حفظِ مراتب

ماسوائے یوسف رضاگیلانی کی برطرفی کے پیپلز پارٹی کی حکومت کو کوئی بڑا سیاسی دھچکا برداشت نہیں کرنا پڑا۔

mjgoher@yahoo.com

آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے سوا کوئی بھی منتخب سربراہ مملکت عزت واحترام کے ساتھ اپنی آئینی مدت پوری کرکے رخصت نہیں ہوا۔ قائد اعظم ملک کے واحد سربراہ تھے جن کا بطور غیر متنازع گورنر جنرل انتقال ہوا۔ ان کے بعد جو بھی گورنر جنرل یا صدر کے منصب جلیلہ پر فائز ہوا وہ غیر متوقع اور غیر معمولی حالات میں اپنی آئینی مدت کی تکمیل سے قبل ہی گھر چلا گیا۔ گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین محلاتی سازشوں کا شکار ہوکر رخصت ہوئے۔

ان کے بعد اقتدار پر قابض ہونے والے گورنر جنرل غلام محمد معذوری کے باوجود جب مستعفی ہونے پر آمادہ نہ ہوئے تو انھیں بھی زبردستی گھر بھیج دیا گیا اور ان کی جگہ جنرل اسکندر مرزا نے اقتدار سنبھال لیا۔ 1956ء کے آئین کے تحت انھیں پاکستان کے پہلے صدر (گورنر جنرل کا عہدہ ختم کردیا گیا تھا) بننے کا اعزاز حاصل ہوا تاہم اسکندر مرزا نے دو برس بعد ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء لگا دیا اور خود کو محفوظ سمجھنے لگے، لیکن آئین کی پامالی انھیں راس نہ آئی اور محض 20 روز بعد ہی جنرل ایوب خان کے ساتھ جنرلوں نے اسکندر مرزا سے ڈرا دھمکا کے جبراً استعفیٰ لے لیا اور انھیں زبردستی ایران بھیج دیا گیا۔

27 اکتوبر 1958 کو جنرل ایوب خان ملک کے صدر بنے، لیکن عزت و احترام سے رخصتی ان کا مقدر نہ بن سکی، جنرل یحییٰ خان نے انھیں اقتدار سے بے دخل کرکے 25 مارچ 1969 کو صدر کا منصب سنبھال لیا۔ تاہم سانحہ مشرقی پاکستان کی رسوائی ان کے گلے کا طوق بن گئی اور انھیں منصب چھوڑنا پڑا، پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا اور ملک کے صدر بن گئے، تاہم انھوں نے سیاسی رہنماؤں سے طویل تر مشاورت اور بحث و مباحثے کے بعد اراکین اسمبلی کے اتفاق رائے سے 1973 میں ایک متفقہ جمہوری آئین کی تکمیل میں کامیابی حاصل کرلی جس کے تحت وہ ملک کے وزیر اعظم بنے اور چوہدری فضل الٰہی نے 14-08-73 کو منصب صدارت سنبھالا۔

توقع یہ کی جا رہی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ملک کو جمہوری استحکام ملے گا، لیکن بھٹو حکومت کو 5 جولائی 1977 کو آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ختم کرکے ملک میں مارشل لاء لگادیا اور ملک کے آئینی صدر چوہدری فضل الٰہی کو چند ماہ بعد ہی ایک حکم نامے کے ذریعے گھر بھجواکر 16ستمبر 1978 کو صدر کا منصب بھی سنبھال لیا۔ جنرل ضیاء الحق نے خود کو ملک کا آئینی صدر ثابت کرنے کے لیے 1984 میں ریفرنڈم بھی کرایا۔

بھٹو تو پھانسی کا پھندا چوم کے امر ہوگئے، لیکن جنرل ضیاء الحق 17 اگست 1988 کو ایک پراسرار فضائی حادثے میں ہلاک ہوگئے اور ان کی جگہ سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان نے صدر مملکت کا منصب سنبھال لیا، انھوں نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتوں کو برطرف کیا ان کے جانے کے بعد فاروق احمد خان لغاری صاحب 13نومبر 1993 کو ملک کے صدر بنے، انھوں نے محترمہ کی دوسری حکومت کو برطرف کیا، لیکن دوسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والے میاں نواز شریف نے عدلیہ کے معاملے پر ایسے حالات پیدا کردیے کہ فاروق لغاری کو قبل از وقت ہی مستعفی ہونا پڑا۔


فاروق خان لغاری کی جگہ میاں نواز شریف نے اپنے قابل اعتماد ساتھی محمد رفیق تارڑ کو صدر کے منصب پر بٹھا دیا۔ انھوں نے یکم جنوری 1988 کو صدارت سنبھالی اور پھر 12 اکتوبر آگئی، جنرل پرویز مشرف نے آمریت کی تلوار برہنہ سے جمہوریت کا سرقلم کردیا اور رفیق تارڑ کو بھی جبری مستعفی ہونے پر مجبور کردیا اور خود صدر کا منصب بھی سنبھال لیا، جنرل مشرف نے 30 اپریل 2002 کو آئندہ پانچ برس کے لیے صدر بننے کے حوالے سے عوامی ریفرنڈم بھی کرایا۔ وہ طویل عرصے تک اقتدار پر قابض رہنے کے خواہاں تھے، لیکن فروری 2008 کے انتخابات کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی، منتخب ایوان اور جمہوری قوتوں نے جنرل مشرف کو رخصت ہونے پر مجبور کردیا۔

بعدازاں آصف علی زرداری بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے، کچھ لوگوں کو ان کا ایوان صدر میں جانا پسند نہیں آیا، منفی عناصر نے اول دن ہی سے صدر زرداری کے خلاف ایک محاذ کھول دیا اور انھیں ایوان صدر سے نکالنے کے لیے وقفے وقفے سے سازشی تھیوریاں منظر عام پر آتی رہیں، مخالف گروپ کے حاشیہ آرائیاں کرنیوالے صدر کی رخصتی اور حکومت کے خاتمے کی تاریخوں پر تاریخیں دیتے رہے، لیکن ان کی خواہشوں کا آنگن سونا ہی رہا کیونکہ تمام تر منفی پروپیگنڈوں، سازشی تھیوریوں، کاغذی پیش گوئیوں، مخالفانہ حاشیہ آرائیوں، بودے الزامات کی دہائیوں اور بے شمار ہمالیاتی اندرونی و بیرونی چیلنجوں کے باوجود صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں پی پی پی کی حکومت اپنے قابل اعتماد اتحادیوں کے تعاون سے اپنی 5سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے قریب تر ہے۔

ماسوائے سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی توہین عدالت کیس میں برطرفی کے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو کوئی بڑا سیاسی دھچکا برداشت نہیں کرنا پڑا، کسی جذباتی ردعمل کی بجائے صدر آصف علی زرداری نے دانشمندی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی مفاد کے پیش نظر اپنی مفاہمتی پالیسی کے تسلسل میں راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم بنادیا۔

کہا جارہا تھا کہ راجہ صاحب بھی اپنے پیش رو وزیر اعظم جیسے انجام سے دو چار ہوں گے، لیکن انھوں نے صدر زرداری کی مشاورت سے عدالتی حکم کے مطابق سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ احسن طریقے سے نمٹا دیا اور راجہ حکومت کی پریشانیاں ختم ہوگئیں، تاہم صدر زرداری کی مشکلات اور آزمائش کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ این آر او کیس سے لے کر میمو گیٹ تک اور دو عہدوں کی بحث سے لے کر توہین عدالت کیس تک صدر زرداری کے خلاف سارے منفی حربے آزمائے جارہے ہیں اور صدر مملکت پوری استقامت اور جرأت کے ساتھ مقابلہ کرتے چلے آرہے ہیں۔

مسلم لیگ ن، پی پی پی کی سب سے بڑی ناقد ہے، اس کے بعض رہنما صدر زرداری کی کردار کشی میں پارلیمانی آداب کی مکمل دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ اسلام آباد میں منعقدہ حالیہ ڈی ایٹ کانفرنس میں بلاول کی موجودگی بعض مخالف رہنمائوں کی طبیعت پر بڑی گراں گزری کہ سرکاری سطح کے اجلاس میں بلاول کس حیثیت سے شریک ہوئے؟ شاید یہ رہنما عالمی سطح کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کے آداب سے آگاہ نہیں۔ تنقید کرنا بڑا آسان ہے، لیکن یاد رکھیے کہ جب شہادت کی انگلی سے دوسروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو چار انگلیاں اپنی ہی جانب ہوتی ہیں۔

مخالف رہنمائوں کے زبان و بیان کی ''سیاہی'' سے خود ان کا دامن داغ دار ہورہا ہے، صدر کے خلاف ان کے جارحانہ لب و لہجے نے میاں نواز شریف کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ آصف علی زرداری منتخب صدر ہے، ان کے خلاف غیر شائستہ زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے، توقع کی جانی چاہیے کہ ن لیگ کے رہنما الیکشن مہم میں صدر کی کردار کشی سے گریز اور ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں گے کہ یہی حفظِ مراتب کا تقاضا ہے۔
Load Next Story