بیس گھرانے
45 سال پہلے ہمارے یہاں ’’بیس گھرانے‘‘ ہوا کرتے تھے، اور کل آبادی دس کروڑ تھی
CAIRO:
45 سال پہلے ہمارے یہاں ''بیس گھرانے'' ہوا کرتے تھے، اور کل آبادی دس کروڑ تھی۔ یہ سال تھا 1971۔ آج 2016 ہے اور ''بیس گھرانے'' بیس لاکھ گھرانے بن چکے ہیں۔ اور کل آبادی 50 کروڑ ہوچکی ہے۔
22 کروڑ پاکستانی اور 28 کروڑ بنگلہ دیشی۔ ''کبھی ہم بھی تم بھی تھے، آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو''۔ بنگالی علیحدہ ہوتے وقت بھی آبادی کا 56 فیصد تھے اور ہم موجودہ پاکستانی 44 فیصد۔ اہل بنگال ہمیشہ سے جیتے ہوئے تھے۔ پاکستان بنانے میں ہراول دستہ وہی تھے اور جب 1970 کے انتخابات ہوئے تو بھی وہی جیتے ہوئے تھے۔ بڑی ہی نمایاں اکثریت سے جیتے ہوئے۔
تقریباً 300 قومی اسمبلی کی نشستوں میں 56 فیصد پر بنگالی بھائیوں نے فتح حاصل کی تھی۔ اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت82 نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی فتح یاب ہوئی تھی۔ عبدالولی خان اور میر غوث بخش بزنجو کی نیشنل عوامی پارٹی، مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علما پاکستان اور مولانا مفتی محمود کی جمعیت علما اسلام، بنگالی بھائیوں کی جماعت عوامی لیگ کے ہمنوا تھے۔ اس قومی اسمبلی کی 300 نشستوں میں سے تقریباً 200 نشستیں حکومت بنانے والی جماعت عوامی لیگ کے پاس ہوتیں۔ کاش ایسا ہوجاتا تو آج ''جو صدائیں سن رہا ہوں' مجھے بس انھی کا غم ہے'' یوں نہ ہوتا۔ کیفی اعظمی کی نظم کے چند مصرعے دہرانے کی اجازت دے دیں۔ غبار بہت جمع ہوگیا ہے، کچھ تو چھٹ جائے۔ ماضی کی یادوں کی نذر کیفی کے مصرعے:
اب نہ وہ پیار، نہ اس پیار کی یادیں باقی
آگ یوں دل میں لگی، کچھ نہ رہا، کچھ نہ بچا
جس کی تصویر نگاہوں میں لیے بیٹھی ہو
میں وہ دلدار نہیں، اس کی ہوں خاموش چتا
جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے، نہ چنگاری ہے
سوچتا ہوں ایسا ہوتا تو کیسا ہوتا۔ 1970 ہوتا، مرکز میں عوامی لیگ کی حکومت ہوتی، شیخ مجیب الرحمن وزیراعظم ہوتے، بنگال میں بھی صوبائی حکومت عوامی لیگ کی ہوتی، پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی اور گورنر پنجاب عوامی لیگی پنجابی ملک حامد سرفراز ایڈووکیٹ یا ملک غلام جیلانی (عاصمہ جہانگیر کے والد) ہوتے۔ صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی حکومت ہوتی اور ارباب سکندر خان خلیل، شیخ مجیب الرحمن کے نامزد کردہ گورنر ہوتے۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی اور وزیراعظم پاکستان شیخ مجیب الرحمن کا نامزد کردہ گورنر، شیخ ایاز، عبدالمجید سندھی، محمودالحق عثمانی یا انیس ہاشمی میں سے کوئی ہوتا۔ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت ہوتی اور وزیراعظم پاکستان شیخ مجیب الرحمن کا نامزد کردہ کردہ گورنر، اکبر بگٹی یا شیر محمد مری ہوتا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو ہوتا۔ میں پھر سوچ میں ہوں کہ ایسا ہوتا تو کیسا ہوتا۔
وزیراعظم پاکستان شیخ مجیب الرحمن، وزیراعظم پر کڑی نظر رکھنے والا قائد حزب اختلاف قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، وزیراعلیٰ صوبہ سرحد مفتی محمود، گورنر ارباب سکندر خان خلیل، پنجاب سے گورنر ملک حامد سرفراز، سندھ سے گورنر محمود الحق عثمانی، بلوچستان سے گورنر اکبر بگٹی، وزیراعلیٰ بلوچستان عطا اللہ مینگل، یا میر غوث بخش بزنجو۔ یہ لوگ سرجوڑ کر بیٹھتے تو کیسا ہوتا۔ آج پاکستان کہاں ہوتا۔ مگر یہ محض مفروضے بن کر رہ گئے ہیں۔ اس لیے کہ بقول جالب ''اپنا ایک ہی دشمن ہے جس کے ہاتھ ہزاروں ہیں'' اسی ہزار ہاتھوں والے دشمن نے ہی آج پوری دنیا کو یرغمال بنایا ہوا ہے ''کہیں گیس کا دھواں ہے، کہیں گولیوں کی بارش'' بس ایک آخری بات اور نہایت مختصر ''کچھ فیصلے عوام کے کرنے کے ہوتے ہیں اور عوامی فیصلے ہی پائیدار ہوتے ہیں۔''
بات موضوع سے دور چلی گئی۔ پکڑ کے لاتا ہوں۔ یہ فیلڈ مارشل ایوب خان صاحب کا دور تھا۔ اور ملک بھر میں صرف ''بیس گھرانے'' ہوا کرتے تھے، جن کے پاس مال و دولت جمع تھی۔ یہ بیس گھرانے کہاں آباد ہیں، عوام نہیں جانتے تھے، غریب بستیوں سے بہت دور، بڑے فاصلے پر ان کے بنگلے مکانات ہوتے تھے، ان کے کلب، اعلیٰ ہوٹل بھی غریبوں کے لیے مسئلے نہیں تھے۔ غریب اپنی بستیوں میں اپنی کھال میں مست رہتے تھے۔ یہ بیس گھرانے کشادہ سڑکوں پر محو سفر رہتے تھے۔ ذیلی سڑکوں کی طرف ان کی عالیشان گاڑیاں مڑنا جانتی ہی نہیں تھیں۔ ''یوں ہی اپنے اپنے سفر میں گم، کہیں دور میں کہیں دور تم'' مگر آج یہ بیس گھرانے بیس لاکھ گھرانے بن چکے ہیں اور اب ان بیس لاکھ گھرانوں کے پھیلاؤ غریب بستیوں تک آ پہنچے ہیں، اب ان گھرانوں کے بچے دہشت ناک ہیبت ناک سیاہ کالی شاہ گاڑیوں میں گولا بارود سے لیس وحشی محافظوں کے ساتھ رات گئے نکلتے ہیں اور شغلاً بندے مار دیتے ہیں، اسٹورز اور بیکریاں لوٹ لیتے ہیں اور قانون، قانون کے محافظ؟ پتا نہیں یہ دو لفظ میں نے کیا لکھ دیے ''قانون اور محافظ''۔ ایسا کچھ نہیں! کچھ بھی نہیں۔ انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
جب بیس گھرانے تھے تو آبادی بھی دس کروڑ تھی (حصہ مشرقی پاکستان)۔ بیس گھرانے کہیں رڑکتے بھی نہیں تھے۔ اب بیس لاکھ گھرانے ہوگئے ہیں تو عوام بہت زیادہ رگڑے میں آگئے ہیں۔ وہ جو سکھ چین سے روکھی سوکھی روٹی مل رہی تھی وہ بھی ''گھرانوں'' نے چھین لی ہے۔ آج تو جسے دیکھو کروڑ پتی، ارب پتی۔ یہ کروڑ اور ارب پتی ہو ہی نہیں سکتے یہ سب حق مار دولت ہے۔ آج ان بیس لاکھ گھرانوں نے کیا کیا دھندے اپنالیے ہیں۔ اغوا برائے تاوان، چھوٹو گینگ کو سب کچھ پتا ہے۔ اور بھی ان کے کارنامے ہیں۔
جب بیس گھرانے تھے تو شاعر عوام حبیب جالب، قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دینے کے جرم میں قید تھا۔ ضمانت پر میاں محمود علی قصوری کی وکالت میں رہا ہوئے، تو لارنس گارڈن لاہور میں مادر ملت کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جا رہا تھا۔ میاں محمود علی قصوری جالب صاحب کو جیل سے لے کر سیدھے ظہرانے میں پہنچے۔ میاں محمود علی قصوری صدر پنجاب نیشنل عوامی پارٹی نے مادر ملت کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا۔ یہی وہ شہر ہے جہاں 34 برس پہلے راوی کے کنارے کانگریس نے مکمل آزادی کی قرارداد منظور کی تھی اور برطانوی سامراج کو للکارا تھا اور یہی وہ شہر ہے جسے پاکستان کی قرارداد منظور کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔
روزنامہ امروز کے اسٹاف رپورٹر عبداللہ ملک لکھتے ہیں ''اس استقبالیہ میں سب سے زیادہ نعرے مشہور شاعر حبیب جالب کے متعلق بلند ہوئے'' جالب صاحب کو کلام پیش کرنے کے لیے بلایا گیا تو انھوں نے کلام سے پہلے کہا ''ایوب خان صاحب کی شان میں قصیدہ لکھ کر جیل سے آیا ہو'' اور پھر انھوں نے لحن میں پڑھنا شروع کیا ''صدر ایوب زندہ باد، صدر ایوب زندہ باد'' اس کی گردان جالب نے ایک منٹ تک کی اور پھر یوں آگے بڑھے:
بیس گھرانے ہیں آباد
اور کروڑوں ہیں ناشاد
آج بھی ہم پر جاری ہے
کالی صدیوں کی بیداد
صدر ایوب زندہ باد
بیس روپیہ من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
گوہر سہگل آدم جی
بنے ہیں برلا اور ٹاٹا
ملک کے دشمن کہلاتے ہیں
جب ہم کرتے ہیں فریاد
صدر ایوب زندہ باد
عام ہوئی غنڈہ گردی
چپ ہیں سیاسی با وردی
شمع نوائے اہل سخن
کالے باغ نے گل کردی
اہل قفس کی قید بڑھا کر
کم کرلی اپنی میعاد
صدر ایوب زندہ باد
لائسنسوں کا موسم ہے
کنونشن کو کیا غم ہے
آج حکومت کے در پر
ہر شاہیں کا سر خم ہے
درس خودی دینے والوں کو
بھول گئی اقبال کی یاد
صدر ایوب زندہ باد