’’نیوزویک‘‘ ہاتھ سے گیا
مشہورِعالم رسالہ اس ماہ اپنا پرنٹ ورژن ختم کردے گا، صرف انٹرنیٹ پر دست یاب ہوگا.
گذشتہ کچھ عشروں میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ کے شعبے کو بہت زیادہ عروج حاصل ہوا ہے۔
نت نئے ٹیلی ویژن چینلز، اخبارات اور رسائل منظر عام پر آئے اور انہوں نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور خبروں کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ہر ٹی وی چینل اور اخبار کی یہ کوشش رہی کہ وہ اپنے ناظرین و قارئین تک سب سے پہلے، منفرد اور بہتر انداز میں خبر پہنچائے۔
اس مقصد کے لیے نئی ٹیکنالوجیز کا سہار ا بھی لیا گیا، جس میں انٹرنیٹ سر فہرست ہے، جہاں نہ صرف قارئین کو مطلوبہ مواد تک فوری اور ارزاں رسائی حاصل ہو تی ہے، بلکہ پرانا مواد اور اس سے متعلقہ چیزیں بھی بڑی آسانی سے میسر آتی ہیں۔ چناں چہ وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹی وی اور اخباری مالکان بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے بھی سیٹلائٹ اور پرنٹ ورژن پر انحصار کرنے کے بجائے انٹرنیٹ ایڈیشن شایع کر نا شروع کردیے۔ یوں یہ صنعت اخبارات، رسائل اور ٹیلی ویژن سے نکل کر انٹرنیٹ کی دنیا میں بھی مقبولیت حاصل کر گئی، لہٰذا پہلے جہاں ناشتے کی ٹیبل پر اخبارات کا ڈھیر ہوا کرتا تھا وہاں اب دفتر یا گھر میں موجود کمپیوٹر کے ذریعے نہ صرف مختلف اخبارات ورسائل پڑھے جارہے ہیں، بلکہ ٹی وی ٹاک شوز، فلموں، ڈراموں اور موسیقی کا شوق بھی یہیں پورا ہو جاتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی اس قدر تیزی مستقبل میں ٹیلی ویژن انڈسٹری پر بالعموم اور پرنٹ میڈیا پر بالخصوص کیا اثرات مرتب کر ے گی، جب قاری کو ہر قسم کی معلومات اور تفریحات انٹرنیٹ پر بہ آسانی میسر ہوں گی، تو وہ اخبارات اور رسائل کیوں خریدے گا؟ اور کیا کمپنیاں اپنے اشتہار ات کو پرنٹ کے بجائے انٹرنیٹ پر ترجیح نہیں دیں گی؟ اور اگر ایسا ہوا تو پھر پرنٹ میڈیا کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ سے وابستہ صنعتوں میں گردش کر رہے ہیں۔
اس پریشانی میں شدت اُس وقت آئی جب دنیا کے نام ور امریکی ہفت روزہ نیوز ویک نے80سال بعد اپنا پرنٹ ایڈیشن ختم کر کے مکمل طور پر انٹرنیٹ پر منتقل ہونے کا اعلان کیا۔ یہ رسالہ اپنا آخری ایڈیشن اس سال 31دسمبر کو جاری کر ے گا۔ فیصلے کی بنیادی وجہ وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ جس دور میں فرد کو24گھنٹے موبائل، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر پر پَل پَل کی اطلاعات مل رہی ہوں، تو وہ اخبار یا ہفت روزے کا انتظار کیوں کرے؟ جب کہ دوسری وجہ نیوز ویک کے مالک بیری ڈلر کا وہ بیان بھی ہے جو اُنہوں نے رواں سال جولائی میں پرنٹ ایڈیشن کے اخراجات کے حوالے سے دیا، جو ایک رپورٹ کے مطابق 42ملین ڈالر تک جاپہنچے ہیں۔ اس رسالے نے کتنی ہی ایسی اسٹوریز شایع کیں جنہوں نے امریکا میں اور عالمی سطح پر اثرات مرتب کیے، جن میں 90کی دہائی میں سامنے آنے والا امریکی صدر بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کے مابین جنسی تعلقات کا اسکینڈل سرفہرست ہے۔ اس وقت یہ امریکا میں ٹائم میگزین کے بعد دوسرے نمبر پر بڑا ہفتہ روزہ کہلاتا ہے۔
نیوز ویک اور 'دا ڈیلی بیسٹ' کی ایڈیٹر ان چیف ٹینا برائون جو گریٹ بریٹن، وینیٹی فیئر اور نیویارکر جیسے کئی رسالوں میں نئی روح پھونکنے کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں، بھی اس رسالے کو نئی زندگی دینے میں ناکام ثابت ہوئیں۔ اُن کے دور میں یہ رسالہ کئی مرتبہ اپنے متنازعہ ٹائٹل کے باعث تنقید کی زد میں رہا، جس میں برطانوی شہزادی کیتھرین میڈلٹن کے ساتھ لیڈی ڈیانا کی تصویر، مشرق وسطی میں بیداری کی لہر کے دوران مسلمانوں کی دل آزادی کا سبب بننے والی تصویر اور حال ہی میں امریکی صدر اوباما کی تصویر کے نیچے لکھی عبارت، جس میں اُسے ''امریکا کا پہلا ہم جنس پرست صدر'' لکھا گیا تھا، شامل ہے۔ لیکن یہ تمام حربے بھی رسالے پر آنے والے 42 ملین ڈالر اخراجات کا ازالہ نہیں کر سکے۔
ٹینا برائون نے اپنے مضمون میں لکھا ہے،''ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ عوام تک بہتر سے بہتر معلومات کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے، لیکن جب یہ رسالہ چھپائی کے مرحلے میں آتا ہے تو ہمیں بہت سے ایسے تلخ حقائق درپیش ہوتے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میگزین کی چھپائی، تقسیم اور دیگر امور پر جو اخراجات آتے ہیں وہ 42ملین ڈالر سالانہ ہیں۔ کیا اسے مزید جاری رکھنا دانش مندی ہوتی؟ یہ وہ سوال تھا جو ہمیں خود سے کرنا تھا اور وہ بھی ایسے وقت جب دنیا کساد بازاری کی لپیٹ میں ہے۔'' انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ پر یہ رسالہ فوری اور کم لاگت میں فراہم کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت صرف امریکا میں7کروڑ ٹیبلٹ یوزر ہیں اور ایک نئی رپورٹ کے مطابق ہر5 امریکیوں میں سے 2امریکی اب اخبارات اور رسائل اپنے موبائل پر ہی پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہمارے لیے پرنٹ ورژن کو ترک کر نے کا فیصلہ انتہائی افسوس ناک ہے، لیکن دنیا بھر میں پرنٹ ورژن کو ترک کرنے کا رجحان پایا جارہا ہے۔''
منصوبے کے تحت میگزین کے15لاکھ قارئین، جو کبھی30لاکھ ہوا کر تے تھے، کو ڈیجیٹل ایڈیشن تک رسائی دی جائے گی۔ کمپنی کے ترجمان کے مطابق ڈیجیٹل میگزین کی قیمت موجودہ پرنٹ ورژن ہی کے برابر ہو گی۔ کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق نیوز ویک آئی پیڈ ایڈیشن کی قیمت24.99 ڈالر سالانہ ہو گی۔ اس منتقلی کے بعد یقینی طور پر کئی لوگوں کو بے روزگار بھی ہونا پڑے گا، لیکن اُن کی تعداد کتنی ہوگی، اس بارے میں کمپنی فی الحال خاموش ہے۔
نیوز ویک کوئی پہلا شمارہ نہیں جو اپنا پرنٹ ورژن ختم کرکے انٹرنیٹ پر منتقل ہونے جارہا ہے۔ اس سے قبل بھی 'یو ایس نیوز 'اور 'ورلڈ رپورٹ' جیسے اخبارات 2010ء میں یہ قدم اُٹھا چکے ہیں اور اب نیوز ویک کی انٹرنیٹ پر منتقلی اس کے مد مقابل ٹائم میگزین کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ تاہم ٹائم میگزین کے ایڈیٹر رسک اسٹینگل اس قسم کے کسی بھی اقدام کی توقع نہیں رکھتے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں اُن کا کہنا تھا کہ پرنٹ ورجن 'ٹائم برانڈ' کے دل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم نیوز ویک کو ایک مقابل کی حیثیت سے دیکھتے رہے ہیں، لیکن ہمارا مقابلہ ہر ایک سے ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت بہت بہتر جارہے ہیں اور کوشش کر یں گے کہ اس میں مزید بہتری لائے جائے۔ لیکن پبلشرز انفارمیشن بیورو کی جانب سے جو ڈیٹا جاری کیا گیا ہے وہ رسک اسٹینگل کے بیان سے مماثلت نہیں رکھتا ۔ ڈیٹا کے مطابق 30جون2012 تک ٹائم میگزین کے تشہیری صفحات میں 19فی صد یعنی539صفحات کی کمی آئی اور اس کا منافع 14فی صد یعنی 176ملین ڈالر کم ہوا۔ اس کے مقابلے میں نیوز ویک کے تشہیری صفحات میں اس سال کی پہلی شش ماہی میں 7.6فی صد یعنی 344صفحات کا اضافہ ہوا اور یہ منافع 13.3فی صد یعنی تقریباً 70ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ تاہم اس حوالے سے شایع شدہ ایک مضمون کے مطابق نیوزویک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ رسالے کے تشہیری صفحات بڑھنے کی وجہ کمپنی کی جانب سے دی جانے رعایتیں ہیں، جو اب بڑے پیمانے دی جارہی ہیں ۔
کچھ ناقدین نیوزویک کی اس منتقلی کو ذرائع ابلاغ میں تیزی اور دیگر وجوہات کے برعکس اس کی ادارتی رویے کا باعث قرار دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ نیوز ویک کی شہرت اب فقط اس کے ٹائٹل تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ حالاںکہ اس وقت بھی مارکیٹ میں بے شمار ہفت روزے موجود ہیں، جو بہترین کارکردگی دکھارہے ہیں اور روز بروز اُنہیں فروغ بھی مل رہا ہے، جیسے دی نیویارکر، دی اکانومسٹ، دی ویک اینڈ ٹائم، لیکن جہاں تک نیوز ویک کا تعلق ہے تو اس کے ادارتی صفحات قارئین کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔
غیرجانب دارانہ طور پر دیکھا جائے تو نیوز ویک کی انٹرنیٹ پر منتقلی میں کچھ ایسے عوامل بھی کارفرما ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جن میں لوگوں کے اندر مطالعے کے رجحان میں کمی اور اشتہار دینی والی کمپنیوں کا اپنا سرمایہ کسی اور جگہ لگا نے کا رجحان بھی شامل ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف رسائل متاثر ہوئے ہیں بلکہ کتابوں اور اخبارات کو بھی اس سے نقصان پہنچا ہے۔ صنعتی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو پبلشر انفارمیشن بیورو کے ڈیٹا کے مطابق سال کی پہلی ششماہی میں امریکی میگزین کے ایڈورٹائزنگ صفحات میں 8.8فی صد کمی آئی، جب کہ آڈٹ بیورو آف سرکولیشن کے مطابق اخبار فروخت کنندگان کی تعداد میں بھی 10فی صد کمی واقع ہو ئی ہے۔
''ٹائم وارنر پبلشنگ یونٹ'' جو کہ ٹائم، پیوپل اور فورچون جیسے رسالوں کا اشاعتی ادارہ ہے، کو بھی تنزلی کا سامنا ہے۔ اس کے منافع میں سال کی پہلی شش ماہی میں 7فی صد کمی آئی ہے، جو کہ 1.6بلین ڈالر ہے، جب کہ اسی عرصے میں آپریٹنگ انکم 60 فی صد سے 93 ملین ڈالر تک نیچے گئی ہے۔
وجہ چاہے کچھ بھی ہو، لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا جتنی تیزی سے بدل رہی اس کے تقاضوں میں بھی اُتنی ہی تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں، لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ نئے دور کے نئے تقاضوں کو سمجھا جائے اور پرنٹ میڈیا خو کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔ نیوز ویک اگر اپنے اس اقدام سے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے، تو پھر یقیناً دیگر اخبارات و رسائل بھی اس طرح مائل ہوں گے۔ ایسی صورت میں پرنٹ میڈیا کا کیا مستقبل ہوگیا؟ یہ یقیناً ایک اہم سوال ہے۔
نت نئے ٹیلی ویژن چینلز، اخبارات اور رسائل منظر عام پر آئے اور انہوں نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور خبروں کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ہر ٹی وی چینل اور اخبار کی یہ کوشش رہی کہ وہ اپنے ناظرین و قارئین تک سب سے پہلے، منفرد اور بہتر انداز میں خبر پہنچائے۔
اس مقصد کے لیے نئی ٹیکنالوجیز کا سہار ا بھی لیا گیا، جس میں انٹرنیٹ سر فہرست ہے، جہاں نہ صرف قارئین کو مطلوبہ مواد تک فوری اور ارزاں رسائی حاصل ہو تی ہے، بلکہ پرانا مواد اور اس سے متعلقہ چیزیں بھی بڑی آسانی سے میسر آتی ہیں۔ چناں چہ وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹی وی اور اخباری مالکان بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے بھی سیٹلائٹ اور پرنٹ ورژن پر انحصار کرنے کے بجائے انٹرنیٹ ایڈیشن شایع کر نا شروع کردیے۔ یوں یہ صنعت اخبارات، رسائل اور ٹیلی ویژن سے نکل کر انٹرنیٹ کی دنیا میں بھی مقبولیت حاصل کر گئی، لہٰذا پہلے جہاں ناشتے کی ٹیبل پر اخبارات کا ڈھیر ہوا کرتا تھا وہاں اب دفتر یا گھر میں موجود کمپیوٹر کے ذریعے نہ صرف مختلف اخبارات ورسائل پڑھے جارہے ہیں، بلکہ ٹی وی ٹاک شوز، فلموں، ڈراموں اور موسیقی کا شوق بھی یہیں پورا ہو جاتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی اس قدر تیزی مستقبل میں ٹیلی ویژن انڈسٹری پر بالعموم اور پرنٹ میڈیا پر بالخصوص کیا اثرات مرتب کر ے گی، جب قاری کو ہر قسم کی معلومات اور تفریحات انٹرنیٹ پر بہ آسانی میسر ہوں گی، تو وہ اخبارات اور رسائل کیوں خریدے گا؟ اور کیا کمپنیاں اپنے اشتہار ات کو پرنٹ کے بجائے انٹرنیٹ پر ترجیح نہیں دیں گی؟ اور اگر ایسا ہوا تو پھر پرنٹ میڈیا کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ سے وابستہ صنعتوں میں گردش کر رہے ہیں۔
اس پریشانی میں شدت اُس وقت آئی جب دنیا کے نام ور امریکی ہفت روزہ نیوز ویک نے80سال بعد اپنا پرنٹ ایڈیشن ختم کر کے مکمل طور پر انٹرنیٹ پر منتقل ہونے کا اعلان کیا۔ یہ رسالہ اپنا آخری ایڈیشن اس سال 31دسمبر کو جاری کر ے گا۔ فیصلے کی بنیادی وجہ وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ جس دور میں فرد کو24گھنٹے موبائل، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر پر پَل پَل کی اطلاعات مل رہی ہوں، تو وہ اخبار یا ہفت روزے کا انتظار کیوں کرے؟ جب کہ دوسری وجہ نیوز ویک کے مالک بیری ڈلر کا وہ بیان بھی ہے جو اُنہوں نے رواں سال جولائی میں پرنٹ ایڈیشن کے اخراجات کے حوالے سے دیا، جو ایک رپورٹ کے مطابق 42ملین ڈالر تک جاپہنچے ہیں۔ اس رسالے نے کتنی ہی ایسی اسٹوریز شایع کیں جنہوں نے امریکا میں اور عالمی سطح پر اثرات مرتب کیے، جن میں 90کی دہائی میں سامنے آنے والا امریکی صدر بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کے مابین جنسی تعلقات کا اسکینڈل سرفہرست ہے۔ اس وقت یہ امریکا میں ٹائم میگزین کے بعد دوسرے نمبر پر بڑا ہفتہ روزہ کہلاتا ہے۔
نیوز ویک اور 'دا ڈیلی بیسٹ' کی ایڈیٹر ان چیف ٹینا برائون جو گریٹ بریٹن، وینیٹی فیئر اور نیویارکر جیسے کئی رسالوں میں نئی روح پھونکنے کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں، بھی اس رسالے کو نئی زندگی دینے میں ناکام ثابت ہوئیں۔ اُن کے دور میں یہ رسالہ کئی مرتبہ اپنے متنازعہ ٹائٹل کے باعث تنقید کی زد میں رہا، جس میں برطانوی شہزادی کیتھرین میڈلٹن کے ساتھ لیڈی ڈیانا کی تصویر، مشرق وسطی میں بیداری کی لہر کے دوران مسلمانوں کی دل آزادی کا سبب بننے والی تصویر اور حال ہی میں امریکی صدر اوباما کی تصویر کے نیچے لکھی عبارت، جس میں اُسے ''امریکا کا پہلا ہم جنس پرست صدر'' لکھا گیا تھا، شامل ہے۔ لیکن یہ تمام حربے بھی رسالے پر آنے والے 42 ملین ڈالر اخراجات کا ازالہ نہیں کر سکے۔
ٹینا برائون نے اپنے مضمون میں لکھا ہے،''ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ عوام تک بہتر سے بہتر معلومات کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے، لیکن جب یہ رسالہ چھپائی کے مرحلے میں آتا ہے تو ہمیں بہت سے ایسے تلخ حقائق درپیش ہوتے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میگزین کی چھپائی، تقسیم اور دیگر امور پر جو اخراجات آتے ہیں وہ 42ملین ڈالر سالانہ ہیں۔ کیا اسے مزید جاری رکھنا دانش مندی ہوتی؟ یہ وہ سوال تھا جو ہمیں خود سے کرنا تھا اور وہ بھی ایسے وقت جب دنیا کساد بازاری کی لپیٹ میں ہے۔'' انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ پر یہ رسالہ فوری اور کم لاگت میں فراہم کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت صرف امریکا میں7کروڑ ٹیبلٹ یوزر ہیں اور ایک نئی رپورٹ کے مطابق ہر5 امریکیوں میں سے 2امریکی اب اخبارات اور رسائل اپنے موبائل پر ہی پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہمارے لیے پرنٹ ورژن کو ترک کر نے کا فیصلہ انتہائی افسوس ناک ہے، لیکن دنیا بھر میں پرنٹ ورژن کو ترک کرنے کا رجحان پایا جارہا ہے۔''
منصوبے کے تحت میگزین کے15لاکھ قارئین، جو کبھی30لاکھ ہوا کر تے تھے، کو ڈیجیٹل ایڈیشن تک رسائی دی جائے گی۔ کمپنی کے ترجمان کے مطابق ڈیجیٹل میگزین کی قیمت موجودہ پرنٹ ورژن ہی کے برابر ہو گی۔ کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق نیوز ویک آئی پیڈ ایڈیشن کی قیمت24.99 ڈالر سالانہ ہو گی۔ اس منتقلی کے بعد یقینی طور پر کئی لوگوں کو بے روزگار بھی ہونا پڑے گا، لیکن اُن کی تعداد کتنی ہوگی، اس بارے میں کمپنی فی الحال خاموش ہے۔
نیوز ویک کوئی پہلا شمارہ نہیں جو اپنا پرنٹ ورژن ختم کرکے انٹرنیٹ پر منتقل ہونے جارہا ہے۔ اس سے قبل بھی 'یو ایس نیوز 'اور 'ورلڈ رپورٹ' جیسے اخبارات 2010ء میں یہ قدم اُٹھا چکے ہیں اور اب نیوز ویک کی انٹرنیٹ پر منتقلی اس کے مد مقابل ٹائم میگزین کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ تاہم ٹائم میگزین کے ایڈیٹر رسک اسٹینگل اس قسم کے کسی بھی اقدام کی توقع نہیں رکھتے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں اُن کا کہنا تھا کہ پرنٹ ورجن 'ٹائم برانڈ' کے دل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم نیوز ویک کو ایک مقابل کی حیثیت سے دیکھتے رہے ہیں، لیکن ہمارا مقابلہ ہر ایک سے ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت بہت بہتر جارہے ہیں اور کوشش کر یں گے کہ اس میں مزید بہتری لائے جائے۔ لیکن پبلشرز انفارمیشن بیورو کی جانب سے جو ڈیٹا جاری کیا گیا ہے وہ رسک اسٹینگل کے بیان سے مماثلت نہیں رکھتا ۔ ڈیٹا کے مطابق 30جون2012 تک ٹائم میگزین کے تشہیری صفحات میں 19فی صد یعنی539صفحات کی کمی آئی اور اس کا منافع 14فی صد یعنی 176ملین ڈالر کم ہوا۔ اس کے مقابلے میں نیوز ویک کے تشہیری صفحات میں اس سال کی پہلی شش ماہی میں 7.6فی صد یعنی 344صفحات کا اضافہ ہوا اور یہ منافع 13.3فی صد یعنی تقریباً 70ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ تاہم اس حوالے سے شایع شدہ ایک مضمون کے مطابق نیوزویک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ رسالے کے تشہیری صفحات بڑھنے کی وجہ کمپنی کی جانب سے دی جانے رعایتیں ہیں، جو اب بڑے پیمانے دی جارہی ہیں ۔
کچھ ناقدین نیوزویک کی اس منتقلی کو ذرائع ابلاغ میں تیزی اور دیگر وجوہات کے برعکس اس کی ادارتی رویے کا باعث قرار دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ نیوز ویک کی شہرت اب فقط اس کے ٹائٹل تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ حالاںکہ اس وقت بھی مارکیٹ میں بے شمار ہفت روزے موجود ہیں، جو بہترین کارکردگی دکھارہے ہیں اور روز بروز اُنہیں فروغ بھی مل رہا ہے، جیسے دی نیویارکر، دی اکانومسٹ، دی ویک اینڈ ٹائم، لیکن جہاں تک نیوز ویک کا تعلق ہے تو اس کے ادارتی صفحات قارئین کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔
غیرجانب دارانہ طور پر دیکھا جائے تو نیوز ویک کی انٹرنیٹ پر منتقلی میں کچھ ایسے عوامل بھی کارفرما ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جن میں لوگوں کے اندر مطالعے کے رجحان میں کمی اور اشتہار دینی والی کمپنیوں کا اپنا سرمایہ کسی اور جگہ لگا نے کا رجحان بھی شامل ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف رسائل متاثر ہوئے ہیں بلکہ کتابوں اور اخبارات کو بھی اس سے نقصان پہنچا ہے۔ صنعتی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو پبلشر انفارمیشن بیورو کے ڈیٹا کے مطابق سال کی پہلی ششماہی میں امریکی میگزین کے ایڈورٹائزنگ صفحات میں 8.8فی صد کمی آئی، جب کہ آڈٹ بیورو آف سرکولیشن کے مطابق اخبار فروخت کنندگان کی تعداد میں بھی 10فی صد کمی واقع ہو ئی ہے۔
''ٹائم وارنر پبلشنگ یونٹ'' جو کہ ٹائم، پیوپل اور فورچون جیسے رسالوں کا اشاعتی ادارہ ہے، کو بھی تنزلی کا سامنا ہے۔ اس کے منافع میں سال کی پہلی شش ماہی میں 7فی صد کمی آئی ہے، جو کہ 1.6بلین ڈالر ہے، جب کہ اسی عرصے میں آپریٹنگ انکم 60 فی صد سے 93 ملین ڈالر تک نیچے گئی ہے۔
وجہ چاہے کچھ بھی ہو، لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا جتنی تیزی سے بدل رہی اس کے تقاضوں میں بھی اُتنی ہی تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں، لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ نئے دور کے نئے تقاضوں کو سمجھا جائے اور پرنٹ میڈیا خو کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔ نیوز ویک اگر اپنے اس اقدام سے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے، تو پھر یقیناً دیگر اخبارات و رسائل بھی اس طرح مائل ہوں گے۔ ایسی صورت میں پرنٹ میڈیا کا کیا مستقبل ہوگیا؟ یہ یقیناً ایک اہم سوال ہے۔