۔انیسویں صدی میں برطانیہ سے موجودہ طرز کی جیلوں کا آغاز ہوا۔
سب سے پہلا جیل کون سا تھا یہ تو علم نہیں ہے لیکن تاریخ اٹھارویں صدی تک جیلوں کے وجود سے عاری نظر آتی ہے۔اٹھارویں صدی تک برطانیہ میں یہ رواج تھا کہ خطرناک مجرموں کو سر زمین سے بے دخل کر دیا جاتا۔ تمام خطرناک مجرموں اور بدمعاشوں کو پکڑ پکڑ کرغیر آباد امریکا بھیج دیا جاتا تھا۔آج کا امریکا اٹھارویں صدی کے بدمعاشوںکا گویاجیل خانہ تھا۔ یہ سلسلہ عرصے تک جاری رہا ۔ امریکی انقلاب کے بعد مجرمین آسٹریلیا بھیجے جانے لگے۔اپنی نو آبادیات میں بھی انگریزوں کا یہی وطیرہ تھا ۔ یہاں کالا پانی انگریزوں کی خطرناک ترین سزائوں میں شمار ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ برطانیہ نے اپنی ہی سر زمین پر جیل خانے بنا کر وہاں مجرموں کو ٹھونسنا شروع کردیا۔
پھر تو یہ سلسلہ چل پڑا ۔ تقریباً ہر ملک میں جیل خانے تعمیر ہونے لگے اور مجرموں کو سزا کے طور پر وہاں رکھا جانے لگا۔ آج کیفیت یہ ہے کہ دنیا بھر کی جیلوں میں کم و بیش ایک کروڑ سے زائد افراد قید ہیں۔ یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔قیدیوں کی سب سے بڑی تعداد امریکا میں پائی جاتی ۔اعداد و شمار کے مطابق امریکا کی جیلوں میں تئیس لاکھ سے زائد افراد قید ہیں۔جس طرح پیداوارمیں امریکا آگے ہے بعینہ مجرمین اور قیدیوں کی پیداوار بھی وہاں کسی بھی ملک سے کہیں زیادہ ہے۔ہر ایک لاکھ افراد پر751 امریکی جیل میں ہیں۔گویا اگر آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو ہر َسو بالغ امریکیوں میں سے ایک جیل میں ہے۔
دوسرا نمبر آتا ہے ایک اور عظیم صنعتی ملک ُروس کا۔ امریکا کے بعد سب سے زیادہ جیلوں کی آباد کاری رُوسیوں نے کی ہے۔ ہر ایک لاکھ رُوسیوں پر 627رُوسی جیل میں ہیں۔ یہاں اُن مباحث کا موقع نہیں ہے کہ صنعت کاری اور شہرکاری کا جرائم سے کیا تعلق ہے۔بس یہ جان لیجیے کہ دنیا بھر کے قیدیوں کی کُل آبادی کا نصف تین بڑے صنعتی ممالک امریکا ، روس اور چین کے جیل خانوں میں ہیں۔چین میں 15لاکھ افراد جیل میں قید ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ جیل جیل ہی ہوتی ہے۔وہاں قیدیوں سے نہ تو اچھا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور نہ ہی موجودہ نظامِ انصاف میں یہ ممکن ہی ہے۔بعض اوقات یہ گمان ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں قیدیوں کے ساتھ عمدہ برتائو کیا جاتا ہے۔
ہم آپ کے سامنے امریکا ہی کی مثال پیش کرتے ہیں۔امریکی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ٹُھونسے جا رہے ہیں۔صرف کیلیفورنیا کی جیل میں 158,000قیدی ہیں۔جب کہ وہاں زیادہ سے زیادہ 84ہزار قیدیوں کی گنجائش ہے۔اب تصور کیا جا سکتا ہے کہ قیدی کس حال میں زندگی بسر کرتے ہوں گے۔ کیفیت یہ ہے کہ شدید ترین موسم میں بھی15ہزار کے قریب قیدیوں کو سونے کے لیے ڈھنگ کی جگہ نصیب نہیں ہوتی۔جیل کے عملے کاقیدیوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک ہوتا ہے اُس کے تذکرے کے لیے تو ایک کتاب بھی ناکافی ہوگی۔
نظامِ انصاف اورنظامِ جیل خانہ جات کا بنیادی مقصد مجرموں کو پکڑ پکڑ کر جیل میں بند کرنا نہیں ہوتا۔ اِس تمام عمل سے مجرمین کی اصلاح اور معاشرتی بھلائی مقصود ہوتی ہے۔اب بینتھم کے نظریہِ افادیت کا یہاں اطلاق کرتے ہوئے دیکھیں کہ کیا جیلوں کی تعمیر سے یہ مقصد حاصل ہوا۔اگر مجرموں کو جیل بُردکر دینے سے معاشرے سے مجرم کم ہو سکتے تو اب تک جیل خانے ختم یا خالی ہو جانے چا ہیے تھے۔ لیکن ہوا اِس کے بر عکس۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔امریکا میں 1985ء میں 744,000قیدی تھے۔ آج وہاں 23لاکھ سے زائد قیدی ہیں۔جیلوں اور قیدیوں کے بڑھنے سے جرائم کم تونہیں ہوئے۔
یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیاکسی مجرم کو جیل بھیج دینے سے وہ جرائم سے توبہ کر لیتا ہے؟کسی بھی ملک اور معاشرے میں اِس طرح کی مثالیں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر کسی کو کسی چھوٹے جرم مثلاً روٹی چُرانے یا جیب کاٹنے کے جرم میں جیل کی نذر کر دیا جائے تو وہ وہاں سے صوم و صلوٰۃ کا پابند بن کر نہیں بلکہ پختہ کار مجرم بن کرنِکلتا ہے۔ جیل جرائم کی نرسری ہیں۔یہ کبھی بھی کہیں بھی اصلاح خانے نہیں رہے۔یہ طے شدہ امر ہے کہ اچھا بھلا عام آدمی جیل جا کر ذہنی مریض بن جاتا ہے۔اب اِسی پر قیاس کر لیں، وہ مجرم جو جیل میں قید ہیں وہ جسمانی اور نفسیاتی طور پر صحت مند ہو کر معاشرے میں واپس لوٹتے ہیں یاواپس آ کر معاشرے کا ناسور بن جاتے ہیں؟
ایک تحقیق کے مطابق ستّر فی صد سے زائد قیدی ایک سے زائد خطرناک ذہنی امراض کاشکار ہو جاتے ہیں۔ایک اور اہم سوال، یہ ذہنی مریض اور مجرموں کی گود سے نکلے قیدی اپنی سزا مکمل کر کے معاشرے میں واپس آتے ہیں تو کیا معاشرہ انھیں قبول کرلیتا ہے؟کیا آپ کسی سزا یافتہ کواپنے گھر یا دفتر میںکوئی کام دینا تو دور برداشت کر سکتے ہیں؟ایسا فرد کیا محسوس کرتا ہوا گا؟ اور پھر قیاس کریں وہ معاشرے میں کرے گا کیا؟ایسے سزا یافتہ اور دُھتکارے ہوئے خودکُش بم بار بنیں گے یا دہشتگردوں کے آلہ کار؟یہ کوئی غیر حقیقی یا سادہ بات نہیں۔ جیل کے قیدیوں کے لیے زندگی موت کھیل سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ آپ اسے یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جیلوں میں خودکشی کا رجحان عام آبادی کی نسبت کم ازکم 15فی صد زیادہ ہوتا ہے۔2002کے اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ قیدیوں میں سے 143خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ اور ایسی ہی کئی وجوہات کی بنا پر''پرزن ابالیشن موومنٹ'' قائم کی گئی۔ یہ جیل خانہ جات کے نظام کے مکمل خاتمے کی تحریک ہے۔اِن کے خیال میں جیل ایک قطعی غیر موثر بلکہ مضر تجربہ تھا ۔اسے اب ختم ہو جانا چاہیے۔وہ جدید نظامِ انصاف پر بھی کڑی تنقید کرتے ہیں۔مختلف اعداد و شمار سے وہ یہ بتاتے ہیں کہ 80فی صد ملزمان میں تو وکیل کے مصارف برداشت کرنے کی سکت ہی نہیں ہوتی۔وہ ''عدالت'' کی توقع کس سے کریں؟اِس تحریک کا کہنا ہے کہ جیل حقوقِ انسانی کے ڈیکلیریشن کے بھی خلاف ہیں۔
موجودہ نظامِ جیل خانہ جات کے ذریعے جرائم کی بیخ کنی اور مجرموں کی اصلاح ایساہی ہے گویا ''سر درد کی دوائی سے کینسر کا علاج'' کرنا۔