آپریشن دوارکا
جنگ ستمبر میں بے کراں سمندر کے سینے پر رقم کی گئی ناقابل فراموش داستاں
معرکہ دوارکا تاریخ کے اوراق پر لکھی گئی جرأت، بہادری اور سرفروشی کی ایک ایسی داستان ہے جو رہتی دنیا تک پاک بحریہ کا وقار بڑھاتی رہے گی۔ سن انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں کشمیر اور پنجاب کے مختلف محاذوں پر جب بری اور ہوائی فوج دشمن کے خلاف برسرپیکار تھیں تو ایسے وقت میں عیار دشمن نے جارحانہ جنگی حکمت عملی کے تحت اہم ترین پاکستانی ساحلی شہر کراچی کو اپنے پے درپے ہوائی حملوں کی زد پر رکھ لیا۔
ان حملوں کے دوران اہم پاکستانی تنصیبات پر بھارتی حملے مسلسل جاری تھے۔ گوکہ اس دوران حملہ آور کئی بھارتی جنگی طیارے پاکستانی توپوں کی زد میں آکر زمین بوس ہوچکے تھے، مگر بھارت کو بھرپور سبق سکھانا لازم ہوچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر دو مسلح افواج کے بعد دشمن کو جوابی کاری ضرب لگانے کے لیے پاکستان کی جری بحری فوج نے سمندر کے سینے پر دوارکا کا جنگی محاذ کھولا۔
جس تواتر سے بھارت کی جانب سے حملے کیے جارہے تھے وہ اس بات کو ظاہر کرتے تھے کہ کراچی کے ساحل سے دوسو دس ناٹیکل مائل کی دوری پر واقع دوارکا کا ریڈار اسٹیشن ان بھارتی فضائی حملوں کی بھرپور راہ نمائی کررہا ہے۔ اس مشکل جنگی صورت حال میں اعلیٰ قیادت نے بروقت فیصلہ کیا کہ دوارکا کا ریڈار اسٹیشن اور اس سے منسلک دیگر بھارتی تنصیبات کو تباہ کرنا ناگزیر ہوچکا ہے اور یوں جنگ ستمبر میں بری اور ہوائی فوج کے بعد پہلی مرتبہ پاکستانی بحریہ دشمن ملک بھارت کے مدمقابل ہوئی۔
ارض پاک کی جانب سے اس آپریشن کا منصوبہ ترتیب دینے کے دوران تمام تر پہلوؤں کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا تھا، جس میں بھارتی ایئرفورس کے حملوں کو غیرموثر بنانے اور جارحانہ بحری حکمت عملی اپناکر ایسی صورت حال پیدا کرنی تھی کہ بھارتی بحریہ اپنے ہی حدود میں مقید ہوکر رہ جائے۔ یہاں تک کے کسی بھی جوابی کارروائی کے لیے انھیں بمبئی کے ساحل سے باہر نکلنے کا موقع تک نہ مل سکے۔ تاہم اگر کسی وجہ کی بنا پر کوئی بھارتی بحری جہاز اس آپریشن پر براہ راست اثر انداز بھی ہوتا تو اس کے سے نبرد آزما ہونے کے لیے تارپیڈو اور دیگر جنگی آلات سے لیس پاکستانی بحری آبدوز غازی بھی دوارکا آپریشن کے دیگر سات بحری اثاثوں کا حصہ تھی۔ دوارکا کراچی سے تقریباً 210 ناٹیکل مائل کی دوری پر ہے۔
اس حساس ترین آپریشن کو پاک بحریہ نے کسی بھی جنگی ہوائی جہاز کے امداد کے بغیر پورا کرنا تھا۔ وقت ضائع کیے بغیر پاک بحریہ کے جنگی بحری جہاز چھے اور سات ستمبر کی درمیانی شب اپنے مشن پر روانہ ہوئے پاکستانی آبدوز ''غازی'' کو بھارتی پانیوں میں اگلے مقام پر تعینات کردیا گیا، تاکہ حملے کے ردعمل میں نکلنے والے بھارتی بحری جہازوں کو نشانہ بناسکے۔
آپریشن کے دوران ہر قسم کے مواصلاتی رابطوں کی سختی سے ممانعت تھی، جس کی وجہ سے اس آپریشن کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا۔ رات کی تاریکی میں جب سمندر میں ہر جانب سکوت تھا۔ ایسے میں پاک بحریہ کے جنگی بحری جہاز پی این ایس بابر، خیبر، بدر، جہانگیر، عالمگیر، شاہ جہاں اور ٹیپو سلطان نے بھارت کی جانب رخت سفر باندھا۔
دشمن پر ہیبت طاری کرنے کے لیے گہرے سمندر میں چارسو فٹ کی گہرائی میں پچاس کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار کی حامل سب میرین پی این ایس غازی بھی دشمن ملک کی بندرگاہ کی جانب رواں دواں تھی۔ بحرہند پر چھائی رات کی سیاہی میں جہازوں کی راہ نمائی صرف اور صرف سمتوں کے ذریعے کی جارہی تھی۔ سمت غلط ہونے کی صورت میں سارا منصوبہ خراب ہوسکتا تھا۔ رات ٹھیک گیارہ بجے بھارتی بحریہ کے جنگی بحری جہاز آئی این ایس تلوار کی سمندر میں موجودگی کی نشان دہی ہوئی۔ تاہم ایک کے بعد ایک قطاردرقطار سمندر کے سینے پر پہاڑوں کی مانند کھڑے پاکستانی بحری جہازوں نے بھارتی ترنگے کے حامل بحری جہاز پر کچھ ایسی ہیبت طاری کی کہ اس نے پسپا ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ جوانوں کے چہروں پر چھائی جوش و لولے کی ملی جلی کیفیت میں بالآخر یہ سمندری سفر اختتام پذیر ہوا۔
تمام پاکستانی بحری جنگی جہاز دوارکا کے اتنے قریب پہنچ گئے تھے کہ پورا شہر ان کی توپوں کے گولوں کی زد پر تھا۔ بارہ بج کر چھبیس منٹ پر فائر کا حکم ملا اور ساتوں جہازوں کی توپیں آگ اگلنے لگیں۔ پے درپے ہونے والی گولا باری سے دشمن شاید بہت دیر تک یہ سمجھ نہیں سکا کہ اس کے ساتھ آخر کیا ماجرا کیا ہوا۔ اس دوران وہ صرف اور صرف حواس باختہ ہی رہا۔ آپریشن دوارکا کو سومناتھ کے مندر پر اٹھارھواں حملہ بھی قراردیا جاتا ہے، کیوںکہ سومناتھ کا مندر اسی ساحلی علاقے میں ہی واقع ہے۔ پاک بحریہ کے جنگی بحری جہازوں کے توپوں کے دہانوں پر سب سے پہلے بھارتی ہائی فریکونسی ڈائریکشن ریڈار آیا، جس کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔
پاک بحریہ کے شیردل جوانوں کا اگلا نشانہ بنے بھارتی نیول ایئراسٹیشن اور لائٹ ہاؤس۔ آپریشن دوارکا میں پاکستانی سرفروشوں نے دشمن ملک کی سمندری حدود میں ڈیڑھ سوکلومیٹر اندر گھس کر انھیں پے درپے حملوں کا نشانہ بنایا۔ گولے عین ریڈاراسٹیشن کے احاطے میں گرے، جس کے باعث ریڈار اسٹیشن مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا اور ڈیوٹی پر موجود دو افسران اور تیرہ دیگر اہل کار ہلاک ہوئے۔ دوارکا میں موجود ہوائی اڈے کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ ریڈاراسٹیشن اور ہوائی اڈا تباہ ہونے کے بعد بھارتی ہوائی حملے یک لخت رک گئے۔ دوسری طرف آپریشن مکمل ہوچکا تھا۔ دوارکا میں بھارتی تنصیبات کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی تھی۔ پاکستان کے تمام بحری جہازوں نے ارض پاک کی جانب واپسی کا رخت سفر باندھا۔ اس تمام آپریشن میں سیکڑوں میل دور پاک بحریہ کے سرفروشوں نے ان ہونی کو ہونی بنادیا۔
پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی بربادی کی تاریخ کے اوراق پر رقم کی جاچکی تھی۔ یہ آپریشن مجموعی طور پر دو روز تک جاری رہا، جس کے دوران دشمن صرف اپنی بربادی کا تماشا دیکھتارہا اور پاکستانی سرفروشوں نے اپنے سے کئی گنا بڑی بھارتی بحریہ کو بھاری نقصان اور شکست فاش سے دوچار کیا۔ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں دوارکا آپریشن کے ذریعے لگنے والے زخم بھارت آج تک نہیں بھولا۔
ان حملوں کے دوران اہم پاکستانی تنصیبات پر بھارتی حملے مسلسل جاری تھے۔ گوکہ اس دوران حملہ آور کئی بھارتی جنگی طیارے پاکستانی توپوں کی زد میں آکر زمین بوس ہوچکے تھے، مگر بھارت کو بھرپور سبق سکھانا لازم ہوچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر دو مسلح افواج کے بعد دشمن کو جوابی کاری ضرب لگانے کے لیے پاکستان کی جری بحری فوج نے سمندر کے سینے پر دوارکا کا جنگی محاذ کھولا۔
جس تواتر سے بھارت کی جانب سے حملے کیے جارہے تھے وہ اس بات کو ظاہر کرتے تھے کہ کراچی کے ساحل سے دوسو دس ناٹیکل مائل کی دوری پر واقع دوارکا کا ریڈار اسٹیشن ان بھارتی فضائی حملوں کی بھرپور راہ نمائی کررہا ہے۔ اس مشکل جنگی صورت حال میں اعلیٰ قیادت نے بروقت فیصلہ کیا کہ دوارکا کا ریڈار اسٹیشن اور اس سے منسلک دیگر بھارتی تنصیبات کو تباہ کرنا ناگزیر ہوچکا ہے اور یوں جنگ ستمبر میں بری اور ہوائی فوج کے بعد پہلی مرتبہ پاکستانی بحریہ دشمن ملک بھارت کے مدمقابل ہوئی۔
ارض پاک کی جانب سے اس آپریشن کا منصوبہ ترتیب دینے کے دوران تمام تر پہلوؤں کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا تھا، جس میں بھارتی ایئرفورس کے حملوں کو غیرموثر بنانے اور جارحانہ بحری حکمت عملی اپناکر ایسی صورت حال پیدا کرنی تھی کہ بھارتی بحریہ اپنے ہی حدود میں مقید ہوکر رہ جائے۔ یہاں تک کے کسی بھی جوابی کارروائی کے لیے انھیں بمبئی کے ساحل سے باہر نکلنے کا موقع تک نہ مل سکے۔ تاہم اگر کسی وجہ کی بنا پر کوئی بھارتی بحری جہاز اس آپریشن پر براہ راست اثر انداز بھی ہوتا تو اس کے سے نبرد آزما ہونے کے لیے تارپیڈو اور دیگر جنگی آلات سے لیس پاکستانی بحری آبدوز غازی بھی دوارکا آپریشن کے دیگر سات بحری اثاثوں کا حصہ تھی۔ دوارکا کراچی سے تقریباً 210 ناٹیکل مائل کی دوری پر ہے۔
اس حساس ترین آپریشن کو پاک بحریہ نے کسی بھی جنگی ہوائی جہاز کے امداد کے بغیر پورا کرنا تھا۔ وقت ضائع کیے بغیر پاک بحریہ کے جنگی بحری جہاز چھے اور سات ستمبر کی درمیانی شب اپنے مشن پر روانہ ہوئے پاکستانی آبدوز ''غازی'' کو بھارتی پانیوں میں اگلے مقام پر تعینات کردیا گیا، تاکہ حملے کے ردعمل میں نکلنے والے بھارتی بحری جہازوں کو نشانہ بناسکے۔
آپریشن کے دوران ہر قسم کے مواصلاتی رابطوں کی سختی سے ممانعت تھی، جس کی وجہ سے اس آپریشن کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا۔ رات کی تاریکی میں جب سمندر میں ہر جانب سکوت تھا۔ ایسے میں پاک بحریہ کے جنگی بحری جہاز پی این ایس بابر، خیبر، بدر، جہانگیر، عالمگیر، شاہ جہاں اور ٹیپو سلطان نے بھارت کی جانب رخت سفر باندھا۔
دشمن پر ہیبت طاری کرنے کے لیے گہرے سمندر میں چارسو فٹ کی گہرائی میں پچاس کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار کی حامل سب میرین پی این ایس غازی بھی دشمن ملک کی بندرگاہ کی جانب رواں دواں تھی۔ بحرہند پر چھائی رات کی سیاہی میں جہازوں کی راہ نمائی صرف اور صرف سمتوں کے ذریعے کی جارہی تھی۔ سمت غلط ہونے کی صورت میں سارا منصوبہ خراب ہوسکتا تھا۔ رات ٹھیک گیارہ بجے بھارتی بحریہ کے جنگی بحری جہاز آئی این ایس تلوار کی سمندر میں موجودگی کی نشان دہی ہوئی۔ تاہم ایک کے بعد ایک قطاردرقطار سمندر کے سینے پر پہاڑوں کی مانند کھڑے پاکستانی بحری جہازوں نے بھارتی ترنگے کے حامل بحری جہاز پر کچھ ایسی ہیبت طاری کی کہ اس نے پسپا ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ جوانوں کے چہروں پر چھائی جوش و لولے کی ملی جلی کیفیت میں بالآخر یہ سمندری سفر اختتام پذیر ہوا۔
تمام پاکستانی بحری جنگی جہاز دوارکا کے اتنے قریب پہنچ گئے تھے کہ پورا شہر ان کی توپوں کے گولوں کی زد پر تھا۔ بارہ بج کر چھبیس منٹ پر فائر کا حکم ملا اور ساتوں جہازوں کی توپیں آگ اگلنے لگیں۔ پے درپے ہونے والی گولا باری سے دشمن شاید بہت دیر تک یہ سمجھ نہیں سکا کہ اس کے ساتھ آخر کیا ماجرا کیا ہوا۔ اس دوران وہ صرف اور صرف حواس باختہ ہی رہا۔ آپریشن دوارکا کو سومناتھ کے مندر پر اٹھارھواں حملہ بھی قراردیا جاتا ہے، کیوںکہ سومناتھ کا مندر اسی ساحلی علاقے میں ہی واقع ہے۔ پاک بحریہ کے جنگی بحری جہازوں کے توپوں کے دہانوں پر سب سے پہلے بھارتی ہائی فریکونسی ڈائریکشن ریڈار آیا، جس کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔
پاک بحریہ کے شیردل جوانوں کا اگلا نشانہ بنے بھارتی نیول ایئراسٹیشن اور لائٹ ہاؤس۔ آپریشن دوارکا میں پاکستانی سرفروشوں نے دشمن ملک کی سمندری حدود میں ڈیڑھ سوکلومیٹر اندر گھس کر انھیں پے درپے حملوں کا نشانہ بنایا۔ گولے عین ریڈاراسٹیشن کے احاطے میں گرے، جس کے باعث ریڈار اسٹیشن مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا اور ڈیوٹی پر موجود دو افسران اور تیرہ دیگر اہل کار ہلاک ہوئے۔ دوارکا میں موجود ہوائی اڈے کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ ریڈاراسٹیشن اور ہوائی اڈا تباہ ہونے کے بعد بھارتی ہوائی حملے یک لخت رک گئے۔ دوسری طرف آپریشن مکمل ہوچکا تھا۔ دوارکا میں بھارتی تنصیبات کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی تھی۔ پاکستان کے تمام بحری جہازوں نے ارض پاک کی جانب واپسی کا رخت سفر باندھا۔ اس تمام آپریشن میں سیکڑوں میل دور پاک بحریہ کے سرفروشوں نے ان ہونی کو ہونی بنادیا۔
پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی بربادی کی تاریخ کے اوراق پر رقم کی جاچکی تھی۔ یہ آپریشن مجموعی طور پر دو روز تک جاری رہا، جس کے دوران دشمن صرف اپنی بربادی کا تماشا دیکھتارہا اور پاکستانی سرفروشوں نے اپنے سے کئی گنا بڑی بھارتی بحریہ کو بھاری نقصان اور شکست فاش سے دوچار کیا۔ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں دوارکا آپریشن کے ذریعے لگنے والے زخم بھارت آج تک نہیں بھولا۔