لفظ بیتی

ہمارے ہاں ذاتی مفاد کی خاطر نظریات اور سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنے کا چلن عام رہا ہے

ہمارے ہاں ذاتی مفاد کی خاطر نظریات اور سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنے کا چلن عام رہا ہے : فوٹو : فائل

لفظوں کی دنیا عجیب ہے، اور اس دنیا میں سفرکرنا دلچسپ۔ آپ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر گویا کسی راز کا پتا چلانے نکلتے ہیں، لیکن آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ راستے میں کس سے ملاقات ہو گی اور اس سفر کا اختتام کون سی منزل پر ہو گا۔

ایک ان دیکھی دنیا کا سفر، جس میں قدم قدم پر آپ کو حیرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ الفاظ کیسے اپنا رنگ روپ بدلتے ہیں اور کس طرح ایک زبان سے دوسری زبان یا ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک پہنچ جاتے ہیں۔ بسا اوقات اس سفر میں آپ الفاظ کو پامال ہوتے بھی دیکھتے ہیں اور اپنا معانی و مفہوم بدلتے ہوئے بھی۔ بہرحال ہر لفظ کی اپنی ایک کہانی ہے، اور کچھ کہانیاں اتنی دلچسپ ہوتی ہیں کہ سنانے سے تعلق رکھتی ہیں۔

جناح کے بارے میں
ہم جانتے ہیں کہ بانی پاکستان کا پورا نام محمد علی جناح تھا۔ اب یہ لفظ جناح کہاں سے آیا اور اس کا پس منظر کیا ہے، اس کے بارے میں معروف صحافی اور دانشور خالد احمد نے اپنے ایک کالم میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ دراصل الفاظ کے پس منظر اور مختلف زبانوں کے الفاظ میں باہمی تعلق کے بارے میں خالد احمد نے انگریزی کالموں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ بعدازاں ان کالموں کے اردو ترجمے کو کتابی صورت میں یکجا کیا گیا۔ مشعل بکس نے یہ کتاب ''لفظوں کی کہانی لفظوں کی زبانی'' کے نام سے شائع کی۔ خالد احمد کی زبانی لفظ جناح کی کہانی ملاحظہ فرمائیں۔

بہت عرصہ قبل کسی نے مجھ سے کہا کہ ''جناح'' عربی لفظ ہے اور اس کا مطلب ''پَر'' (Wing) ہے۔ یہ پرندے کے بازوؤں کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے اور ''طرف'' کے معنوں میں بھی برتا جاسکتا ہے۔ مثلاً کسی صف بستہ لشکر کادایاں یا بایاں Wing۔ ہمارے قائداعظم کے نام کا آخری لفظ بھی ''جناح'' ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کا راہنما ہونے کے ناطے ان کے نام کو عربی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ سٹینلے والپرٹ، جن کی تصنیف قائداعظم پر تازہ ترین کتاب ہے، نے بھی یہی لکھا ہے کہ عربی میں ''جناح'' کا مطلب ''پَر'' (Wing) ہے۔



مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے دوست فراقی صاحب نے سب سے پہلے مجھے بتایا تھا کہ ''پَر'' کے لیے عربی لفظ ''جِناح'' نہیں بلکہ ''جَناح'' ہے ۔ لغت کی تصدیق بھی فراقی صاحب کو درست بتاتی ہے۔ لیکن اردو میں ان دونوں لفظوں کا بدل جانا بہت آسان ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اردو حروف علت استعمال کرنا یا نہ کرنا اختیاری ہوتا ہے اور بیشتر اوقات انہیں استعمال نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا زیر زبر کی تخصیص کے بغیر ''جِناح'' اور ''جَناح'' ایک ہی طرح لکھا جاتا ہے۔ لیکن یہ لاپرواہی لفظ کے معنی مکمل طور پر بدل دیتی ہے۔ ''جِناح'' کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ والپرٹ نے قائداعظم کے متعلق بیشتر باتیں ٹھیک کہیں لیکن ان کے نام کا درست مطلب بتانے میں ناکام رہا۔ قائداعظم کی داستان حیات وہاں سے شروع ہوتی ہے جب انہیں ''مامدالی جینا بھائی'' کہا جاتا تھا۔ سندھ کے مدرستہ الاسلام میں، جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم کے لیے داخلہ لیا، ان کا یہی نام درج ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے بھی اپنے بھائی کو ''مامد'' لکھا ہے۔ بچپن میں ان کے والدین بھی انہیں اسی نام سے پکارتے تھے۔

قائداعظم کے والد کا پہلانام ''جینا'' تھا، خاندانی نام ''پونچا'' تھا۔ جس کا مطلب ہے ''مالدار شخص''۔ یہ گجراتی کاٹھیا واری کاروباری برادری کا مخصوص نام ہے۔ (مثلاً گاندھی کا مطلب ''دکاندار'' ہے اور قائداعظم ہی کے مانند ایک عظیم آدمی کا نام ہے جو اسی صوبے میں پیدا ہوا جہاں قائداعظم کے کاروباری خاندان نے جنم لیا)۔ سو قائداعظم کا پورا نام ''مامدالی جینا بھائی پونجا'' تھا۔ جب قائداعظم 1839ء کے لگ بھگ لندن گئے تو انہوں نے اپنا نام تبدیل کرلیا۔ پہلے انہوں نے ''مامدالی'' سے محمد اور علی کو علیحدہ علیحدہ کیا اور پھر ''جنیا بھائی'' کو مختصر کرکے صرف ''جناح'' کرلیا۔ اس طرح انہوں نے ''ایم۔اے۔ جناح'' کے دستخط شروع کردیئے۔ نام تبدیل کرنے کا مشورہ جس کسی نے بھی دیا ہوگا بہت ذہین آدمی ہوگا۔

لیکن اس لفظ ''جِناح'' کا ماخذ کیا ہے؟ ان کے والد کا نام ''جینا'' تھا (گجرات میں اکثر ناموں کے ساتھ ''بھائی'' جوڑ لیا جاتا ہے)۔ وجہ یہ تھی کہ ان کی والدہ کو زچگی کے حوالے سے کچھ تکلیف تھی اور چونکہ وہ ''زندہ رہ گئے'' تھے لہٰذا ان کا نام ''جینا'' رکھ دیا گیا۔ اس لفظ کا اصل مطلب یہ ہے ''وہ شخص جسے زندہ رہنا ہے''۔ اردو میں ''زندہ رہنا'' کا مصدر بھی ''جینا'' ہے۔ ہمارے دیہاتوں میں ''جینا'' یا ''جینی'' نام کی عورتیں آج بھی مل جاتی ہیں لیکن شہروں میں اب یہ نام ناپید ہے۔ پھر گجراتی برادری سے باہر یہ نام بالکل کم کم دکھائی دیتا ہے۔

سائرن: مسرت کا نغمہ یا سامعہ خراش آواز؟
ڈاکٹر سید حامد حسین نے ''لفظوں کی انجمن میں'' کے نام سے ایک بہت دلچسپ تحقیقی کتاب تصنیف کی ہے۔ مذکورہ بالا کتاب میں سے لفظ سائرن کی کہانی پیش کی جا رہی ہے۔

یہ خشک، غیر شاعرانہ سا نام جس کے بھدے پن کو ہم بعض اوقات ''بھونپو'' کہہ کر ظاہر کرتے ہیں آج کی صنعتی زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ بڑے بڑے شہروں کی بھاگم بھاگ اور بھیڑ والی مشینی زندگی کا ایک حصہ وہ فیکٹریاں ہیں جن کی دھواں اگلتی چمنیاں ان شہروں کی افقی شناخت بن چکی ہیں۔



انھیں فیکٹریوں سے سائرن کی وہ آوازیں سننے کوملتی ہیں جن کے ساتھ فیکٹریوں کے آہنی پھاٹک تھکے ہوئے انسانوں کی ایک بھیڑ کو اگل دیتے ہیں اور مزدوروں کی دوسری بھیڑ کو اپنے اندر بند کرلیتے ہیں لیکن اس غیر شاعرانہ منظر کو حرکت بخشنے والے لفظ ''سائرن'' کو صدیوں پہلے شاعرانہ تخیل نے جنم دیا تھا۔ قدیم یونانی شاعروں نے ''سائرن'' کا ایک عجیب پراسرار مخلوق کی شکل میں تصور کیا تھا۔ ایک ایسی مخلوق کی شکل میں جس کا چہرہ، زلفیں، گردن اور سینہ حسین عورتوں جیسا اور باقی جسم پرندوں کی طرح ہوتا تھا۔

جب سائرنس گاتیں تو آس پاس کی دنیا ان کے شیریں نغمے میں محو ہو جاتی، لوگ بے قابو ہو جاتے، سمندروں میں چلتے جہاز رک جاتے۔ ملاح سمندر میں کود کر سائرنس کے جزیروں کی طرف مجنونانہ انداز سے تیرنے لگتے اور کنارے پر پہنچ کر چٹانوں پر بیٹھ کر سائرنس کے نغمے سنتے رہتے۔ ان کو تن بدن کا، کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا۔ یہاں تک کہ وہ وہیں چٹانوں پر بیٹھے بیٹھے دم توڑ دیتے۔


اس جزیرے سے کوئی زندہ لوٹ کر نہیں آتا۔ لیکن ایک بار انہونی ہوئی۔ جب یونانی ارگوناٹس کا جہاز بحیرۂ روم میں سائرنس کے جزیرے کے پاس سے گزرا تو ان کے ساتھ دیوتاؤں کا چہیتا موسیقار آرفیس بھی تھا۔ آرفیس کے کان میں جیسے ہی سائرنس کی آواز پڑی تو اس نے اپنا رباب اٹھایا اور اپنا بہترین نغمہ اپنے سروں میں چھیڑا۔ سائرنس کی آواز دب گئی۔ صرف ایک ایسا بدقسمت ملاح تھا جس پر ان کا جادو چل گیا۔ وہ بے قابو ہوکر سمندر میں کود پڑا اور پھر واپس نہ آیا لیکن سائرنس کو سب سے زیادہ مایوسی اس وقت ہوئی جب یونانی ہیرو اوڈے سیس ان کے جزیرے کے پاس سے گزرا۔

اوڈے سیس نے پہلے ہی اپنے ساتھیوں اور ملاحوں کے کانوں میں موم بھروا دیا تھا۔ لیکن خود اسے یہ اشتیاق تھا کہ وہ یہ سنے کہ سائرنس کیا گاتی ہیں۔ اس لیے اس نے حکم دیا کہ خود اس کو رسیوں سے مستول کے ساتھ کس کے باندھ دیا جائے۔ اس نے سنا کہ وہ گا رہی ہیں کہ وہ کیا ہے جو انسان کو دائمی سکون دے سکتا ہے اور لافانی خوشی بخش سکتا ہے۔ وہ کیا ہے جسے لافانی حسن کا نظارہ ہوسکتا ہے۔



وہ کیا ہے جو موت کے تصور سے نجات دلاسکتا ہے۔ ان سب کا راز ان کے پاس ہے۔ ان کے ان نغموں ہے جو وہ سنانے والی ہیں۔ ان نغموں میں وہ مٹھاس ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی۔ وہ لطف ہے جو کبھی کم نہ ہوگا۔ وہ مسرت ہے جس کو کبھی زوال نہیں۔ ان نغموں کو سن کر اوڈے سیس بیتابانہ خود کو رسیوں سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کرتا رہا۔ اس کا جسم لہولہان ہوگیا۔

اس کی فوق الانسانی طاقت جو اب دے گئی۔ سائرنس کی آواز کی طلسمی کشش نے اس کے فولادی ارادے کو موم سے بھی زیادہ نرم کردیا۔ بہرحال اس کی دانشمندی کی وجہ سے اس پر اور اس کے ساتھیوں پر سائرنس کا جادو نہ چل سکا اور وہ سب صحیح سلامت ان کے نغموں کی زد سے باہر نکل گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اوڈے سیس کے اس طرح بچ کر نکل جانے سے سائرنس کو شدید جھنجھلاہٹ ہوئی اور انہوں نے غصے میں آکر سمندر میں کود کر جان دے دی۔ اس طرح سائرنس کو اس کے ہی خالق یونانی شاعروں نے مار ڈالا لیکن انیسویں صدی میں ایک فرانسیسی موسیقار نے انہیں پھر سے زندہ کیا اور اسی کے فیض سے سائرنس سے ہم آج بھی واقف ہیں۔

1819ء میں ''کانیار دیلا تور'' نامی اس موسیقارنے موسیقی کے سر پیدا کرنے اور ان کے ارتعاش کی پیمائش کے لیے ایک آلہ بنایا۔ اس کا نام اس نے سائرن رکھا۔ ظاہر ہے یہ قدیم یونانی شاعروں کے تخیل کو اس کا خراج عقیدت تھا لیکن دور حاضر نے انسان رومانی تخیل کو بار بار صدمہ پہنچایا ہے اور یہی عمل اس نے سائرن کے لفظ کے ساتھ کیا۔ انیسویں صدی کے آخر تک جگہ جگہ فیکٹریاں قائم ہوگئیں اور ان میں یکساں بھرائی ہوئی آواز میں اطلاع دینے والی سیٹیوں کا رواج عام ہوا تو اس کے لیے کسی لفظ کی ضرورت ہوئی اور دیلا تور کے آلے کی مناسبت سے اسے سائرن کہنے لگے۔ سوچیے کہاں وہ دائمی مسرت کی بشارت سنانے والی سائرنس کے نغمے اور کہاں فیکٹری کے بھونپو کی سامعہ خراش ناگوار آواز۔

کچھ ذکر لوٹے کا
ہمارے ہاں ذاتی مفاد کی خاطر نظریات اور سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنے کا چلن عام رہا ہے۔ سیاست دانوں کا دوسری پارٹیوں میں آنا جانا لگا رہتا ہے اور اپنے اس فعل پر انہیں کوئی ندامت بھی نہیں ہوتی۔ ماضی میں تو یہ ہوتا رہا کہ سیاست دان ایک پارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرتے اور جیتنے کے بعد حکومت بنانے والی جماعت میں شامل ہو جاتے۔

پچھلے کچھ برسوں سے منتخب نمائندوں کے پارٹی تبدیل کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے، چنانچہ سیاست دانوں نے فارورڈ بلاک کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے، یا پھر ان کو اپنی نشست سے مستعفی ہونا پڑتا ہے۔ لیکن یہ پابندی صرف منتخب ہونے والے نمائندے پر پانچ سالہ پارلیمانی مدت کیلئے ہے۔ اس لیے اب بھی سیاست دان دوسرے ٹھکانوں کی تاک میں رہتے ہیں اور انتخابات کے قریب اڑان بھر کے نئے آشیانوں پر جا بیٹھتے ہیں۔ اصطلاح میں ایسے سیاست دانوں کو ''لوٹا'' کہا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کے پس منظر کے بارے میں خالد احمد نے اپنے ایک مضمون میں روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

1930"ء کے لگ بھگ مولانا ظفر علی خان نے ایک شخص ڈاکٹر عالم کو لوٹا کہا تھا۔ وہ پہلے پہل ایک جماعت اتحاد المسلمین کے رکن تھے، پھر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے مسلم لیگ بھی چھوڑ دی اور کانگریس سے جاملے۔ مولانا مولانا نے انہیں اپنے اشعار اور دیگر تحریروں میں ڈاکٹر عالم لوٹا کا خطاب دیا۔ یہ ڈاکٹر عالم تقسیم ہند کے بعد اس خطاب کا داغ ماتھے پر سجائے ہندوستان چلے گئے۔



وجہ یہ تھی کہ لاہوریے انہیں لوٹا کہہ کر چھیڑتے تھے۔ پنجاب اسمبلی کے ان سیاست دانوں کی حالت زار بھی کچھ ایسی تھی جو غلام حیدر وائیں مرحوم کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کے لیے راتوں رات جناب منظور وٹو سے مل گئے اور پھر وٹو صاحب سے گلوخلاصی کے لیے چودھری پرویز الٰہی کی گود میں جابیٹھے۔ ووٹ دینے والے عوام اور دوسری طرف اردو اخبارات بھی انہیں لوٹا کہنے لگے۔ ان کا عظیم کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے دو ہفتوں کے اندر دو مرتبہ وفاداریاں تبدیل کیں، انعام یہ تھا کہ انہیں لوٹے کا خطاب مل گیا۔ بلکہ اس کارنامے کو تو عالمی ریکارڈ کے طور پر گنیس بک میں درج کیا جانا چاہیے تھا۔''

لفظ لوٹا کے بارے میں خالد احمد رقمطراز ہیں: ''لوٹا'' کا ماخذ ''لوٹنا'' ہی ہے۔ پلیٹس کی ڈکشنری میں بھی یہی درج ہے۔ لوٹنا کا مطلب پہلو بدلنا، دائرے یا چکر میں گردش کرنا ہے۔ مولانا ظفر علی خان نے یہی کنایہ استعمال کیا تھا۔ ان کی مراد یہ تھی کہ ڈاکٹر عالم نے سیاسی قلابازیاں کھائیں اور وہ سیاسی بدعنوانی کے کیچڑ میں لوٹ پوٹ ہوئے۔ دراصل قدیم زمانے میں ایک برتن استعمال ہوتا تھا جس کا پیندا نہیں تھا۔ ''لوٹا'' اسی کی ایک ترقی یافتہ شکل تھی۔

اس کا بھی پیندا نہیں ہوتا تھا لہٰذا یہ زمین پر ٹک نہیں سکتا تھا، ادھر ادھر لڑھک جاتا تھا۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے تقریباً تمام پرانے برتن لوٹے کی طرح کے تھے۔ بے پیندے اور نیچے سے گھڑے کی طرح گول۔ ہم میں سے بیشتر لوگ اپنے بچپن میں ''لٹو'' چلاتے رہے ہوں گے۔ ''لٹو'' کا نام اس کی گردش کے سبب ہے۔ جنہیں کبوتر بازی کا شوق ہے یا کبھی اس شوق میں مبتلا رہے ہیں، انہیں ''لوٹن کبوتر'' کا علم ہوگا۔ یہ کبوتر فضا میں دائرہ وار چکر کاٹتا رہتا ہے۔ یہ لفظ بظاہر ہند یورپی محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن لاطینی میں مٹی اور کیچڑ کے لیے لفظ ''لیٹیم'' (Lutium) ہے۔ لوٹا سے اس کا تعلق خاصا دور افتادہ ہے۔ ایک اور لفظ ہے جو ''لوٹا'' سے قریب ہے لیکن اس کا ایک حرف بدلنا پڑتا ہے۔

یہ لفظ ''روٹا'' ہے۔ یونانی میں اسے پہیے کے لیے استعمال کیا گیا۔ دیگر زبانوں نے اسے اپنایا اور اس میں کئی تبدیلیاں پیدا کیں۔ جرمن نے اسے ''راڈ'' (Rad) یعنی پہیہ کہا۔ اردو ''لوٹنا'' اور ''لوٹا'' دیکھ کر مجھے خیال آتا ہے کہ یونانی میں پہیہ کا بنیادی تصور گھومنے سے متعلق ہے۔ انگریزی Rotate (گھومنا) کا بنیادی تصور ''پہیہ'' ہے۔''
Load Next Story