امریکا بھارت گہرے ہوتے ہوئے تعلقات
بھارت نے اپنے ملک کے اسٹرٹیجک مفادات کو سامنے رکھا ہے اور امریکی ڈکٹیشن لینے سے ہمیشہ انکار کیا ہے
امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر اور بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے نئی دہلی میں پریس بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بھارت اور امریکا لاجسٹک اتحادی بن گئے ہیں اور دونوں نے ملٹری لاجسٹک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں جس کے تحت بھارت اور امریکا ایک دوسرے کے زمینی فضائی اور بحری فوجی اڈے استعمال کریں گے۔ امریکی وزیر دفاع نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی سے گہرے سیکیورٹی تعلقات کی بنیاد مشترکہ مفادات، اقدار اور علاقائی اور عالمی امن و سلامتی سے وابستہ ہیں۔ وزیراعظم مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ چھٹی مرتبہ ہے جب دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع نے ملاقات کی ہے۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس دورے سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ دفاعی اعتبار سے دونوں ممالک کے بہت سے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ پینٹاگون کی جانب سے جاری شدہ اعلامیے میں بھی دونوں ممالک کے دفاعی رہنماؤں کے فیصلے دفاعی ٹیکنالوجی اور تجارتی اقدام کے فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔
بھارت امریکا تعلقات بہت قدیم اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں۔ ان تعلقات کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت نے اپنے ملک کے اسٹرٹیجک مفادات کو سامنے رکھا ہے اور امریکی ڈکٹیشن لینے سے ہمیشہ انکار کیا ہے۔ بھارت امریکا تعلقات میں اونچ نیچ بھی آتی رہی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب بھارت سوویت یونین کے بہت نزدیک تھا اور وہ اس کی معاشی اور دفاعی ضروریات پوری کرتا تھا۔ بھارتی خارجہ پالیسی کا ہمیشہ سے یہ خاصا رہا ہے کہ اس نے روس کے نزدیک جانے کے باوجود دونوں عالمی طاقتوں سے تعلقات میں توازن رکھا اور دونوں سے بھرپور فائدے مسلسل حاصل کیے۔
بھارت کی اس کامیاب خارجہ پالیسی کے باعث اس کو دنیا کی قوموں میں باعزت مقام حاصل رہا۔ (آج بھی جب بھارت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہا ہے دنیا اور اسلامی ملکوں نے ان مظالم پر صرف تشویش ظاہر کی ہے بھارت کی مذمت نہیں کی) بھارت نے غیر جانبدار تحریک کا حصہ ہونے کے باوجود دونوں عالمی طاقتوں سے تعلقات میں توازن رکھا۔ صرف سرد جنگ کے موقعہ پر جب یہ گرم جنگ میں بدلی گئی بھارت کے تعلقات امریکا سے نچلی سطح پر آ گئے کیونکہ امریکا بھارت سے بھی توقع رکھتا تھا کہ وہ سوویت یونین کے خلاف جہاد میں حصہ لے۔ وہ جہاد جس کو وزیراعلیٰ پنجاب نے چند ہفتے پیشتر نام نہاد جہاد قرار دیا اس نے نہ صرف پاکستانی قوم کے دل و دماغ میں تعصب اور شدت پسندی کا زہر بھر دیا جس کے نتیجے میں پاکستان عالمی ترقی کی دوڑ میں انتہائی پیچھے رہ گیا اور بے پناہ غربت، فلاکت، بیروزگاری اور بیماری قوم کا مقدر بن کر رہ گئی۔
امریکا بھارت دفاعی معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی جریدے فوربز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکا بھارت دفاعی معاہدے سے پاکستان اور چین چوکنا رہیں۔ فوربز لکھتا ہے کہ امریکا جلد بحرہند میں اپنے ساٹھ فیصد سے زائد جنگی جہاز تعینات کرے گا۔ دفاعی معاہدے لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم کے تحت امریکی مسلح افواج بھارتی فضائی اڈے اور بھارت دنیا میں کہیں بھی امریکی فضائی اڈے استعمال کر سکے گا۔
اس معاہدے سے امریکا چین کا مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس معاہدے کے بعد اب امریکا کو خطے میں اپنی کارروائیوں کے لیے فوجی اڈے، سہولتیں اور دفاعی تنصیبات قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح سے امریکا بھارت کی دفاعی سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکے گا۔ فوربز کے مطابق بھارت اب بحرہند اور جنوب مشرقی ایشیا کے پانیوں پر غلبہ پانے کے لیے جاپان اور آسٹریلیا سے بھی اتحاد کرے گا۔ جریدے کے مطابق امریکا اور بھارت کے درمیان کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن سیکیورٹی میمورنڈم کا معاہدہ بھی جلد ہونے والا ہے۔
امریکا میں تعینات بھارتی خاتون سفیر نے جو چند دن پیشتر اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئی ہیں۔ بھارت امریکا دفاعی معاہدے کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا بھارت پارٹنر شپ بہت گہری ہو گئی ہے۔ یہ پارٹنر شپ اس سے بھی زیادہ گہری ہو گئی ہے جتنی کہ عام طور پر تصور کی جاتی ہے۔ دوسری طرف چین کے اہم ترین تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر نے بھارت اور امریکا کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور متنازع ساؤتھ چائنا سی کے حوالے سے نئی دہلی کے بدلتے ہوئے رویے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت چین کے لیے خطرے کی گھنٹی بنتا جا رہا ہے۔
ماضی میں ساؤتھ چائنا سمندر پر بھارت کا موقف غیر جانبدارانہ تھا لیکن اب بھارت اس معاملے میں بڑھ چڑھ کر مداخلت کر رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر نے بلوچستان کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم کی تقریر پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے بھارتی پالیسی میں پاکستان کے حوالے سے اچانک تبدیلی تصور کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں بھارت بلوچستان میں موجود حکومت مخالف عناصر کو استعمال کر کے چین اور پاکستان کے درمیان 46 ارب ڈالر کی لاگت سے جاری پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
جب سے سوویت یونین کا خاتمہ ہوا ہے بھارت میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام پوری طاقت سے حاوی ہو گیا ہے۔ اس پس منظر میں امریکی وزیر دفاع جب کہتے ہیں کہ نئی دہلی سے ''گہرے سیکیورٹی تعلقات کی بنیاد مشترکہ مفادات 'اقدار' اور علاقائی عالمی امن و سلامتی سے وابستہ ہیں' تو اس سے خطے کا آنے والے وقت میں منظرنامہ کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ پورا خطہ مشرق وسطیٰ سے افغانستان پاکستان انتہائی تباہ کن عدم استحکام سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ ان حالات میں بھارت کا مستقبل میں اس پورے خطے کے لیے کیا کردار ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ جب کہ پاکستان سے امریکا کے تعلقات اس کی مجبوری اور مصلحتوں پر مبنی ہیں۔
اگلے دو سے تین سالوں میں روس ماضی کی عالمی پوزیشن حاصل کر لے گا جو آخر کار چین اور روس کے اتحاد میں ڈھل جائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997
بھارت امریکا تعلقات بہت قدیم اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں۔ ان تعلقات کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت نے اپنے ملک کے اسٹرٹیجک مفادات کو سامنے رکھا ہے اور امریکی ڈکٹیشن لینے سے ہمیشہ انکار کیا ہے۔ بھارت امریکا تعلقات میں اونچ نیچ بھی آتی رہی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب بھارت سوویت یونین کے بہت نزدیک تھا اور وہ اس کی معاشی اور دفاعی ضروریات پوری کرتا تھا۔ بھارتی خارجہ پالیسی کا ہمیشہ سے یہ خاصا رہا ہے کہ اس نے روس کے نزدیک جانے کے باوجود دونوں عالمی طاقتوں سے تعلقات میں توازن رکھا اور دونوں سے بھرپور فائدے مسلسل حاصل کیے۔
بھارت کی اس کامیاب خارجہ پالیسی کے باعث اس کو دنیا کی قوموں میں باعزت مقام حاصل رہا۔ (آج بھی جب بھارت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہا ہے دنیا اور اسلامی ملکوں نے ان مظالم پر صرف تشویش ظاہر کی ہے بھارت کی مذمت نہیں کی) بھارت نے غیر جانبدار تحریک کا حصہ ہونے کے باوجود دونوں عالمی طاقتوں سے تعلقات میں توازن رکھا۔ صرف سرد جنگ کے موقعہ پر جب یہ گرم جنگ میں بدلی گئی بھارت کے تعلقات امریکا سے نچلی سطح پر آ گئے کیونکہ امریکا بھارت سے بھی توقع رکھتا تھا کہ وہ سوویت یونین کے خلاف جہاد میں حصہ لے۔ وہ جہاد جس کو وزیراعلیٰ پنجاب نے چند ہفتے پیشتر نام نہاد جہاد قرار دیا اس نے نہ صرف پاکستانی قوم کے دل و دماغ میں تعصب اور شدت پسندی کا زہر بھر دیا جس کے نتیجے میں پاکستان عالمی ترقی کی دوڑ میں انتہائی پیچھے رہ گیا اور بے پناہ غربت، فلاکت، بیروزگاری اور بیماری قوم کا مقدر بن کر رہ گئی۔
امریکا بھارت دفاعی معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی جریدے فوربز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکا بھارت دفاعی معاہدے سے پاکستان اور چین چوکنا رہیں۔ فوربز لکھتا ہے کہ امریکا جلد بحرہند میں اپنے ساٹھ فیصد سے زائد جنگی جہاز تعینات کرے گا۔ دفاعی معاہدے لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم کے تحت امریکی مسلح افواج بھارتی فضائی اڈے اور بھارت دنیا میں کہیں بھی امریکی فضائی اڈے استعمال کر سکے گا۔
اس معاہدے سے امریکا چین کا مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس معاہدے کے بعد اب امریکا کو خطے میں اپنی کارروائیوں کے لیے فوجی اڈے، سہولتیں اور دفاعی تنصیبات قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح سے امریکا بھارت کی دفاعی سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکے گا۔ فوربز کے مطابق بھارت اب بحرہند اور جنوب مشرقی ایشیا کے پانیوں پر غلبہ پانے کے لیے جاپان اور آسٹریلیا سے بھی اتحاد کرے گا۔ جریدے کے مطابق امریکا اور بھارت کے درمیان کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن سیکیورٹی میمورنڈم کا معاہدہ بھی جلد ہونے والا ہے۔
امریکا میں تعینات بھارتی خاتون سفیر نے جو چند دن پیشتر اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئی ہیں۔ بھارت امریکا دفاعی معاہدے کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا بھارت پارٹنر شپ بہت گہری ہو گئی ہے۔ یہ پارٹنر شپ اس سے بھی زیادہ گہری ہو گئی ہے جتنی کہ عام طور پر تصور کی جاتی ہے۔ دوسری طرف چین کے اہم ترین تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر نے بھارت اور امریکا کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور متنازع ساؤتھ چائنا سی کے حوالے سے نئی دہلی کے بدلتے ہوئے رویے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت چین کے لیے خطرے کی گھنٹی بنتا جا رہا ہے۔
ماضی میں ساؤتھ چائنا سمندر پر بھارت کا موقف غیر جانبدارانہ تھا لیکن اب بھارت اس معاملے میں بڑھ چڑھ کر مداخلت کر رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر نے بلوچستان کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم کی تقریر پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے بھارتی پالیسی میں پاکستان کے حوالے سے اچانک تبدیلی تصور کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں بھارت بلوچستان میں موجود حکومت مخالف عناصر کو استعمال کر کے چین اور پاکستان کے درمیان 46 ارب ڈالر کی لاگت سے جاری پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
جب سے سوویت یونین کا خاتمہ ہوا ہے بھارت میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام پوری طاقت سے حاوی ہو گیا ہے۔ اس پس منظر میں امریکی وزیر دفاع جب کہتے ہیں کہ نئی دہلی سے ''گہرے سیکیورٹی تعلقات کی بنیاد مشترکہ مفادات 'اقدار' اور علاقائی عالمی امن و سلامتی سے وابستہ ہیں' تو اس سے خطے کا آنے والے وقت میں منظرنامہ کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ پورا خطہ مشرق وسطیٰ سے افغانستان پاکستان انتہائی تباہ کن عدم استحکام سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ ان حالات میں بھارت کا مستقبل میں اس پورے خطے کے لیے کیا کردار ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ جب کہ پاکستان سے امریکا کے تعلقات اس کی مجبوری اور مصلحتوں پر مبنی ہیں۔
اگلے دو سے تین سالوں میں روس ماضی کی عالمی پوزیشن حاصل کر لے گا جو آخر کار چین اور روس کے اتحاد میں ڈھل جائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997