پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی محدود نہیں کر سکتی سپریم کورٹ

فیصلے پر رائے دینا جرم نہیں مگر قانون میں کچھ اور بھی شامل ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا ہے کہ کسی کو بھی مکمل استثنا حاصل نہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

KARACHI:
سپریم کورٹ نے توہین عدالت قانون کیخلاف آئینی درخواستوں کی سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کرنے اور فل کورٹ تشکیل دیے جانے کی حکومتی استدعا مسترد کر دی جبکہ دوران سماعت عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ کسی بھی شخص کو مکمل استثنٰی حاصل نہیں ہے۔ پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی محدود نہیں کر سکتی۔ توہین عدالت کے نئے قانون کیخلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت پیر کو چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی۔

حکومت کی طرف سے شکور پراچہ پیش ہوئے اور عدالت سے استدعا کی کہ معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس لیے سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ انھوں نے تیاری کے لیے دو ہفتے کی مہلت کی بھی درخواست کی۔ عدالت نے اس مؤقف سے اتفاق نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ بنانا عدالت کا استحقاق ہے اس بینچ میں تمام سنیئر جج شامل ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہمارے سامنے ایک روایت موجود ہے کیوں کہ اس عدالت کے 4 رکنی بینچ نے اسی طرح کے ایک مقدمے میں فیصلہ دیا ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ انتہائی اہم کیس ہے، اس لیے جلد فیصلہ ہو نا چا ہیے۔

اٹارنی جنرل نے بھی حکومتی مؤقف کی حمایت کی اور کہا کہ 1996ء کے بعد حالات بدل چکے ہیں، اس لیے لارجر بینچ کی تشکیل ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی کا تصور وہی ہے جو آئین نے دیا ہے۔ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں بھی عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے اقدام کے ذریعے عدلیہ کے اختیارات محدود نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ باز محمد کاکڑ کے وکیل ایم ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اس قانون کے ذریعے آرٹیکل 248میں ترمیم کی گئی ہے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے سوال اٹھایا کہ کیا اس قانون کے ذریعے آرٹیکل 248متاثر ہو ا ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے ایک نیا طریقہ کار رائج کر دیا گیا ہے جس میں سرکاری ملازمین کو تحفظ دیا گیا ہے۔ جسٹس تصدق حسین جیلا نی نے کہا کہ جب ایک شخص کو 248میں استثنٰی حاصل ہے تو پھر قانون کے ذریعے انھیں استثنٰی دینے کی کیا ضرورت تھی؟چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ عدلیہ کا اختیار کم کرنے کی مجاز نہیں۔ فاضل وکیل نے بتا یا کہ اسلام ہمارے آئین کا جز لازم ہے اور اسلامی احکامات میں استثنٰی کا تصور نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ یہ ایک امتیازی قانون ہے جو بنیادی شہری حقوق کی نفی کر تا ہے۔ فاضل وکیل نے بتایا کہ توہین عدالت کے نئے قانون میں اپیل کا ایسا حق دیا گیا ہے جس کے ذریعے عدالتی کارروائی خود بخود معطل ہو جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل کا حق محدود ہوتا ہے، سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ زیر سماعت آنے کے بعد بھی توہین عدالت کے قانون کو تبدیل کیا گیا تھا۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ ہم آئین کے پابند ہیں، ریاست کے معاملات آئین کے تحت چلائے جاتے ہیں ۔


جسٹس جواد نے کہا کہ پارلیمنٹ توہین عدالت کے رولز بنانے کا اختیار ایگزیکٹیو کو نہیں دے سکتی، آئین کی شق 204کے تحت رولز بنانے کا اختیار عدلیہ کے پاس ہے۔ فاضل جج نے کہا کہ اسلام برابری کے اصولوں پر قائم ہے کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں۔ ایم ظفر ایڈوکیٹ نے کہا کہ توہین عدالت کا نیا قانون عدلیہ کے خلاف دہشت گردی ہے۔ عدالت نے درخواست گزاروں اور فریقین کے سامنے سوال رکھ دیا ہے کہ عدالت کی معاونت کی جائے کہ اگر کسی قانون کا ایک حصہ غیر آئینی ہے تو اس صورت میں پورا قانون رہ سکتا ہے یا نہیں؟درخواست گذار صدیق بلوچ کے وکیل چوہدی اکرام نے عدالت کو بتایا کہ توہین عدالت کا قانون ایک نیا این آر او ہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ دونوں میں فرق ہے، این آر او ایک آمر کا بنایا ہو اقانو ن تھا جبکہ توہین عدالت کا قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ نئے قانون میں عدالت کو اسکینڈلائز کرنا جرم نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ اپنے فیصلوں پر عمل در آمد نہیں کرا سکے گی تو انصاف کے عمل پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟۔ عدالت نے اس کو بھی دیکھنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا عدالتی فیصلے عوام کی ملکیت ہے اس پر رائے دینا ان کا حق ہے۔ رائے دینا کوئی جرم نہیں لیکن توہین عدالت قانون میں کچھ اور چیزیں ڈالی گئی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اصل آئین میں توہین عدالت کی تشریح بھی موجود تھی جو آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے نکال لی گئی۔ مقدمے کی مزید سماعت آج تک کے لیے ملتوی کر دی گئی اور تمام درخواست گزاروں کو آج ہی دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ این این آئی کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت قانون میں وہی اضافہ ممکن ہے جس کی آئین اجازت دے اور توہین عدالت قانون کے لیے آئین کے آرٹیکیل 204سے باہر نہیں نکلا جاسکتا۔

اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدالت سے دو ہفتے کا وقت دینے کی درخواست کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کی تاریخ میں اس طرح کا کیس پہلے نہیں آیا جس پر جسٹس خواجہ نے کہا کہ وہ درست نہیں کہہ رہے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ اسی طرح کا ایک کیس 1996میں بھی زیر سماعت آچکا ہے،جس کی سماعت چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہاکہ کسی کو بھی مکمل استثنیٰ حاصل نہیں اور مخصوص استثنیٰ صرف دفتری امور میں حاصل ہے۔ ایک درخواست گزار محموداخترنقوی نے کہاکہ نیا قانون، راجا پرویزاشرف کو بچانے کیلیے لایا گیا جس پر چیف جسٹس نے انھیں کہاکہ راجا پرویزاشرف کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہورہی، آپ کیس پر رہیں۔

 
Load Next Story