اذنِ سفر دیا تھا کیوں

ڈاکٹر نگارکراچی یونی ورسٹی کے شعبہ اسلامی تاریخ کی سربراہ تھیں، ادیب اور شاعر ہیں


Rafiuzzaman Zuberi September 04, 2016

ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر اپنے سفر ایران میں جب اصفہان پہنچیں تو ان کے ٹیکسی ڈرائیور نے ان سے کہا کہ یہاں ایک بڑی چیز دیکھنے کی ہے۔ یہ ''چڑیوں کا باغ'' ہے جہاں دنیا بھر کے طرح طرح کے پرندے ہیں۔ ان کے منہ بنانے پر وہ کچھ خفا ہوا تو ان کے مترجم نے اس سے کہا، بھئی یہ تاریخ کے پڑھنے پڑھانے والے لوگ ہیں، ان کا حیوانات سے کیا واسطہ، انھیں تاریخی مقامات دکھاؤ، جانور نہیں۔

ڈاکٹر نگارکراچی یونی ورسٹی کے شعبہ اسلامی تاریخ کی سربراہ تھیں، ادیب اور شاعر ہیں۔ ان کے لیے ''ایک ایسے ملک میں جسے تہذیب کا اولین گہوارہ ہونے کا دعویٰ ہو، جس کے پاس ماقبل تاریخ کے زمانے کے آثار بھی کسی نہ کسی حد تک محفوظ ہوں، قم اور مشہد جیسے اپنے مذہبی مقامات ہو، دیکھنے کو بہت کچھ تھا۔

ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر چار سال پہلے اگست، ستمبر میں ایران گئیں، ڈاکٹر سہیل شفیق اور ڈاکٹر خضر نوشاہی ان کے ساتھ تھے۔ اپنے سفرِایران کا حال انھوں نے اپنی کتاب ''اذن سفردیا تھا کیوں'' میں لکھا ہے ۔

ڈاکٹر نگار اور ان کے ہمراہیوں نے عصر کے وقت سیدہ فاطمہ (جو کہ امام موسیٰ کاظم کی صاحبزادی ہیں ) کے روضے پر حاضری دی، وہ لکھتی ہیں ''یہ ایک وسیع و عریض احاطہ ہے جس میں میرے اندازے کے مطابق بیس ہزار افراد کے سما جانے کی گنجائش ہے۔ داہنی جانب تین مرکزی عمارتیں ہیں ایک مدرسہ فیضیہ کی عمارت، دوسری کتب خانے کی عمارت اور تیسری روضہ فاطمہ کی عمارت جو سب سے زیادہ کشادہ ہے۔

مرقد فاطمہ پانچ در کا سنہری جالیوں والا روضہ تھا جس سے عورتیں اور بچے لپٹتے ہوئے تھے'' دوسرے دن بھی ڈاکٹر نگار شام کو روضہ پر گئیں۔ قم سے علمی سند حاصل کرنا ایرانیوں کے لیے بڑے افتخار کی بات ہے۔ ایران کے وہ تین ایٹمی ایکٹر جن پر مغرب کو سب سے زیادہ اعتراض ہے ان میں سے ایک قم میں ہے۔

ڈاکٹر نگار نے یہاں کے میوزیم کا دورہ بھی کیا۔ وہ لکھتی ہیں کہ میوزیم میں قرآن کے بعض نادر و نایاب نسخے ہیں۔ وہ نسخہ بھی ہے جس کی کاتب فتح علی شاہ قاچار کی بیٹی ام سلمہ تھیں۔ اس کے علاوہ قدیم سکے، بادشاہوں کی تصویریں، ہتھیار، برتن، قالین اور لکڑی کے دروازے بھی ہیں۔ میوزیم دیکھ کر ڈاکٹر نگار اسی دن دوپہر کو قم سے بذریعہ ٹیکسی اصفہان روانہ ہوگئیں۔

لکھتی ہیں ''قم سے اصفہان تک کا راستہ صحرائی ہے، البتہ ہم اصفہان میں داخل ہوئے تو گویا دنیا ہی بدل گئی، انتہائی سرسبز و شاداب، خوبصورت اور جدید طرز کا شہر نظروں کے سامنے تھا۔ انتہائی صاف ستھری سڑکیں، فٹ پاتھ، کیاریاں، پھولوں کے تختے اور چوراہے، ٹیکسی والے نے بتایا کہ دن میں تین مرتبہ شہر کی صفائی ہوتی ہے''

ڈاکٹر نگار تین دن اصفہان میں رہیں۔ ان کے ہوٹل ''نقش جہاں'' کا مقام ایسا تھا کہ چہل ستون، ہشت بہشت، اور سی وسہ پل جو سب دیکھنے کی جگہیں تھیں، پیدل کے راستے پر تھے۔ خیابان جو اصفہان کی مرکزی سڑک تھی گزر گاہ ہی نہیں، شاپنگ کے لیے بھی بہترین جگہ تھی، کھانے پینے سے لے کر کتابوں تک ہر چیز کی دکانیں یہاں موجود تھیں۔

شہر میں قیام کے دوران جو ٹیکسی والا ان کے ساتھ رہا وہ ایک پڑھا لکھا خوش لباس نوجوان تھا۔ وہ ایک طرح سے گائیڈ بھی تھا۔ ڈاکٹر نگار اور ان کے ساتھی ''مینار جنباں دیکھنے گئے یہ ایک عمارت تھی جس کے دو مینار ایسے تھے کہ کوئی انھیں ہلائے تو درخت کی شاخوں کی طرح ہلتے تھے۔ جدید اصفہان سے آگے ایک علاقہ قدیم اصفہان کا تھا ''زائندہ رود'' جو کبھی ایک دریا کی گزرگاہ تھی اور اب بالکل خشک ہے ''

ڈاکٹر نگار نے اگلے روز ہشت بہشت کی سیر کا پروگرام بنایا تھا اور پیدل جانا تھا لکھتی ہیں ''جب ہم ہشت بہشت میں داخل ہوئے تو واقعی ایک جنت ارضی نظروں کے سامنے تھی'' اس میں ایک بڑا تالاب تھا جس میں پانچ فوارے چل رہے تھے اس کے عقب میں ایک دو منزلہ محل ''باغ بلبل'' تھا جو صفوی بادشاہوں کی تفریح گاہ تھی۔

یہاں سے وہ ''چہل ستون'' گئیں یہ شاہان صفوی کا دربار تھا۔ دربار کی عمارت بیس ستونوں پر کھڑی ہے، ان ستونوں کا عکس تالاب کے پانی میں نظر آتا ہے۔ اس طرح یہ چالیس ستون ہوگئے۔ اب یہاں ایک میوزیم ہے اس کی دیواروں پر وسیع و عریض تصویریں بنائی گئی ہیں جن میں مصوروں نے ایران کی تاریخ، جیسی وہ بیان کرنا چاہتے ہیں محفوظ کرلی ہے۔

ڈاکٹر نگار کو سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ ہر جگہ ٹکٹ خرید کر جانا پڑتا تھا جو اگر ایرانیوں کے لیے تین سو تو مان کا ہے تو غیر ملکیوں کے پندرہ ہزار تومان کا ہوتا ہے۔ ایران میں پانی بھی قیمتاً ملتا ہے۔ البتہ شہری حکومت کی طرف سے کور لگے ہیں وہاں پانی مفت ہے۔اصفہان سے روانگی سے پہلے ڈاکٹر نگار نے خیابان باغ گلدستہ میں عوامی کتب خانہ دیکھا، دروازے پر فارسی میں لکھا تھا ''مطالعہ روح کی غذا اور ذہنی بیماری کا علاج ہے''

ڈاکٹر نگار کی اگلی منزل حافظ اور سعدی کا مولد شیراز تھا۔ اس تاریخی شہر میں بہت کچھ دیکھنے کے لیے تھا مگر پروگرام یہ بنا کہ وہ حفظیہ، سعدیہ اور تخت جمشید دیکھ کر تہران کے لیے عازم سفر ہوجائیں گے۔ شیراز پہنچ کر ڈاکٹر نگار ان کے دونوں ساتھی پہلے حافظ کے مقبرے پر گئے۔

نگار سعدیہ سے نکلیں تو اگلی منزل تخت جمشید تھا وہ لکھتی ہیں ''ایران کے سفر میں مجھے سب سے زیادہ جس جگہ کو دیکھنے کا شوق تھا وہ یہی تخت جمشید تھا اس لیے نہیں کہ یہ شاہان گزشتہ کی عظمت رفتہ کی یادگار ہے بلکہ بہت سے مورخین زمین پر اولین انسانی تہذیب کے نقش پر سی پولیس یعنی اسی مرودشت میں بیان کرتے ہیں'' ایران پر دو سو سال سے زیادہ حکومت کرنے والے ہخا منشی خاندان کے تیسرے حکمران داریوش اول نے مرودشت کو جسے عرب اصطخر کہتے ہیں اپنا دارالحکومت بنایا تھا۔

اسی کی حدود میں تخت جمشید ہے۔ شاہی محل کے ساتھ داریوش نے ایک دیوان عام بنوایا تھا۔ اب یہ عمارتیں باقی نہیں ان کے آثار رہ گئے ہیں اسی خاندان کے حکمران داریوش سوم کا سکندر سے مقابلہ ہوا۔ اس نے شکست کھائی اور سکندر نے تخت جمشید کو آگ لگادی، اصطخر تباہ ہوگیا۔

تہران کے شمال میں کوہ البرز کے خوبصورت علاقے میں واقع قصر سعد آباد کی سیر کی یہاں دو بڑے محل ہیں ایک ''کاخ سفیر'' جو ایران کے آخری بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی کا محل تھا اور دوسرا ''کاخ سبز'' جو ان کے والد رضا شاہ کبیر کا محل تھا۔ خمینی انقلاب کے بعد اب پورے سعد کو میوزیم بنا دیا گیا ہے۔ رہے نام اﷲ کا۔

ڈاکٹر نگار تہران سے مشہد گئیں۔ اس شہر کو بھی حرم کا درجہ حاصل ہے ان کا وہاں قیام روضہ امام رضا کے قریب ہی تھا جب یہ روضہ پر پہنچیں تو مغرب ہوچکی تھی ان کو اندر جانے کی اجازت مشکل سے ملی چونکہ ان کا لباس اسلامی نہیں تھا اس حد تک کہ پاؤں میں یہ موزے اور ہاتھوں میں دستانے نہیں پہنے تھے اس سے پہلے ڈاکٹر نوشاہی کے ایک مرید شکیل انھیں خواجہ ربیع بن خثیم کے مزار پر لے گئے خواجہ ربیع تابعی تھے ان کی آرام گاہ ایرانی فن تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔

نگار اپنے سفر ایران میں وہ نیشاپور بھی گئیں، مشہد کے مغرب میں یہ مشہور اور قدیم شہر بڑے بڑے علما اورفضلا کا مولد اور مسکن رہا ہے اسی لیے انھیں نیشاپورکی سیاحت کی بڑی بے چینی تھی۔ نیشا پور میں ڈاکٹر نگار محمد غفاری کما الملک کے مقبرے پر گئیں جو ایران کے بہترین نقاش اور ہنر مندوں میں شمار ہوتے ہیں پھر شیخ فریدا لدین عطار کے مقبرے پر پہنچیں ان کا اگلا پڑاؤ عمر خیام نیشاپوری کا مزار تھا۔

یہ ایک وسیع احاطے میں ہے جو ایک باغ کی شکل میں ہے عمر خیام اپنی رباعیات کے لیے مشہور ہیں۔ حقیقت میں وہ ریاضی، طب، فقہ، تاریخ اور لغت کا عالم تھے۔ مزار کے احاطے میں عمر خیام کا سنگ سفید کا ایک مجسمہ شیشے کے بکس میں بند نصب ہے، ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کا آخری سفر طوس کا تھا جو غزالی اور فردوسی کا وطن ہے اور مدفن بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں