مغرب تیرے پاس فرضی سپر ہیروز ہی کیوں

مغرب میں بھی لوگ سوچتےہیں کہ کوئی نجات دلانےوالا ہوجس پر اندھا یقین کیا جاسکے،ایسی صورت میں مغرب ملحد پرست کیسے ہوگیا؟


مدیحہ ضرار September 11, 2016
انسان نفسیاتی طور پر سپر پاور کو ماننا پسند کرتا ہے، اسکو پسند ہے یہ سوچنا کہ کوئی ہمارا مددگار، نجات دلانے والا ہو جس پر ہم اندھا یقین کر سکیں۔

PESHAWAR: ہمارے گھر میں سائنس فِکشن پر مبنی فلمیں کافی پسند کی جاتیں ہیں اور مجھے یہ سب اتنی ہی حقیقت سے دور، کسی اور جہاں کی باتیں لگتی ہیں۔

سپرمین، بیٹ مین کے کردار پر میری 4 سال بحث چلتی رہی کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک کردار کے پاس اتنی اتھارٹی اور طاقت ہو کہ وہ ہر چیلنچ کو اپنی طاقت سے مات دے دیں۔ پھر سب سے بڑی بات کہ مغربی معاشرہ کے پاس سائنسدانوں، سیاستدانوں، اداکاروں، سماجی کارکنوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ایسے میں ہیروز ان کے اپنے جیسے انسانوں میں سے کیوں نہیں؟ یہ سب سپر پاورز میں کیوں تلاش کئے جاتے ہیں؟ پھر ان کی تلاش اتنی غیر حقیقی کیوں کیوں ہے، جو ممکن ہی نہیں ہے۔ بیٹ مین، سپرمین، آئرن مین، اسپائیڈرمین، ونڈر ویمن سب میں تھیم لائن ایک ہی ہے کہ ہیروز کے پاس اضافی غیر معمولی طاقتیں ہوتی ہیں، جو لوگوں کو کسی بھی مشکل سے نکالنے میں معاون ثابت ہوسکتیں ہیں۔ جو اپنی غیر مرئی طاقتوں سے بگڑے معاشرے کو بہتری کی جانب لاسکتے ہیں، جو لوگوں کی فلاح کا کام بے لوث ہوکر کرتے ہیں۔

میرا سوال بہت سادہ سا ہے کہ کیا یہ سب کچھ انسان نہیں کرسکتے؟ حقیقت پسندی کے ساتھ؟ کیا ضروری ہے کہ اس کے لئے کردار میں خصوصی سپر پاورز ہو، جو ہر چیلنج سے نمٹ سکے اور پھر ایسے معاشرے میں جہاں قابل انسانوں کی کسی صورت کمی نہیں۔

فلم ''بیٹ مین ورسز سپر مین (ڈان آف جسٹس)'' میں ایک ڈائیلاگ نے میری سوچ کے زاویے کو ایک نیا رخ دیا۔ فلم کے ڈائیلاگ کچھ اسطرح سے ہیں۔
''ہم اس سیارے زمین پر بحیثیت انسانی آبادی ایک مددگار، نجات دلانے والے کی تلاش میں ہیں۔''

90 فیصد لوگ ایک اعلیٰ طاقت پر یقین رکھتے ہیں، اور ہر مذہب میں مسیحا (مددگار) پر یقین موجود ہے۔ بنی نوع انسان کی ایسی تاریخ موجود ہے جس میں وہ کسی سپر پاور طاقت کا پیروکار رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاید وہ (سپرمین) مسیح نہ ہو بلکہ صرف صحیح کام کرنے کی کوشش کرنے والا ایک آدمی ہوں۔

ڈارون اور کوپرنیکس سے پتہ چلا کہ ہم اس کائنات میں اکیلی نوع نہیں ہیں اور اب ہم نے یہ جانا کہ ہم پوری کائنات میں بھی خاص نہیں ہیں کیونکہ ''سپرمین'' بھی ہم میں ہی سے ہے۔ آپ ایک متحدہ امریکہ کے سینیٹر کے طور پر کسی کے غمزدہ والدین کو کہہ سکتیں ہیں کہ
''سپرمین، آپ کے بچے کو بچاسکتا تھا؟''

ہمیں ہمیشہ بین السطور یہی بیان کیا گیا کہ انسانوں کی بڑی تعداد ہمیشہ سے کسی مددگار، نجات دہندہ کی پیروکار رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ انسانوں کی اس کمزوری کی طرف اشارہ ہے جو اسکو ایسے خدا کو ماننے پر مجبور کرتی ہے جس کے پاس لافانی طاقتیں ہیں۔ جس کے پاس ناممکن کی قید ہی نہیں۔ جو سب کچھ کرسکتا ہے، تو پھر یہ مغرب معاشرہ ملحد پرست کیسے ہوگیا؟

دوسری طرف تاثر یہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، اور شاید یہ ٹھیک بھی ہے کہ انسان نفسیاتی طور پر سپر پاور کو ماننا پسند کرتا ہے، اسکو یہ سوچنا پسند ہے کہ کوئی ہمارا مددگار، نجات دلانے والا ہو جس پر ہم اندھا یقین کرسکیں۔ اسکا ثبوت اس معاشرے میں بڑی تعداد میں بننے والی ایسی سپر پاورز پر مبنی فلمیں ہیں جہاں سب سے زیادہ پیسہ ایسی فلموں کی عکاسی پر خرچ کیا جاتا ہے، اور ایسا ہونے شاید بنیادی وجہ یہی ہو کہ یہ فلمیں بہت زیادہ کامیاب ہوجاتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اِس طرح کی فلموں کو کامیاب بنانے میں صرف بچوں کا ہی کردار نہیں بلکہ بڑی اور پختہ عمر کے افراد بھی ایسی فلمیں بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ سارے کردار انسانوں میں سے کیوں نہیں؟ فرضی ہیروز کیوں؟

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مغرب معاشرے کے جتنے بھی بڑے بانی گزرے ہیں انہوں نے ہیرو سے زیادہ ولن کا کردار اپنی زندگی میں بخوبی انجام دیا ہے جو کہ کئی طرح کی مختلف برائیوں کا شکار، انسانوں کے قتل و غارت میں ملوث یا پھر اخلاقی اعتبار سے کرپٹ رہے ہیں۔ جبکہ لوگ ہیرو کی صورت میں ایسے کردار کو مثالی مانتے ہیں، جو برائیوں سے پاک ہو، جس کا دل صاف ہو، جو کرپٹ نہ ہو، جس کا اپنا کوئی مقصد یا فائدہ نہ ہو، جس کے پاس کچھ ایسی اضافی صلاحیتیں ہوں جو لوگوں کو نجات دلا سکیں اور جو لوگوں کی ہر دم مدد کے لئے تیار ہوں۔ جس کا سب سے بڑا مقصد ایک پُرامن معاشرے کا قیام ہو۔ یہ کام مغرب میں ہمیشہ سے فرضی سپر ہیروز بنا کر ہی لیا جاتا رہا۔ حاضرین کے ذہنوں میں ایسے ہیروز کو قبول کرنا اس لئے بھی آسان تھا کہ وہ پہلے سے ہی ایسے نجات دہندہ کی تلاش میں تھے، اور وہ ان بڑی بڑی تبدیلیوں کو لانے میں خود کو بے بس اور لاچار محسوس کرتے تھے جو ان کے معاشرے کو کافی حد تک بگاڑ رہی تھیں۔ اپنے اردگرد کی برائیوں کو دیکھ کر وہ خالصتاً فرار حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ایسے مایوس کن حالات میں ان کو انسانوں سے کم ہی امیدیں تھیں۔

پھر دیگر مذاہب میں جو جناب عیسٰیؑ اور دجال کے ظہور کا ذکر آتا ہے تو انسانی ذہنوں میں کہیں نہ کہیں ان کا انتظار موجود ضرور ہے۔ تبھی فلموں میں سپر ہیروز کے ساتھ سپر ولن بھی ہوتا ہے اور ہر بار سپر ہیرو اس کو ہرا کر ایک پر امن معاشرہ بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے، اور اگر اس تھیم کا تجزیہ کیا جائے تو مسیحا و دجال کے بارے میں جو پیشن گوئیاں آتی ہیں اس میں بھی حضرت عیسٰیؑ اپنی مافوق الفطرت طاقتوں کے ساتھ ولن دجال کا خاتمہ کریں گے۔

[poll id="1215"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں