روپیہ بنانے کی سائنس
دیومالا،فلسفے اور سائنس کے امتزاج سے جنم لینے والے ایک پُراسرار علم کی دلچسپ داستان
لاہور:
یہ آٹھ سو سال پہلے کا واقعہ ہے، صلیبی جنگوں میں شریک ہوکر ایک یورپی باشندہ آسٹریا کے دارالحکومت پراگ پہنچا۔ اس نے شہر بھر میں یہ مشہور کرادیا کہ وہ ایک عرب سے ''جادو'' سیکھ کر آیا ہے۔ جادو یہ تھا کہ وہ تانبے یا چاندی کے سکوں کو سونے میں بدل سکتا ہے۔
یورپی باشندے کے ''جادو'' کی خبر چند دن میں پورے شہر میں پھیل گئی۔ لالچ کے مارے لوگ اس کے پاس عام سکے لے کر آنے لگے تاکہ وہ انہیں اپنے جادو کی مدد سے طلائی سکوں میں بدل سکے۔ ''جادوگر'' نے انہیں بتایا کہ فلاں دن فلاں وقت سبھی امرا اس کے گھر جمع ہوجائیں۔ چناں چہ اس دن سیکڑوں لوگ یورپی باشندے کے گھر آپہنچے جو کرائے پر لیا گیا تھا۔
لوگوں نے چاندی کے ہزارہا سکے اس کے حوالے کردیئے۔ جادوگر انہیں سکوں سمیت ایک کمرے میں لے گیا۔ اس کمرے میں بھٹی رکھی ہوئی تھی۔ وہ آدمی بھٹی کے سامنے بیٹھ کر کچھ عمل پڑنے لگا۔ پھر اس نے مٹھی میں دبی کوئی شے جلتی بھٹی میں پھینکی۔ ایک زوردار دھماکہ ہوا اور دیکھے ہی دیکھتے کمرا دھوئیں سے بھرگیا۔ جب دھواں صاف ہوا، تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ جادوگر تو غائب ہے اور جس تھیلے میں ان کے ہزارہا چاندی والے سکے رکھے تھے، وہ بھی کہیں نظر نہ آیا۔ تب ان پر منکشف ہوا کہ جادوگر دھوکے باز تھا جو ان کا مال اڑا کر رفوچکر ہوچکا۔
وہ یورپی باشندہ مہافراڈیا تھا۔ اسے علم تھا کہ پراگ کے جاہل مطلق لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ عرب ''کالے جادو'' کے ماہر ہیں۔ وہ اپنے جادو کے بل پر کسی بھی شے کو سونا بناسکتے ہیں۔ بس فراڈیے یورپی نے ان کے اسی اعتقاد اور انسان کے ازلی لالچی پن سے فائدہ اٹھایا اور انہیں قیمتی سکوں سے محروم کردیا۔
آج ہم جانتے ہیں کہ یورپ میں جادوگر کی حیثیت سے مشہور ہونے والے عرب دراصل ''الکیمیا'' کے ماہر تھے۔ یہ دیومالا،فلسفے اور سائنس کے امتزاج سے جنم لینے والا پُراسرار علم ہے جس نے بنی نوع انسان کی دو دیرینہ خواہشات سے جنم لیا...اول یہ کہ وہ عمر خضر پالے اور دوم یہ کہ وہ مٹی کو سونا بنانے کے قابل ہوجائے۔
پراسرار علم کی بنیاد
بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ الکیمیا کی بنیاد مصر میں فرعونوں کے پروہتوں نے رکھی۔ وہ اس علم کے ذریعے ''آب حیات'' تیار کرنا چاہتے تھے۔ مگر اس ضمن میں وہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرپاتے۔ بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ الکیمیا نے اس نظریے کے بطن سے جنم لیا کہ کائنات بھر میں تمام چیزیں چار عناصر... ہوا، مٹی، پانی اور آگ سے بنی ہیں۔ قدیم فلسفیوں کا دعویٰ تھا کہ مٹی کو مختلف اشکال میں ڈھالنا ممکن ہے۔ چونکہ دھاتیں مٹی سے بنی ہیں لہٰذا تانبے کو سونے میں بدلا جاسکتا ہے۔
زمانہ قدیم میں مصروبابل، چین، ہندوستان اور یونان و روما تہذیب و تمدن کے بڑے مراکز تھے۔ ان تمام مراکز میں علم الکیمیا بہت مشہور ہوا۔ چاروں علاقوں میں سیکڑوں ماہرین کی سعی رہی کہ وہ ایسا جنتر منتر تلاش کرلیں جو انسان کو نہ صرف عمر جادواں عطا کرے بلکہ اسے مٹی سے سونا بنانے کا گر بھی بتادے۔یونانی و رومی فلاسفہ و حکما نے علم الکیمیا پر کئی کتب بھی تحریر کیں جو پیچیدہ نظریات کا گنجینہ ہیں۔ یاد رہے، الکیمیا عربی لفظ ہے جو انگریزی میں ''Al Chemy'' کہلاتا ہے۔ عربی لفظ قدیم یونانی لفظ ''Chemeia'' سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ''کالا جادو۔'' یونانی مصر کو ''Chemia'' کہتے تھے یعنی ''سیاہ سرزمین''۔
خالد بن یزید کی مساعی
عالم اسلام میں الکیمیا کو اموی شہزادے، خالد بن یزید نے متعارف کرادیا۔ خالد حضرت امیر معاویہؓ کے پوتے اور یزید کے فرزند تھے۔ انہیں امور حکومت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اپنا بیشتر وقت علمی مشاغل میں گزارتے۔ شہزادہ خالد نے اسکندریہ (مصر) کے مشہور فلسفی، یحییٰ سے طب اور الکیمیا کے فنون سیکھے۔ انھوں نے علم الکیمیا پر ایک کتاب ''فردوس الحکمت'' بھی تحریر کی۔
جب یزید کی وفات ہوئی، تو خالد بہت چھوٹے تھے۔ ان کے بڑے بھائی، معاویہ بن یزید نے تخت سنبھالا۔ تاہم تین ماہ بعد ان کا پراسرار حالات میں انتقال ہوگیا۔ بعض مورخین کا دعویٰ ہے کہ مروان بن حکم نے خلیفہ معاویہ کو قتل کرادیا تھا۔ چونکہ شہزادہ خالد کم سن تھے، اس لیے حکومت مروان بن حکم نے سنبھال لی۔جب مروان بن حکم دنیا سے رخصت ہوئے، تو شہزادہ خالد بدستور کم سن تھے۔ اسی لیے مرحوم کے فرززند، عبدالملک بن مروان نئے خلیفہ بن گئے۔ انہوں نے شہزادہ خالد کو اپنا نائب بنالیا۔ شہزادے کے مشورے ہی سے 695ء میں پہلا اسلامی سکہ جاری کیا گیا۔
شہزادہ خالد نے ایک کام یہ کیا کہ الکیمیا کی یونانی و مصری کتب کو عربی میں ترجمہ کرایا۔ یہ اسلامی دور کے پہلے علمی تراجم تھے۔ اسی لیے بہت سے مفکر شہزادہ خالد بن یزید(وفات:704ء) کو ''اسلام کا پہلا حکیم'' قرار دیتے ہیں۔ الکیمیا کی ان تراجمہ کردہ کتب سے ایک یمنی عرب مسلم سائنس داں، جابر بن حیان (وفات:815ء) نے سب سے زیادہ استفادہ کیا۔
جابر بن حیان پہلے ماہر سائنس ہیں جنہوں نے الکیمیا کے نظریات پرکھنے کی خاطر لیبارٹری میں تجربات کیے۔ یوں انہوں نے نظریاتی راہ چھوڑ کر تجرباتی راستہ اختیار کرلیا۔ جابر بھی عام دھاتوں سے سونا بنانے کی تمنا رکھتے تھے۔ گو وہ منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے مگر دوران راہ انہوں نے مختلف مادے اور سائنسی نظریے ضرور دریافت کرلیے۔ اسی لیے انہیں ''تاریخ انسانی کا پہلا کیمیاداں'' کہا جاتا ہے۔
نورالدین زنگی کو بھی دھوکا
الکیمیا کے ماہرین عالم فاضل اور صوفی تھے۔ ان کا منشا تحقیق و تجربات سے اپنے علم و معلومات میں اضافہ کرنا تھا۔ مگر جب علم الکیمیا جعل سازوں اور دھوکے بازوں کے ہاتھ لگا، تو انہوں نے اسے بدنام کر ڈالا۔ یہ فراڈیے عوام کی سادہ لوحی اور معصومیت سے فائدہ اٹھا کر انہیں لوٹ لیتے۔ حتیٰ کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی ان کی مکاری نہ سمجھ پاتے۔
سلطان نورالدین زنگی( 1118ء۔1174ء) صلیبیوں کے خلاف داد شجاعت دینے کی وجہ سے عالم اسلام میں خاص شہرت رکھتے ہیں۔ ایک بار ایک درویش ان کے دربار (دمشق) میں حاضر ہوا اور کہنے لگا ''میں نے بترمق'' نامی شے سے سونا بنانا سیکھ لیا ہے۔ میں ماہر الکیمیا ہوں۔''
سلطان کو اشتیاق ہوا کہ سونا بنتا دیکھا جائے۔ چناں چہ انھوں نے بازار سے بترمق لانے کا حکم دیا۔ درویش شاہی ملازم سے کہنے لگا کہ فلاں دوا ساز سے یہ شے ملے گی۔ یہ ماہر الکیمیا ایک فراڈیا تھا۔ وہ دوا ساز کو پہلے ہی ''بترمق'' نامی مادہ یہ کہہ کر بیچ آیا تھا کہ یہ بڑا قیمتی مادہ ہے۔ پیٹ کی تمام بیماریوں میں اکسیر ہے۔ دور دراز کے پہاڑوں میں ملتا ہے۔ دوا ساز نے اسے خاص دوائی سمجھ کر خرید لیا۔
اب شاہی ملازم دوا ساز سے ''بترمق'' خرید کر دربار پہنچا، تو سب نے دیکھا کہ وہ نیلے رنگ کا دھاتی مادہ ہے۔ دراصل وہ سونا تھا جس پر دھوکے باز نے نیلا رنگ چڑھا رکھا تھا۔ نام نہا د ماہر الکیمیا نے جب ''بترمق'' اپنے ایک محلول میں رکھا، تو سونے پر چڑھا سارا رنگ اترگیا۔ وہ محلول کچھ اس نوعیت کا تھا کہ نیلا رنگ اس میں جذب ہوگیا اور عیاں نہیں ہوسکا۔ لہٰذا سب یہی سمجھے کہ ''بترمق'' سونے میں تبدیل ہوچکا۔
یہ ''کرشمہ'' دیکھ کر قدرتاً سلطان سمیت سبھی درباری اش اش کر اٹھے۔ سلطان نے فرمائش کی کہ ''بترمق'' سے مزید سونا بنایا جائے۔ وہ ماہر الکیمیا بولا ''حضور! یہ مادہ دور دراز کے پہاڑوں سے ملتا ہے۔ اگر ناچیز کو زادراہ مل جائے، تو بہت سا ''بترمق'' آپ کے واسطے لے آئے گا۔''
سلطان نے اس کی جھولی اشرفیوں سے بھردی اور حکم دیا کہ وہ پہاڑوں سے بترمق لے کر جلد واپس چلا آئے۔ درویش نے اشرفیاں سمیٹیں، جلد آنے کا وعدہ کیا اور چمپت ہوا۔ وہ پھر کبھی نظر نہ آیا۔ یوں سلطان نورالدین زنگی جیسے عاقل حکمران بھی الکیمیا کے ایک فراڈیے سے دھوکہ کھابیٹھے۔
الکیمیا یورپ میں
بارہویں اور تیرہویں صدی میں عربی کتب کے لاتعداد تراجم لاطینی زبان میں طبع ہوئے۔ یوں اہل یورپ نے مختلف علوم و فنون سے آگاہی پائی جن میں علم الکیمیا بھی شامل تھا۔ مگر یورپ میں بھی الکیمیا کے اس پہلو کو زیادہ شہرت ملی کہ بعض علم دھاتوں خصوصاً تانبے اور سیسے کو سونے میں تبدیل کرنا ممکن بنا دیتے ہیں۔ چنانچہ سیکڑوں لالچی اور پر تجسس یورپی علم الکیمیاکے اصول و قواعد سیکھ کر تانبے سے سونا بنانے کی سعی کرنے لگے۔
یورپ میں بھی جعل سازوں نے ہم وطنوں کی سادہ لواحی یا لالچی فطرت سے فائدہ اٹھایا اور جعلی ماہر الکیمیا بن کر انہیں لوٹنے لگے۔ یورپ میں یہ وارداتیں اتنی بڑھیں کہ مشہور ڈراما نگار اور شیکسپیئر کے ہم عصر، بن جانسن نے اس معاملے پر ایک ڈراما لکھ مارا۔ ''دی الکیمسٹ'' (The Alchemist) نامی اس ڈرامے کو اب انگریزی ادب میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔بیسویں صدی میں برازیلی ادیب، پاؤلو کویلیو نے ایک ناول ''دی الکیمسٹ'' تحریر کیا۔ الکیمیا اس ناول کا بھی اہم موضوع ہے۔ اس ناول کا دنیا میں 68 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا اور اس نے بہت شہرت پائی۔
دور حاضر کے بڑے سائنس دانوں میں سے ایک، آئزک نیوٹن (1643ء۔1727ء) بھی نوجوانی میں الکیمیا کا دیوانہ رہا۔ وہ گھنٹوں اپنی لیبارٹری میں گھسا مختلف کیمیائی مادوں کے ذریعے تجربات کرتا رہتا۔ اس نے الکیمیا پر تحریریں بھی لکھیں۔ نیوٹن کے تجربات کا مقصد ''پارس پتھر'' اور ''آب حیات'' ایجاد کرنا تھا۔ واضح رہے، ماہرین الکیمیا کی اصطلاح میں پارس ایسا پتھر ہے جسے عام دھاتوں سے مس کیا جائے تو وہ سونا بن جاتی ہیں۔
علم الکیمیا پر نیوٹن کی تحقیق پردہ اخفا میں ہے۔ وجہ یہ کہ وقت کی دست برد سے الکیمیا پر نیوٹن کی تحریریں نہ بچ پائیں۔ کچھ لیبارٹری میں آگ لگنے سے ضائع ہوگئیں۔ بعض برطانوی حکومت نے تلف کرادیں۔ اسی عمل سے یہ افواہ پھیل گئی کہ نیوٹن ''پارس پتھر'' بنانے کا سائنسی طریقہ دریافت کرچکا تھا۔
دراصل اس زمانے میں برطانوی حکومت نے الکیمیا کے تجربات کرنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ اول اس لیے کہ جعل ساز ماہر الکیمیا بن کر امرا کو لوٹتے پھرتے تھے۔ دوم اس لیے کہ برطانوی حکومت کو خطرہ تھا، اگر پارس پتھر دریافت ہوگیا، تو سونے کی قیمت گرجائے گی۔ اس لیے تب برطانیہ میں الکیمیا کے تجربات کرنے پر ''مجرم'' کو سرعام پھانسی دی جاتی تھی۔
علم الکیمیا دیومالا، فلسفہ اور سائنس و ٹیکنالوجی کے نظریات کا مغلوبہ تھا۔ مگر جب جابر بن حیان، الرازی، بوعلی سینا اور دیگر مسلم سائنس دانوں کے زیر اثر یورپی ماہرین بھی لیبارٹریوں میں تجربات کرنے لگے، تو ایک نئی سائنس سامنے آنے لگی جسے ''کیمیا'' کا نام دیا گیا۔ اس سائنس میں کیمیائی مادوں پر تجربات کیے جاتے ہیں۔ یوں 1720ء کے لگ بھگ علم الکیمیا کے بطن سے کیمیا کی نئی سائنس وجود میں آئی۔اب یہ سمجھا جانے لگا کہ علم الکیمیا صرف سونا بنانے کے تجربات سے مخصوص ہے۔ چونکہ یہ تجربات ناکام رہتے تھے، اس لیے انہیں انجام دینے والوں کو احمق حتیٰ کہ فراڈیئے کہا جانے لگا۔ یوں علم الکیمیا ایک متروک علم کی حیثیت اختیار کرگیا۔
آج مغربی ماہرین طمطراق سے دعویٰ کرتے ہیں کہ رابرٹ بوائل، آئزک نیوٹن اور انطون لیوائزر علم کیمیا کے بانی ہیں۔ لیکن تجربات کو نظریات پر فوقیت دینے والے مسلم سائنس داں نو سو سال قبل ہی کیمیا کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ ان مسلم ماہرین کیمیا میں جابر بن حیان، الکندی، الرازی اور البیرونی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔انھوں نے ہی ایک نئی اور اہم سائنس کی بنیادیں
یہ آٹھ سو سال پہلے کا واقعہ ہے، صلیبی جنگوں میں شریک ہوکر ایک یورپی باشندہ آسٹریا کے دارالحکومت پراگ پہنچا۔ اس نے شہر بھر میں یہ مشہور کرادیا کہ وہ ایک عرب سے ''جادو'' سیکھ کر آیا ہے۔ جادو یہ تھا کہ وہ تانبے یا چاندی کے سکوں کو سونے میں بدل سکتا ہے۔
یورپی باشندے کے ''جادو'' کی خبر چند دن میں پورے شہر میں پھیل گئی۔ لالچ کے مارے لوگ اس کے پاس عام سکے لے کر آنے لگے تاکہ وہ انہیں اپنے جادو کی مدد سے طلائی سکوں میں بدل سکے۔ ''جادوگر'' نے انہیں بتایا کہ فلاں دن فلاں وقت سبھی امرا اس کے گھر جمع ہوجائیں۔ چناں چہ اس دن سیکڑوں لوگ یورپی باشندے کے گھر آپہنچے جو کرائے پر لیا گیا تھا۔
لوگوں نے چاندی کے ہزارہا سکے اس کے حوالے کردیئے۔ جادوگر انہیں سکوں سمیت ایک کمرے میں لے گیا۔ اس کمرے میں بھٹی رکھی ہوئی تھی۔ وہ آدمی بھٹی کے سامنے بیٹھ کر کچھ عمل پڑنے لگا۔ پھر اس نے مٹھی میں دبی کوئی شے جلتی بھٹی میں پھینکی۔ ایک زوردار دھماکہ ہوا اور دیکھے ہی دیکھتے کمرا دھوئیں سے بھرگیا۔ جب دھواں صاف ہوا، تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ جادوگر تو غائب ہے اور جس تھیلے میں ان کے ہزارہا چاندی والے سکے رکھے تھے، وہ بھی کہیں نظر نہ آیا۔ تب ان پر منکشف ہوا کہ جادوگر دھوکے باز تھا جو ان کا مال اڑا کر رفوچکر ہوچکا۔
وہ یورپی باشندہ مہافراڈیا تھا۔ اسے علم تھا کہ پراگ کے جاہل مطلق لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ عرب ''کالے جادو'' کے ماہر ہیں۔ وہ اپنے جادو کے بل پر کسی بھی شے کو سونا بناسکتے ہیں۔ بس فراڈیے یورپی نے ان کے اسی اعتقاد اور انسان کے ازلی لالچی پن سے فائدہ اٹھایا اور انہیں قیمتی سکوں سے محروم کردیا۔
آج ہم جانتے ہیں کہ یورپ میں جادوگر کی حیثیت سے مشہور ہونے والے عرب دراصل ''الکیمیا'' کے ماہر تھے۔ یہ دیومالا،فلسفے اور سائنس کے امتزاج سے جنم لینے والا پُراسرار علم ہے جس نے بنی نوع انسان کی دو دیرینہ خواہشات سے جنم لیا...اول یہ کہ وہ عمر خضر پالے اور دوم یہ کہ وہ مٹی کو سونا بنانے کے قابل ہوجائے۔
پراسرار علم کی بنیاد
بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ الکیمیا کی بنیاد مصر میں فرعونوں کے پروہتوں نے رکھی۔ وہ اس علم کے ذریعے ''آب حیات'' تیار کرنا چاہتے تھے۔ مگر اس ضمن میں وہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرپاتے۔ بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ الکیمیا نے اس نظریے کے بطن سے جنم لیا کہ کائنات بھر میں تمام چیزیں چار عناصر... ہوا، مٹی، پانی اور آگ سے بنی ہیں۔ قدیم فلسفیوں کا دعویٰ تھا کہ مٹی کو مختلف اشکال میں ڈھالنا ممکن ہے۔ چونکہ دھاتیں مٹی سے بنی ہیں لہٰذا تانبے کو سونے میں بدلا جاسکتا ہے۔
زمانہ قدیم میں مصروبابل، چین، ہندوستان اور یونان و روما تہذیب و تمدن کے بڑے مراکز تھے۔ ان تمام مراکز میں علم الکیمیا بہت مشہور ہوا۔ چاروں علاقوں میں سیکڑوں ماہرین کی سعی رہی کہ وہ ایسا جنتر منتر تلاش کرلیں جو انسان کو نہ صرف عمر جادواں عطا کرے بلکہ اسے مٹی سے سونا بنانے کا گر بھی بتادے۔یونانی و رومی فلاسفہ و حکما نے علم الکیمیا پر کئی کتب بھی تحریر کیں جو پیچیدہ نظریات کا گنجینہ ہیں۔ یاد رہے، الکیمیا عربی لفظ ہے جو انگریزی میں ''Al Chemy'' کہلاتا ہے۔ عربی لفظ قدیم یونانی لفظ ''Chemeia'' سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ''کالا جادو۔'' یونانی مصر کو ''Chemia'' کہتے تھے یعنی ''سیاہ سرزمین''۔
خالد بن یزید کی مساعی
عالم اسلام میں الکیمیا کو اموی شہزادے، خالد بن یزید نے متعارف کرادیا۔ خالد حضرت امیر معاویہؓ کے پوتے اور یزید کے فرزند تھے۔ انہیں امور حکومت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اپنا بیشتر وقت علمی مشاغل میں گزارتے۔ شہزادہ خالد نے اسکندریہ (مصر) کے مشہور فلسفی، یحییٰ سے طب اور الکیمیا کے فنون سیکھے۔ انھوں نے علم الکیمیا پر ایک کتاب ''فردوس الحکمت'' بھی تحریر کی۔
جب یزید کی وفات ہوئی، تو خالد بہت چھوٹے تھے۔ ان کے بڑے بھائی، معاویہ بن یزید نے تخت سنبھالا۔ تاہم تین ماہ بعد ان کا پراسرار حالات میں انتقال ہوگیا۔ بعض مورخین کا دعویٰ ہے کہ مروان بن حکم نے خلیفہ معاویہ کو قتل کرادیا تھا۔ چونکہ شہزادہ خالد کم سن تھے، اس لیے حکومت مروان بن حکم نے سنبھال لی۔جب مروان بن حکم دنیا سے رخصت ہوئے، تو شہزادہ خالد بدستور کم سن تھے۔ اسی لیے مرحوم کے فرززند، عبدالملک بن مروان نئے خلیفہ بن گئے۔ انہوں نے شہزادہ خالد کو اپنا نائب بنالیا۔ شہزادے کے مشورے ہی سے 695ء میں پہلا اسلامی سکہ جاری کیا گیا۔
شہزادہ خالد نے ایک کام یہ کیا کہ الکیمیا کی یونانی و مصری کتب کو عربی میں ترجمہ کرایا۔ یہ اسلامی دور کے پہلے علمی تراجم تھے۔ اسی لیے بہت سے مفکر شہزادہ خالد بن یزید(وفات:704ء) کو ''اسلام کا پہلا حکیم'' قرار دیتے ہیں۔ الکیمیا کی ان تراجمہ کردہ کتب سے ایک یمنی عرب مسلم سائنس داں، جابر بن حیان (وفات:815ء) نے سب سے زیادہ استفادہ کیا۔
جابر بن حیان پہلے ماہر سائنس ہیں جنہوں نے الکیمیا کے نظریات پرکھنے کی خاطر لیبارٹری میں تجربات کیے۔ یوں انہوں نے نظریاتی راہ چھوڑ کر تجرباتی راستہ اختیار کرلیا۔ جابر بھی عام دھاتوں سے سونا بنانے کی تمنا رکھتے تھے۔ گو وہ منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے مگر دوران راہ انہوں نے مختلف مادے اور سائنسی نظریے ضرور دریافت کرلیے۔ اسی لیے انہیں ''تاریخ انسانی کا پہلا کیمیاداں'' کہا جاتا ہے۔
نورالدین زنگی کو بھی دھوکا
الکیمیا کے ماہرین عالم فاضل اور صوفی تھے۔ ان کا منشا تحقیق و تجربات سے اپنے علم و معلومات میں اضافہ کرنا تھا۔ مگر جب علم الکیمیا جعل سازوں اور دھوکے بازوں کے ہاتھ لگا، تو انہوں نے اسے بدنام کر ڈالا۔ یہ فراڈیے عوام کی سادہ لوحی اور معصومیت سے فائدہ اٹھا کر انہیں لوٹ لیتے۔ حتیٰ کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی ان کی مکاری نہ سمجھ پاتے۔
سلطان نورالدین زنگی( 1118ء۔1174ء) صلیبیوں کے خلاف داد شجاعت دینے کی وجہ سے عالم اسلام میں خاص شہرت رکھتے ہیں۔ ایک بار ایک درویش ان کے دربار (دمشق) میں حاضر ہوا اور کہنے لگا ''میں نے بترمق'' نامی شے سے سونا بنانا سیکھ لیا ہے۔ میں ماہر الکیمیا ہوں۔''
سلطان کو اشتیاق ہوا کہ سونا بنتا دیکھا جائے۔ چناں چہ انھوں نے بازار سے بترمق لانے کا حکم دیا۔ درویش شاہی ملازم سے کہنے لگا کہ فلاں دوا ساز سے یہ شے ملے گی۔ یہ ماہر الکیمیا ایک فراڈیا تھا۔ وہ دوا ساز کو پہلے ہی ''بترمق'' نامی مادہ یہ کہہ کر بیچ آیا تھا کہ یہ بڑا قیمتی مادہ ہے۔ پیٹ کی تمام بیماریوں میں اکسیر ہے۔ دور دراز کے پہاڑوں میں ملتا ہے۔ دوا ساز نے اسے خاص دوائی سمجھ کر خرید لیا۔
اب شاہی ملازم دوا ساز سے ''بترمق'' خرید کر دربار پہنچا، تو سب نے دیکھا کہ وہ نیلے رنگ کا دھاتی مادہ ہے۔ دراصل وہ سونا تھا جس پر دھوکے باز نے نیلا رنگ چڑھا رکھا تھا۔ نام نہا د ماہر الکیمیا نے جب ''بترمق'' اپنے ایک محلول میں رکھا، تو سونے پر چڑھا سارا رنگ اترگیا۔ وہ محلول کچھ اس نوعیت کا تھا کہ نیلا رنگ اس میں جذب ہوگیا اور عیاں نہیں ہوسکا۔ لہٰذا سب یہی سمجھے کہ ''بترمق'' سونے میں تبدیل ہوچکا۔
یہ ''کرشمہ'' دیکھ کر قدرتاً سلطان سمیت سبھی درباری اش اش کر اٹھے۔ سلطان نے فرمائش کی کہ ''بترمق'' سے مزید سونا بنایا جائے۔ وہ ماہر الکیمیا بولا ''حضور! یہ مادہ دور دراز کے پہاڑوں سے ملتا ہے۔ اگر ناچیز کو زادراہ مل جائے، تو بہت سا ''بترمق'' آپ کے واسطے لے آئے گا۔''
سلطان نے اس کی جھولی اشرفیوں سے بھردی اور حکم دیا کہ وہ پہاڑوں سے بترمق لے کر جلد واپس چلا آئے۔ درویش نے اشرفیاں سمیٹیں، جلد آنے کا وعدہ کیا اور چمپت ہوا۔ وہ پھر کبھی نظر نہ آیا۔ یوں سلطان نورالدین زنگی جیسے عاقل حکمران بھی الکیمیا کے ایک فراڈیے سے دھوکہ کھابیٹھے۔
الکیمیا یورپ میں
بارہویں اور تیرہویں صدی میں عربی کتب کے لاتعداد تراجم لاطینی زبان میں طبع ہوئے۔ یوں اہل یورپ نے مختلف علوم و فنون سے آگاہی پائی جن میں علم الکیمیا بھی شامل تھا۔ مگر یورپ میں بھی الکیمیا کے اس پہلو کو زیادہ شہرت ملی کہ بعض علم دھاتوں خصوصاً تانبے اور سیسے کو سونے میں تبدیل کرنا ممکن بنا دیتے ہیں۔ چنانچہ سیکڑوں لالچی اور پر تجسس یورپی علم الکیمیاکے اصول و قواعد سیکھ کر تانبے سے سونا بنانے کی سعی کرنے لگے۔
یورپ میں بھی جعل سازوں نے ہم وطنوں کی سادہ لواحی یا لالچی فطرت سے فائدہ اٹھایا اور جعلی ماہر الکیمیا بن کر انہیں لوٹنے لگے۔ یورپ میں یہ وارداتیں اتنی بڑھیں کہ مشہور ڈراما نگار اور شیکسپیئر کے ہم عصر، بن جانسن نے اس معاملے پر ایک ڈراما لکھ مارا۔ ''دی الکیمسٹ'' (The Alchemist) نامی اس ڈرامے کو اب انگریزی ادب میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔بیسویں صدی میں برازیلی ادیب، پاؤلو کویلیو نے ایک ناول ''دی الکیمسٹ'' تحریر کیا۔ الکیمیا اس ناول کا بھی اہم موضوع ہے۔ اس ناول کا دنیا میں 68 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا اور اس نے بہت شہرت پائی۔
دور حاضر کے بڑے سائنس دانوں میں سے ایک، آئزک نیوٹن (1643ء۔1727ء) بھی نوجوانی میں الکیمیا کا دیوانہ رہا۔ وہ گھنٹوں اپنی لیبارٹری میں گھسا مختلف کیمیائی مادوں کے ذریعے تجربات کرتا رہتا۔ اس نے الکیمیا پر تحریریں بھی لکھیں۔ نیوٹن کے تجربات کا مقصد ''پارس پتھر'' اور ''آب حیات'' ایجاد کرنا تھا۔ واضح رہے، ماہرین الکیمیا کی اصطلاح میں پارس ایسا پتھر ہے جسے عام دھاتوں سے مس کیا جائے تو وہ سونا بن جاتی ہیں۔
علم الکیمیا پر نیوٹن کی تحقیق پردہ اخفا میں ہے۔ وجہ یہ کہ وقت کی دست برد سے الکیمیا پر نیوٹن کی تحریریں نہ بچ پائیں۔ کچھ لیبارٹری میں آگ لگنے سے ضائع ہوگئیں۔ بعض برطانوی حکومت نے تلف کرادیں۔ اسی عمل سے یہ افواہ پھیل گئی کہ نیوٹن ''پارس پتھر'' بنانے کا سائنسی طریقہ دریافت کرچکا تھا۔
دراصل اس زمانے میں برطانوی حکومت نے الکیمیا کے تجربات کرنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ اول اس لیے کہ جعل ساز ماہر الکیمیا بن کر امرا کو لوٹتے پھرتے تھے۔ دوم اس لیے کہ برطانوی حکومت کو خطرہ تھا، اگر پارس پتھر دریافت ہوگیا، تو سونے کی قیمت گرجائے گی۔ اس لیے تب برطانیہ میں الکیمیا کے تجربات کرنے پر ''مجرم'' کو سرعام پھانسی دی جاتی تھی۔
علم الکیمیا دیومالا، فلسفہ اور سائنس و ٹیکنالوجی کے نظریات کا مغلوبہ تھا۔ مگر جب جابر بن حیان، الرازی، بوعلی سینا اور دیگر مسلم سائنس دانوں کے زیر اثر یورپی ماہرین بھی لیبارٹریوں میں تجربات کرنے لگے، تو ایک نئی سائنس سامنے آنے لگی جسے ''کیمیا'' کا نام دیا گیا۔ اس سائنس میں کیمیائی مادوں پر تجربات کیے جاتے ہیں۔ یوں 1720ء کے لگ بھگ علم الکیمیا کے بطن سے کیمیا کی نئی سائنس وجود میں آئی۔اب یہ سمجھا جانے لگا کہ علم الکیمیا صرف سونا بنانے کے تجربات سے مخصوص ہے۔ چونکہ یہ تجربات ناکام رہتے تھے، اس لیے انہیں انجام دینے والوں کو احمق حتیٰ کہ فراڈیئے کہا جانے لگا۔ یوں علم الکیمیا ایک متروک علم کی حیثیت اختیار کرگیا۔
آج مغربی ماہرین طمطراق سے دعویٰ کرتے ہیں کہ رابرٹ بوائل، آئزک نیوٹن اور انطون لیوائزر علم کیمیا کے بانی ہیں۔ لیکن تجربات کو نظریات پر فوقیت دینے والے مسلم سائنس داں نو سو سال قبل ہی کیمیا کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ ان مسلم ماہرین کیمیا میں جابر بن حیان، الکندی، الرازی اور البیرونی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔انھوں نے ہی ایک نئی اور اہم سائنس کی بنیادیں