فلمی دنیا…

گاؤں کے ایک گھر سے باہر جانے والے ایک ایک آدمی نے اپنے خاندانوں کی کایا پلٹ دی

Shireenhaider65@hotmail.com

CHARSADDA:
پچپن میں، بچپن کی یادیں اور بھی بری طرح ستانے لگتی ہیں، اس وقت بچپن کو بیتے کافی وقت گزر چکا ہوتا ہے بلکہ ہمارے بچوں کا بچپن بھی ختم ہو جاتا ہے، پھر ہمیں وہ دور اچھا لگنے لگتا ہے جو بے فکری کا دور تھا، سادگی کا دور تھا اور ہم پر کوئی ذمے داری نہ تھی، ہمیں کوئی پریشانی نہ تھی... کھانا پینا، کھیلنا اور خوبصورت سپنے بننے کو سو جانا، یہ معمول ہوتا تھا۔ اگر زندگی میں کوئی پریشانی تھی تو وہ اسکول ، کالج سے ہی وابستہ ہوتی تھی کہ ہوم ورک، چھٹیاں، امتحان، استاد کی ڈانٹ وغیرہ، گھر سکون اور خوشیوں کے گہوارے کا متبادل نام تھا!

دن بھر حصول تعلیم یا معاش کے لیے گھر سے نکلنے والے بچے اور بڑے جب گھر کو لوٹتے تو ان کی چال کا انداز انہی پرندوں کی طرح سرشاری لیے ہوئے ہوتا تھا جو اپنے بچوں کے لیے دن بھر دانہ دنکا چگ کر لاتے ہوئے واپسی کی پرواز میں ہوتا ہے۔ ہر گھر میں شام عیدکی طرح اترتی، خوشی کے ساتھ سب ساتھ کھانا کھاتے اور سکون کی نیند سوتے تھے۔

مشترکہ خاندانی نظام ایک نعمت سمجھا جاتا تھا اور گھر میں ہر کوئی ایک دوسرے کی خوشی، غم، ضرورت اور بیماری سے آشنا ہوتا تھا، کوئی مسئلہ کسی کا تنہا مسئلہ نہ ہوتا تھا بلکہ سب مل کر ا س کاحل تلاشتے- ایک گھر میں رہنے والے ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرتے ، رائے کو اہم جانتے اور حفظ مراتب کو ملحوظ رکھتے۔

ستر کی دہائی کے اولین برسوں میں ٹیلی وژن نام کا ایک نیا فرد ، مہمان کی طرح چند گنے چنے گھروں میں وارد ہوا اور ہوتے ہوتے اس کی تعداد بڑھنے لگی، جو بھی طاقت رکھتا تھا اس کی کوشش ہوتی کہ وہ بھی ٹیلی وژن لے آئے کیونکہ جن گھروں میں ٹیلی وژن نہ تھا ان گھروں سے بچے اور خواتین اس تفریح کے لیے محلے کے ان گھروں میں جانے لگے جہاں یہ سہولت میسر تھی۔

یہ نانیوں دادیوں کی کہانیوں، خاندانی سیاست اور ساس بہو کے جھگڑوں سے بہتر تفریح تھی اس لیے سر شام ہی گھر کے کام کار ختم کرکے لوگ وہاں کا رخ کرتے جہاں یہ تفریح کا ذریعہ موجود تھا، اس گھر کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوتے اور '' عوام الناس '' کی سہولت کے لیے انتظامات موجود ہوتے، خاص خاص مہمانوں کے لیے چائے پانی کا بندوبست بھی ہوتا تھا۔

اس وقت کے ٹیلی وژن کے کوئی مخصوص اوقات تھے... اچھے مذہبی، معلوماتی، دینی، تفریحی اور بچوں کے پروگرام ہوتے، خبریں اس لیے ہوتیں کہ لوگ جان لیں کہ ان کی چھوٹی سی دنیا سے پرے کیا ہوتا ہے۔ اس سے قبل اخبار ان معلومات کا ذریعہ ہوتے تھے اور جن گھروں میں اخبار آتا تھا وہاں سے فارغ ہو کر وہ اخبار محلے کے کئی گھروں میں گھوم کر شام کو لوٹتا۔

ہر کوئی اخبار پڑھ بھی نہ سکتا تھا اس لیے جہاں کسی ہوٹل وغیرہ یا کسی دکان میں اخبار آتا تو پڑھے لکھے لوگوں کی ذمے داری ہوتی کہ وہ ان لوگوں کو مستفیض کریں جو اس صلاحیت سے محروم مگر دنیا کے بارے میں جاننے کے شوقین تھے۔ اس دنیا سے باہر بھی کوئی دنیا ہے، یہ لوگوں کو اخبارات اور ٹیلی وژن کے ذریعے معلوم ہوتا اور پھر اس دنیا کو تسخیر کرنے کا تجسس لوگوں کو اس ملک سے باہر لے جانے لگا۔

گاؤں کے ایک گھر سے باہر جانے والے ایک ایک آدمی نے اپنے خاندانوں کی کایا پلٹ دی اور ان کی تقلید میں دیہات کے دیہات خالی ہونے لگے اور ان کے ہاں دولت کی ریل پیل اور نمائش نے کئیوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ اس وقت ہر وہ شخص باہر جا سکتا تھا جس کے پاس پاسپورٹ ہوتا تھا، ویزے کا حصول اتنا مشکل نہ تھا۔

باہر جا کر لوگوں نے کون کون سے مصائب کا سامنا کیا، اس کا تذکرہ کوئی نہ کرتا اور ہر آنے والا اپنی محنت اور چھوٹے چھوٹے کاموں سے کی گئی کمائی کی نمائش یوں کرتا کہ شک گزرتا کہ باہر کے ملکوں میں پیسہ درختوں پر اگتا ہے، بس جا کر توڑنے کی محنت کرنا پڑتی ہے۔ جا نے کون کون سے ممالک تھے کہ جن کے لوگوں کے کبھی نام بھی نہ سن رکھے تھے، وہ ممالک ان کا ٹھکانہ ہوئے اور مستقل مستقر بھی۔


دولت کی ریل پیل چند گھروں میں ہوئی، کچے گھر پکے کوٹھوں میں تبدیل ہوئے ، رہنے کے طور طریقے بدلے، لباس اور حلیے بدلے، وہ لوگ دوسروں سے بہتر پہننے اوڑھنے اور کھانے لگے تو ہر کسی کی رالیں ٹپکنے لگیں، اقدار اور سوچیں بدلنے لگیں، ہر کوئی ہر جائز اورناجائز طریقے سے دولت کے حصول کے طریقے دریافت کرنے میں مصروف ہوا اور سوسائٹی کا چہرہ اپنی سادگی اور قدرتی حسن کھونے لگا۔

ہمارا میڈیا جو کہ پہلے کم وقت میں بہترین اور صاف ستھری تفریح مہیا کرتا تھا اس میں ایک ایک کر کے چینلز کا اضافہ ہوا، ایک وقت ایسا آیا کہ ہر اس شخص کو چینل کا لائسنس دے دیا گیا جس کے پاس پیسہ تھا اور وہ اپنی دولت میں مزید اضافہ کرنا چاہتا تھا، دوسرے ممالک کی تقلید اور زیادہ چینلز کی ملک میں موجودگی کو ترقی کا شاخسانہ سمجھ لیا گیا اور ایک اندھی دوڑ شروع ہو گئی۔ چینلز کو لائسنس تو دے دئے گئے مگر نہ کوئی ضابطہء اخلاق دیا گیا نہ ان کے اختیار کی کوئی حد مقرر کی گئی، نہ انھیں اس بات کا پابند کیا گیا کہ ان کے پروگرام اور خبریں ہمارے مذہب، اخلاقیات اور معاشرتی نظام سے میل کھاتے ہوئے ہوں۔

ملکی اور غیر ملکی چینلز کی بھرمار ہوئی، ان پر دکھائے جانے والے غیر اخلاقی مارننگ ٹرانسمیشن کے پروگرام، رمضان کی خصوصی نشریات کے گھٹیا معیار کے شو، ڈراموں اور ٹاک شوز سے رہی سہی کسر پوری ہو گئی ہے۔ زبان و بیان کی ستیا ناس اور اقدار اور معیار کا حشر نشر ہو گیا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ یہ سب کچھ دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے اور اس سے ہمارے ملک کا ایک مسخ شدہ چہرہ دنیا بھر کو دکھائی دیتا ہے۔ خصوصا وہ نسل جو بیرون ملک پیدا ہوئی مگر ان کے والدین کے پاکستانی ہونے کی وجہ سے ان کا ٹوٹا پھوٹا رابطہ اس ملک سے قائم تھا، وہ نسل اب اس ملک کو اس کے پروگراموں ، خبروں اور ڈراموں کے تناظر میں دیکھتی ہے اور حیران ہوتی ہے کہ کیا ہم کسی فلمی دنیا میں رہ رہے ہیں!!

جرائم، دہشت گردی، بے حیائی، ساس بہو کے جھگڑے، خاندانی سیاستیں، مخلوط تعلیمی نظام میں پڑھائی سے زیادہ پیار اور محبت کی کہانیاں، شادی شدہ جوڑوں میں اختلافات ، بچوں کے اغواء اور ان سے زیادتی کے واقعات، مذہب اور لسانیت کے نام پر اختلافات... کسی بھی چینل کے کسی بھی ڈرامے کو دیکھ لیں ، انہی میں سے کوئی مرکزی خیال ہو گا۔

ماضی میں ہمارے ایک حکمران، جنھوں نے سوچا کہ اپنے ملک کا منفی تاثر دوسرے ممالک میں درست کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس ملک کو اتنا ماڈرن بنا دیا جائے کہ اس پر سے قدامت پسندی اور تنگ نظری کا لیبل اتر جائے، اس تاثر کو دور کرنے کے لیے انھوں نے اس ملک کو دنیا کا سب سے آزاد میڈیا اور سستا ترین سوشل میڈیا فراہم کیا۔

دنیا بھرمیں موبائل ٹیلی فون، غالباً ہمارے ملک میں سب سے سستا ہے، خریدنے میں بھی اور استعمال میں بھی، اس کا نتیجہ معاشرے میں جرائم اور برائیوں کے فروغ کی صورت میں ہوا ہے۔ ایک سہولت کا منفی استعمال اسے کس طرح عفریت بنا دیتا ہے اس کا اندازہ مجھے اور آپ کو بخوبی ہے۔

جس ایجادکو سمجھ لیا گیا کہ اس نے فاصلے مٹانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، حقیقتا وہی ایجاد قریب رہنے والوں میں فاصلے بڑھانے کا باعث بھی بنی۔ دو ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے لوگ جہاں خود سے دو ہزار میل دور بیٹھے ہوئے شخص سے لمحہ بہ لمحہ مربوط رہتے ہیں وہیں خود سے قریب رہنے والوں سے، ایک گھر میں رہنے والوں، حتی کہ ایک کمرے میں رہنے والوں سے بھی دور کر دیتے ہیں، ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے لوگ بھی ایک دوسرے سے بول کر بات کرنے کی بجائے موبائل پر پیغامات بھیج رہے ہوتے ہیں۔

ہمارے بچے ہمارے پاس بیٹھے بھی ہوں تو نہ ہم ان کے ساتھ ہوتے ہیں نہ وہ ہمارے ساتھ۔ کسی بات پر بحث ہو رہی ہو تو فوراً google سے تصدیق کی جاتی ہے، کہیں جانے کی بات کرو تو اسمارٹ فون پر ہر طرح کی معلومات، فاصلہ، پروگرام ، کرائے اور بکنگ ایک ہی جگہ پر بیٹھے بیٹھے ہو جاتی ہے۔

موسم کیسا ہے؟ سوال دل میں آئے تو اٹھ کر کھڑکی تک کون جائے، وہیں فون پر موسم کی جان کاری مل جاتی ہے، آج کیا پکایا جائے، اس کا مشورہ بھی فون پر، کس ڈاکٹر کو دکھانا ہے، خریداری کہاں سے کی جائے، کون سی فلم لگی ہے، شہر کے حالات کیسے ہیں... غرض ہر سوال کا جواب ہماری مٹھی میںاور ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے مل جاتا ہے، ٹیلی وژن سے یا ٹیلی فون سے۔

اسی لیے تو آج ہر شخص بیمار اور سست الوجود ہے، انسانوں سے رابطے کمزور پڑ گئے ہیں، ان کی ضرورت کو کم اہم سمجھا جاتا ہے مگر بندہ بندے کا دارو ہے اور انسان جو کچھ انسانوں سے رابطے سے سیکھتے ہیں وہ مشینوں کے استعمال سے نہیں، ٹیکنالوجی کی زندگی میںآسانی کے لیے خوش آمدید ضرور کہیں مگر اس کے انتہا سے زیادہ استعمال سے زندگی کی خوبصورتیوں کو زائل نہ ہونے دیں !!!
Load Next Story