کانگو جان لیوا وائرس ۔۔۔ تدارک کے لیے احتیاطی تدابیر ناگزیر ہیں
شعبہ صحت کے ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ کوئٹہ میں گفتگو
کانگو بخار جان لیوا بخار ہے جو مویشیوں کی جلد میں موجود چیچڑ کی وجہ سے ہوتا ہے، اگر یہ چیچڑ کسی انسان کو کاٹ لیں تو وہ انسان فوری طور پر کانگو بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے، ''کریمین کانگو ہیمرجک فیور'' ایسا بخار ہے جس کے جراثیم ایک متاثرہ شخص سے دوسرے صحت مند شخص کو فوری طور پر لگ جاتے ہیں، یہ ایک متعدی بیماری ہے، جس میں شرح اموات بہت زیادہ ہے۔اس وقت پاکستان میں عید الاضحی کی آمد آمد ہے اور اس موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد مویشی منڈیوں کا رخ کر رہی ہے جس سے اس مرض کے پھیلنے کا خدشہ اور بڑھ گیا ہے۔
بلوچستان میں اس کے مریضوں کی زیادہ تعداد سامنے آرہی ہے جبکہ بعض قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں۔ کانگو وائرس کیا ہے، اس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے، اس مرض کے تدارک کے لیے حکومتی سطح پر کیا کام ہورہا ہے؟ ا س طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ''ایکسپریس فورم کوئٹہ'' میں ''کانگو وائرس سے بچاؤ کیسے ممکن؟'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں شعبہ صحت کے ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر یاسر خان بازئی
(ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرکوئٹہ)
کانگووائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کوئٹہ نے ایک کنٹرول روم قائم کیا ہے جس کا میں ترجمان ہوں۔ جیسے ہی اس وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ پیدا ہوا، ہم نے محکمہ لائیو اسٹاک کے ساتھ ملکر مختلف ٹیمیں تشکیل دیں ۔
جن میں سے تین ٹیمیں کوئٹہ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں بلیلی' سونا خان تھانہ میاں غنڈی اور درخشاں تھانہ پر تعینات ہیں۔ ہمیں محکمہ پولیس کا مکمل تعاون حاصل ہے ،دیگر اضلاع سے جوجانور لائے جاتے ہیں ، ان پر محکمہ لائیوسٹاک کی جانب سے ان داخلی راستوں پر ہی سپرے کردیا جاتا ہے تاکہ وائرس سے بچا جاسکے اور یہ عمل تقریباً 20 دن سے جاری ہے۔ صوبائی حکومت نے فاطمہ جناح ٹی بی سینٹوریم میں کانگو وائرس کے متاثرین کے کیلئے ایک آئسولیشن وارڈ بنایا ہے جہاں ان کا علاج ہورہا ہے۔
رواں سال اب تک 88 کیس رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے22 میں کانگو وائرس کی تصدیق ہوئی ۔ ان میں سے 14 کانگو وائرس سے جاں بحق ہوئے جبکہ 8 علاج معالجے کے بعد اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ۔ اب ممکنہ4 کیسوں کے نمونے لئے گئے ہیںجن کا علاج ٹی بی سینٹوریم میں جاری ہے۔ کوئٹہ میں جانور پالنے کا سلسلہ بہت کم ہوتا ہے ، خشک سالی کی وجہ سے مالداری نہیں ہوتی اور زیادہ تر مال مویشی افغانستان یا سندھ سے آتے ہیں۔ کوئٹہ کی گلہ بانی سے وابستہ افراد کیلئے کنٹرول روم بھی بنایا گیا ہے اور محکمہ لائیو سٹاک میں رجسٹرڈ منڈیوں پر اسپرے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
کوئٹہ کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے آٹھ ٹیمیں وہاں تعینات کی گئی ہیں جو اپنے اپنے علاقے کے ویٹرنری ہسپتالوں اور مویشی منڈیوں میں جاکر جانوروں پرسپرے کا کام کررہی ہیں۔ کانگو وائرس کے حوالے سے عوام کی آگاہی کیلئے اخبارات میں اشتہارات کے ساتھ ساتھ پمفلٹس بھی تقسیم کیے جارہے ہیں۔ ان اشتہارات اور پمفلٹس میں تمام احتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں جس سے کانگو وائرس پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ کوئٹہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں دیگراضلاع سے لوگ کثیر تعداد میں آتے جاتے رہتے ہیں جن سے بیماریوں کی منتقلی کا خطرہ ہوتا ہے۔
کانگو وائرس فوراً اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ آہستہ آہستہ اس کی علامات ظاہر ہوتی ہیں، اس لیے ابتداء میں اس کا علم نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ کانگو سے متاثرہ شخص جب کسی دوسری جگہ جاتا ہے تو وہاں بھی اس کے پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ کوئٹہ میں کانگو کے جو مریض سامنے آئے ہیں انہیں یہ مرض دوسرے اضلاع سے ہی لاحق ہوا ہے۔ کوئٹہ میں ابھی تک کانگو وائرس کے بہت کم کیس سامنے آئے ہیں۔
اس پر قابو پانے کے لیے ہماری موبائل ٹیمیںبھرپور اقدامات کررہی ہیں۔اس مرتبہ عید کے موقع پر گلی کوچوں اور سڑک کے کنارے غیر قانونی مویشی منڈیاں نہیں لگانے دی جائیں گی، اس سلسلے میں ہم میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ اس پر عملدرآمد کیا جا سکے اور لوگ حکومت کی جانب سے قائم کردہ مویشی منڈیوں میں جا کر محفوظ طریقے سے جانور خرید سکیں۔ شہر میں جدید مذبحہ خانہ موجود ہے اور ابھی مزید مذبحہ خانے بنانے کیلئے ہماری کوشش جاری ہے تاکہ گلی محلوں میں جگہ جگہ جانور ذبح کرنے کا سلسلہ بند ہوسکے۔ عید قرباں کے موقع پر غیر تربیت یافتہ قصائیوں کی بھرمارہوتی ہے ، اس کے علاوہ بہت سارے لوگ خود بھی جانور ذبح کرتے ہیں، اس دوران احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے سے کانگو کا مرض لاحق ہوسکتا ہے لہٰذا عوام اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
ڈاکٹر تاج رئیسانی
(ایم ایس فاطمہ جناح ہسپتال کوئٹہ)
کانگو وائرس کے مسئلے کو جتنا اچھالا جارہا ہے حقیقت میں اتنا زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ہر سال اپریل اور مئی کے مہینے میں کیسوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے، اس دوران جو مریض آتے ہیں ان کا علاج جاری رہتا ہے لیکن اس مرض کے حوالے سے احتیاط بہت ضروری ہے ۔ اس سال ہمارے پاس90 مشتبہ مریض آئے ہیں، جن میں سے 30 کانگو سے متاثرہ تھے، ان میں سے9 کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ باقی صحت یاب ہوچکے ہیں۔
ہلاکتوں کو میڈیا زیادہ ہائی لائٹ کرتا ہے مگر ہم علاج کی پوری کوشش کرتے ہیں، مریضوں کو ٹیسٹ سمیت دیگرسہولیات دی جاتی ہیں تاکہ کوئی بھی قیمتی جان ضائع نہ ہو۔ کانگو وائرس کے ٹیسٹ کیلئے لیباٹری میں موجود مشین میں کچھ خرابی ہے لیکن اس کے باوجود ہم مریض کے آنے کے بعد 30 منٹ کے اندر اندر وائرس کی تشخیص کرلیتے ہیں، پھر اس کا علاج شروع ہوجاتا ہے اور جو ضروری اقدامات ہیں وہ ہم کرتے ہیں۔ ہمارے ہسپتال میں کانگو وائرس کے حوالے سے بہترکام ہورہا ہے، حکومت نے اس کے لیے ہمیں تمام سہولیات دے رکھی ہیں۔
کانگو وائرس کے زیادہ کیس لورالائی' افغانستان اور بارکھان سے آتے ہیں جبکہ کوئٹہ اور پنجپائی سے بھی متاثرہ افراد لائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے مشرقی بائی پاس حساس علاقہ ہے کیونکہ وہاں سے لوگ آتے جاتے ہیں اور وہاں افغان مہاجرین زیادہ ہیں۔ مریضوں کا علاج کرنا ہمارا فرض ہے اور ہم اسے بخوبی نبھا رہے ہیں ۔ ہم امکانی کیس پر اسی وقت کام شروع کردیتے ہیں تاہم جو دیر سے آتا ہے اس پر کام کرنے میں بھی دیر لگتی ہے۔ کانگو وائرس کے حوالے سے ہم اضلاع کے تمام ہسپتالوں سے رابطے میں ہیں اور جس بھی علاقے میں اس حوالے سے کوئی مدد چاہیے ہو ہم فراہم کرتے ہیں۔
غلام حسین جعفر
(ڈی جی محکمہ لائیو سٹاک بلوچستان)
کانگو وائرس ایک خطرناک مرض ہے اور اس کا بروقت علاج بے حد ضروری ہے ورنہ یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ بلوچستان میں زیادہ تر لوگوں کی ذریعہ آمدنی لائیو سٹاک ہے اور یہ وائرس جانوروں سے زیادہ پھیلتا ہے۔ لورالائی' میختر اور مرغہ کبزئی و دیگر متاثرہ علاقے میں زیادہ تر جانور ژوب سے آتے ہیں، یہ جہاں جہاں سے گزر کر آتے ہیں وہاں سے اس مرض کے لاحق ہونے اور پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے لہٰذا ہجرت کرنے والے جانوروں میں یہ مرض زیادہ ہوتا ہے۔ جانوروں میں خاص قسم کے چیچڑ سے یہ مرض ہوتا ہے، جب اسے خوراک نہیں ملتی تو پھر یہ انسانی جسم پر کاٹتا ہے۔
چونکہ اس مرض کا جانوروں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے لہٰذا عید قربان پر اس کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں، محکمہ لائیو سٹاک جانوروں پر سپرے کرتا ہے جس سے وائرس مر جاتا ہے۔ اگر عید کے قریب انجکشن لگایا جائے تو ایسے جانور کا گوشت چند گھنٹوں تک کھانے کے قابل نہیں ہوتا ۔ ہم آج کل ٹیموں کے ہمراہ کام کررہے ہیں ، منڈیوں میں بھی سپرے ہورہا ہے کیونکہ اس سے وائرس کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا بارڈر کافی بڑا ہے جس کی وجہ سے اس علاقے میں کام کرنا اور اسے فوری کنٹرول کرنا مشکل ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شہروں کے داخلی و خارجی راستوں پر فنکشنل لیبز بنائی جائیں تاکہ بروقت اقدامات کیے جاسکیں۔ اس وقت ڈی سی' کمشنر اور ہر متعلقہ شخص اپنی ذمہ داری بہتر طریقے سے اداکررہا ہے۔ ہم تو اس حوالے سے کام کررہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بعض علاقوں میں لوگ اور قصاب ہمارے ساتھ تعاون نہیں کررہے۔ اس حوالے سے میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے کہ وہ لوگوں میں مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ اس مرض کے حوالے سے آگاہی پیدا کرے۔ صوبائی انتظامیہ نے ہمیں ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، ہم سرکاری منڈیوں میں بھی سپرے کررہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئٹہ کی صفائی میںمحکمہ لائیو سٹاک کا کردار اہم ہے جس کی مثال مذبحہ خانے ہیں۔
اب مذبحہ خانوں کو شہر سے دور منتقل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہر کی صفائی مزید بہتر بنائی جا سکے۔ مذبحہ خانوں میں ہمارے8 ڈاکٹرز جاتے ہیں، جو اپنی رپورٹ میونسپل کارپوریشن کو پیش کرتے ہیں۔ کانگوسب سے پہلے افریقہ میں دریافت ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد1949ء میں وہاں بہت زیادہ کیس سامنے آئے اورپھر روسی سائنسدانوں نے بتایا کہ اس مرض کی وجہ چیچڑ ہے۔ پاکستان میں1996ء کے بعد سے اس مرض کی تشخیص ہوئی ۔ یہ جان لیوا مرض ہے لیکن بعض مریض صحت یاب بھی ہوجاتے ہیں ۔خشک سالی کے دوران یہ وائرس بلوچستان میں پھیلا اور لورالائی، ژوب کے علاقے اور درمیانی پٹہ میںیہ مرض زیادہ رہا جبکہ 2014ء میں ملک میں یہ مرض اپنی بلندی پر تھا۔
اس مرض سے بچاؤ کے لیے فوری ڈاکٹر پاس جائیں کیونکہ اگر اس میں دیر ہوجائے تو مریض کی جان جا سکتی ہے۔ ہمارے ڈاکٹرز اور دیگر ٹیمیں اس مرض کے حوالے سے بہتر طریقے سے کام کررہی ہیں۔ میختر سے زیر علاج مریض کے قریبی گھروں اور علاقے میں ہم نے سپرے کیا، اس طرح سے اس مرض کے خاتمے اورپھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملے گی۔
اپریل اور مئی کے مہینے میں کانگو کے کیسز زیادہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں کیونکہ اس وقت موسم تبدیل ہورہا ہوتا ہے۔ اگر صفائی کا خاص خیال رکھا جائے تو اس کا تدارک ہوسکتا ہے، اس لئے لوگوں میں اس مرض کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے علاقے ژوب، لورالائی، میختراور قلعہ سیف اﷲ متاثرہ علاقوں میں شامل ہیں ۔ محکمہ لائیو سٹاک کی ٹیمیں عید قرباں سے قبل ہی ایسے علاقوں میں کام کیلئے مصروف ہوجاتی ہیں جہاں اس وائرس کا خدشہ ہویا جس علاقے سے کوئی مریض سامنے آئے۔ہر ایک چیچڑ سے یہ بیماری نہیں ہوتی بلکہ ایک خاص قسم کے چیچڑ سے ہی ہوتی ہے۔
جب اس وائرس کو خوراک نہیں ملتی تو یہ جانور یا کسی قریبی انسان کو کاٹتا ہے تو اس کے جراثیم منتقل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور چند ہی منٹوں میں متاثرہ شخص کو ہلکا بخار ہوتا ہے ، قے آتی ہے اور کمر میں درد شروع ہوجاتا ہے جس پر اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملیریا کی شکایت ہے مگر اصل میں ایسے شخص کو کانگو کا مرض ہوچکا ہوتا ہے۔ ایک ہفتے کے بعد مریض زیادہ متاثر ہو کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ جو مریض پازیٹو آتا ہے اس کا پہلے دن سے ہی علاج شروع ہوجاتا ہے اور اس کے صحت یاب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
کانگو وائرس کے ٹیسٹ کیلئے رکھی گئی فاطمہ جناح ٹی بی سینٹوریم میں مشینری کو چلانے کیلئے ٹیکنیشن سمیت دیگر عملے کی ضرورت ہے۔ متعلقہ لیبارٹری میں مشین کی خرابی کی وجہ سے ٹیسٹ کراچی بھجوایا جاتا ہے۔ لیبارٹری کا سامان موجود ہے مگر عملے کی کمی کی وجہ سے ہنگامی حالات میں مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ حکومت بلوچستان کو چاہیے کہ وہ ہر محکمے کو اس کی ضرورت کے مطابق تمام سہولیات فراہم کرے۔ حکومت تمام محکموں کے ساتھ تعاون کررہی ہے اور ہر محکمہ اس کے خاتمے و بچاؤ کیلئے دن رات کوشاں ہے۔
لوگوں کو بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر جانور ذبح کرنے کے فوراً بعد پانی ڈال کر خون ہٹایا جائے اور آدھے گھنٹے بعد جانور کی کھال اتاری جائے اور چونے ملے پانی سے روزانہ اس جگہ کو دھویا جائے تو اس وائرس سے بچا جاسکتا ہے ۔ عید کے موقع پر احتیاطی تبابیر بہت ضروری ہیں، بچوں کو جانوروں سے دور رکھا جائے۔
ڈاکٹر غلام عباس نوتکانی
(ترجمان آئسولیشن وارڈ برائے کانگو ، فاطمہ جناح ہسپتال کوئٹہ )
حال ہی میں ہمارے پاس کانگو کے چار مریض داخل ہوئے، جن میں سے 2 مریض بہتر ہوکر گھر واپس جاچکے ہیں ۔ کانگو وائرس کے حوالے سے احتیاط بہت ضروری ہے تاکہ اس مرض سے بچا جاسکے۔ عید قربان کے حوالے سے بھی احتیاطی تدابیر بہت اہم ہیں۔ دستانے پہنے بغیر ذبح شدہ جانور کے پاس نہ جائیں اور نہ ہی بچوں کو اس کے پاس جانے دیں۔ کانگو وائرس کی تشخیص اور علاج کے لیے تمام ہسپتالوں سے ہمارا رابطہ ہے، اگر کہیں بھی اس وائرس کاخدشہ ہوتو ہم اپنے ہسپتال میں لاکر فوراً اس کا علاج شروع کردیتے ہیں۔
29 ہزار کا علاج سرکاری خرچ پر کیا جاتا ہے اور مریض سے کوئی پیسے نہیں لیے جاتے۔ بی سی آر علاج کی سہولت ہمارے پاس نہیں ہے، یہ بہترین طریقہ علاج ہے لہٰذا اسے فعال کرنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے اور ہم اس حوالے سے کام کررہے ہیں۔ ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ مریض کا بہترعلاج کیا جائے۔ کانگو وائرس کے خاتمے کیلئے محکمہ اُمور حیوانات موثر اقدامات کررہا ہے تاہم عوام کوبھی چاہیے کہ جانوروں کی خریداری کے موقع پر احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
ہر محکمہ اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے تو اس کا خاتمہ ممکن ہے ۔ کانگو کے مریض اگر پہلے دن سے ہی متعلقہ بیماری کے علاج کیلئے ہمارے ہسپتال سے رجوع کرلیں تو اس کا بہتر علاج ہوسکتا ہے۔اس کیلئے اگر کسی بھی شخص کو شکایت ہے تو وہ یہاں سے مفت ٹیسٹ کرواسکتا ہے، جس کی رپورٹ30 منٹ کے اندر اندر فراہم کردی جاتی ہے ۔ لوگ انتہائی تشویشناک حالت میں ہمارے پاس آتے ہیں مگر ہم اور ہمارا تمام سٹاف دلجمعی سے مریضوں کا علاج کرتا ہے ۔ اس حوالے سے عوام میں خاص کر دور دراز علاقوں سے آنے والے لوگوں میں شعور نہیں ہے، عوام کو آگاہی دینا ضروری ہے کیونکہ مریض کی تیمار داری کے لیے آنے والے لوگوں کو بھی یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹرصبور کاکڑ
(ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ لائیو سٹاک، بلوچستان)
بلوچستان کا بارڈر کافی بڑا ہے اس لیے اس مرض کی روک تھا م کے لیے کام کرنا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ۔ ہم اس مرض کی روک تھام کے لئے بھرپور اقدامات کررہے ہیں۔ اس حوالے سے لورالائی، ژوب، توبہ کاکڑ، قمر الدین، کاریز اہم ترین علاقے ہیں۔جس طرح سارے مچھر ڈینگی نہیں ہوتے، اسی طرح ہر چیچڑ سے کانگو نہیں ہوتا۔ کانگو کے لیے ایک خاص چیچڑ ہوتاہے جو انسان کو کاٹتا ہے اور پھر یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے جبکہ بعد کے دنوں میں اس مرض کا بڑھ کر سامنے آنا اہم ترین ہے۔ دیہاتوں سے آنے والے جانوروں میں یہ مرض زیادہ ہوتا ہے، محکمہ لائیوسٹاک اس کے بچاؤ کے لئے دیہاتوں میں جاکر کام کررہا ہے۔ عید کے دنوں میں ہم فعال طریقے سے کام کرتے ہیں۔
ان دنوں میں لوگ ڈر میں مبتلا ہو جاتے ہیںکیونکہ یہ وائرس جانوروں سے پھیلتا ہے۔ یہ خطرناک مرض ہے اور اس کے لئے احتیاطی تدابیر ناگزیر ہیں۔ جانور کی کھال اتارنے والے لوگوں کو احتیاط کی زیادہ ضرورت ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ محکمہ لائیو سٹاک سے عید کے دنوں میں رابطہ رکھیں اور جانوروں کے حوالے سے بتائی جانے والی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ ہر جگہ پر ہمارے افسران موجود ہیں جبکہ ہر ضلع میں ٹیمیں فعال طریقے سے کام کررہی ہیں ۔یہ واضح ہونا چاہیے کہ گوشت کھانے سے یہ مرض بالکل نہیں پھیلتا کیونکہ پکنے کے عمل میں حدت سے یہ وائرس ختم ہوجاتا ہے۔ کانگو وائرس کے خاتمے کے لیے دن رات کام ہورہا ہے، اس حوالے سے ہم ڈیٹا بھی مرتب کررہے ہیں اور کارروائی کی تصاویر بھی موبائل سسٹم کے ذریعے محکمے کو بھیجی جاتی ہیں۔ یہ مرض وباء نہیں ہے لہٰذا احتیاطی تدابیر سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
بلوچستان میں اس کے مریضوں کی زیادہ تعداد سامنے آرہی ہے جبکہ بعض قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں۔ کانگو وائرس کیا ہے، اس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے، اس مرض کے تدارک کے لیے حکومتی سطح پر کیا کام ہورہا ہے؟ ا س طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ''ایکسپریس فورم کوئٹہ'' میں ''کانگو وائرس سے بچاؤ کیسے ممکن؟'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں شعبہ صحت کے ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر یاسر خان بازئی
(ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرکوئٹہ)
کانگووائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کوئٹہ نے ایک کنٹرول روم قائم کیا ہے جس کا میں ترجمان ہوں۔ جیسے ہی اس وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ پیدا ہوا، ہم نے محکمہ لائیو اسٹاک کے ساتھ ملکر مختلف ٹیمیں تشکیل دیں ۔
جن میں سے تین ٹیمیں کوئٹہ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں بلیلی' سونا خان تھانہ میاں غنڈی اور درخشاں تھانہ پر تعینات ہیں۔ ہمیں محکمہ پولیس کا مکمل تعاون حاصل ہے ،دیگر اضلاع سے جوجانور لائے جاتے ہیں ، ان پر محکمہ لائیوسٹاک کی جانب سے ان داخلی راستوں پر ہی سپرے کردیا جاتا ہے تاکہ وائرس سے بچا جاسکے اور یہ عمل تقریباً 20 دن سے جاری ہے۔ صوبائی حکومت نے فاطمہ جناح ٹی بی سینٹوریم میں کانگو وائرس کے متاثرین کے کیلئے ایک آئسولیشن وارڈ بنایا ہے جہاں ان کا علاج ہورہا ہے۔
رواں سال اب تک 88 کیس رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے22 میں کانگو وائرس کی تصدیق ہوئی ۔ ان میں سے 14 کانگو وائرس سے جاں بحق ہوئے جبکہ 8 علاج معالجے کے بعد اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ۔ اب ممکنہ4 کیسوں کے نمونے لئے گئے ہیںجن کا علاج ٹی بی سینٹوریم میں جاری ہے۔ کوئٹہ میں جانور پالنے کا سلسلہ بہت کم ہوتا ہے ، خشک سالی کی وجہ سے مالداری نہیں ہوتی اور زیادہ تر مال مویشی افغانستان یا سندھ سے آتے ہیں۔ کوئٹہ کی گلہ بانی سے وابستہ افراد کیلئے کنٹرول روم بھی بنایا گیا ہے اور محکمہ لائیو سٹاک میں رجسٹرڈ منڈیوں پر اسپرے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
کوئٹہ کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے آٹھ ٹیمیں وہاں تعینات کی گئی ہیں جو اپنے اپنے علاقے کے ویٹرنری ہسپتالوں اور مویشی منڈیوں میں جاکر جانوروں پرسپرے کا کام کررہی ہیں۔ کانگو وائرس کے حوالے سے عوام کی آگاہی کیلئے اخبارات میں اشتہارات کے ساتھ ساتھ پمفلٹس بھی تقسیم کیے جارہے ہیں۔ ان اشتہارات اور پمفلٹس میں تمام احتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں جس سے کانگو وائرس پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ کوئٹہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں دیگراضلاع سے لوگ کثیر تعداد میں آتے جاتے رہتے ہیں جن سے بیماریوں کی منتقلی کا خطرہ ہوتا ہے۔
کانگو وائرس فوراً اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ آہستہ آہستہ اس کی علامات ظاہر ہوتی ہیں، اس لیے ابتداء میں اس کا علم نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ کانگو سے متاثرہ شخص جب کسی دوسری جگہ جاتا ہے تو وہاں بھی اس کے پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ کوئٹہ میں کانگو کے جو مریض سامنے آئے ہیں انہیں یہ مرض دوسرے اضلاع سے ہی لاحق ہوا ہے۔ کوئٹہ میں ابھی تک کانگو وائرس کے بہت کم کیس سامنے آئے ہیں۔
اس پر قابو پانے کے لیے ہماری موبائل ٹیمیںبھرپور اقدامات کررہی ہیں۔اس مرتبہ عید کے موقع پر گلی کوچوں اور سڑک کے کنارے غیر قانونی مویشی منڈیاں نہیں لگانے دی جائیں گی، اس سلسلے میں ہم میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ اس پر عملدرآمد کیا جا سکے اور لوگ حکومت کی جانب سے قائم کردہ مویشی منڈیوں میں جا کر محفوظ طریقے سے جانور خرید سکیں۔ شہر میں جدید مذبحہ خانہ موجود ہے اور ابھی مزید مذبحہ خانے بنانے کیلئے ہماری کوشش جاری ہے تاکہ گلی محلوں میں جگہ جگہ جانور ذبح کرنے کا سلسلہ بند ہوسکے۔ عید قرباں کے موقع پر غیر تربیت یافتہ قصائیوں کی بھرمارہوتی ہے ، اس کے علاوہ بہت سارے لوگ خود بھی جانور ذبح کرتے ہیں، اس دوران احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے سے کانگو کا مرض لاحق ہوسکتا ہے لہٰذا عوام اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
ڈاکٹر تاج رئیسانی
(ایم ایس فاطمہ جناح ہسپتال کوئٹہ)
کانگو وائرس کے مسئلے کو جتنا اچھالا جارہا ہے حقیقت میں اتنا زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ہر سال اپریل اور مئی کے مہینے میں کیسوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے، اس دوران جو مریض آتے ہیں ان کا علاج جاری رہتا ہے لیکن اس مرض کے حوالے سے احتیاط بہت ضروری ہے ۔ اس سال ہمارے پاس90 مشتبہ مریض آئے ہیں، جن میں سے 30 کانگو سے متاثرہ تھے، ان میں سے9 کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ باقی صحت یاب ہوچکے ہیں۔
ہلاکتوں کو میڈیا زیادہ ہائی لائٹ کرتا ہے مگر ہم علاج کی پوری کوشش کرتے ہیں، مریضوں کو ٹیسٹ سمیت دیگرسہولیات دی جاتی ہیں تاکہ کوئی بھی قیمتی جان ضائع نہ ہو۔ کانگو وائرس کے ٹیسٹ کیلئے لیباٹری میں موجود مشین میں کچھ خرابی ہے لیکن اس کے باوجود ہم مریض کے آنے کے بعد 30 منٹ کے اندر اندر وائرس کی تشخیص کرلیتے ہیں، پھر اس کا علاج شروع ہوجاتا ہے اور جو ضروری اقدامات ہیں وہ ہم کرتے ہیں۔ ہمارے ہسپتال میں کانگو وائرس کے حوالے سے بہترکام ہورہا ہے، حکومت نے اس کے لیے ہمیں تمام سہولیات دے رکھی ہیں۔
کانگو وائرس کے زیادہ کیس لورالائی' افغانستان اور بارکھان سے آتے ہیں جبکہ کوئٹہ اور پنجپائی سے بھی متاثرہ افراد لائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے مشرقی بائی پاس حساس علاقہ ہے کیونکہ وہاں سے لوگ آتے جاتے ہیں اور وہاں افغان مہاجرین زیادہ ہیں۔ مریضوں کا علاج کرنا ہمارا فرض ہے اور ہم اسے بخوبی نبھا رہے ہیں ۔ ہم امکانی کیس پر اسی وقت کام شروع کردیتے ہیں تاہم جو دیر سے آتا ہے اس پر کام کرنے میں بھی دیر لگتی ہے۔ کانگو وائرس کے حوالے سے ہم اضلاع کے تمام ہسپتالوں سے رابطے میں ہیں اور جس بھی علاقے میں اس حوالے سے کوئی مدد چاہیے ہو ہم فراہم کرتے ہیں۔
غلام حسین جعفر
(ڈی جی محکمہ لائیو سٹاک بلوچستان)
کانگو وائرس ایک خطرناک مرض ہے اور اس کا بروقت علاج بے حد ضروری ہے ورنہ یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ بلوچستان میں زیادہ تر لوگوں کی ذریعہ آمدنی لائیو سٹاک ہے اور یہ وائرس جانوروں سے زیادہ پھیلتا ہے۔ لورالائی' میختر اور مرغہ کبزئی و دیگر متاثرہ علاقے میں زیادہ تر جانور ژوب سے آتے ہیں، یہ جہاں جہاں سے گزر کر آتے ہیں وہاں سے اس مرض کے لاحق ہونے اور پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے لہٰذا ہجرت کرنے والے جانوروں میں یہ مرض زیادہ ہوتا ہے۔ جانوروں میں خاص قسم کے چیچڑ سے یہ مرض ہوتا ہے، جب اسے خوراک نہیں ملتی تو پھر یہ انسانی جسم پر کاٹتا ہے۔
چونکہ اس مرض کا جانوروں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے لہٰذا عید قربان پر اس کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں، محکمہ لائیو سٹاک جانوروں پر سپرے کرتا ہے جس سے وائرس مر جاتا ہے۔ اگر عید کے قریب انجکشن لگایا جائے تو ایسے جانور کا گوشت چند گھنٹوں تک کھانے کے قابل نہیں ہوتا ۔ ہم آج کل ٹیموں کے ہمراہ کام کررہے ہیں ، منڈیوں میں بھی سپرے ہورہا ہے کیونکہ اس سے وائرس کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا بارڈر کافی بڑا ہے جس کی وجہ سے اس علاقے میں کام کرنا اور اسے فوری کنٹرول کرنا مشکل ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شہروں کے داخلی و خارجی راستوں پر فنکشنل لیبز بنائی جائیں تاکہ بروقت اقدامات کیے جاسکیں۔ اس وقت ڈی سی' کمشنر اور ہر متعلقہ شخص اپنی ذمہ داری بہتر طریقے سے اداکررہا ہے۔ ہم تو اس حوالے سے کام کررہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بعض علاقوں میں لوگ اور قصاب ہمارے ساتھ تعاون نہیں کررہے۔ اس حوالے سے میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے کہ وہ لوگوں میں مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ اس مرض کے حوالے سے آگاہی پیدا کرے۔ صوبائی انتظامیہ نے ہمیں ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، ہم سرکاری منڈیوں میں بھی سپرے کررہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئٹہ کی صفائی میںمحکمہ لائیو سٹاک کا کردار اہم ہے جس کی مثال مذبحہ خانے ہیں۔
اب مذبحہ خانوں کو شہر سے دور منتقل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہر کی صفائی مزید بہتر بنائی جا سکے۔ مذبحہ خانوں میں ہمارے8 ڈاکٹرز جاتے ہیں، جو اپنی رپورٹ میونسپل کارپوریشن کو پیش کرتے ہیں۔ کانگوسب سے پہلے افریقہ میں دریافت ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد1949ء میں وہاں بہت زیادہ کیس سامنے آئے اورپھر روسی سائنسدانوں نے بتایا کہ اس مرض کی وجہ چیچڑ ہے۔ پاکستان میں1996ء کے بعد سے اس مرض کی تشخیص ہوئی ۔ یہ جان لیوا مرض ہے لیکن بعض مریض صحت یاب بھی ہوجاتے ہیں ۔خشک سالی کے دوران یہ وائرس بلوچستان میں پھیلا اور لورالائی، ژوب کے علاقے اور درمیانی پٹہ میںیہ مرض زیادہ رہا جبکہ 2014ء میں ملک میں یہ مرض اپنی بلندی پر تھا۔
اس مرض سے بچاؤ کے لیے فوری ڈاکٹر پاس جائیں کیونکہ اگر اس میں دیر ہوجائے تو مریض کی جان جا سکتی ہے۔ ہمارے ڈاکٹرز اور دیگر ٹیمیں اس مرض کے حوالے سے بہتر طریقے سے کام کررہی ہیں۔ میختر سے زیر علاج مریض کے قریبی گھروں اور علاقے میں ہم نے سپرے کیا، اس طرح سے اس مرض کے خاتمے اورپھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملے گی۔
اپریل اور مئی کے مہینے میں کانگو کے کیسز زیادہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں کیونکہ اس وقت موسم تبدیل ہورہا ہوتا ہے۔ اگر صفائی کا خاص خیال رکھا جائے تو اس کا تدارک ہوسکتا ہے، اس لئے لوگوں میں اس مرض کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے علاقے ژوب، لورالائی، میختراور قلعہ سیف اﷲ متاثرہ علاقوں میں شامل ہیں ۔ محکمہ لائیو سٹاک کی ٹیمیں عید قرباں سے قبل ہی ایسے علاقوں میں کام کیلئے مصروف ہوجاتی ہیں جہاں اس وائرس کا خدشہ ہویا جس علاقے سے کوئی مریض سامنے آئے۔ہر ایک چیچڑ سے یہ بیماری نہیں ہوتی بلکہ ایک خاص قسم کے چیچڑ سے ہی ہوتی ہے۔
جب اس وائرس کو خوراک نہیں ملتی تو یہ جانور یا کسی قریبی انسان کو کاٹتا ہے تو اس کے جراثیم منتقل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور چند ہی منٹوں میں متاثرہ شخص کو ہلکا بخار ہوتا ہے ، قے آتی ہے اور کمر میں درد شروع ہوجاتا ہے جس پر اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملیریا کی شکایت ہے مگر اصل میں ایسے شخص کو کانگو کا مرض ہوچکا ہوتا ہے۔ ایک ہفتے کے بعد مریض زیادہ متاثر ہو کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ جو مریض پازیٹو آتا ہے اس کا پہلے دن سے ہی علاج شروع ہوجاتا ہے اور اس کے صحت یاب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
کانگو وائرس کے ٹیسٹ کیلئے رکھی گئی فاطمہ جناح ٹی بی سینٹوریم میں مشینری کو چلانے کیلئے ٹیکنیشن سمیت دیگر عملے کی ضرورت ہے۔ متعلقہ لیبارٹری میں مشین کی خرابی کی وجہ سے ٹیسٹ کراچی بھجوایا جاتا ہے۔ لیبارٹری کا سامان موجود ہے مگر عملے کی کمی کی وجہ سے ہنگامی حالات میں مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ حکومت بلوچستان کو چاہیے کہ وہ ہر محکمے کو اس کی ضرورت کے مطابق تمام سہولیات فراہم کرے۔ حکومت تمام محکموں کے ساتھ تعاون کررہی ہے اور ہر محکمہ اس کے خاتمے و بچاؤ کیلئے دن رات کوشاں ہے۔
لوگوں کو بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر جانور ذبح کرنے کے فوراً بعد پانی ڈال کر خون ہٹایا جائے اور آدھے گھنٹے بعد جانور کی کھال اتاری جائے اور چونے ملے پانی سے روزانہ اس جگہ کو دھویا جائے تو اس وائرس سے بچا جاسکتا ہے ۔ عید کے موقع پر احتیاطی تبابیر بہت ضروری ہیں، بچوں کو جانوروں سے دور رکھا جائے۔
ڈاکٹر غلام عباس نوتکانی
(ترجمان آئسولیشن وارڈ برائے کانگو ، فاطمہ جناح ہسپتال کوئٹہ )
حال ہی میں ہمارے پاس کانگو کے چار مریض داخل ہوئے، جن میں سے 2 مریض بہتر ہوکر گھر واپس جاچکے ہیں ۔ کانگو وائرس کے حوالے سے احتیاط بہت ضروری ہے تاکہ اس مرض سے بچا جاسکے۔ عید قربان کے حوالے سے بھی احتیاطی تدابیر بہت اہم ہیں۔ دستانے پہنے بغیر ذبح شدہ جانور کے پاس نہ جائیں اور نہ ہی بچوں کو اس کے پاس جانے دیں۔ کانگو وائرس کی تشخیص اور علاج کے لیے تمام ہسپتالوں سے ہمارا رابطہ ہے، اگر کہیں بھی اس وائرس کاخدشہ ہوتو ہم اپنے ہسپتال میں لاکر فوراً اس کا علاج شروع کردیتے ہیں۔
29 ہزار کا علاج سرکاری خرچ پر کیا جاتا ہے اور مریض سے کوئی پیسے نہیں لیے جاتے۔ بی سی آر علاج کی سہولت ہمارے پاس نہیں ہے، یہ بہترین طریقہ علاج ہے لہٰذا اسے فعال کرنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے اور ہم اس حوالے سے کام کررہے ہیں۔ ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ مریض کا بہترعلاج کیا جائے۔ کانگو وائرس کے خاتمے کیلئے محکمہ اُمور حیوانات موثر اقدامات کررہا ہے تاہم عوام کوبھی چاہیے کہ جانوروں کی خریداری کے موقع پر احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
ہر محکمہ اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے تو اس کا خاتمہ ممکن ہے ۔ کانگو کے مریض اگر پہلے دن سے ہی متعلقہ بیماری کے علاج کیلئے ہمارے ہسپتال سے رجوع کرلیں تو اس کا بہتر علاج ہوسکتا ہے۔اس کیلئے اگر کسی بھی شخص کو شکایت ہے تو وہ یہاں سے مفت ٹیسٹ کرواسکتا ہے، جس کی رپورٹ30 منٹ کے اندر اندر فراہم کردی جاتی ہے ۔ لوگ انتہائی تشویشناک حالت میں ہمارے پاس آتے ہیں مگر ہم اور ہمارا تمام سٹاف دلجمعی سے مریضوں کا علاج کرتا ہے ۔ اس حوالے سے عوام میں خاص کر دور دراز علاقوں سے آنے والے لوگوں میں شعور نہیں ہے، عوام کو آگاہی دینا ضروری ہے کیونکہ مریض کی تیمار داری کے لیے آنے والے لوگوں کو بھی یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹرصبور کاکڑ
(ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ لائیو سٹاک، بلوچستان)
بلوچستان کا بارڈر کافی بڑا ہے اس لیے اس مرض کی روک تھا م کے لیے کام کرنا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ۔ ہم اس مرض کی روک تھام کے لئے بھرپور اقدامات کررہے ہیں۔ اس حوالے سے لورالائی، ژوب، توبہ کاکڑ، قمر الدین، کاریز اہم ترین علاقے ہیں۔جس طرح سارے مچھر ڈینگی نہیں ہوتے، اسی طرح ہر چیچڑ سے کانگو نہیں ہوتا۔ کانگو کے لیے ایک خاص چیچڑ ہوتاہے جو انسان کو کاٹتا ہے اور پھر یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے جبکہ بعد کے دنوں میں اس مرض کا بڑھ کر سامنے آنا اہم ترین ہے۔ دیہاتوں سے آنے والے جانوروں میں یہ مرض زیادہ ہوتا ہے، محکمہ لائیوسٹاک اس کے بچاؤ کے لئے دیہاتوں میں جاکر کام کررہا ہے۔ عید کے دنوں میں ہم فعال طریقے سے کام کرتے ہیں۔
ان دنوں میں لوگ ڈر میں مبتلا ہو جاتے ہیںکیونکہ یہ وائرس جانوروں سے پھیلتا ہے۔ یہ خطرناک مرض ہے اور اس کے لئے احتیاطی تدابیر ناگزیر ہیں۔ جانور کی کھال اتارنے والے لوگوں کو احتیاط کی زیادہ ضرورت ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ محکمہ لائیو سٹاک سے عید کے دنوں میں رابطہ رکھیں اور جانوروں کے حوالے سے بتائی جانے والی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ ہر جگہ پر ہمارے افسران موجود ہیں جبکہ ہر ضلع میں ٹیمیں فعال طریقے سے کام کررہی ہیں ۔یہ واضح ہونا چاہیے کہ گوشت کھانے سے یہ مرض بالکل نہیں پھیلتا کیونکہ پکنے کے عمل میں حدت سے یہ وائرس ختم ہوجاتا ہے۔ کانگو وائرس کے خاتمے کے لیے دن رات کام ہورہا ہے، اس حوالے سے ہم ڈیٹا بھی مرتب کررہے ہیں اور کارروائی کی تصاویر بھی موبائل سسٹم کے ذریعے محکمے کو بھیجی جاتی ہیں۔ یہ مرض وباء نہیں ہے لہٰذا احتیاطی تدابیر سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔