ایک روشن مثال

وہ اور ان کے بھائی جوتوں کی ایک دکان میں سیلز مین ہوا کرتے تھے دونوں بھائیوں نے اس صنعت اور بزنس کا بغور مشاہدہ کیا

Amjadislam@gmail.com

سیلف میڈ لوگ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں اور ان میں سے جو کامیابی' اقتدار اور عروج حاصل کرنے کے بعد بھی اپنے ماضی' پس منظر اور محنت کا ذکر فخر کے ساتھ کرتے ہوں وہ تو اور بھی اچھے لگتے ہیں۔ چند ماہ قبل ایک تقریب میں جاوید اقبال صدیقی صاحب سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ خواتین کے جوتوں کی مشہور چین ''اسٹائلو'' کے بانی ہیں جس کی اس وقت ملک بھر میں 46 سے زیادہ شاخیں کام کر رہی ہیں جو سب کی سب ان کی کمپنی کی ہی ملکیت ہیں۔ اپنے لباس وضع قطع اور گفتگو سے وہ ایک شریف' حلیم الطبع اور قوم کا درد رکھنے والے عام سے آدمی لگے لیکن ان کی جس بات نے مجھے بہت متاثر کیا وہ ان کا یہ بیان تھا کہ 1974ء میں اسٹائلو کے آغاز سے پہلے تک وہ اور ان کے بھائی جوتوں کی ایک دکان میں سیلز مین ہوا کرتے تھے دونوں بھائیوں نے اس صنعت اور بزنس کا بغور مشاہدہ کیا اور پھر خود انتہائی معمولی سرمائے سے اس کاروبار کا آغاز کیا جو اس وقت پاکستان کے لوکل برانڈز میں ایک ایسی انفرادیت رکھتا ہے جس کا کم از کم ا ن کی فیلڈ (field) میں کوئی ثانی نہیں ہے ان کی محنت اور کامیابی کے بارے میں جان کر مجھے آئن سٹائن کا ایک جملہ بہت یاد آیا ا س عظیم سائنسدان نے کہا تھا کہ کسی شخص کی صلاحیت اور کارکردگی کا اصل امتحان یہ ہوتا ہے کہ اس کے ''علم'' (Knowing) اور عمل (Doing) میں کس قدر مطابقت ہے۔

میں اس بات اور ملاقات کو اور بہت سی باتوں کی طرح بھول چکا ہوتا لیکن دو وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا ایک تو اس ادارے کے شورومز کے مخصوص انداز اور نام کی وجہ سے اور دوسرے اس دعوت نامے کے باعث جو اس کے نئے لوگو اور آیندہ منصوبوں کی تعارفی تقریب کے حوالے سے اس فرمائش کے ساتھ ملا کر میں تقریب کے شرکا' سے نظم اور نثر دونوں پیرایوں میں کچھ ایسی باتیں کروں جن کا تعلق معاشرے کو در پیش مسائل اور ان کی اصلاح سے ہو۔ تقریب کا اہتمام رائل پام کلب میں کیا گیا تھا۔ (جو عزیزی سعد رفیق کے چند نہایت سنسنی خیز بیانات کے باعث کچھ عرصہ قبل ایک بڑی خبر کا موضوع بھی رہا ہے) تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہ لوگ اگرچہ بنیادی طور پر خواتین کے جوتوں کی تیاری سے وابستہ ہیں مگر یہ اپنے پبلسٹی میٹریل میں خواتین ماڈلز کی جسمانی خوبصورتی' جنسی کشش اداؤں اور ذو معنی جملوں سے اس حد تک گریز کرتے ہیں کہ و ہ اپنے اشتہارات میں صرف ان کے پاؤں دکھاتے ہیں۔

فی زمانہ جب کہ مردوں کے استعمال کی چیزوں میں بھی ہر طرف خواتین ماڈلز جلوہ آرا نظر آتی ہیں۔ یہ اطلاع بہت چونکانے والی تھی تقریب کے دوران جاوید اقبال صدیقی کے علاوہ ان کے بھتیجے اور داماد حذیفہ صدیقی اور کمپنی کے CEO یاسر سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ کمپنی کی انتظامیہ سے متعلق تمام لوگ نہ صرف ''اخلاقیات'' سے پوری طرح کمٹڈ ہیں اور زیادہ نفع کمانے کے لیے کسی بھی ایسی بات سے سمجھوتہ نہیں کرتے جس کے لیے انھیں معاشرے کے سامنے شرمندہ یا معذرت خواہ ہونا پڑے بلکہ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ جس معاشرے نے انھیں مالی اور معاشی طور پر کامیاب اور دولت مند کیا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے مال میں سے اس کی بہتری کے لیے دل کھول کر خرچ کریں۔ وہ اشفاق احمد مرحوم کے اس فلسفے سے بہت متاثر نظر آئے کہ ہم جو کچھ کسی کو دیتے ہیں وہ ہمارے پاس بھی کسی کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ میرے دائیں بائیں اخوت والے ڈاکٹر امجد ثاقب اور صوفی انڈسٹریز کے تنویر صوفی بیٹھے تھے جو خود بھی اسی فلسفے کے پیروکار ہیں سو ہم سب نے منتظمین کے اس رویے کو خاص طور پر سراہا کہ فی الوقت اس طرح کا تعمیری رویہ ہمارے تاجر طبقے میں بہت بری طرح سے زوال پذیر ہے۔

اس تقریب کی جو بات مجھے سب سے اچھی لگی وہ ان خواتین کا چناؤ تھا جنہوں نے اسٹیج پر آ کر اینکرز احمد بٹ اور صوفیہ انجم سے گفتگو کی کہ یہ سب کی سب اپنے ا پنے شعبے میں غیر معمولی طور پر کامیاب خواتین تھیں اور صحیح معنوں میں اس پروگرام کی تھیم ''جو چاہوں وہ پاؤں'' کی مجسم تصویریں تھیں ڈرامہ کے شعبے میں حسینہ معین خواتین کے حقوق اور میڈیا سے منیزہ ہاشمی سماجی خدمات کے حوالے سے ایک بہت بڑا اور قابل تعظیم نام ڈیپ لیکس والی مسرت مصباح این جی او سیکٹر سے ''کشف'' کی سربراہ اور ہمارے محترم ایس ایم ظفر صاحب کی صاحبزادی روشانے ظفر وزیرستان سے خواتین کے حقوق کی ترجمان ماریہ عمر کھیلوں کے شعبے سے پاکستانی خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم کی کپتان ثنا میر اور ٹی وی آرٹسٹ مائرہ خان (جنہوں نے اسٹائلو کی نئی کمپین میں صدا کاری بھی کی ہے) اس ترتیب سے اسٹیج پر آئیں اور سب ہی نے مختصر مگر بہت با معنی اور پر اثر گفتگو کی جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اب پاکستانی خواتین زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہیں۔ سارا پروگرام الیکٹرانک ٹیکنالوجی اور جدید ترین انداز پیش کش کی مدد سے اگرچہ ایک بالکل ماڈرن لک (Look) دے رہا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایک مخصوص نوع کی متانت اور نفاست بھی توجہ طلب تھی کہ جس نے جمالیات اور اخلاقیات کو ایک ڈوری میں باندھ رکھا تھا۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے تمام صنعتی اور تجارتی ادارے اپنی تشہیر اور میڈیا پبلسٹی کے ضمن میں ایسی ہی ذمے داری کا ثبوت دیں تاکہ ہماری پروڈکٹس نہ صرف پوری دنیا میں اپنے اور اپنے وطن کے لیے نام اور مقام پیدا کریں بلکہ اس قومی تشخص کو بھی فروغ دیں جس کی بنیاد ان تمام دعوؤں اور نظریات پر استوار ہے جس کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔

علامہ صاحب کا کیا خوب صورت اور فکر انگیز شعر ہے کہ

یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند

بتان وہم و گماں' لا الہ الا اللہ

اب اس بات کو اشفاق صاحب کی اس بات سے ملا کر پڑھیئے کہ ''فاتحہ لوگوں کے مرنے پر نہیں احساس کے مرنے پر پڑھنی چاہیے کیونکہ لوگ مر جائیں تو صبر آ جاتا ہے مگر احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے۔''
Load Next Story