پولیس کے شعبے جرائم کا گڑھ کیوں آخری حصہ
سندھ حکومت سی ٹی ڈی کو کراچی سے باہر ڈویژن سطح پر بھی قائم کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے
سندھ حکومت سی ٹی ڈی کو کراچی سے باہر ڈویژن سطح پر بھی قائم کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے جب کہ سی ٹی ڈی کے خلاف شکایات دور کرنے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ روزنامہ ایکسپریس کے مطابق ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے پولیس ہیڈ کوارٹر گارڈن میں قائم سی ٹی ڈی سیل پر چھاپہ مارکر غیر قانونی حراست میں رکھے گئے دو شہریوں کو بازیاب کرایا اور انسپکٹر سمیت تین اہلکاروں کو معطل کردیا۔ اس کے علاوہ سول لائنز ایریا میں کروڑوں روپے کا جوا کرانے کے اڈے کا انکشاف ہوا ہے۔
سندھ پولیس میں اعلیٰ افسران شکایات زیادہ بڑھ جانے پر کسی افسر کو معطل تو کردیتے ہیں مگر بعض معطلیاں محض کاغذی ہوتی ہیں اور معطل افسرا پنی جگہ برقرار رہ کر سرکاری فرائض بدستور انجام دیتا رہتا ہے اور بعض معطل ہونے والوں کی معطلی کے آرڈ تاخیر سے نکلتے ہیں اور فائلوں میں دبا بھی لیے جاتے ہیں۔ معطل کرنے والا اعلیٰ افسر اپنے احکام پو فوری عمل نہیں کرتا یا معطل کرکے بھول جاتا ہے اور معطل افسر اپنی جگہ کام جاری رکھتا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کی خبر کے مطابق ایڈیشنل آئی جی ثنا اﷲ عباسی نے خرم وارث کو پولیس سے برطرف کردیا ہے جب کہ ایک سینئر کرائم رپورٹر کے مطابق ایسا نہیں ہے بلکہ خرم وارث معطل ہے، پولیس میں جن افسروں کو معطل کیا جاتا ہے وہ بعد میں اکثر بحال ہوجاتے ہیں کیوں کلہ وہ تحقیقات میں خود کو بری کراکر پہلے سے بھی اچھا عہدہ اپنے تعلقات کے باعث حاصل کرلیتے ہیں جن کی شکایت پر پولیس افسر معطل ہوتا ہے تو وہی معطل افسر اپنے پیٹی بھائیوں کی ملکی بھگت یا دباؤ سے شکایت کنندہ سے راضی نامہ کرلیتا ہے اور اس کے خلاف کارروائی ختم ہو جاتی ہے۔
سی ٹی ڈی کے قیام کا مقصد اہم تھا اور وفاقی حکومت نے چاروں صوبوں میں سی ٹی ڈی دہشت گردوں کی گرفتاری اور دہشت گردی روکنے کے لیے سی آئی اے پولیس کی جگہ قائم کی تھی جس کے ماہر اور تجربے کار افسران نے اچھے نتائج بھی دیے جس کا ثبوت سانحہ صفورا کے ملزمان کی گرفتاری بھی ہے۔ سی ٹی ڈی نے کراچی ہی نہیں بلکہ کے دیگر صوبوں میں بھی کامیابیاں حاصل کیں مگر سی ٹی ڈی کے بعض کرپٹ افسروں اور اہلکاروں نے اسے بھی سی آئی اے کی طرح بدنام کرانا شروع کردیا ہے۔
جس کی وجہ سے سی ٹی ڈی کی پوزیشن خراب ہورہی ہے اور اس پر بھی بے گناہ شہریوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کرنے کے الزامات لگے ہیں اور سی ٹی ڈی افسروں اور اہلکاروں کی معطلیاں بھی ہوئی ہیں جن کی منصفانہ تحقیقات ضروری ہے تاکہ ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے اور سی ٹی ڈی کو بدنام کرنے والے کرپٹ پولیس افسروں اور اہلکاروں سے نجات حاصل کی جاسکے کیوںکہ سی ٹی ڈی جس مقصد کے لیے وجود میں آئی تھی وہ مقصد ابھی پورا نہیں ہوا اور دہشت گردوں کی گرفت اور ناکامی کے لیے سی ٹی ڈی کو اچھی شہرت کے حامل بے لوث افسروں اور اہلکاروں کی ضرورت ہے جو رشوت وصولی سے زیادہ اپنے ملک و قوم کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات کو ترجیح دینے والے ہوں۔
کراچی پولیس میں اب ایسی ایسی شکایات جنم لے رہی ہیں جن کا پہلے قصور بھی نہیں تھا۔ ایسی شکایات میں سب سے سنگین الزامات اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیوں کے ہیں اور اب پولیس موبائلیں بھی اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیوں میں استعمال کی جارہی ہیں جو انتہائی تشویشناک عمل ہے کہ اغوا اور ڈکیتی روکنے والی پولیس خود وارداتیں کرنے لگے۔
ان الزامات کے تحت پولیس افسران اور اہلکار گرفتار بھی ہوئے ہیں جن کے قبضے سے پولیس موبائلیں اور سرکاری اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔ حال ہی میں پولیس کی چار نئی موبائلوں میں سوار بیس پولیس افسروں اور اہلکاروں نے اورنگی ٹاؤن میں مقامی تاجر کے گھر میں گھس کر ڈکیتی کی اور قیمتی سامان اور نقدی و زیورات لوٹ کر لے گئے جس کا بھانڈا گھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں نے پھوڑدیا اور ایس ایس پی ویسٹ کو ایکشن لینا پڑ گیا اور اس سلسلے میں تحقیقات شروع کرادی گئی ہے۔
بد قسمتی سے پولیس میں ابھی اچھی شہرت کے حامل پولیس افسروں کی کمی ہوتی جارہی ہے جو دس سال پہلے تک موجود تھے مگر اب وہ ریٹائر ہوچکے ہیں۔ سندھ پولیس کی سربراہی آئی جی پی اے ڈی خواجہ کے پاس ہے جو ایس ایس پی کی حیثیت میں متعدد اضلاع میں نیک نامی چھوڑ کر آئے۔ سی ٹی ڈی کے ایڈیشنل آئی جی پولیس ثنا اﷲ عباسی بھی اچھی شہرت کے حامل رہے ہیں ۔بعض اعلی پولیس افسران عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترسکے ہیں جن کی وجوہات یقینی طور پر سیاسی مداخلت اور دباؤ ہے جو انھیں برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور فری ہینڈ کا نہ ہونا بھی ان کی کارکردگی کو متاثر کررہاہے اور پولیس کارکردگی میں بہتری کہیں نظر نہیں آرہی۔
اس میں بھی شک نہیں کہ ملک بھر میں ڈی آئی جی پولیس سطح کے افسران بھی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں اور نچلی سطح پر بھی پولیس اہلکار مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں مگر بدعنوان پولیس افسروں کی وجہ سے یہ قربانیاں ضایع جارہی ہیں اور پولیس کو عوام میں وہ مقام نہیں مل رہا جو ملنا چاہیے۔محکمہ پولیس کو اپنی اندرونی کرپشن کے خاتمے پر توجہ دے کر پولیس کو بدنام کرنے والی کالی بھیڑوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی تاکہ ان کی عزت بحال ہوسکے۔
سندھ پولیس میں اعلیٰ افسران شکایات زیادہ بڑھ جانے پر کسی افسر کو معطل تو کردیتے ہیں مگر بعض معطلیاں محض کاغذی ہوتی ہیں اور معطل افسرا پنی جگہ برقرار رہ کر سرکاری فرائض بدستور انجام دیتا رہتا ہے اور بعض معطل ہونے والوں کی معطلی کے آرڈ تاخیر سے نکلتے ہیں اور فائلوں میں دبا بھی لیے جاتے ہیں۔ معطل کرنے والا اعلیٰ افسر اپنے احکام پو فوری عمل نہیں کرتا یا معطل کرکے بھول جاتا ہے اور معطل افسر اپنی جگہ کام جاری رکھتا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کی خبر کے مطابق ایڈیشنل آئی جی ثنا اﷲ عباسی نے خرم وارث کو پولیس سے برطرف کردیا ہے جب کہ ایک سینئر کرائم رپورٹر کے مطابق ایسا نہیں ہے بلکہ خرم وارث معطل ہے، پولیس میں جن افسروں کو معطل کیا جاتا ہے وہ بعد میں اکثر بحال ہوجاتے ہیں کیوں کلہ وہ تحقیقات میں خود کو بری کراکر پہلے سے بھی اچھا عہدہ اپنے تعلقات کے باعث حاصل کرلیتے ہیں جن کی شکایت پر پولیس افسر معطل ہوتا ہے تو وہی معطل افسر اپنے پیٹی بھائیوں کی ملکی بھگت یا دباؤ سے شکایت کنندہ سے راضی نامہ کرلیتا ہے اور اس کے خلاف کارروائی ختم ہو جاتی ہے۔
سی ٹی ڈی کے قیام کا مقصد اہم تھا اور وفاقی حکومت نے چاروں صوبوں میں سی ٹی ڈی دہشت گردوں کی گرفتاری اور دہشت گردی روکنے کے لیے سی آئی اے پولیس کی جگہ قائم کی تھی جس کے ماہر اور تجربے کار افسران نے اچھے نتائج بھی دیے جس کا ثبوت سانحہ صفورا کے ملزمان کی گرفتاری بھی ہے۔ سی ٹی ڈی نے کراچی ہی نہیں بلکہ کے دیگر صوبوں میں بھی کامیابیاں حاصل کیں مگر سی ٹی ڈی کے بعض کرپٹ افسروں اور اہلکاروں نے اسے بھی سی آئی اے کی طرح بدنام کرانا شروع کردیا ہے۔
جس کی وجہ سے سی ٹی ڈی کی پوزیشن خراب ہورہی ہے اور اس پر بھی بے گناہ شہریوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کرنے کے الزامات لگے ہیں اور سی ٹی ڈی افسروں اور اہلکاروں کی معطلیاں بھی ہوئی ہیں جن کی منصفانہ تحقیقات ضروری ہے تاکہ ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے اور سی ٹی ڈی کو بدنام کرنے والے کرپٹ پولیس افسروں اور اہلکاروں سے نجات حاصل کی جاسکے کیوںکہ سی ٹی ڈی جس مقصد کے لیے وجود میں آئی تھی وہ مقصد ابھی پورا نہیں ہوا اور دہشت گردوں کی گرفت اور ناکامی کے لیے سی ٹی ڈی کو اچھی شہرت کے حامل بے لوث افسروں اور اہلکاروں کی ضرورت ہے جو رشوت وصولی سے زیادہ اپنے ملک و قوم کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات کو ترجیح دینے والے ہوں۔
کراچی پولیس میں اب ایسی ایسی شکایات جنم لے رہی ہیں جن کا پہلے قصور بھی نہیں تھا۔ ایسی شکایات میں سب سے سنگین الزامات اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیوں کے ہیں اور اب پولیس موبائلیں بھی اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیوں میں استعمال کی جارہی ہیں جو انتہائی تشویشناک عمل ہے کہ اغوا اور ڈکیتی روکنے والی پولیس خود وارداتیں کرنے لگے۔
ان الزامات کے تحت پولیس افسران اور اہلکار گرفتار بھی ہوئے ہیں جن کے قبضے سے پولیس موبائلیں اور سرکاری اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔ حال ہی میں پولیس کی چار نئی موبائلوں میں سوار بیس پولیس افسروں اور اہلکاروں نے اورنگی ٹاؤن میں مقامی تاجر کے گھر میں گھس کر ڈکیتی کی اور قیمتی سامان اور نقدی و زیورات لوٹ کر لے گئے جس کا بھانڈا گھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں نے پھوڑدیا اور ایس ایس پی ویسٹ کو ایکشن لینا پڑ گیا اور اس سلسلے میں تحقیقات شروع کرادی گئی ہے۔
بد قسمتی سے پولیس میں ابھی اچھی شہرت کے حامل پولیس افسروں کی کمی ہوتی جارہی ہے جو دس سال پہلے تک موجود تھے مگر اب وہ ریٹائر ہوچکے ہیں۔ سندھ پولیس کی سربراہی آئی جی پی اے ڈی خواجہ کے پاس ہے جو ایس ایس پی کی حیثیت میں متعدد اضلاع میں نیک نامی چھوڑ کر آئے۔ سی ٹی ڈی کے ایڈیشنل آئی جی پولیس ثنا اﷲ عباسی بھی اچھی شہرت کے حامل رہے ہیں ۔بعض اعلی پولیس افسران عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترسکے ہیں جن کی وجوہات یقینی طور پر سیاسی مداخلت اور دباؤ ہے جو انھیں برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور فری ہینڈ کا نہ ہونا بھی ان کی کارکردگی کو متاثر کررہاہے اور پولیس کارکردگی میں بہتری کہیں نظر نہیں آرہی۔
اس میں بھی شک نہیں کہ ملک بھر میں ڈی آئی جی پولیس سطح کے افسران بھی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں اور نچلی سطح پر بھی پولیس اہلکار مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں مگر بدعنوان پولیس افسروں کی وجہ سے یہ قربانیاں ضایع جارہی ہیں اور پولیس کو عوام میں وہ مقام نہیں مل رہا جو ملنا چاہیے۔محکمہ پولیس کو اپنی اندرونی کرپشن کے خاتمے پر توجہ دے کر پولیس کو بدنام کرنے والی کالی بھیڑوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی تاکہ ان کی عزت بحال ہوسکے۔