یورپی یونین پارلیمینٹ ’’دودوھوں نہائی‘‘

شیر فروشوں نے زرعی پالیسی کے خلاف بہ طور احتجاج عمارت پر دودھ کی برسات کردی.


Ateeq Ahmed Azmi December 09, 2012
فوٹو : فائل

RAWALPINDI: 2012 کی نوبیل انعام یافتہ (برائے امن) تنظیم یورپی یونین (EU) اپنی حالیہ کارکردگی کی بنیاد پر ناقدین کی جانب سے سخت تنقید کا شکار ہے۔

اب جب کہ بہت سے مبصرین امن نوبیل کمیٹی کے اس فیصلے کو حقائق کے منافی قرار دے رہے ہیں، ان حالات میں یورپی یونین کے ممالک کے دودھ فروش بھی سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔ دودھ فروشوں کا یہ احتجاج نہ صرف ان کے کاروبار کی خراب ہوتی صورت حال کا غماز ہے، بل کہ یورپی یونین کی پالیسیوں کے بارے میں ناقدین کی رائے کو بھی درست ثابت کر رہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق بیلجیم کے صدر مقام برسلز میں جمع ہونے والے لگ بھگ دو ہزار دودھ فروشوں نے یورپی یونین پارلیمنٹ کی عمارت کو بطور احتجاج دودھ سے نہلا دیا۔

پورے یورپ سے جمع ہونے والے ان مظاہرین نے اس مقصد کے لیے پندرہ ہزار لیٹر دودھ ذخیرہ کررکھا تھا۔ احتجاج کے دوران برسلز کی اہم سڑکیں دودھ فروشوں کے ایک ہزار ٹریکٹروں سے گِھری نظر آرہی تھیں۔

11

دودھ فروشوں کی جانب سے دو روز تک جاری رہنے والے ان مظاہروں میں دودھ اور دودھ سے بنی اشیاء کی خوردہ قیمتوں میں پچیس فی صد اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں احتجاج کرنے والی دودھ فروش تنظیم ''یورپینMilk بورڈ'' کے صدر Roberto Cavaliere کا کہنا تھا کہ دودھ فروشوں کی پریشانی کی اصل وجہ یورپی یونین کی غیرمناسب اور حقیقت کے خلاف بنائی گئی زرعی پالیسی ہے۔ اس پالیسی کے تحت دوسرے غذائی شعبوں پر بوجھ ڈال کر کسانوں کو بے انتہا مراعات فراہم کی گئی ہیں۔ ان مراعات کا منفی اثر دودھ فروشی کے کاروبار پر بھی پڑا ہے، جس نے چھوٹے دودھ فروشوں کے مستقبل کو مزید تباہ کردیا ہے۔

واضح رہے کہ سال 2009 سے اب تک یورپی ممالک میں ہزاروں دودھ فروش اپنا آبائی پیشہ چھوڑ کر دوسرے شعبوں میں جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یورپی یونین کی موجودہ اقتصادی صورت حال کے تناظر میں، جب کہ یورپی یونین کونسل کا حالیہ بجٹ اجلاس بھی بے نتیجہ ثابت ہوا ہے،''یورپین مِلک بورڈ'' کے نمائندوں کا اصرار ہے کہ یورپی یونین پارلیمنٹ ایک مرتبہ پھر مناسب طریقے سے اقتصادی قانون سازی پر توجہ دے، تاکہ دودھ فروشوں کے کاروبار پر چھائے ہوئے منفی بادل چھٹ سکیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں