مقدس اتحاد اور ہم بیس کروڑ

ہمیں اپنے گناہگار ہونے کا یقین ہو چلا ہے اور ہم ان عذابوں کو اپنے گناہوں کی سزا سمجھ بیٹھے ہیں

ہم سب عذابوں میں مبتلا ہیں، بھوک و افلاس کا عذاب، بجلی، گیس، پانی کا عذاب، بیروزگاری، مہنگائی، انتہاپسندی، دہشت گردی، عدم برداشت و عدم رواداری کا عذاب، چھوٹے ذہنوں اور چھوٹے دلوں کا عذاب، ہر قسم کی جہالت کا عذاب، کرپشن، لوٹ مار، بھتہ خوری کا عذاب، ملک دشمنی کا عذاب۔ کچھ عرصے قبل تک ہم اپنے عذابوں کے خلاف چیختے بھی تھے، چلاتے بھی تھے، اپنے ہونے کا احساس بھی دلاتے تھے، پھر نجانے کب ہمیں اپنے عذابوں سے ڈر لگنے لگا اور ہم چپ چاپ، خوفزدہ، دہشت زدہ ہوکر ہر چیز کو سہے جارہے ہیں۔

اب دو باتیں ہوسکتی ہیں، ایک تو یہ کہ ہمیں اپنے گناہگار ہونے کا یقین ہو چلا ہے اور ہم ان عذابوں کو اپنے گناہوں کی سزا سمجھ بیٹھے ہیں۔ لہٰذا سزا کے خلاف چیخنا کیا، چلانا کیا۔ اور ہم سب چپ چاپ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی لیے چہار سو خاموشی ہی خاموشی ہے۔ یا پھر یہ کہ ہمیں اس خوبصورتی کے ساتھ بے بس کردیا گیا کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوا ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

یہ بے بسی کا خوبصورت کھیل کرپٹ سیاست دانوں، ملاؤں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، بیوروکریسی اور ابن الوقتوں نے ایک ساتھ مل کر کھیلا ہے اور ہماری حیثیت صرف تماش بین کی کردی گئی، جنھیں کھیل دیکھنے کی اجازت تو حاصل ہے لیکن کسی بھی قسم کا ردعمل کرنے، شور مچانے یا تالیاں بجانے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا تمام تماش بینوں کے ہونٹ سلے ہوئے ہیں اور ہاتھ و پاؤں بندھے ہوئے ہیں، صرف آنکھیں آزاد ہیں، لیکن اسے بھی کسی قسم کی حرکت کی کوئی اجازت نہیں ہے۔ اب ہمیں صرف پیدا ہونا ہے اور آخری سانس تک صرف اپنی زندگی کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کرنی ہے، تمام تر آوازوں، جذبات، احساسات، خواہشوں، خوابوں کے بغیر زندگی کو صرف گھسیٹنا ہے۔

آئیں ہم اپنے مقدس اتحاد کے کھیل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اصل میں ہمارے مقدس اتحاد کو اس بات کا اچھی طرح سے احساس ہو چلا تھا کہ اکیلے اکیلے ہم ملک کے وسائل، اقتدار، اور اختیار پر جبری تسلط ہمیشہ برقرار نہیں رکھ پائیں گے اور ایک نہ ایک دن ملک کے عوام ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہ ہی وہ واحد نکتہ ہے جو ان تمام قوتوں کو نزدیک لانے اور ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی بنیادی وجہ بنا۔ اس لیے ان تمام قوتوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آئیں ایک ساتھ مل کر کھیل کھیلیں اور ہر قوت اپنا اپنا کردار ادا کرے۔ اس سے ایک تو یہ کہ ہم سب طاقتور ترین ہوتے چلے جائیں گے اور دوسرے عام لوگ بے بس ہوتے چلے جائیں گے۔


آپ نے دیکھا ہوگا کہ اگر کسی جگہ آگ لگ جائے تو اس جگہ کے مکین سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف اور صرف اپنی اور اپنے پیاروں کی جانیں اور مال و اسباب بچانے میں مصروف ہوجاتے ہیں، اپنے گردوپیش کی ہر چیز سے بے خبر ہوکر کسی بھی ناگہانی آفت کی صورت میں آپ کو یہ ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمارے مقدس اتحاد کے کھلاڑیوں نے اپنا کھیل بناتے وقت اسی منظر کو سامنے رکھا ہوگا کہ اگر ملک میں مذہبی انتہاپسندی، دہشت گردی، نفرت، فرقہ واریت، عدم برداشت، عدم رواداری، بدامنی کی آگ لگادی جائے اور ساتھ ساتھ بیروزگاری، مہنگائی، پانی، بجلی، گیس کی قلت کی آگ بھی سلگا دی جائے تو پھر لوگ صرف اور صر ف اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کی فکر میں اتنے مصروف ہوجائیں گے کہ ہمارے کرتوتوں اور کرتبوں کی طرف ان کا دھیان ہی نہ جانے پائے گا۔ ان کی اس کامیاب اور خوبصورت حکمت عملی سے ایک طرف تو لوگ بے بس، لاتعلق اور صرف اپنی اور اپنے پیاروں کی ذات تک محدود ہوکر رہ گئے اور دوسری طرف مقدس اتحاد مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا ہے۔

یہاں تک تو یہ سچ ہے کہ اس خوبصورت کھیل کی وجہ سے لوگ بے بس ہوگئے لیکن یاد رہے بے بس ضرور ہوئے ہیں لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود ابھی تک بے حس نہیں ہوئے ہیں۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے اس مقدس اتحاد کی پریشانیاں کسی صورت کم نہیں ہوپارہی ہیں، کیونکہ انھوں نے ہر حربہ استعمال کرکے دیکھ لیا ہے، تمام سازشیں آزما لی ہیں، لیکن وہ لوگوں کو بے حس کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

ایسی تباہی جسے صرف انسان شروع کرسکتا ہے، انسان ہی اس کو روک سکتا ہے۔ ایسا وقت ضرورت آتا ہے جب لوگ ناانصافی، ظلم کو روکنے میں بے بس ہوتے ہیں، مگر ایسا وقت کبھی نہیں آتا جب لوگ احتجاج کرنے میں ناکام ہوں یا اٹھ کھڑے ہونے میں بے بس ہوں۔ انسانی تاریخ چلا چلا کر کہتی ہے کہ انسان صرف ایک لمحے میں تبدیل ہوا کرتا ہے۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ آپ نے ٹیلی ویژن پر چاند کے سفر اپالو گیارہ کی تصویری جھلکیاں دیکھی تھیں۔ ہم میں سے جس جس نے تصویری جھلکیاں دیکھی تھیں، وہ متحیر رہ گئے تھے اور اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ انسان چاند پر چہل قدمی کررہا ہے۔

آپ کیا سمجھتے ہیں کہ خلا کے اس سفر میں سب سے زیادہ قوت اور توانائی کہاں خرچ ہوئی تھی، لاکھوں میل دور چاند پر جانے اور پھر زمین پر واپس آنے میں، چاند کے گرد مدار میں رہنے میں، لیونر اور کمانڈ ماڈیولز کو الگ کرنے اور پھر جوڑنے میں، یا پھر چاند سے اوپر اٹھنے میں؟ نہیں ان میں سے کسی بھی مرحلے میں نہیں، یہاں تک کہ ان سب کو ملا کر بھی نہیں۔ یہ خرچ ہوئی تھی زمین کی کشش سے باہر نکلنے میں، زمین سے باہر نکلنے کے ابتدائی چند منٹوں میں سفر کے ابتدائی چند میلوں میں۔ ابتدائی چند میلوں میں کشش ثقل بے تحاشا تھی، خلائی جہاز نے ایک داخلی دھکیل پیدا کی جو کشش ثقل اور کرۂ فضائی کی مزاحمت دونوں سے بہت زیادہ تھی، اس کے بعد وہ زمین کے مدار سے باہر نکل گیا، جب مدار کو توڑ کر خلائی جہاز آگے نکل گیا تو پھر باقی مراحل طے کرنے میں تقریباً کوئی طاقت و توانائی استعمال میں نہیں آئی۔

جب ایک خلا باز سے پوچھا گیا کہ جب چاند کے مدار میں پہنچ کر لیونر ماڈیول کو الگ کیا گیا کہ وہ چاند کی سطح پر اتر سکے تو کتنی توانائی خرچ ہوئی؟ اس کا جواب تھا ایک بچے کے سانس سے بھی کم۔ ہمیں اپنی عادتیں تبدیل کرنا تقریباً ناممکن دکھائی دیتا ہے، بے بسی بھی ایک عادت ہی ہوتی ہے۔ کیا یہ ناگریز حقیقت ہے؟ نہیں بالکل نہیں۔ چاند کا سفر پرانی عادتیں چھوڑنے اور نئی تخلیق کے عمل کا طاقتور استعارہ ہے، زمین کی کشش ثقل کو گہری جڑیں رکھنے والی عادتوں سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ ہمارے پاس ہمیشہ ایک داخلی عزم ہوتا ہے، ہم اس کی مدد سے تمام عادتوں کی کشش ثقل توڑ سکتے ہیں اور جب ایک دفعہ ایسا ہوجائے تو پھر ہم اس آزادی پر حیرت زدہ ہوجائیں گے۔ اس لیے آپ کے عزم اور ہمت کا کامیابی، خوشحالی، اختیار، اقتدار، ترقی، بے چینی کے ساتھ انتظار کررہی ہیں۔
Load Next Story