تدبیریں اور انہونیاں

مسئلہ بظاہر ایک مشکل میں بدل گیا ہے اورمشکل حل کرنےکےدو طریقے ہیں یا توعدالت دو ٹوک الفاظ میں بتا دے کہ حکومت کیا کرے۔


Abbas Athar December 07, 2012
[email protected]

گزشتہ روز بلوچستان حکومت کی شامت آئی اور وہ بھی خاصی بری طرح ۔ حق حکمرانی سے محروم اور ناکامی کی سند دوبارہ دیے جانے کے علاوہ اُسے ڈھیٹ کا خطاب بھی ملا اور یہ وارننگ بھی دی گئی کہ ''ذمے دار'' قانون کی گرفت میں آئیں گے ۔ جب حکومت کے وکیل نے یہ پوچھا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ صوبائی حکومت استعفیٰ دے دے تو فاضل عدالت نے کہا ، یہ بات ہم کیوں کہیں، آ پ کو پتہ نہیں، آپ نے کیا کرنا ہے۔

مطلب صاف ہے۔ عدالت چاہتی ہے کہ حکومت مستعفی ہو جائے لیکن وہ یہ حکم دو ٹوک الفاظ میں اس لیے نہیں دے رہی کہ کبھی کبھی آئین کا بھی لحاظ کرلیتی ہے۔ عدالت کا مطلب بالکل دو ٹوک ہے اور الفاظ کی ساخت براہ راست حکم کی نہیں، بالواسطہ ہدایت کی ہے اور دیکھا جائے تو پہلی بار جب حکومت کو حق حکمرانی سے محروم کیا گیا تھا تو اس کا دو ٹوک مطلب بھی یہی تھا کہ حکومت استعفیٰ دے اور جب دوسری مرتبہ یہ کہا گیا کہ حکومت ہمارے فیصلے کے باوجود کیوں بیٹھی ہوئی ہے تو اس کا دو ٹوک مطلب بھی واضح تھا لیکن حکومت یہ مطلب نہیں سمجھ سکی۔ اس کی وجہ حکومت کا یہ خیال ہے کہ اسے ہٹانے کا اختیار اسمبلی کا ہے، عدالت کا نہیں۔

یہ بات وزیراعلیٰ بلوچستان بھی ایک سے زیادہ مرتبہ کہہ چکے ہیں اور وفاقی حکومت کے ذمے دار بھی۔ کل ہی وفاقی وزیر خورشید شاہ نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر حکومت ہٹانے کا اختیار عدلیہ کے پاس ہے تو پھر پارلیمنٹ کی کیا ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ عدالت کو بھی اس آئینی پوزیشن کا احساس یا علم ہے ، اس لیے وہ براہ راست حکومت کو استعفیٰ دینے کا حکم نہیں دے رہی ، الفاظ کے مفہوم کے ذریعے یہ کام کر رہی ہے اور مزید اشارہ بھی دے رہی ہے کہ ہم کیوں بتائیں، آپ کو خود پتہ ہے، آپ کو کیا کرنا چاہیے۔

مسئلہ بظاہر ایک مشکل میں بدل گیا ہے اور مشکل حل کرنے کے دو طریقے ہیں یا تو عدالت دو ٹوک الفاظ میں بتا دے کہ حکومت کیا کرے۔ یعنی اسے حکم دے کہ وہ مستعفی ہو جائے یا پھر اس بات کا فیصلہ حکومت پر چھوڑ دے کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ عدالت آئینی شق کے تحت فوج کو اپنی مدد کیلیے بلائے تاکہ جو بات حکومت کی سمجھ میں نہیں آ رہی، وہ فوج سمجھا دے۔ اس صورت میں یہ خدشہ البتہ رہے گا کہ بات سمجھانے کا سلسلہ بہت دور نکل جائے اور لمبے زمانے پر محیط ہو جائے۔ بلوچستان کیس پر عدالت نے جو نتیجے اخذ کیے ہیں، ان کے درست ہونے پر کوئی شک نہیں اور اس کا فیصلہ بھی درست ہے۔

بلوچستان کے حالات خراب ہیں۔ حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آ رہی، لوگ قتل ہو رہے ہیں اور اغوا بھی لیکن ایک سوال بالکل سامنے کا ہے کہ موجودہ ناکام حکومت مستعفی ہو جائے یا اسے برطرف کر دیا جائے تو کیا قانون کی رٹ قائم ہو جائے گی؟ اس سوال کا جواب اس حقیقت کے پیچھے چھپا ہے کہ بلوچستان کے امور صوبائی حکومت نہیں کوئی اور چلا رہا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کی حکومت کاغذی ہے لیکن اسے ہٹایا گیا تو دوسری کاغذی حکومت آ جائے گی۔ اگر بلوچستان میں نئے الیکشن کرا دیے جائیں تو بھی نئے سرے سے منتخب ہو کر آنے والی حکومت بھی کاغذی ہوگی۔ '' نیا مینڈیٹ لیکن کاغذ پرانا'' عوام توقع کرتے ہیں کہ عدالت اس پس پردہ حکومت کو کچھ ہدایات دے گی۔

بلوچستان کا معاملہ اس لیے خطرناک ہے، اگر حکومت مستعفی نہ ہوئی اور عدالت کو اپنا فیصلہ منوانے کے لیے مزید آگے بڑھنا پڑا تو ایک ایسا تصادم ہوسکتا ہے جسے انتخابات سے چند ہفتے پہلے کے زمانے میں تو بالکل نہیں ہونا چاہیے اور بلوچستان اپنی جگہ ایک نازک '' پوائنٹ'' بنا ہوا ہے تو دوسری طرف کراچی میں صورتحال گرم ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے فوج کی مدد سے گھر گھر ووٹروں کی چیکنگ کا جو حکم دیا ہے، وہ ممکن ہے کراچی کی کسی اہم جماعت کیلیے قابل قبول نہ ہو اور وہ یہ سمجھتی ہو کہ ایسے احکامات اس کے حلقہ اثر کو کمزور کرنے اور اس کی سیاسی نمائندگی کو کم کرنے کیلیے کیے جا رہے ہیں۔

عدالت کا یہ فیصلہ درست ہے لیکن یہ آج سے دو اڑھائی سال یا کم از کم ایک ڈیڑھ سال پہلے ہوا ہوتا تو اس کے نتائج کچھ اور ہوتے۔ آج کی صورتحال میں وقت اتنا کم ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد مکمل ہونا مشکل ہے اور صرف مشکل ہی نہیں، اس سے کراچی کے اندر سیاسی تلخی بڑھ سکتی ہے۔ عدالت کی مجبوری ہے کہ وہ فیصلے کیلیے سیاسی مجبوریاں نہیں دیکھتی اور قوم اور عوام کی مجبوری ہے کہ انھیں انتخابات درکار ہیں۔ انتخابات نہ ہوتے تو خطروں میں گھری اور مسائل میں پھنسی ان کی زندگی اور بھی برباد ہو جائے گی۔ بلوچستان امن و امان کیس، کراچی امن و امان کیس اور کراچی کی حلقہ بندیوں کا کیس تینوں ایسے نازک '' پوائنٹ'' ہیں کہ ذرا سی بے احتیاطی سے حادثہ ہوسکتا ہے۔ ایسا حادثہ جسے حادثوں کا حادثہ یا بڑے حادثے کی ماں سمجھنا چاہیے، حکومت کو اس کا احساس ہے اور وہ حادثے سے بچنا چاہتی ہے۔ گزشتہ روز اس کا یہ اعلان کہ وہ اصغر خان کیس دفن کر رہی ہے۔ نوازشریف کے ساتھ خیر سگالی سے زیادہ اسی خطرے سے بچائو کی ایک تدبیر ہے لیکن شاید حالات ایسی سمت میں جا رہے ہیں جہاں تدبیریں الٹی ہو جاتی ہیں اور انہونیاں ہو کر رہتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں