فریضۂ قربانی اورنام و نمود کا چلن

سیدنا ابراہیم ؑ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ پوری طرح شرک و کفر کی دبیز چادر میں لپٹا ہوا تھا


راحیل گوہر September 02, 2016
سیدنا ابراہیم ؑ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ پوری طرح شرک و کفر کی دبیز چادر میں لپٹا ہوا تھا : فوٹو:فائل

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے قلب سلیم سے نوازا تھا۔ آپؑ کی پوری زندگی ابتلا و آزمائش سے عبارت ہے۔ آپؑ کی حیات طیبہ میں آزمائشوں و امتحانات کا سورج نصف النہار پر رہا۔ قرآن حکیم میں اﷲ نے اپنے اس بندے کی آزمائشوں کا نقشہ کچھ یوں کھینچا گیا ہے '' اور جب ابراہیم کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو ان پر پورے اترے'' (البقرہ)

دراصل اس دنیوی زندگی کی تو غرض و غایت ہی امتحان ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے '' (اﷲ) وہ ہی ہے جس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کر نے والا ہے۔'' (الملک)

اس کائنات میں تمام بنی نوع آدم کی ظاہری اور معنوی فوز و فلاح اور نجات اخروی، رب کائنات کی حقیقی معرفت، اس کی رضا و خوش نودی میں مضمر ہے۔ چناں چہ خالق کائنات نے انسان کو سمع و بصر، عقل و فہم اور فراست و دانش مندی کی استعداد و صلاحیتوں سے بہرہ مند فرما کر ابتلا و آزمائش کی بھٹی میں جھونک دیا، تاکہ کھرا ا ور کھوٹا سامنے آجائے۔ ایک طرف معبود حقیقی کی محبت و پرستش کا تقاضا ہے تو دوسری جانب اس دنیا کی زیب و زینت، مرغوباتِ نفس، عیش و طرب کے دل آویز مواقع اور طاؤس و رباب کی سحر انگیزیاں دامن گیر ہوتی ہیں، اب اس رسہ کشی کا زور کس طرف زیادہ ہوتا ہے اور انسان کس جانب کھنچتا چلا جا تا ہے، بس یہی انسان کا اصل امتحان ہے۔

سیدنا ابراہیم ؑ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ پوری طرح شرک و کفر کی دبیز چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ بت پرستی، ستارہ پرستی اور مظاہر پرستی کا ایک ایسا فسوں طاری تھا کہ جس کے زیراثر ان کی قوم حق و باطل کی تمیز ہی کھو بیٹھی تھی۔ ملک میں ایک مطلق العنان اور مشرک بادشاہ مسلط تھا، جو خدائی کا دعوے دار تھا، گویا عقائد کا شرک اور اس کا عملی ظہور دونوں عروج پر تھے۔ فسق و فجور کی اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں نور توحید کا کوئی ٹمٹماتا ہوا دیا بھی تاحد نگاہ نظر نہ آتا تھا۔

کفر و الحاد اور تقلیدِ آبا و اجداد کے اس ماحول میں سیدنا ابراہیمؑ نے اﷲ کی طرف سے ودیعت کی ہوئی حق کی بصیرت اور رشد و ہدایت کی روشنی میں ایک نعرۂ حق بلند کیا کہ '' بلاشبہ میں نے اپنا چہرہ اسی کی طرف پھیر لیا ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکین میں نہیں ہوں '' (الانعام) اس نعرے کی گونج اس معبود باطل کے ایوانوں سے ٹکرائی تو ایک ہل چل مچ گئی۔ کفر و الحاد کے اس بحر مردار میں جوار بھاٹا آگیا اور دوسری طرف ابراہیمؑ کو فراست و دانش مندی کے اس امتحان میں سرخ روئی حاصل ہوگئی۔ لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں کے مصداق ابراہیمؑ کے لیے صبر و ثبات، عزیمت و استقامت، صعوبتوں، کٹھنائیوں اور غیرمتزلزل ایمان و یقین کا کڑا امتحان سامنے تھا۔

ایک طرف گم راہیوں اور شرک کی کثافتوں میں لتھڑا پورا معاشرہ تھا، جس کی جڑیں اس بھٹکی ہوئی قوم کی فکر و نظر میں پیوستہ تھیں اور دوسری طرف یک و تنہا انسان دنیاوی وسائل و ذرائع سے محروم۔ لیکن جب قوت ایمانی، مصمم ارادہ اور جذبۂ جنوں اور ذوق یقین دل میں جاگزیں ہو تو فولادی زنجیریں بھی کٹ جاتی ہیں اور راہ میں آئے ہوئے پہاڑ بھی خس و خاشاک کی مانند بہہ جاتے ہیں۔

سیدنا ابراہیمؑ کے عقیدۂ توحید کی مضبوطی اور اس کے بہ بانگ دہل پرچار نے پوری قوم کو غیظ و غضب کی آگ میں جھلسا دیا اور اپنی ذلت آمیز شکست پر اس نظام باطل کے ٹھیکے داروں نے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق اﷲ کے اس دوست کو آگ میں زندہ جلا دینے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن زندگی سے محروم کردینے والی اس لرزہ خیز خبر سے بھی اس بطل جلیل کے پائے استقلال میں کوئی لرزش واقع نہ ہوئی۔ محبت الٰہی کی اس بلند پروازی اور جذب و آگہی کی اس کیفیت پر عقل بھی حیران و ششدر رہ گئی۔

آگ کے دہکتے ہوئے ایک الاؤ میں ابراہیمؑ کو پھینک دیا گیا۔ لیکن صداقت آمیز محبت اور عرفان الٰہی کی انوار و برکات کی بارش نے دہکتے الاؤ کو ٹھنڈک اور سلامتی والا سبزہ زار بنا دیا۔ حکم الٰہی ہوا '' اے آگ ! ٹھندی اور سلامتی والی بن جا ابراہیم ؑ پر'' (الانبیاء)

اس کے بعد سیدنا ابراہیمؑ نے اپنے گھر، خاندان، دوست اور اپنے آبا و اجداد کی سرزمین کو خیرباد کہا اور ایک انجانی منزل کی جانب گام زن ہوگئے، اپنے خالق و مالک اور منعم حقیقی پر بھروسا کرتے ہوئے کہ '' حکم راں ہے اک وہی، باقی بتانِ آزری'' شام، مصر، شرق اردن اور حجاز آپؑ کی دعوت و توحید کا مرکز و محور رہے۔ بس ایک ہی سودا سر میں سمایا ہوا تھا کہ توحید کا کلمہ دنیا کے ہر گوشے میں پھیل جائے۔

سیدنا ابراہیمؑ کی دعوتِ توحید کی اس بھاگ دوڑ میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب اپنی زندگی کی محدودیت اور اپنے مشن کی لامحدودیت کا احساس دل میں جاگا تو بے اختیار یہ دعا نوک زبان پر آگئی۔ '' اے میرے رب! مجھے نیک اور صالح اولاد عطا فرما'' (الصافات)

چناں چہ ستاسی برس کی عمر میں اﷲ نے ایک نیک اور صالح بیٹا عطا کیا۔ لیکن جب یہ بیٹا بچپن گزار کر جوانی کی سرحد میں داخل اور اس قابل ہوا کی باپ کے جاری کیے ہوئے اس مشن میں ان کا دست و بازو بنے، کہ ایک اور قول ثقیل باپ پر نازل ہوا کہ '' اپنے لخت جگر کو اﷲ کی راہ میں قربان کردو'' مگر جس کی پوری زندگی آزمائشوں کی چکیوں میں پستے گزری ہو، اس حکم پر اس کے پا ئے ثبات میں بھلا کوئی لرزش کیسے آسکتی تھی۔ جب کہ دوسر ی جانب بیٹا بھی انتہائی سعادت مند ثابت ہوا، اور اس حکم الٰہی کو سن کر باپ سے بولا ابا جان! کر گزریے جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے، انشاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔

اور پھر چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ بوڑھے باپ نے اپنے جواں سال بیٹے کو منہ کے بل زمین پر لٹایا اور بے دریغ گلے پر چھری پھیر دی۔ اﷲ کی رحمت جوش میں آئی اور بیٹے کی جگہ ایک مینڈھا ذبح ہوگیا۔ اﷲ کی منشا بیٹے کی جان لینا نہیں بل کہ باپ کا امتحان مقصود تھا اور یہ شاید آخری اور کڑا امتحان تھا۔ بہ ہر حال بیٹے کی جگہ مینڈھے کی قربانی بہ طور فدیہ قبول ہوئی اور اس کی یادگار میں وقوع قیامت تک جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ دراز کر دیا گیا۔

یہ ہے حبِ الٰہی اور اطاعت و فرماں برداری کی ایک چشم کشا تصویر اور ایمان و یقین کی گہرائی کے ساتھ تصدیق بالقلب کی صحیح تعبیر۔

زید بن ارقمؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا اے اﷲ کے رسول ﷺ! ان قربانیوں کی حقیقت کیا ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرما یا: '' یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے''
( مسند احمد، ابنِ ماجہ)

گویا جانوروں کی یہ قربانیاں دراصل علامت ہیں امت مسلمہ کی اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و رضا کی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں اس قربانی کی اصل غرض غایت یہ بیان کی گئی ہے '' اﷲ کو قربانیوں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون بل کہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیز گار پہنچتی ہے'' (الحج)

افسوس کہ اس مادہ پرستی کے دور میں ہر عبادت اور ہر سنت ایک رسم بن کر رہ گئی ہے۔ قربانی جیسے مقدس فریضے کو بھی امت کے سواد اعظم نے محض ایک رسم بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس میں بھی سنت ابراہیمی کی اصل روح کو زندہ کرنے کے بجائے ہم اپنی ناک اونچی رکھنے کی زیادہ فکر کرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا ہمسایہ ہم سے زیادہ منہگا اور جاذب نظر جانور لے آئے، اب تو موبائل فون اور کیمرے میں جانور کی عکس بندی بھی کی جا تی ہے تاکہ جس نے قربانی سے پہلے ہمارا جانور نہ دیکھا ہو وہ کم از کم تصویر ہی دیکھ لے۔ اپنے اسی طرز عمل سے ہم خود اپنی عبادات کو ریا کاری اور تصنع کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں اور اس طرح عبادات اور ادائی سنت میں اخلاص، خدا ترسی اور حصول تقویٰ کے برخلاف دنیاوی برتری اور نام و نمود ہمارا مزاج بن گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں