یہ زندگی بہت ہے‘ توکاغذ کی ناؤ ہے
موجودہ حالات کے تناظر میں ملک کے ہر فرد اورخاص طور پر نوجوانوں کو بھاری ذمے داریاں اپنے مضبوط کاندھوں پر اٹھانی ہیں
NEW DELHI:
موجودہ حالات کے تناظر میں ملک کے ہر فرد اورخاص طور پر نوجوانوں کو بھاری ذمے داریاں اپنے مضبوط کاندھوں پر اٹھانی ہیں، تب ہی بیڑا پار لگے گا ورنہ تو ہم سب ایسی کشتی میں سوار ہیں جس میں جگہ جگہ سوراخ ہیں، باد باراں ہے، بھنور ہے، اس وقت اپنی مدد آپ کرنے کی ضرورت ہے اللہ بھی انھی کی مدد کرتا ہے جو مثبت سوچ کے ساتھ زمین میں بیج ڈالتا ہے، پھر اللہ سے امید رکھتا ہے کہ اللہ اس کی محنت کو کامیابی میں بدل دے گا۔
اسی طرح ہماری کشتی اللہ کے ہی رحم و کرم پر چل رہی ہے وہی ساحل عطا کرنے والا ہے۔ ارادے بلند ہوں تو منزل یقینی ہے۔ علامہ اقبال نے غفلت میں ڈوبے، گمراہی کے راستوں پر سفر کرنے والوں کے لیے کیا خوب کہا ہے جو آج بھی مشعل راہ ہے۔ بلکہ آج کے دور میں ملک کے نوجوانوں کو اپنا محاسبہ پہلے سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زور حیدر' فقر بوذر، صدقِ سلمانی
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
مختلف عقائد، نسل و زبان کے مسائل نے، پاکستان کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ملک کے تقریباً تمام ہی باسی اللہ اور اس کے حبیب حضرت محمد ﷺ کے نام لیوا ہیں اور پھر سب ہم وطن بھی ہیں، پاکستان کی ترقی وکامیابی ہم سب کی کامیابی ہے پھر تعصب اور جھگڑا کس بات کا؟ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر وہ شخص ہے جو تقویٰ اختیار کرتا ہے۔
اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے فتح مکہ کے وقت خطبہ حجۃ الوداع کے موقعے پر فرمایا تھا کہ عجمی کو عربی اور عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں ہے اگر فوقیت ہے تو عمل صالح کی بنا پر۔ نفرت و تعصب کے پتوں کو توڑنا وقت کا تقاضا ہے، آج امت مسلمہ چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں ہے۔ آپس کے لڑائی جھگڑے بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔
ملک میں افراتفری، مفاد پرستی، ہوس زر نے لوگوں کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا ہے اور اس پر طرہ امتیاز یہ کہ حصول تعلیم کی ضرورت اور خواہش اپنی موت آپ مرگئی ہے اب ہاتھوں میں اسلحہ ہے اور اپنے ہی بھائیوں کا خون کرکے دوزخ اپنے نام الاٹ کرلی ہے، نہ وطن سے محبت اور نہ اپنی دھرتی و قوم سے، اللہ کا خوف ختم ہوگیا ہے اور اپنے اپنے قائدین کا خوف غالب آگیا ہے، اللہ کے احکامات پس پشت ڈال دیے ہیں اور مکروہ، گھناؤنے کام کرکے لوگوں کو ذہنی و جسمانی اذیت پہنچا کر اپنے آپ کو کامیاب سمجھتے ہیں۔
گیدڑکی سو سالہ زندگی سے بہتر شیر کی ایک دن کی زندگی ہے اس مقولے کی افادیت و توقیرکو نظروں سے گرا دیا ہے، ورنہ کیوں دہشت گردی کرکے اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے انڈرگراؤنڈ ہوجانے پر مجبور ہوتے اور اچھا تو جنگل کا بادشاہ ''شیر'' ہے جو عزت کی غذا کھاتا ہے اور دھڑلے سے جنگل میں دندناتا پھرتا ہے، بوڑھا ہونے کے بعد دوسرا شیر بزور طاقت اسے پچھاڑ دیتا ہے اور خود اس کے کنبے پر قبضہ کرلیتا ہے، وہ بھی اس وقت اپنے کچھار کو چھوڑتا ہے جب جنگ لڑنے کے بعد پسپا ہوجائے۔
گویا مقابلہ آمنے سامنے آکر ہوتا ہے چپکے سے یا رات کی تاریکی میں وہ حملہ نہیں کرتا ہے لیکن ہمارے ملک میں رہنے والے دشمن، وہ ''را'' کے ایجنٹ ہوں یا ہمارے اپنے وہ لوگ ہیں جنھیں دولت کے بل پر خرید لیا جاتا ہے اور وہ میر و جعفر کا کردار ادا کرتے ہیں اپنا انجام بھول جاتے ہیں کہ ایک دن ہمارا بھی وہی حال ہوگا جو غداروں کا ہوتا ہے اس ملک کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کا کردار بلند اور مثالی تھا کہ دشمن بھی تعریف کیے بنا نہ رہ سکا۔ ایک موقعے پر گاندھی جی نے قائد اعظم کے بارے میں کہا:
"Quaid-e-Azam is unpurchaseable, Muslims should be proud of such leader"
''قائد اعظم کو خریدا نہیں جاسکتا، مسلمانوں کو ایسے لیڈر پر فخر کرنا چاہیے۔ ''
قائد اعظم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے نوجوانوں میں جوش وجذبہ اور پختہ عزم و ارادے کا ہونا لازم و ملزوم ہے، انھوں نے نوجوانوں کو قوم کا قابل فخر سرمایہ کہا۔ قائد اعظم نے فرمایا کہ مسلم لیگ کی نشاۃ ثانیہ اور تحریک پاکستان میں نوجوانوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے، انھوں نے میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے دشمنوں کو شکست سے دوچار کیا اور یہ نوجوان ہی تھے کہ انھوں نے اس وقت میرا ساتھ دیا جب امرا اور جاگیرداروں نے اپنے رویے کی بدولت مایوس کردیا تھا۔
انھوں نے پرعزم ہوکرکہا کہ ہماری تمام تر توقعات نوجوانوں سے ہی وابستہ ہیں انشا اللہ پاکستان کے قیام کے بعد ان کے مسائل کو حل کیا جائے گا اور نوجوانوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ پاکستان میں نوجوانوں کو پوری اہمیت دی جائے گی۔لیکن کیا ستم ہے کہ اس ملک کے نوجوان، نوجوانوں کے ہی ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں، سر راہ مقتل سجا ہوا ہے، جب جس کا دل چاہتا ہے اپنی ضرورت کے تحت تازہ خون سے اپنی پیاس بجھا لیتا ہے۔ آپریشن ہوتا ہے ملزمان گرفتار کرلیے جاتے ہیں وہ اپنے سنگین جرائم کا اعتراف بھی کرلیتے ہیں، لیکن ان قاتلوں کو کسی قسم کی سزا نہیں دی جاتی ہے۔
راز فاش ہوتے ہیں، سو سو اور اس سے بھی زیادہ لوگوں کے قتل کا اعتراف ببانگ دہل کیا جاتا ہے۔ بس بات اقرارواعتراف کے گرد گھومتی ہے، اس سے آگے نہیں بڑھتی، مجرموں کو (بینک میں روپے پیسے کی طرح) جیلوں میں چند ماہ کے لیے جمع کردیا جاتا ہے، ہمارے اسی معاشرے میں مرد ہی جرم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ نہیں ہیں، بلکہ اب تو خواتین بھی اس شعبے میں اپنا نام کما رہی ہیں اور لٹیرے و قاتل مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ چل رہی ہیں، اپنے آشنا کی مدد سے اپنے شریک سفر کو بھی بے دردی کے ساتھ موت کے جزیرے میں پہنچا دیتی ہیں نہ گھر کا خیال اور نہ اپنے بچوں کا، اغوا، ڈکیتی کرنے میں کمال مہارت رکھتی ہیں اس کی خاص وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔ شعور کی کمی ہے۔
تعلیمی پسماندگی کے نتیجے میں پاکستان کی ہواؤں میں بارود کی بو پھیل گئی ہے۔ قہر و جبر کی تاریکی نے انسانیت کا گلا گھونٹ دیا ہے لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہیں، شہر اور شہر کی گلیاں ہیبت ناک منظر پیش کر رہی ہیں، یہ سب کچھ کیوں کر ہوا؟ اس کی وجہ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملک کے حکمرانوں نے اپنے ہی وطن میں شب خون مارا ہے شیرینی میں لپیٹ کر زہر کی گولیاں تقسیم کی ہیں مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار نے لوگوں کو جیتے جی زندہ درگور کردیا ہے۔
گزشتہ 15-10 سال سے ایسے حالات و واقعات سامنے آئے ہیں کہ قوم کے محافظ خود ہی رہزن بن گئے ہیں اب کس سے منصفی کی فریاد کی جائے؟ دولت کی ہوس نے حکمرانوں کو قارون بنادیا ہے لیکن قارون آج نہیں ہے، اس کی دولت اور پیسہ کس کام کا؟ وہ خالی ہاتھ گیا ہے۔ عذاب میں مبتلا ہوکر۔ لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بن گیا۔جناب رحمن کیانی کے یہ اشعار یاد آگئے ہیں:
لوگو بتاؤ آج وہ قارون ہے کہاں؟
دولت پہ تھا گھمنڈ جسے مال پر گماں
لازم نہیں عیاں کا بیاں' بس کہ یہ جہاں
ہے کارواں سرائے فقط جس کے درمیاں
ایک رات کا پڑاؤ ہے پھرچل چلاؤ ہے
یہ زندگی بہت ہے' تو کاغذ کی ناؤ ہے
موجودہ حالات کے تناظر میں ملک کے ہر فرد اورخاص طور پر نوجوانوں کو بھاری ذمے داریاں اپنے مضبوط کاندھوں پر اٹھانی ہیں، تب ہی بیڑا پار لگے گا ورنہ تو ہم سب ایسی کشتی میں سوار ہیں جس میں جگہ جگہ سوراخ ہیں، باد باراں ہے، بھنور ہے، اس وقت اپنی مدد آپ کرنے کی ضرورت ہے اللہ بھی انھی کی مدد کرتا ہے جو مثبت سوچ کے ساتھ زمین میں بیج ڈالتا ہے، پھر اللہ سے امید رکھتا ہے کہ اللہ اس کی محنت کو کامیابی میں بدل دے گا۔
اسی طرح ہماری کشتی اللہ کے ہی رحم و کرم پر چل رہی ہے وہی ساحل عطا کرنے والا ہے۔ ارادے بلند ہوں تو منزل یقینی ہے۔ علامہ اقبال نے غفلت میں ڈوبے، گمراہی کے راستوں پر سفر کرنے والوں کے لیے کیا خوب کہا ہے جو آج بھی مشعل راہ ہے۔ بلکہ آج کے دور میں ملک کے نوجوانوں کو اپنا محاسبہ پہلے سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زور حیدر' فقر بوذر، صدقِ سلمانی
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
مختلف عقائد، نسل و زبان کے مسائل نے، پاکستان کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ملک کے تقریباً تمام ہی باسی اللہ اور اس کے حبیب حضرت محمد ﷺ کے نام لیوا ہیں اور پھر سب ہم وطن بھی ہیں، پاکستان کی ترقی وکامیابی ہم سب کی کامیابی ہے پھر تعصب اور جھگڑا کس بات کا؟ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر وہ شخص ہے جو تقویٰ اختیار کرتا ہے۔
اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے فتح مکہ کے وقت خطبہ حجۃ الوداع کے موقعے پر فرمایا تھا کہ عجمی کو عربی اور عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں ہے اگر فوقیت ہے تو عمل صالح کی بنا پر۔ نفرت و تعصب کے پتوں کو توڑنا وقت کا تقاضا ہے، آج امت مسلمہ چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں ہے۔ آپس کے لڑائی جھگڑے بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔
ملک میں افراتفری، مفاد پرستی، ہوس زر نے لوگوں کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا ہے اور اس پر طرہ امتیاز یہ کہ حصول تعلیم کی ضرورت اور خواہش اپنی موت آپ مرگئی ہے اب ہاتھوں میں اسلحہ ہے اور اپنے ہی بھائیوں کا خون کرکے دوزخ اپنے نام الاٹ کرلی ہے، نہ وطن سے محبت اور نہ اپنی دھرتی و قوم سے، اللہ کا خوف ختم ہوگیا ہے اور اپنے اپنے قائدین کا خوف غالب آگیا ہے، اللہ کے احکامات پس پشت ڈال دیے ہیں اور مکروہ، گھناؤنے کام کرکے لوگوں کو ذہنی و جسمانی اذیت پہنچا کر اپنے آپ کو کامیاب سمجھتے ہیں۔
گیدڑکی سو سالہ زندگی سے بہتر شیر کی ایک دن کی زندگی ہے اس مقولے کی افادیت و توقیرکو نظروں سے گرا دیا ہے، ورنہ کیوں دہشت گردی کرکے اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے انڈرگراؤنڈ ہوجانے پر مجبور ہوتے اور اچھا تو جنگل کا بادشاہ ''شیر'' ہے جو عزت کی غذا کھاتا ہے اور دھڑلے سے جنگل میں دندناتا پھرتا ہے، بوڑھا ہونے کے بعد دوسرا شیر بزور طاقت اسے پچھاڑ دیتا ہے اور خود اس کے کنبے پر قبضہ کرلیتا ہے، وہ بھی اس وقت اپنے کچھار کو چھوڑتا ہے جب جنگ لڑنے کے بعد پسپا ہوجائے۔
گویا مقابلہ آمنے سامنے آکر ہوتا ہے چپکے سے یا رات کی تاریکی میں وہ حملہ نہیں کرتا ہے لیکن ہمارے ملک میں رہنے والے دشمن، وہ ''را'' کے ایجنٹ ہوں یا ہمارے اپنے وہ لوگ ہیں جنھیں دولت کے بل پر خرید لیا جاتا ہے اور وہ میر و جعفر کا کردار ادا کرتے ہیں اپنا انجام بھول جاتے ہیں کہ ایک دن ہمارا بھی وہی حال ہوگا جو غداروں کا ہوتا ہے اس ملک کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کا کردار بلند اور مثالی تھا کہ دشمن بھی تعریف کیے بنا نہ رہ سکا۔ ایک موقعے پر گاندھی جی نے قائد اعظم کے بارے میں کہا:
"Quaid-e-Azam is unpurchaseable, Muslims should be proud of such leader"
''قائد اعظم کو خریدا نہیں جاسکتا، مسلمانوں کو ایسے لیڈر پر فخر کرنا چاہیے۔ ''
قائد اعظم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے نوجوانوں میں جوش وجذبہ اور پختہ عزم و ارادے کا ہونا لازم و ملزوم ہے، انھوں نے نوجوانوں کو قوم کا قابل فخر سرمایہ کہا۔ قائد اعظم نے فرمایا کہ مسلم لیگ کی نشاۃ ثانیہ اور تحریک پاکستان میں نوجوانوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے، انھوں نے میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے دشمنوں کو شکست سے دوچار کیا اور یہ نوجوان ہی تھے کہ انھوں نے اس وقت میرا ساتھ دیا جب امرا اور جاگیرداروں نے اپنے رویے کی بدولت مایوس کردیا تھا۔
انھوں نے پرعزم ہوکرکہا کہ ہماری تمام تر توقعات نوجوانوں سے ہی وابستہ ہیں انشا اللہ پاکستان کے قیام کے بعد ان کے مسائل کو حل کیا جائے گا اور نوجوانوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ پاکستان میں نوجوانوں کو پوری اہمیت دی جائے گی۔لیکن کیا ستم ہے کہ اس ملک کے نوجوان، نوجوانوں کے ہی ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں، سر راہ مقتل سجا ہوا ہے، جب جس کا دل چاہتا ہے اپنی ضرورت کے تحت تازہ خون سے اپنی پیاس بجھا لیتا ہے۔ آپریشن ہوتا ہے ملزمان گرفتار کرلیے جاتے ہیں وہ اپنے سنگین جرائم کا اعتراف بھی کرلیتے ہیں، لیکن ان قاتلوں کو کسی قسم کی سزا نہیں دی جاتی ہے۔
راز فاش ہوتے ہیں، سو سو اور اس سے بھی زیادہ لوگوں کے قتل کا اعتراف ببانگ دہل کیا جاتا ہے۔ بس بات اقرارواعتراف کے گرد گھومتی ہے، اس سے آگے نہیں بڑھتی، مجرموں کو (بینک میں روپے پیسے کی طرح) جیلوں میں چند ماہ کے لیے جمع کردیا جاتا ہے، ہمارے اسی معاشرے میں مرد ہی جرم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ نہیں ہیں، بلکہ اب تو خواتین بھی اس شعبے میں اپنا نام کما رہی ہیں اور لٹیرے و قاتل مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ چل رہی ہیں، اپنے آشنا کی مدد سے اپنے شریک سفر کو بھی بے دردی کے ساتھ موت کے جزیرے میں پہنچا دیتی ہیں نہ گھر کا خیال اور نہ اپنے بچوں کا، اغوا، ڈکیتی کرنے میں کمال مہارت رکھتی ہیں اس کی خاص وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔ شعور کی کمی ہے۔
تعلیمی پسماندگی کے نتیجے میں پاکستان کی ہواؤں میں بارود کی بو پھیل گئی ہے۔ قہر و جبر کی تاریکی نے انسانیت کا گلا گھونٹ دیا ہے لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہیں، شہر اور شہر کی گلیاں ہیبت ناک منظر پیش کر رہی ہیں، یہ سب کچھ کیوں کر ہوا؟ اس کی وجہ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملک کے حکمرانوں نے اپنے ہی وطن میں شب خون مارا ہے شیرینی میں لپیٹ کر زہر کی گولیاں تقسیم کی ہیں مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار نے لوگوں کو جیتے جی زندہ درگور کردیا ہے۔
گزشتہ 15-10 سال سے ایسے حالات و واقعات سامنے آئے ہیں کہ قوم کے محافظ خود ہی رہزن بن گئے ہیں اب کس سے منصفی کی فریاد کی جائے؟ دولت کی ہوس نے حکمرانوں کو قارون بنادیا ہے لیکن قارون آج نہیں ہے، اس کی دولت اور پیسہ کس کام کا؟ وہ خالی ہاتھ گیا ہے۔ عذاب میں مبتلا ہوکر۔ لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بن گیا۔جناب رحمن کیانی کے یہ اشعار یاد آگئے ہیں:
لوگو بتاؤ آج وہ قارون ہے کہاں؟
دولت پہ تھا گھمنڈ جسے مال پر گماں
لازم نہیں عیاں کا بیاں' بس کہ یہ جہاں
ہے کارواں سرائے فقط جس کے درمیاں
ایک رات کا پڑاؤ ہے پھرچل چلاؤ ہے
یہ زندگی بہت ہے' تو کاغذ کی ناؤ ہے