ریو اولمپکس میں ایک بڑے اسکینڈل کے خالق اولمپین کھلاڑی جوغنڈے بن گئے
انہوں نے رنگ برنگ طریقے ایجاد کر لیے ہیں تاکہ دوران طبی ٹیسٹ ممنوعہ دوا یا غذا دریافت نہ ہو سکے۔
روس کے لیجنڈری ادیب' لیوٹالسٹائی کا قول ہے: ''مغرور انسان خود کو کامل (پرفیکٹ) سمجھتا ہے۔ اور یہی غرور و تکبر کی سب سے بڑی خرابی ہے۔ انسان کی زندگی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ ایک بہتر آدمی بن جائے۔ مگر غرور اس کی راہ کھوٹی کر دیتا ہے۔'' یہ قول ان امریکی باشندوں پر پورا اترتا ہے جنہیں طاقت و دولت کی کثرت مغرور بنا ڈالتی ہے۔
خاص طور پر ایسے متکبر امریکی کسی ترقی پذیر ملک میں جائیں' تو وہاں خود کو اصول و قوانین سے ماورا سمجھتے ہیں۔اور جب غلط حرکت کر بیٹھیں تو جھوٹ اور مکاری کا سہارا لے کر خود کو بچانے کی سعی کرتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ڈرامائی اور انوکھا واقعہ حالیہ ریو اولمپکس کے دوران پیش آیا۔ہوا یہ کہ 13 اگست کی رات چار امریکی تیراک... ریان لوکتی' جمی فیگن' گنار بینٹز اور جیک کو نگر ایک پارٹی میں گئے اور رنگ رلیاں مناتے رہے۔ جب وہ صبح سویرے پارٹی سے نکلے تو نشے میں بھی تھے۔
انہوں نے ٹیکسی لی اور اولمپک ویلج کی سمت چل پڑے۔راہ میں حاجت ہوئی' تو ٹیکسی ایک پٹرول پمپ پر رکوائی ۔وہاں انہیں بتایا گیا کہ جائے حاجت بند پڑی ہے مگر چاروں مغرور امریکی تیراکوں نے پٹرول پمپ ملازمین کی ایک نہ سنی۔ ان پر تو یہ ہوّا سوار تھا کہ وہ دوسروں سے برتر ہیں' لہٰذا انہیں ہر کام کرنے کی اجازت ہے چاہے وہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہی ہو۔ چناںچہ غصے میں آ کر چاروں لمبے تڑنگے امریکی تیراکوں نے جائے حاجت کا دورازہ توڑ دیا اور ٹوائلٹ میں موجود اشیا کو نقصان پہنچایا۔ دلچسپ بات یہ کہ ان امریکیوں نے جائے حاجت میں ضرورت پوری نہیں کی' بلکہ پٹرول پمپ کے پچھواڑے جا کر فراغت پائی۔
توڑ پھوڑ اور گندگی پھیلانے سے پٹرول پمپ کی انتظامیہ قدرتاً طیش میں آ گئی۔ امریکی تیراک جب غنڈہ گردی کر کے فرار ہو رہے تھے تو پٹرول پمپ کے گارڈوں نے انہیں روک لیا۔ ایک مسلح گارڈ نے تیراکوں کو پستول بھی دکھائی تاکہ ان کے ہوش ٹھکانے آ جائیں اور ایسا ہی ہوا۔ پستول دیکھ کرامریکیوں کی اکڑفوں جاتی رہی اور وہ بھیگی بلی بن گئے۔ بس ریان لوکتی اور ایک گارڈ کے مابین تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
اسی دوران ایک گاہک آ پہنچا جو پرتگیزی اور انگریزی ' دونوں زبانیں جانتا تھا۔ اس نے فریقین کے مابین مترجم کا کام کرتے ہوئے صلح کرا دی۔ طے پایا کہ امریکی تیراک 50ڈالر بطور ہرجانہ ادا کریں اور رخصت ہو جائیں۔ جیک اور جمی نے پمپ انتظامیہ کو مطلوبہ رقم دی' تو انہیں جانے دیا گیا۔ چاروں امریکی تیراکوں نے نئی ٹیکسی پکڑی اور اولمپک ویلج پہنچ گئے۔درج بالا واقعے میں سراسر قصور امریکی تیراکوں کا تھا۔ غرور اورنشے میں آ کر انہوں نے پٹرول پمپ کو نقصان پہنچایا تھا۔ مگر اولمپک ویلج پہنچ کر وہ دوست احباب کو یہ بتانے لگے کہ دوران راہ انہیں لوٹ لیا گیا ہے۔ چار مسلح برازیلی ان کے بٹوے لے کر فرار ہو گئے ۔ یہ افواہ پھیلتے پھیلتے جلد ہی خبر بن گئی۔
ایسے ہی موقع پر بولتے ہیں الٹا چورکوتوال کو ڈانٹے ۔اگلے دن شہرت کے بھوکے،ریان لوکتی نے امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہانی سنا ڈالی : '' ہم ٹیکسی میں جا رہے تھے کہ چار آدمیوں نے ہمارا راستہ روک لیا۔ وہ برازیلی پولیس کی وردی میں ملبوس تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنے بیج دکھائے اور پستولیں نکال لیں۔ انہوں نے پھر حکم دیا کہ ہم زمین پر بیٹھ جائیں۔میں نے بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ آخر ہم نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ میرا تذبذب دیکھ کر ایک پولیس والے نے اپنی پستول میری کنپٹی میں رکھی اور تلخ لہجے میں بولا: '' بیٹھ جاؤ۔'' مجھے ناچار بیٹھنا پڑا۔ ہم چاروں نے ہاتھ ا وپر کررکھے تھے۔ انہوں نے پھر ہماری جامہ تلاشی لی اور ہمارے بٹوے نکال لیے جس میں بھاری رقم موجود تھی۔ یوں ہم لٹ لٹا کر اولمپک ویلج پہنچے۔''
ریان لوکتی نے یہ انکشاف کیا' تو امریکی میڈیا برازیلیوں کے پیچھے پڑ گیا اور انہیں ''بدمعاش'' لٹیرے'' اور ''غنڈے'' جیسے القابات سے نواز ڈالا۔ یاد رہے' جب سے برازیل میں سوشلسٹ حکومت میں آئے ہیں' امریکا اور برازیل کے تعلقات میں دراڑیں پڑ چکیں۔ برازیلی حکومت امریکیوں کو ضدی' مغرور اور ہٹ دھرم سمجھتی ہے۔ اسے امریکی حکومت کے اشاروں پر چلنا ہرگز منظور نہیں ۔ خراب تعلقات کی بنا پر ہی امریکی میڈیا نہ صرف برازیل کی خامیاں وخرابیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے' بلکہ برازیلیوں کے متعلق جھوٹی رپورٹیں بھی چھاپ دیتا ہے۔
یہ امریکی یورپی (مغربی) میڈیا ہی ہے جس نے برازیلی شہر' ریو ڈی جیز و میں ہونے والے اولمپکس کو متنازع بنا ڈالا اور برازیلی حکومت و قوم کے متعلق جھوٹے سچے دعوے کیے۔ مثلاً یہ کہ ریو ڈی جیزو جرائم کا گڑھ ہے۔ اور اب امریکی تیراکوں کو ٹھگ لینے کے واقعے نے گویا اس دعویٰ پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ چنانچہ امریکی میڈیا میں برازیلی حکومت اورعوام پہ خوب پھٹکار ڈالی گئی اور معطون کیا گیا۔ لیکن جب سچائی سامنے آئی' توبیشتر امریکی صحافیوں کو سانپ سونگھ گیا اور وہ اپنے جھوٹے تیراکوں کا دفاع کرتے ہوئے آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔
یو ایس اولمپک کمیٹی نے بھی تصدیق کر دی کہ چار امریکی تیراک لوٹے گئے ہیں' تو برازیلی پولیس تفتیش کرنے لگی۔ چھان بین سے انکشاف ہوا کہ ان چار امریکیوں نے ایک پٹرول پمپ میں دنگا فساد کیا تھا۔ چناںچہ پٹرول پمپ پر نصب وڈیو کیمروں سے فلمیں حاصل کر لی گئیں۔ ان ویڈیو فلموں سے اصل ماجرا افشا ہوا۔ تاہم امریکی تیراکوں کی دھوکے بازی کاپول اولمپک ویلج میں لگے کیمرے نے کھولا۔ اس کیمرے کی فلم دکھاتی ہے کہ چاروں بڑے خوش باش' ہنستے مسکراتے اندر داخل ہو رہے ہیں۔ یہ بالکل نہیں لگتا کہ ان کی رقم اڑالی گئی اور وہ موت کے قریب سے گزر کر آئے ہیں۔ حتی کہ دو تیراکوں نے پٹرتال کے مرحلے سے گزرتے ہوئے اپنے بٹوے جیب سے نکال کر ہاتھ میں تھام لیے۔ یہ عمل ریان لوکتی کے کہے سے لگانہیں کھاتا تھا۔ اس کا تو دعویٰ تھا کہ پولیس نما ڈاکووں نے چاروں کے بٹوے نکال لیے۔
اب پولیس کو یقین ہو گیا کہ اپنا جرم چھپانے کے لیے چاروں تیراکوں نے ایک جھوٹی کہانی مشہور کر دی۔ تب تک (15اگست کی رات) ریان لوکتی اور جمی فیگن وا پس امریکا جاچکے تھے۔ جبکہ 17 اگست کی رات بقیہ دنوں تیراکوں کی وطن روانگی تھی۔ پولیس نے سارے ثبوت ایک جج کے سامنے پیش کیے جس نے امریکی تیراکوں پر فرد جرام عائد کر دی۔ چناںچہ 17 اگست کی رات امریکی تیراک ہوائی جہاز پر بیٹھنے والے تھے کہ برازیلی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ چاروں امریکی تیراکوں پر جھوٹی رپورٹ(ایف آئی آر) درج کرنے کا الزام تھا۔
جب گنار بینٹز اور جیک کونگر پولیس کے ہتھے چڑھے' تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ انہوں نے جلد ہی اگل دیا کہ ریان لوکتی نے پٹرول پمپ میں کی گئی غنڈہ گردی چھپانے کے لیے واقعے کو ڈکیتی کا روپ دے دیا۔یوں ریان لوکتی اور اس کے ساتھی تیراکوں کی عیاری دنیا والوں پر عیاں ہو گئی۔ اس فراڈ پر خاص طور پر برازیلی عوام اور میڈیا کو بہت غصہ آیا جو جائز تھا۔ ایک تو مدہوش امریکی تیراکوں نے غنڈہ گردی کی' اوپر سے برازیلی پولیس کو ڈاکو قرار دے ڈالا۔ چناںچہ برازیلی میڈیا نے امریکی تیراکوں کے جرم کی خبر شہ سرخیوں میں شائع کی۔
آگے بڑھنے سے پیشتر ریان لوکتی کا تعارف ہو جائے۔ یہ 32 سالہ تیراک تیراکی کی عالمی تاریخ میں اپنے ہم وطن تیراک' مائیکل فلپس کے بعد اولمپکس سمیت عالمی مقابلوں میں سب سے زیادہ تمغے جیتنے والا کھلاڑی ہے۔ وہ اولمپک گیمز میں بارہ تمغے (چھ طلائی' تین چاندی ' تین کانسی) اور تیراکی کی عالمی چیمپئین شپس میں ''39'' طلائی تمغے جیت چکا۔ افسوس کہ جب ریان لوکتی کو عزت' دولت اور شہرت ملی تو اس کا دماغ خراب ہو گیا۔ وہ خود کو ہر ایک سے برتر سمجھنے لگا۔ اسے علم نہ تھاکہ غرور و تکبر جلد انسان کو رسوا کر دیتا ہے۔اب وہ برازیلی پولیس سے دور بھاگا پھرتا ہے۔وہ کبھی برازیل گیا تو برازیلی اس فراڈئیے کو چھ ماہ کے لیے اندر کر دیں گے۔
جب ہم وطن تیراکوں نے اصل واقعہ افشا کیا' تو ریان لوکتی بھی سچ بولنے لگا۔ تاہم اب پانی سر کے اوپر سے گزر چکا تھا۔ دنیا بھر میں دانش ور اور اہل قلب و نظر امریکی تیراکوں ہی نہیں ''امریکی طرز فکر'' کو تنقید کانشانہ بنانے لگے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بہت سے امریکی دولت و طاقت میں مدہوش ہو کر غیر اخلاقی و غیر قانونی سرگرمیاں انجام دیتے اور ملک و قوم کو بدنام کرتے ہیں۔مشہور اردو ضرب المثل ہے کہ ایک مچھلی سارے تالات کو گندا کر دیتی ہے ۔ ریان لوکتی نے اس ضرب المثل کو سچ کر دکھایا ۔ ریو اولمپکس میں امریکی کھلاڑیوں نے شاندار کادکردگی دکھائی اور 21تمغے جیت کر پہلا درجہ پایا ۔ تاہم چاروں امریکی تیراکوں کے جھوٹ اور فراڈ نے ان کے کارنامے کو گہنا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی تیراکوں کا گھٹیا ڈراما آخر کار ریو اولمپکس کا سب سے بڑا اسکینڈل بن گیا۔
اب ریان لوکتی اور دیگر امریکی تیراک جھوٹ ومکاری دکھانے پر پشیمان ہیں۔ لیکن چڑیاں تو کھیت چگ کر جا چکیں' اب شرمندگی کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان چاروں کو اب جھوٹ کا دھبہ اپنے د امن میں لیے زندگی گزانا ہو گی۔ انسان ایک لمحے میں غلطی کر بیٹھتا ہے'مگر ضمیر پھر ساری عمر اسے کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ کاش ایسے غلط کار انسانوں کے بھیانک تجربات سے سبھی انسان سبق سیکھ سکیں۔
برازیل بنانا ریپبلک نہیں
جب برازیل میں یہ خبر طشت از بام ہوئی کہ امریکی تیراکوں نے اپنا جرم چھپانے کی خاطر ڈکیتی کی کہانی گھڑ لی' تو وہاں عوام الناس سے لے کر دانشور تک سبھی امریکیوں پر برس پڑے ۔ ریو ڈی جینرو کی انتظامیہ نے شہر میں ایک لاکھ سکیورٹی فورس تعینات کر رکھی تھی تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ لہٰذا جب امریکی تیراک ڈکیتی کا نشانہ بنے' تو اسے عالمی سطح پر برازیل کی جگ ہنسائی قرار دیا گیا۔ لیکن پھر افشا ہوا کہ امریکی تیراک جھوٹ بول رہے تھے۔ برازیلیوں نے اس واقعے کے متعلق جو چبھتے ہوئے جملے لکھے اور بولے' ان کا انتخاب درج ذیل ہے۔ؒ
٭...''امریکی اب تک برازیل کو اپنی نو آبادی سمجھتے ہیں اور یہاں کے اصول و قوانین کی پروا نہیں کرتے۔ انہیں جان لینا چاہیے کہ یہ بنانا ''ری پبلک'' نہیں۔(پروفیسر رافیل السدیپانی)
٭...''اگر کوئی برزایلی امریکا کے کسی پٹرول پمپ پر غنڈہ گردی دکھاتا ' تو وہ اپنے پُرآسائش فلیٹ میںنہیں جیل بھیج دیا جاتا۔ یہ گرنگو (Gringo) دنیا میں سب سے بڑے منافق ہیں۔'' (برازیلی اخبار' او گلوبو کا کالم نگار)
٭...''واہ کیا مذاق ہے! یہ امریکی سمجھتے تھے کہ وہ جو چاہے مرضی کریں اور پھر یوں رخصت ہو جائیں کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔''( لیسٹیا فرنینڈس)
٭...''پٹرول پمپ میں توڑ پھوڑ کے بعد وہ چاہتے تھے کہ اس کا بل برازیلی ادا کریں۔ بہت خوب، ''گرنگوز'' بہت خوب۔''(فرنانیڈوآسو)
٭...''ذرا سوچیے' اگر کوئی برازیلی انکل سام کے دیس میں یہ حرکت کرتا' تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا۔''(رافیل بگیا)
برازیل میں #Lochtegate کا ہیش ٹیگ ٹویٹر پر سرفہرست ٹرینڈنگ موضوع بن گیا۔ برازیلیوں کی اکثریت نے امریکی تیراکوں کی دغا بازی کو امریکی خارجہ پالیسی سے تشبیہہ دی اور لکھا۔:''وہ کسی مملکت میں جاتے' وہاں خوب بکھیڑا ڈالتے' مقامی لوگوں کو اس کا ذمے دار ٹھہراتے اور پھر فرار ہو جاتے ہیں۔''
امریکی سپورٹس کے اسکینڈل
امریکا کے باشندے خود کو بااصول' دیانت دار اور باکردار قرار دیتے ہیں' تاہم کھیلوں کی امریکی دنیا میں اسکینڈلوں کی کمی نہیں۔ حقیقت میں دنیائے سپورٹس کے اولیّں بڑے اسکینڈل نے سرزمین امریکا ہی میں جنم لیا۔ہوا یہ کہ 1919ء میں امریکا میں بیس بال کی دو بہترین ٹیموں' شکاگو وائٹ سوکس اور سینسیناتی ریڈز کے مابین ''ورلڈ سیریز'' کھیلی گئی۔
اس سیریز میں دونوں ٹیموں نے نو مقابلوں میں پنجہ آزمائی کی۔سینسیناتی ریڈز نے پانچ مقابلے جیت کر سیریز جیت لی۔بعدازاں انکشاف ہوا کہ شکاگو وائٹ سوکس کے آٹھ کھلاڑیوں نے جواریوں سے ساز باز کر رکھی تھی۔ انہوں نے جواریوں سے بھاری معاوضہ لیا اور بدلے میں خراب کھیل پیش کیا تاکہ ان کی ٹیم ہار جائے۔ چناںچہ ان کھلاڑیوں پر مقدمہ چلا۔ انہیں جیل تو نہ ہوئی مگر ان پر بیس بال تا عمر نہ کھیلنے کی کڑی پابندی لگ گئی۔ یہ اسکینڈل ''بلیک سوکس'' کے نام سے مشہور ہوا۔ آج امریکا میں یہ لفظ شر اور جرم کا مترادف بن چکا۔
امریکی دنیائے سپورٹس میں یہ رجحان عام ہے کہ کھلاڑی اپنی طاقت اور قوت برداشت (اسٹیمنا) بڑھانے کے لیے ممنوعہ ادویہ اور غذائیں استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے رنگ برنگ طریقے ایجاد کر لیے ہیں تاکہ دوران طبی ٹیسٹ ممنوعہ دوا یا غذا دریافت نہ ہو سکے۔
مگر اکثر امریکی کھلاڑی قانون کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔2012ء میں انکشاف ہوا کہ سائیکل دوڑ کا مشہور امریکی کھلاڑی' لانس آرمسٹرانگ ممنوعہ ادویہ کی مدد سے جسمانی طاقت بڑھا کر عالمی مقابلے جیتتا رہا ہے۔ یہ الزام ثابت ہونے کے بعد اس سے مشہور سائیکل دوڑ' ٹور ڈی فرانس میں حاصل کردہ سات ٹائٹل واپس لے لیے گئے۔ لانس آرمسٹرانگ کو سخت ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ امریکا میں ''آئیکون'' سمجھا جاتا تھا' مگر ممنوعہ ادویہ کے استعمال نے چشم زدن میں اسے ناپسندیدہ شخصیت بنا دیا۔
خاص طور پر ایسے متکبر امریکی کسی ترقی پذیر ملک میں جائیں' تو وہاں خود کو اصول و قوانین سے ماورا سمجھتے ہیں۔اور جب غلط حرکت کر بیٹھیں تو جھوٹ اور مکاری کا سہارا لے کر خود کو بچانے کی سعی کرتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ڈرامائی اور انوکھا واقعہ حالیہ ریو اولمپکس کے دوران پیش آیا۔ہوا یہ کہ 13 اگست کی رات چار امریکی تیراک... ریان لوکتی' جمی فیگن' گنار بینٹز اور جیک کو نگر ایک پارٹی میں گئے اور رنگ رلیاں مناتے رہے۔ جب وہ صبح سویرے پارٹی سے نکلے تو نشے میں بھی تھے۔
انہوں نے ٹیکسی لی اور اولمپک ویلج کی سمت چل پڑے۔راہ میں حاجت ہوئی' تو ٹیکسی ایک پٹرول پمپ پر رکوائی ۔وہاں انہیں بتایا گیا کہ جائے حاجت بند پڑی ہے مگر چاروں مغرور امریکی تیراکوں نے پٹرول پمپ ملازمین کی ایک نہ سنی۔ ان پر تو یہ ہوّا سوار تھا کہ وہ دوسروں سے برتر ہیں' لہٰذا انہیں ہر کام کرنے کی اجازت ہے چاہے وہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہی ہو۔ چناںچہ غصے میں آ کر چاروں لمبے تڑنگے امریکی تیراکوں نے جائے حاجت کا دورازہ توڑ دیا اور ٹوائلٹ میں موجود اشیا کو نقصان پہنچایا۔ دلچسپ بات یہ کہ ان امریکیوں نے جائے حاجت میں ضرورت پوری نہیں کی' بلکہ پٹرول پمپ کے پچھواڑے جا کر فراغت پائی۔
توڑ پھوڑ اور گندگی پھیلانے سے پٹرول پمپ کی انتظامیہ قدرتاً طیش میں آ گئی۔ امریکی تیراک جب غنڈہ گردی کر کے فرار ہو رہے تھے تو پٹرول پمپ کے گارڈوں نے انہیں روک لیا۔ ایک مسلح گارڈ نے تیراکوں کو پستول بھی دکھائی تاکہ ان کے ہوش ٹھکانے آ جائیں اور ایسا ہی ہوا۔ پستول دیکھ کرامریکیوں کی اکڑفوں جاتی رہی اور وہ بھیگی بلی بن گئے۔ بس ریان لوکتی اور ایک گارڈ کے مابین تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
اسی دوران ایک گاہک آ پہنچا جو پرتگیزی اور انگریزی ' دونوں زبانیں جانتا تھا۔ اس نے فریقین کے مابین مترجم کا کام کرتے ہوئے صلح کرا دی۔ طے پایا کہ امریکی تیراک 50ڈالر بطور ہرجانہ ادا کریں اور رخصت ہو جائیں۔ جیک اور جمی نے پمپ انتظامیہ کو مطلوبہ رقم دی' تو انہیں جانے دیا گیا۔ چاروں امریکی تیراکوں نے نئی ٹیکسی پکڑی اور اولمپک ویلج پہنچ گئے۔درج بالا واقعے میں سراسر قصور امریکی تیراکوں کا تھا۔ غرور اورنشے میں آ کر انہوں نے پٹرول پمپ کو نقصان پہنچایا تھا۔ مگر اولمپک ویلج پہنچ کر وہ دوست احباب کو یہ بتانے لگے کہ دوران راہ انہیں لوٹ لیا گیا ہے۔ چار مسلح برازیلی ان کے بٹوے لے کر فرار ہو گئے ۔ یہ افواہ پھیلتے پھیلتے جلد ہی خبر بن گئی۔
ایسے ہی موقع پر بولتے ہیں الٹا چورکوتوال کو ڈانٹے ۔اگلے دن شہرت کے بھوکے،ریان لوکتی نے امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہانی سنا ڈالی : '' ہم ٹیکسی میں جا رہے تھے کہ چار آدمیوں نے ہمارا راستہ روک لیا۔ وہ برازیلی پولیس کی وردی میں ملبوس تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنے بیج دکھائے اور پستولیں نکال لیں۔ انہوں نے پھر حکم دیا کہ ہم زمین پر بیٹھ جائیں۔میں نے بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ آخر ہم نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ میرا تذبذب دیکھ کر ایک پولیس والے نے اپنی پستول میری کنپٹی میں رکھی اور تلخ لہجے میں بولا: '' بیٹھ جاؤ۔'' مجھے ناچار بیٹھنا پڑا۔ ہم چاروں نے ہاتھ ا وپر کررکھے تھے۔ انہوں نے پھر ہماری جامہ تلاشی لی اور ہمارے بٹوے نکال لیے جس میں بھاری رقم موجود تھی۔ یوں ہم لٹ لٹا کر اولمپک ویلج پہنچے۔''
ریان لوکتی نے یہ انکشاف کیا' تو امریکی میڈیا برازیلیوں کے پیچھے پڑ گیا اور انہیں ''بدمعاش'' لٹیرے'' اور ''غنڈے'' جیسے القابات سے نواز ڈالا۔ یاد رہے' جب سے برازیل میں سوشلسٹ حکومت میں آئے ہیں' امریکا اور برازیل کے تعلقات میں دراڑیں پڑ چکیں۔ برازیلی حکومت امریکیوں کو ضدی' مغرور اور ہٹ دھرم سمجھتی ہے۔ اسے امریکی حکومت کے اشاروں پر چلنا ہرگز منظور نہیں ۔ خراب تعلقات کی بنا پر ہی امریکی میڈیا نہ صرف برازیل کی خامیاں وخرابیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے' بلکہ برازیلیوں کے متعلق جھوٹی رپورٹیں بھی چھاپ دیتا ہے۔
یہ امریکی یورپی (مغربی) میڈیا ہی ہے جس نے برازیلی شہر' ریو ڈی جیز و میں ہونے والے اولمپکس کو متنازع بنا ڈالا اور برازیلی حکومت و قوم کے متعلق جھوٹے سچے دعوے کیے۔ مثلاً یہ کہ ریو ڈی جیزو جرائم کا گڑھ ہے۔ اور اب امریکی تیراکوں کو ٹھگ لینے کے واقعے نے گویا اس دعویٰ پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ چنانچہ امریکی میڈیا میں برازیلی حکومت اورعوام پہ خوب پھٹکار ڈالی گئی اور معطون کیا گیا۔ لیکن جب سچائی سامنے آئی' توبیشتر امریکی صحافیوں کو سانپ سونگھ گیا اور وہ اپنے جھوٹے تیراکوں کا دفاع کرتے ہوئے آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔
یو ایس اولمپک کمیٹی نے بھی تصدیق کر دی کہ چار امریکی تیراک لوٹے گئے ہیں' تو برازیلی پولیس تفتیش کرنے لگی۔ چھان بین سے انکشاف ہوا کہ ان چار امریکیوں نے ایک پٹرول پمپ میں دنگا فساد کیا تھا۔ چناںچہ پٹرول پمپ پر نصب وڈیو کیمروں سے فلمیں حاصل کر لی گئیں۔ ان ویڈیو فلموں سے اصل ماجرا افشا ہوا۔ تاہم امریکی تیراکوں کی دھوکے بازی کاپول اولمپک ویلج میں لگے کیمرے نے کھولا۔ اس کیمرے کی فلم دکھاتی ہے کہ چاروں بڑے خوش باش' ہنستے مسکراتے اندر داخل ہو رہے ہیں۔ یہ بالکل نہیں لگتا کہ ان کی رقم اڑالی گئی اور وہ موت کے قریب سے گزر کر آئے ہیں۔ حتی کہ دو تیراکوں نے پٹرتال کے مرحلے سے گزرتے ہوئے اپنے بٹوے جیب سے نکال کر ہاتھ میں تھام لیے۔ یہ عمل ریان لوکتی کے کہے سے لگانہیں کھاتا تھا۔ اس کا تو دعویٰ تھا کہ پولیس نما ڈاکووں نے چاروں کے بٹوے نکال لیے۔
اب پولیس کو یقین ہو گیا کہ اپنا جرم چھپانے کے لیے چاروں تیراکوں نے ایک جھوٹی کہانی مشہور کر دی۔ تب تک (15اگست کی رات) ریان لوکتی اور جمی فیگن وا پس امریکا جاچکے تھے۔ جبکہ 17 اگست کی رات بقیہ دنوں تیراکوں کی وطن روانگی تھی۔ پولیس نے سارے ثبوت ایک جج کے سامنے پیش کیے جس نے امریکی تیراکوں پر فرد جرام عائد کر دی۔ چناںچہ 17 اگست کی رات امریکی تیراک ہوائی جہاز پر بیٹھنے والے تھے کہ برازیلی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ چاروں امریکی تیراکوں پر جھوٹی رپورٹ(ایف آئی آر) درج کرنے کا الزام تھا۔
جب گنار بینٹز اور جیک کونگر پولیس کے ہتھے چڑھے' تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ انہوں نے جلد ہی اگل دیا کہ ریان لوکتی نے پٹرول پمپ میں کی گئی غنڈہ گردی چھپانے کے لیے واقعے کو ڈکیتی کا روپ دے دیا۔یوں ریان لوکتی اور اس کے ساتھی تیراکوں کی عیاری دنیا والوں پر عیاں ہو گئی۔ اس فراڈ پر خاص طور پر برازیلی عوام اور میڈیا کو بہت غصہ آیا جو جائز تھا۔ ایک تو مدہوش امریکی تیراکوں نے غنڈہ گردی کی' اوپر سے برازیلی پولیس کو ڈاکو قرار دے ڈالا۔ چناںچہ برازیلی میڈیا نے امریکی تیراکوں کے جرم کی خبر شہ سرخیوں میں شائع کی۔
آگے بڑھنے سے پیشتر ریان لوکتی کا تعارف ہو جائے۔ یہ 32 سالہ تیراک تیراکی کی عالمی تاریخ میں اپنے ہم وطن تیراک' مائیکل فلپس کے بعد اولمپکس سمیت عالمی مقابلوں میں سب سے زیادہ تمغے جیتنے والا کھلاڑی ہے۔ وہ اولمپک گیمز میں بارہ تمغے (چھ طلائی' تین چاندی ' تین کانسی) اور تیراکی کی عالمی چیمپئین شپس میں ''39'' طلائی تمغے جیت چکا۔ افسوس کہ جب ریان لوکتی کو عزت' دولت اور شہرت ملی تو اس کا دماغ خراب ہو گیا۔ وہ خود کو ہر ایک سے برتر سمجھنے لگا۔ اسے علم نہ تھاکہ غرور و تکبر جلد انسان کو رسوا کر دیتا ہے۔اب وہ برازیلی پولیس سے دور بھاگا پھرتا ہے۔وہ کبھی برازیل گیا تو برازیلی اس فراڈئیے کو چھ ماہ کے لیے اندر کر دیں گے۔
جب ہم وطن تیراکوں نے اصل واقعہ افشا کیا' تو ریان لوکتی بھی سچ بولنے لگا۔ تاہم اب پانی سر کے اوپر سے گزر چکا تھا۔ دنیا بھر میں دانش ور اور اہل قلب و نظر امریکی تیراکوں ہی نہیں ''امریکی طرز فکر'' کو تنقید کانشانہ بنانے لگے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بہت سے امریکی دولت و طاقت میں مدہوش ہو کر غیر اخلاقی و غیر قانونی سرگرمیاں انجام دیتے اور ملک و قوم کو بدنام کرتے ہیں۔مشہور اردو ضرب المثل ہے کہ ایک مچھلی سارے تالات کو گندا کر دیتی ہے ۔ ریان لوکتی نے اس ضرب المثل کو سچ کر دکھایا ۔ ریو اولمپکس میں امریکی کھلاڑیوں نے شاندار کادکردگی دکھائی اور 21تمغے جیت کر پہلا درجہ پایا ۔ تاہم چاروں امریکی تیراکوں کے جھوٹ اور فراڈ نے ان کے کارنامے کو گہنا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی تیراکوں کا گھٹیا ڈراما آخر کار ریو اولمپکس کا سب سے بڑا اسکینڈل بن گیا۔
اب ریان لوکتی اور دیگر امریکی تیراک جھوٹ ومکاری دکھانے پر پشیمان ہیں۔ لیکن چڑیاں تو کھیت چگ کر جا چکیں' اب شرمندگی کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان چاروں کو اب جھوٹ کا دھبہ اپنے د امن میں لیے زندگی گزانا ہو گی۔ انسان ایک لمحے میں غلطی کر بیٹھتا ہے'مگر ضمیر پھر ساری عمر اسے کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ کاش ایسے غلط کار انسانوں کے بھیانک تجربات سے سبھی انسان سبق سیکھ سکیں۔
برازیل بنانا ریپبلک نہیں
جب برازیل میں یہ خبر طشت از بام ہوئی کہ امریکی تیراکوں نے اپنا جرم چھپانے کی خاطر ڈکیتی کی کہانی گھڑ لی' تو وہاں عوام الناس سے لے کر دانشور تک سبھی امریکیوں پر برس پڑے ۔ ریو ڈی جینرو کی انتظامیہ نے شہر میں ایک لاکھ سکیورٹی فورس تعینات کر رکھی تھی تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ لہٰذا جب امریکی تیراک ڈکیتی کا نشانہ بنے' تو اسے عالمی سطح پر برازیل کی جگ ہنسائی قرار دیا گیا۔ لیکن پھر افشا ہوا کہ امریکی تیراک جھوٹ بول رہے تھے۔ برازیلیوں نے اس واقعے کے متعلق جو چبھتے ہوئے جملے لکھے اور بولے' ان کا انتخاب درج ذیل ہے۔ؒ
٭...''امریکی اب تک برازیل کو اپنی نو آبادی سمجھتے ہیں اور یہاں کے اصول و قوانین کی پروا نہیں کرتے۔ انہیں جان لینا چاہیے کہ یہ بنانا ''ری پبلک'' نہیں۔(پروفیسر رافیل السدیپانی)
٭...''اگر کوئی برزایلی امریکا کے کسی پٹرول پمپ پر غنڈہ گردی دکھاتا ' تو وہ اپنے پُرآسائش فلیٹ میںنہیں جیل بھیج دیا جاتا۔ یہ گرنگو (Gringo) دنیا میں سب سے بڑے منافق ہیں۔'' (برازیلی اخبار' او گلوبو کا کالم نگار)
٭...''واہ کیا مذاق ہے! یہ امریکی سمجھتے تھے کہ وہ جو چاہے مرضی کریں اور پھر یوں رخصت ہو جائیں کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔''( لیسٹیا فرنینڈس)
٭...''پٹرول پمپ میں توڑ پھوڑ کے بعد وہ چاہتے تھے کہ اس کا بل برازیلی ادا کریں۔ بہت خوب، ''گرنگوز'' بہت خوب۔''(فرنانیڈوآسو)
٭...''ذرا سوچیے' اگر کوئی برازیلی انکل سام کے دیس میں یہ حرکت کرتا' تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا۔''(رافیل بگیا)
برازیل میں #Lochtegate کا ہیش ٹیگ ٹویٹر پر سرفہرست ٹرینڈنگ موضوع بن گیا۔ برازیلیوں کی اکثریت نے امریکی تیراکوں کی دغا بازی کو امریکی خارجہ پالیسی سے تشبیہہ دی اور لکھا۔:''وہ کسی مملکت میں جاتے' وہاں خوب بکھیڑا ڈالتے' مقامی لوگوں کو اس کا ذمے دار ٹھہراتے اور پھر فرار ہو جاتے ہیں۔''
امریکی سپورٹس کے اسکینڈل
امریکا کے باشندے خود کو بااصول' دیانت دار اور باکردار قرار دیتے ہیں' تاہم کھیلوں کی امریکی دنیا میں اسکینڈلوں کی کمی نہیں۔ حقیقت میں دنیائے سپورٹس کے اولیّں بڑے اسکینڈل نے سرزمین امریکا ہی میں جنم لیا۔ہوا یہ کہ 1919ء میں امریکا میں بیس بال کی دو بہترین ٹیموں' شکاگو وائٹ سوکس اور سینسیناتی ریڈز کے مابین ''ورلڈ سیریز'' کھیلی گئی۔
اس سیریز میں دونوں ٹیموں نے نو مقابلوں میں پنجہ آزمائی کی۔سینسیناتی ریڈز نے پانچ مقابلے جیت کر سیریز جیت لی۔بعدازاں انکشاف ہوا کہ شکاگو وائٹ سوکس کے آٹھ کھلاڑیوں نے جواریوں سے ساز باز کر رکھی تھی۔ انہوں نے جواریوں سے بھاری معاوضہ لیا اور بدلے میں خراب کھیل پیش کیا تاکہ ان کی ٹیم ہار جائے۔ چناںچہ ان کھلاڑیوں پر مقدمہ چلا۔ انہیں جیل تو نہ ہوئی مگر ان پر بیس بال تا عمر نہ کھیلنے کی کڑی پابندی لگ گئی۔ یہ اسکینڈل ''بلیک سوکس'' کے نام سے مشہور ہوا۔ آج امریکا میں یہ لفظ شر اور جرم کا مترادف بن چکا۔
امریکی دنیائے سپورٹس میں یہ رجحان عام ہے کہ کھلاڑی اپنی طاقت اور قوت برداشت (اسٹیمنا) بڑھانے کے لیے ممنوعہ ادویہ اور غذائیں استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے رنگ برنگ طریقے ایجاد کر لیے ہیں تاکہ دوران طبی ٹیسٹ ممنوعہ دوا یا غذا دریافت نہ ہو سکے۔
مگر اکثر امریکی کھلاڑی قانون کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔2012ء میں انکشاف ہوا کہ سائیکل دوڑ کا مشہور امریکی کھلاڑی' لانس آرمسٹرانگ ممنوعہ ادویہ کی مدد سے جسمانی طاقت بڑھا کر عالمی مقابلے جیتتا رہا ہے۔ یہ الزام ثابت ہونے کے بعد اس سے مشہور سائیکل دوڑ' ٹور ڈی فرانس میں حاصل کردہ سات ٹائٹل واپس لے لیے گئے۔ لانس آرمسٹرانگ کو سخت ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ امریکا میں ''آئیکون'' سمجھا جاتا تھا' مگر ممنوعہ ادویہ کے استعمال نے چشم زدن میں اسے ناپسندیدہ شخصیت بنا دیا۔