وفاق اور مردم شماری

1998 میں بھی بہت سے غلطیاں ہوئیں پھر بھی فوج کی نگرانی میں ہونے سے اتنی متضاد نہیں ہوئیں

Jvqazi@gmail.com

بالآخر سپریم کورٹ کو بیچ میں آنا پڑا اور وہ بھی سوموٹو کے ذریعے کہ حکومت اپنی آئینی ذمے داری مردم شماری کے حوالے سے کیوں نہیں پوری کر رہی۔ سپریم کورٹ کیوں نہ کہے اس نے آخر آئین کی پاسداری اور اس پر عمل ہونے کی قسم جو کھائی ہوئی ہے۔ اور سپریم کورٹ اس حد تک بھی کہتے ہوئے سنی گئی کہ مردم شماری کیے بغیر انتخابات غیر آئینی ہوں گے۔ جناب احسن اقبال نے سپریم کورٹ کے اس جملے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔ تو پھر احسن اقبال صاحب ذرا اس سیاسی زاویے کا بھی نوٹس لیتے جب کچھ دنوں پہلے اسفند یار ولی صاحب نے بھی مردم شماری نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ پنجاب کے مفادات اس سے ٹکراؤ میں ہیں۔

بہت سے پہلو ہیں مردم شماری کے، میں معروضی حوالے اپنے پڑھنے والوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں کلیدی کردار ادا کیا۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات لگ بھگ 1998 کی مردم شماری کے بنیاد پر ہوئے، نئی حلقہ بندی ہوئی تو سہی مگر آبادی کے تناسب سے جتنے نئے حلقے بننے تھے وہ نہیں بنے یوں کہیے فعال میونسپل نہیں بنا، نئے ضلعے نہیں بنے، نئی ٹاؤن کمیٹیاں تو نئی یونین کونسل پاکستان بھر میں نہیں بنیں۔

دوسری طرف یہ فطری عمل ہے شمال کے لوگ جنوب کی طرف ہجرت کرتے ہیں، کراچی واحد پورٹ سٹی ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا ذریعہ روزگار ہے۔ اگر آپ ساری مردم شماری جو پچھلے زمانوں میں ہوئی ہیں اس میں یہ رجحان نظر آئے گا ۔ اس کے باوجود بھی کے پی کو ملا کے پچھلی پانچ مردم شماریوں میں تین مردم شماریاں شفاف نہیں تھیں۔

اس بات پر تو دو رائے نہیں ہیں کہ 1998 سے اب تک ان اٹھارہ سالوں میں پاکستان کی آبادی بارہ کروڑ سے بڑھ کر 20 کروڑ ہوگئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ساٹھ فیصد بڑھی ہے تو اس کا مطلب قومی اسمبلی کی نشستیں جو 332 ہیں تو لگ بھگ دو سو نشستیں اور بڑھیں گی۔

پورا پاکستان Resources کی تقسیم آبادی کے اعتبار سے کرتا ہے، وہ چاہے NFC ہو یا وفاق میں سرکاری نوکریاں ہوں یا ایوان نمایندگان میں نشستوں کا تناسب ہو۔ یہ معاملہ وفاق کے حوالے سے جتنا پیچیدہ ہے اتنا صوبوں کے اندر بھی ہے۔ خاص کر کے بلوچستان کے لیے تو بہت۔ کیونکہ سب سے زیادہ آبادی کا تناسب وہاں بڑھا ہے تو ساتھ ساتھ اس کی ساحلی پٹی پر ترقیاتی عمل کے وجہ سے باہر کے لوگوں کی آمد بہت بڑھی ہے۔ چلو یہ تو ہم نے مان لیا کہ بلوچستان کی قومی اسمبلی میں نشستیں بہت بڑھیں گی مگر کیا وہ بلوچ نمایندہ ہوں گے؟ اس لیے بلوچستان کی خواہش ہوگی افغان مہاجرین کی مردم شماری میں گنتی نہ ہو اور یہ بات ان کی بالکل ٹھیک بھی ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کے لیے قوانین بنا کے بلوچوں کی نمایندگی کو تحفظ دیا جائے۔

پاکستان 3.5 فیصد کے تناسب سے ہر سال آبادی میں بڑھ رہا ہے۔ اور اگر یہی رفتار رہی تو یہ ملک چین و ہندوستان کے بعد 2050 تک آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک نہ بن جائے۔ مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں صحیح معنی میں کچھ بھی خبر نہیں کہ ہمارے ملک میں غریب آبادی کا کتنا تناسب غربت کی لکیر کے نیچے رہتا ہے۔ کون کون سی بیماریاں کتنے لوگوں کو لاحق ہیں، عورتوں کا بچوں کا نوجوانوں کا آبادی میں تناسب کیا ہے۔ سندھی کتنے ہیں، پنجابی، بلوچ، پٹھان، سرائیکی، ہزارہ وغیرہ کے لوگ کتنے ہیں۔ خود کراچی میں اردو بولنے والے، پٹھان، سندھی، پنجابی کتنے ہیں۔ خود صوبوں کا اب آبادی میں تناسب کتنا ہے وغیرہ وغیرہ۔


اب تو مردم شماری آسان ہوگئی ہے۔ ہم اقوام متحدہ کے اس حوالے سے ادارے کی خدمات لے سکتے ہیں کہ وہ سیٹلائٹ کے ذریعے گھروں کا تناسب صحیح انداز سے بتائے اور خود اپنی فوج کی خدمات حاصل کریں تاکہ ڈبل چیک ڈیٹا کر کے اسے شفاف بنا سکیں۔

1998 میں بھی بہت سے غلطیاں ہوئیں پھر بھی فوج کی نگرانی میں ہونے سے اتنی متضاد نہیں ہوئیں۔کہا جاتا ہے کہ پنجاب کی فی گھر آبادی ایک فرد زیادہ۔ اندراج بہ نسبت سندھ اور باقی صوبوں کے کی گئی اور اس طرح پنجاب 56 فیصد کے قریب آبادی کے تناسب سے رہا۔

اٹھارہویں ترمیم نے مردم شماری کو کابینہ کے زمرے سے نکال کر کونسل برائے مشترکہ مفادات کے زمرے میں ڈالا اور اس طرح سے مردم شماری کے عمل کو اور شفاف کیا۔ یعنی Federal Legislative list Part I سے نکال کر Federal Legislative List Part II میں ڈال دیا تاکہ تمام صوبوں کو بھی اس عمل میں ڈال کر اسے شفاف بنا دیا جائے۔ ساتھ ساتھ مشترکہ مفادات کونسل کے لیے ایک علیحدہ سیکریٹریٹ بھی ڈالی۔ جو ابھی تک نہیں بن سکی۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کی ہر تین ماہ بعد میٹنگ کو بھی لازم قرار دیا مگر سال گزر جاتا ہے مشکل سے ایسی میٹنگ ہوپاتی ہے۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد مردم شماری اب ادارہ برائے شماریات وغیرہ نہیں کروا سکتا کیونکہ وہ کابینہ کے ذیل میں کام کرتا ہے۔ بالکل اس میں دو رائے نہیں کہ خود مردم شماری شفاف انداز میں ہوئی تو اس سے بڑے بڑے راز سامنے آئیں گے۔ لیکن پاکستان اور مضبوط ہوگا۔ شہری آبادی کا تناسب بڑھے گا۔

مثال کے طور پر پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ وہ دیہی کارڈ پر کھیلے اور اس طرح جاگیرداری بھی یہی چاہتی ہے مردم شماری سے بہت سا خطہ سندھ کا شہری قرار پائے گا ٹاؤن کمیٹیاں اور نئے ضلع بنیں گے۔ خود کراچی کی قومی و صوبائی اسمبلی میں نشستیں بڑھیں گی اور باقی سندھ کی کم ہوں گی۔ پنجاب کی مجموعی آبادی کا تناسب 56 فیصد نہیں رہے گا۔ ہوسکتا ہے کہ نئی صوبائی نشستیں آبادی کے تناسب سے بننے سے بلوچ خود اقلیت میں اپنے صوبے میں نہ ہوجائیں۔ تو خود کراچی میں اردو بولنے والوں کا تناسب بھی گھٹ جائے گا اور پختونوں کا تناسب پچھلے تناسب سے بڑھ جائے گا۔

1998 کی بنیادیں 2018 کا الیکشن جھوٹ کے پلندے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوگا، یہ جھوٹ موٹ آبادی والا پاکستان خود حقیقی پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے انتباہ کی گھنٹی کو سنجیدگی سے لیں اور مردم شماری، مشترکہ مفادات کی کونسل کی نگرانی میں اٹھارہویں ترمیم کے تناظر میں کابینہ سے پاک محکمہ بنا کے اس کی نگرانی میں چاروں صوبوں کو برابر کی نمایندگی دے کر وفاق سے نمایندے لے کر فوج کو آن بورڈ لے کر کرائی جائے۔
Load Next Story