چمن سرحد کا طویل بندش کے بعد کھلنا
اصل مسئلہ غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے والوں کی روک تھام ہے
چمن میں افغان بارڈر 12دن بند رہنے کے بعد کھول دیا گیا جس کے بعد دونوں طرف پھنسی ہوئی سیکڑوں گاڑیاں پاک افغان سرحد سے آر پار آنے جانے لگیں۔ نئے انتظام کے مطابق سرحد سے صرف انھی کو گزرنے کی اجازت ہو گی جن کے پاس مکمل سفری دستاویز ہونگی نیز کسی قسم کے اسلحے کی نقل و حمل کی قطعاً اجازت نہیں دی جائے گی۔ فرنٹیئر کور (ایف سی) کے حکام کے مطابق افغان افسروں نے پاکستانی حکام کو حکومت افغانستان کا ایک مکتوب بھی پہنچایا جس میں پاکستانی پرچم کو نذر آتش کرنے کے افسوسناک واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اس پر معافی طلب کی گئی ہے۔
چمن سرحد اسی واقعہ کے بعد بند کی گئی تھی۔ دوستی گیٹ پر نادرا نے اپنا دفتر بھی قائم کر دیا ہے جو آنے والوں کے پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویز کی پڑتال کرنے گا نیز دونوں طرف سے سرحد عبور کرنے والوں کے ناموں کا اندراج بھی کیا جائے گا۔ فی الوقت پاکستان میں افغان سرحد کو عبور کرنے کے لیے رسمی طور پر 8 مقامات ہیں جن میں چمن کے علاوہ کوئٹہ' اسپن بولدک' قندھار' جیلان' غزنی، گردیز' خوست' جلال آباد، اسد آباد' پنجشیر' اور طورخم شامل ہیں۔ طورخم سے سب سے زیادہ آمدورفت رہتی ہے۔
اصل مسئلہ غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے والوں کی روک تھام ہے' یا بلا روک ٹوک آمدورفت کا خمیازہ دونوں ملک بھگت رہے ہیں۔ بارڈر کراسنگ کے رسمی مقامات کی تعداد آٹھ ہے مگر غیررسمی کراسنگ کہاں کہاں سے ہوتی ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں کیونکہ پاک افغان سرحد کی لمبائی ڈھائی ہزار کلو میٹر کے لگ بھگ ہے جس میں کئی مقامات انتہائی دشوار گزار ہیں۔ تاہم وطن عزیز میں امن و امان کے لیے لازم ہے کہ حفاظتی اقدامات سخت کیے جائیں اور سرحد پر چوکسی کے لیے جدید ترین الیکٹرانک آلات کا استعمال کیا جائے۔