چین میں جاپانی کاروں کا بائیکاٹ

کیا عالمی معیشت کا توازن ایک بار پھر بگڑنے کو ہے.


Ghulam Mohi Uddin December 09, 2012
فوٹو : فائل

چند ماہ پہلے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ چین اور جاپان کے درمیان جزیروںکی ملکیت کا تنازع، متعدد ممالک کی کارساز کمپنیوں کو عالمی سطح پرمسابقت کی جنگ میں دھکیل دے گا۔

یہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب کچھ ماہ پہلے چینی صارفین نے اپنے ملک میں جاپانی کاروں کی خریداری منسوخ کرنے کے بعد امریکا اور یورپ کی تیار کردہ کاروں کی خریداری شروع کر دی تھی۔ آغاز میں تو یہ حربہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا لیکن نومبر تک جب جاپانی گاڑیوں کی فروخت مقررہ اندازوں سے خاصی کم ہو گئی اور امریکی کاروں کی فروخت نئے ریکارڈ قائم کرنے لگی تو چینی صارفین کی یہ حکمت عملی عالمی ذرائع ابلاغ کا موضوع بن گئی۔

آخر کارجاپانی کار ساز اداروں نے اپنی کاروںکی فروخت میں کمی کا کھلے دل سے نہ صرف اعتراف کیا بل کہ اس صورت حال سے گبھرانے کے بجائے چین میں 24 نومبر 2012 کو جدید ٹیکنالوجی سے مزین اپنی تیار کردہ کاروں کی ایک عالی شان نمائش کا اہتمام بھی کردیا۔ جاپانی کار ساز کمپنیوں نے اس عزم کااظہار بھی کیا کہ چینی صارف بہت جلد ہمارے پاس واپس آ جائیں گے۔

عالمی میڈیا اس کش مکش کو چاہے جس نظر سے دیکھے لیکن اس بات کی داد دینا پڑے گی کہ جاپان نے اس صورت حال میں تحمل اور بردباری کا بھر پور مظاہرہ کیا، جب کہ دوسری جانب چینی عوام ابھی تک جارحانہ موڈ میں دکھائی دے رہے ہیں اور جاپانی کاروں سمیت دیگر جاپانی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

چین اور جاپان کے درمیان اس سفارتی تنائو کا فائدہ فی الوقت امریکی اور یورپی کار ساز کمپنیاں حاصل کررہی ہیں اور اس کاروباری فائدے کو مستقل بنیادوں پر قائم رکھنے کے لیے قلیل المدت اور طویل المدت منصوبہ بندی بھی کر رہی ہیں۔

امریکا کی دو موٹر ساز کمپنیوں جنرل اور فورڈ نے تو چین اور تھائی لینڈ میں نئے پلانٹ لگانے کے لیے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کا اعلان بھی کر دیا ہے علاوہ ازیں جنوبی کوریا، جرمنی،اٹلی اور فرانس نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں تاکہ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ چین میں اپنی گاڑیوں کو فروخت کیا جا سکے۔ کار ساز کمپنیوں کے درمیان اس کش مکش میں ایک طرف جاپان کی چند کار ساز کمپنیاں ہیں تو دوسری جانب کئی ایک ممالک کے درجن بھر سے زیادہ موٹر ساز ادارے ہیں، اب فیصلہ چینی صارفین نے کرنا ہے کہ کس ملک کی گاڑی ان کے لیے بہتر ہے اور کس ملک کی گاڑی ان کے لیے نکمی ہو چکی ہے۔

06

منظرنامہ کچھ یوں ہے کہ ایک طرف تو چین اور جاپان کے درمیان جزیروں کی ملکیت کا تنازع عالمی سطح پر سامنے آیا تو دوسری جانب دنیا بھر میں کاروں کی خرید و ٖفروخت کے عمل میں تیزی آ گئی ہے۔

معیشت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان اپنی پرانی منڈی چین کو کسی قیمت پر ہاتھ سے جانے نہیں دے گا جب کہ دوسری جانب چینی صارفین کاروں سمیت دیگر جاپانی مصنوعات کو کسی قیمت پر خریدنے کے لیے راضی ہوتے نظر نہیں آ رہے اور اعلی چینی انتظامیہ نے بھی اس ضمن میں مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ لازمی بات ہے اس صورت حال سے جاپان اور اس کے موٹر ساز اداروں کے مالکان پریشان ہیں کہ چینی صارفین کو کیسے ایک بار پھر اپنی مصنوعات کی طرف راغب کیا جائے۔ اس ضمن میں جاپان نے چین میں اپنی جدید ترین گاڑیوں کی نمائش کا اہتمام بھی کیا، چینی آئے، گاڑیاں ملاحظہ کیں لیکن قوم پرست چینی عوام کے دلوں کو نئی نویلی جاپانی گاڑیاں ٹس سے مس نہ کر سکیں تاہم امید پرست جاپانیوں نے ابھی پوری طرح ہتھیار نہیں ڈالے۔ وہ اب بھی یہ خوش کن توقع رکھتے ہیں کہ چینی صارفین کے دل جیت لیں گے۔

دو ممالک کے درمیان جزیروں کی ملکیت کا یہ صدیوں پرانا تنازع کس طرح حل ہو گا؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اس تنازع کے بطن سے جنم لینے والی گاڑیاں فروخت کرنے کی حالیہ تجارتی کش مکش نے کئی دوست ممالک کو ایک دوسرے کے سامنے رقیب کی صورت میں کھڑا کردیا ہے۔ سوچنے کی بات ہت کہ اگر امریکا کی دو بڑی موٹر ساز کمپنیاں جنرل اور فورڈ چین کی منڈی میں قدم جمانے کے لیے ایک دوسرے کی حریف بن گئی ہیں تو ادھر جرمن کمپنیاں بھی اس رقابت میں کسی سے پیچھے نہیں سو وہ بھی ایک دوسرے کی راہ میں پسِ پردہ حائل ہونے کی کوششتں کر رہی ہیں۔ اسی طرح جنوبی کوریا، اٹلی، فرانس اوربرطانیہ نے بھی حال ہی میں چین کے مختلف شہروں میں اپنے موٹر پلانٹ لگانے میں دل چسپی ظاہر کر دی ہے، یہ عندیہ ہے کہ ''ایک نظر ادھر کہ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں''۔

عالمی سطح پر چھوٹی بڑی گاڑیوںکی تجارت کی نگرانی کرنے والے متعدد معروف اداروں نے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ کش مکش آئندہ سال کے وسط تک جاری رہی تو جہاں جاپان کی جاری معاشی شرح نمو کم ہونے کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں وہاں چینی منڈی میں مسابقت کے باعث گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی بھی واقع ہو سکتی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ صورتِ حال بھی جاپان کے لیے اچھی ثابت نہ ہو گی کیوں کہ جاپان کو بھی چین میں اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کا حربہ استعمال کرنا پڑے گا جس کے باعث جاپانی کرنسی ین کی قدر پرمزید دبائو بڑھے گا اور یوں یہ عمل جاپان کے لیے چو مکھی لڑائی ثابت ہو گا۔

گزشتہ پچاس سال میںسماجی سطح پرکسی قوم کی طرف سے کسی دوسری قوم کی تیارکردہ مصنوعات کے مکمل بائیکاٹ کا یہ پہلا مظاہرہ ہے اور عالمی معیشت میںاس کے اثرات بھی نمایاں طور پر سامنے آنے لگے ہیں۔ چینی صارفین نے جاپانی مصنوعات کو قومی سطح پر جس طریقے سے نظر انداز کیا ہے اس نے بہت سے ممالک کے تجارتی پالیسی سازوں کو یہ سو چنے پر مجبور کردیا ہے کہ کل کلاں کو اگر کسی ملک یا قوم نے ان کی مصنوعات کا سماجی بائیکاٹ کردیا تو اس صورت حال سے کس طرح نمٹا جائے؟

''کیا نئی منڈیاں تلاش کرنی چاہیں؟ کیا اپنی مصنوعات پر سے اپنے ملک یا ادارے کا نام ہٹا دینا چاہیے؟ کیا اپنا برانڈ نیم ہی تبدیل کر دینا چاہیے؟ کیا عارضی طور پر منافع کم کر کے گاہک کو خریداری پر اکسانے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے؟ کیا صارف کی تشفی کے لیے معیار کو مزید بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے؟ کیا اداروں یا کمپنیوں کو اِدغام کا راستہ اختیارکرکے اس صورت حال سے مستقل جان چھڑا لینی چاہیے؟ یا پھر دفاعی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے بائیکاٹ کرنے والے صارفین کے گروپ سے سمجھوتہ کر لینا چاہیے؟''

یہ وہ سوالات ہیں جن پر تجارتی پالیسی سازوں نے ابھی سے غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ لازمی بات ہے کہ مندرجہ بالا سوالات کے علاوہ اس نوع کے دیگر سوالات پر جاپانی حکام نے بھی اپنے فائدے اور نقصان کو مد نظر رکھ کر غوروخوض کیا ہو گا اور ان کی روشنی میں کوئی نئی حکمت عملی بھی وضع کر لی ہوگی جس کا مظاہرہ جلد یا بہ دیر ہو جائے گا لیکن کیا اس وقت تک دوسرے ممالک اس بڑی منڈی میں اپنے پنجے نہیںگاڑ لیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے تناظر میں جاپان کی تجارتی بصیرت کو امتحان درپیش ہے کہ وہ کس طرح چین جیسی بڑی منڈی کو اپنے ہاتھ سے نکلنے بھی نہیں دے گا اور نقصان اٹھائے بغیر اپنی مصنوعات کی فروخت کو برقرار بھی رکھے گا۔

جاپان کی بڑی کار ساز کمپنیوں نے اقرار کیا ہے کہ مذکورہ تنازع کے باعث ان کی کاریں مقررہ اہداف سے بہت کم فروخت ہوئی ہیں۔ جاپانی کمپنی ٹویوٹا موٹرز کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران چین میں اُس کی کاروں کی فروخت 61 فی صد تک گری ہے، نسان موٹر کمپنی نے بتایا کہ اس کی فروخت 44 فی صد تک اور ہنڈا موٹرز کی فروخت 54 فی صد تک کم ہوئی ہے۔ چینی صارفین کے بائیکاٹ سے پہلے فروخت کی شرح بہ تدریج بڑھ رہی تھی۔ چین میں ان کمپنیوں کے پلانٹس پر ٹویوٹا نے 30 ہزار 600 یونٹ تیار کیے، ہنڈا کمپنی نے 26 ہزار 302 یونٹ جب کہ نسان موٹر نے 61 ہزار 360 یونٹ فروخت کے لیے بنائے تھے لیکن جزائر کے تنازع کے باعث ان کی نکاسی رک گئی ہے۔ یاد رہے کہ دنیا بھر میں حالیہ عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سے سب سے زیادہ کار ساز صنعتیں متاثر ہوئی تھیں جو اس کوشش میں مصروف تھیں کہ کسی طرح بحران کے منحوس سائے ہٹائے جائیں، اس مقصد کے لیے متعدد کمپنیوں نے اپنے ملازموں کو نوکریوں سے فارغ کیا۔ اب چینیوں نے جاپانی کاروں کے ڈیلروں کے شو رومز کے آگے مسلسل مظاہرے بھی کرتے نظر آ رہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں کے یہ ڈیلر خوف زدہ دکھائی دینے لگے ہیں۔

ادھر جاپاں کا مالیاتی خون ہونے جا رہا ہے او ادھر امریکی کار ساز ادارے فورڈ نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ عالمی سطح پر بہت بڑی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے اور خاص طور پر ایشیا میں اس سرمایہ کاری کا بڑا حصہ صرف کیا جائے گا۔ تھائی لینڈ میں ہمارے پہلے سے موجود پلانٹس کو مزید وسعت دی جائے گی اور ایسوسی ایشن آف سائوتھ ایسٹ ایشیئن ممالک میں مزید کارخانے لگائے جائیں گے تاکہ تھائی لینڈ میں سالانہ 4 لاکھ 45 ہزار یونٹس کی تیاری کو مزید بڑھایا جا سکے۔ اسی طرح جنرل موٹرز نے چین میں رواں سال ریکارڈ کام یابیوں کے بعد مزید آئوٹ لیٹ کھولنے کا اعلان کیا ہے اور اس ضمن میں جلد ہی چینی حکام سے بات چیت شروع کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

رواں سال ستمبر میں جب جاپان نے بعض سمندری جزیروں کا سودا کیا تو ردعمل کے طور پر چین میں جاپان کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے بعد چینی صارفین نے جاپانی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا تھا جو تاحال جا ری ہے۔ اِس صورت حال پر ایل ایم سی آٹو موٹیو ایشیا پیسیفک فور کاسٹنگ ادارے نے پیشین گوئی کی ہے کہ ہمارے گروپ کی آٹو موٹیو انڈسٹری پر تازہ تحقیق کے مطابق ٹویوٹا، ہنڈا اور نسان کمپنی کے ساتھ ساتھ مٹسوبشی موٹرز کی چین میں فروخت 61 فی صد تک کم ہو کر 2 ہزار 340 یونٹ رہ گئی جب کہ مزدا موٹرز کمپنی کی فروخت 36 فی صد کم ہو کر ایک ماہ میں 13 ہزار 258 یونٹس تک گری۔ اِس طرح مارکیٹ میں جاپانی گاڑیوں کی مجموعی فروخت جو اکتوبر میں 8 فی صد کم ہوئی تھی، نومبر میں بڑھ کر 12 فی صد تک چلی گئی۔ دوسری جانب بینکنگ کارپوریشن جے پی مورگن چیز اینڈ کو نے بھی پیش گوئی کی تھی کہ چین میں جاپانی کاریں درآمد کرنے والے متعدد برآمدکنندگان اکتوبر سے دسمبر کے شروع تک 70 فی صد سے بھی کم آرڈر دیں گے اور ہو سکتا ہے کہ جاپان سے چین میں کاروں کی درآمد 40 فی صد تک کم ہو جائے اور ایسے میں جاپانی کاروں کے آدھے سے زیادہ شوقین، جرمنی، جنوبی کوریا اور امریکی کاریں خریدنے لگیں اور ایسا ہی ہو رہا ہے کیوں کہ صرف ستمبر میں جرمنی کی بی ایم ڈبلیو کاروں کی فروخت میں 55 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے جب کہ اوڈی برانڈ میں یہ اضافہ 20 فی صد تک ہوا ہے جب کہ ہنڈائی موٹرز کی فروخت 15 فی صد تک بڑھی ہے بہ ہر حال صورت حال افسوس ناک ہے، ایشیا نے بڑے جتنوں سے معیشت کی ٹریفک کو دو رویا کیا تھا۔ معاملے کو دانش مندی سے حل نہ کیا گیا تو توزن ایک بار پھر بگڑ جائے گا۔

انکل سام اور اس کے حواریوں کے اصل روپ

دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان پر ایٹم بم گرانے کے بعد امریکا نے جاپان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ کہیں جاپان دوسری طاقتوں سے مل کر دوبارہ امریکا کے لیے درد سر نہ بن جائے۔ امریکا نے جاپان پر غیر ملکی حملے کی صورت میں ہر طرح کی مدد کا وعدہ کیا اور یوں جاپان کو فوجی سطح پر کبھی منظم نہ ہونے دیا۔ اِس صورت احوال میں جاپانی قوم نے شب و روز محنت کی اور امریکی چھتری تلے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی۔

اس دوران امریکا نے جاپان کی مصنوعات سے خوب استفادہ کیا اور جب کبھی جاپان کو امریکا کی فوجی مدد کی ضرورت پڑی تو لیت و لعل سے کام چلانے کی پالیسی جاری رکھی۔ جاپان کو محفوظ بنانے کے لیے جن جزائر پر امریکی فوجیوں نے کئی دہائیوں سے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، انھوں نے بھی جاپانی عوام خاص طور پر خواتین کا جینا حرام کر رکھا ہے اور جاپان جب کبھی شکایت کرتا ہے تو ''مٹی پائو'' کی پالیسی کے تحت امریکی فوجیوں کی بدمعاشیوں پر پردہ ڈال دیاجاتاہے۔

آج کل جب چین اور جاپان کے درمیان جزیروں کی ملکیت کا تنازع زور پکڑ چکا ہے تو ایسے میں امریکی وزیر خارجہ نے جاپان اور جنوبی کوریا کے وزرائِ خارجہ سے ملاقات کے دوران تلقینوں اور نصیحتوں کے پھول کھلاتے ہوئے فرمایا ''خطے کے ہر ملک پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تنازعات کا حل تلاش کرے، کشیدگی کو پرامن انداز میں کم کرے، خطے میں سلامتی اور استحکام کے فروغ کے لیے کام کرنا شروع کرے'' دوسرے الفاظ میں واشنگٹن نے اپنے بزرگانہ الفاظ کے ریشم میں لپیٹ لپٹا کر جاپانیوں کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ اس کشیدگی میں نہ تو کسی کی حمایت کرے گا اور نہ ہی کسی کے ساتھ چاچا خواہ مخواہ والا ''پھڈا'' ڈالے گا۔ اس پیغام سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہی ہے کہ امریکا متنازع جزائر پر جاپانی ملکیت کے دعوے کو نہ تو درست سمجھتا ہے اور نہ ہی غلط۔ اس لیے وہ چین کی مخالفت کرے گا اور نہ ہی جاپان کی حمایت۔

جاپان میں زلزلے کے بعد جنرل موٹرز نے ٹویوٹا سے ''عالمی نمبر ون'' کا اعزاز چھین لیا تھا تو یہ لگتا تھا کہ ٹویوٹا کو سنبھلنے میں وقت لگے گا مگر ٹویوٹا نے صرف 4 ماہ کے اندر اندر یہ اعزاز واپس لے لیا۔ مقابلہ اب بھی جاری ہے لیکن سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ کیوں کہ اب اس کے مقابل جرمنی، جنوبی کوریا، فرانس اور امریکا جیسے گُرگے کھڑے ہیں۔

اندازہ کیجے، یورپی یونین نے کچھ عرصہ پہلے جاپان کو آزادانہ تجارت کے لیے بات چیت کی دعوت دے تھی تاکہ اپنے ہاں جاپانی مصنوعات کے لیے منڈی کو وسعت دی جائے، برے دن آئے تو وہ بھی نظر چرانے لگی، اس نے تجارتی معاہدوں میں ٹیکس کم نہ کرنے کی کڑی شرط عائد کر دی ہے۔ اِس ضمن میں جب خبر ذرائع ابلاغ کی زینت بنی تو یورپ کے کار ساز اداروں نے یورپی یونیئن پر دبائو بڑھایا کہ حالیہ مالیاتی بحران کی وجہ سے ان کی مالی حالت پہلے ہی پتلی ہے اگر تجارت کرنا لازمی ہے تو جاپان کی کاروں کو یورپ میں فروخت کی آزادانہ اجازت سے دور رکھا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں