سجاد حسین نازک مزاج موسیقار

جو سازندوں کو مارنے پیٹنے سے بھی گریز نہ کرتے تھے


September 04, 2016
جو سازندوں کو مارنے پیٹنے سے بھی گریز نہ کرتے تھے ۔ فوٹو : فائل

QUETTA: برطانوی ناول نگار خاتون شارلٹ برونٹے کے دنیا بھر میں مقبول کلاسک ناول ''جین آئر'' کی کہانی سے ماخوذ بھارت میں 1952 میں ایک میوزیکل فلم ''سنگدل'' بنی تھی، جس کے مرکزی ستارے دلیپ کمار اور مدھو بالا تھے۔ اس فلم کے گیتوں کی دھنیں موسیقار سجاد حسین نے مرتب کی تھیں اور تمام گیت مقبول ہوئے تھے۔

٭ ... یہ ہوا، یہ رات، یہ چاندنی تیری اِک ادا پہ نثار ہے، (طلعت محمود)
٭ ... دھرتی سے دور گورے بادلوں کے پار آجا آجا بسالیں نیا سنسار، (گیتادت، آشا بھونسلے)
٭ ... دل میں سماگئے سجن، پھول کھلے چمن چمن، پیار بھی مُسکرادیا، (لتا طلعت)
٭ ... وہ تو چلے گئے اے دل، یاد سے اُن کی پیار کر، (لتا منگیشکر)
٭ ... کہاں ہو کہاں میرے جیون سہارے تمہیں دل پکارے، (طلعت محمود)

سجاد حسین اگرچہ اس سے پہلے بارہ فلموں کی موسیقی کمپوز کرچکے تھے جن میں نمایاں فلموں دوست، دھرم، 1957 روپ لیکھا، سیاں اور ہلچل کے مقبول نغمات اُن کے کریڈٹ پر تھے، لیکن سنگدل کے گانوں نے ان کی شہرت و عزت میں بے پناہ اضافہ کیا اور بڑے بڑے فلم ساز اور ادارے ان سے ملنے آنے لگے، لیکن سجاد حسین کی نازک مزاجی کو کیا کہیے کہ وہ ذرا سی خلافِ طبیعت بات پر بھڑک اٹھتے اور فلم کا میوزک کمپوز کرنے سے انکار کردیتے۔ اس طرح ان کا فلمی کیریئر صرف 17 فلموں تک محدود رہا۔ تاہم وہ ایک بڑے میوزک ڈائریکٹر تسلیم کیے گئے۔

فلم سنگ دل کی طرح سجاد حسین کی فلم ''رُستم سُہراب'' کے بھی سبھی گیت مقبول ہوئے:
٭ ... پھر تمہاری یاد آئی اے صنم، ہم نہ بھولیں گے تمہیں اﷲ کی قسم، (محمدرفیع، مناڈے، طلعت محمود)
٭ ... دھڑکتے دل کی تمنا ہو میرا پیار ہو تم، (ثریا)
٭ ... اے دِل رُبا، (لتا)
٭ ... ماژندراں، ماژندراں میرے وطن، (طلعت محمود)
٭ ... یہ کیسی عجب داستاں ہوگئی ہے، چھپاتے چھپاتے بیاں ہوگئی ہے، (ثُریا)

سجاد حسین 15 جون 1917 کو ممبئی کے مضافات میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں سیتا ماؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباء و اجداد کئی نسلوں سے کلاسیکی موسیقی سے وابستہ تھے اور مختلف ساز بجانے میں مہارت رکھتے تھے۔ سجاد حسین نے بھی بچپن ہی میں اپنے والد محمد امیر خان سے ستار، وچتروینا، وائلن، بانسری اور پیانو بجانا سیکھ لیا تھا۔ انھیں مینڈولین (ایک مغربی ساز) بجانا زیادہ پسند تھا اور انھوں نے نوعمری میں مینڈولین بجانے پر کامل دسترس حاصل کرلی تھی۔ سجاد کو مغربی دھنوں میں ''جاز'' بے حد اچھی لگتی تھی، اسی لیے ان کے بیشتر نغمات جاز میں مرتب کردہ ہیں۔ انھوں نے مغربی موسیقی کو مشرقی راگوں سے ہم آہنگ کرکے سریلی دھنیں بناکر نیا ٹرینڈ متعارف کرایا۔

سجاد حسین نے اپنا مقدر آزمانے کے لیے 1937 میں اپنے بڑے بھائی نثار حسین کے ساتھ ممبئی جانے کا قصد کیا اور فلمساز سہراب مودی کے ادارے منروا مووی ٹون میں تیس روپے ماہوار کی ملازمت اختیار کی۔ سال بعد ہی انھیں واڈیا مووی ٹون میں ساٹھ روپے کی ملازمت ملی اور وہ موسیقار و گلوکار اور اداکار رفیق غزنوی اور سید شوکت حسین رضوی کے اسسٹنٹ ہوگئے۔ اس دوران ایک دوست کی وساطت سے وہ اداکارہ مینا کماری کے والد موسیقار علی بخش سے متعارف ہوئے۔ علی بخش ان کی مینڈولین سن کر بہت متاثر ہوئے اور انہیں اپنا نائب موسیقار مقرر کرلیا۔

1944 میں سجاد حسین کو علی بخش کے وسیلے سے پہلی فلم ''گالی'' کی موسیقی مرتب کرنے کا موقع ملا اور ان کے دو گیت ان کا پہلا فلمی تعارف بنے، ''آگ لگے ساون میں'' ، ''اب آجا دل نہ لگے (آواز نرملا دیوی) اسی سال سجاد حسین کو شوکت رضوی کی فلم ''دوست'' ملی جس کے تین نغمات نورجہاں کے گائے ہوئے آج بھی سنے جارہے ہیں، ''بدنام محبت کون کرے'' ، ''کوئی پیار کا دے کے سندیسہ'' ، ''الم پر الم ستم پر ستم۔''

مشہور موسیقار انل بسواس نے ان گیتوں پر سجاد حسین کو بہت داد دی اور حوصلہ بڑھایا۔ اگلے چھے سال میں سجاد نے آٹھ فلموں، دھرم، 1857، طلسمی دنیا، قسم، میرے بھگوان، روپ لیکھا، کھیل اور مغرور کی موسیقی دی اور ہاٹ کیک بن گئے۔ پھر 1951 میں فلم سیاں، 52ء میں سنگ دل، 55ء میں رخسانہ، 61ء میں ہلچل اور 63ء میں فلم رستم و سہراب کے گیتوں نے سجاد حسین کو اپنے دور کے بڑے موسیقاروں کی صف میں شامل کردیا اور بڑے فلم ساز ان سے رابطے کرنے لگے۔ کے آصف نے تاریخی فلم ''مغل اعظم'' کی موسیقی دینے کے لیے نوشاد سے پہلے سجاد کو آفر دی لیکن وہ کسی بات پر بگڑ بیٹھے اور انکار کردیا۔

مردان کے معروف گرامو فون ریکارڈ خزانے کے مالک امتیاز زین نے 1992 میں ممبئی جاکر سجاد حسین سے ان کے گھر پر ملاقات کی، فوٹوز لیے اور ان کا انٹرویو ریکارڈ کرلیا۔ سجاد حسین نے انھیں بتایا کہ وہ کسی سے کوئی اچھی چیز سنتے تو سیکھنے میں عار محسوس نہ کرتے تھے۔ اساتذہ کو انھوں نے سر آنکھوں پر بٹھائے رکھا۔ لتا منگیشکر نے اپنے انٹرویوز میں سجاد حسین کو اپنا پسندیدہ ترین موسیقار قرار دیا، جب کہ خود سجاد کو طلعت محمود، ثریا، آشا، منا ڈے، محمد رفیع اور لتا کی آوازیں پسند تھیں۔ تاہم وہ گلوکاروں اور ہم عصر موسیقاروں پر نکتہ چینی اور تنقید سے باز نہیں آتے تھے۔ وہ طلعت محمود کو بعض اوقات ''غلط محمود'' کے نام سے پکارتے اور کشور کمار کو ''شور کمار'' کہتے۔ آرکسٹرا بجانے والا کوئی سازندہ غلطی کرتا تو اسے مغلظات سے نوازتے اور مارپیٹ سے بھی گریز نہ کرتے۔ غصہ ہر دم ان کی ناک پر دھرا رہتا تھا۔ ایک بار کسی محفل موسیقی میں موسیقار مدن موہن ان کے سامنے سے گزرے تو ان پر سخت جملہ کھینچ مارا حالاںکہ مدن موہن نے ان کے گیت ''یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی'' کی طرز سے متاثر ہوکر اپنی فلم آخری داؤ میں محمد رفیع کا گیت ''تجھے کیا سناؤں میں دل ربا، تیرے سامنے میرا حال ہے'' اسی دھن میں کمپوز کیا تھا۔

سجاد حسین نے فلم ''ہلچل'' کے صرف دو ہی گیت،''لٹادل میرا ہائے آباد ہوکر''،''آج میرے نصیب نے مجھ کو رلا رلادیا (لتا) کمپوز کیے تھے کہ وہ فلم ساز کے آصف کی کسی بات پر سیخ پا ہوکر فلم چھوڑ گئے۔ باقی گیتوں کی موسیقی غیرمعروف موسیقار محمد شفیع نے دی لیکن کوئی گانا مقبول نہ ہوسکا۔ امتیاز زینؔ کے سوال پر انھوں نے کہا،''ٹیڑھی بات مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔''

سجاد حسین کے اختلافات موسیقار نوشاد، ایس ڈی برمن، لتا اور محمد رفیع سے بھی ہوتے رہے اور لوگ ان سے دور ہوتے چلے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انھیں فلمیں ملنا بند ہوگئیں۔ 1963 میں رستم سہراب کے بعد 1973 میں فلم میرا شکار اور 1977 میں آخری سجدہ کے بعد سجاد حسین کا فلمی کیریئر اختتام پذیر ہوگیا۔

33 سال میں 100 سے بھی کم فلمی نغمات بظاہر بہت کم محسوس ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی گانا سنتے ہوئے سجاد حسین کے لیے دل سے بے اختیار داد نکلتی ہے۔ وہ ایک پرفیکشنسٹ موسیقار تھے۔ گیت کی فائنل ریکارڈنگ سے پہلے بار بار ریہرسل کراتے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی گانے میں کوئی جھول یا خلا محسوس نہیں ہوتا۔ ہر ساز، طبلے کی تھاپ اور گلوکار کی آواز سے ہم آہنگ ہے۔ اس لحاظ سے سجاد حسین کا تھوڑا سا کام ہزاروں پر بھاری ہے۔ وہ اطمینان کی آخری حد تک جاتے تھے۔ ایسے میں ان کے غصے اور چڑچڑے مزاج کا شکوہ کرنا قرین انصاف نہیں، لیکن بقول میر انیسؔ خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم۔ اگر سجاد حسین اپنی نازک مزاجی پر قابو پالیتے تو ان سے بڑا موسیقار کوئی نہ ہوتا۔

سجاد حسین 21 جولائی 1995کو وفات پا گئے۔ 78 سال کی عمر طبعی میں آخری 18 برس تنہا خاموشی سے گزارنا ان کے لیے کتنا جاں گُسل رہا ہوگا، وہی جانتے ہوں گے یا ان کا خالق حقیقی۔ سجاد حسین اپنے گیتوں میں زندہ ہیں اور اعلیٰ موسیقی کے شائق ان کے سروں کے ساتھ ہلکورے لیتے رہیں گے۔

سجاد حسین کے چند مزید سریلے گیت
٭ ... کالی کالی رات رے بڑا ستائے۔ (فلم سیاں۔ لتا منگیشکر)
٭ ... قسمت میں خوشی کا نام نہیں۔ (فلم سیاں۔ لتا منگیشکر)
٭ ... وہ رات دن وہ شام کی گزری ہوئی کہانیاں۔ (فلم سیاں۔ لتا منگیشکر)
٭ ... توڑ گئے ارمان بھرا دل توڑ گئے۔ (کھیل۔ لتا منگیشکر)
٭ ... بھول جا اے دل محبت کا فسانہ۔ (فلم سیاں۔ لتا منگیشکر)
٭ ... تیری نظر میں، میں رہوں میری نظر میں تو ۔ (1857، ثریا، سریندر)
٭ ... میری ہوگئی ان سے بات۔ (1857، ثریا)
٭ ... یا رب ہماری آہ میں اتنا اثر نہیں۔ (قسم، گیتا رائے)
٭ ... تیر کھائے جا، ظلم و ستم اٹھائے جا۔ (روپ لیکھا، محمد رفیع)
٭ ... دل کے مالک سن میرا دل ٹوٹ گیا۔ (روپ لیکھا، سریندرکور)
٭ ... چلے آؤ تمہیں آنسو ہمارے یاد کرتے ہیں۔ (مغرور، شمشاد بیگم)
٭ ... ٹوٹ گیا ہائے ٹوٹ گیا وہ ساز محبت ٹوٹ گیا۔ (مغرور، محمد رفیع، شمشاد بیگم)
٭ ... تیرا درد دل میں بسالیا۔ رخسانہ۔ (لتا منگیشکر)
٭ ... تیرے جہاں سے چل دیے۔ (مغرور، آشا بھونسلے، کشور کمار)
٭ ... غمِ آشیانہ ستائے گا کب تک۔ (1857۔ ثریا)

(افتخار حسین زوارؔ)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔