کینسر کے مریضوں میں تھکن ورزش فائدے مند ہوسکتی ہے
ایروبک ورزش جیسے واکنگ اور سائیکلنگ اس حوالے سے وزن بردار ورزش کے مقابلے میں زیادہ مفید پائی گئیں۔
کینسر کے مریضوں کو اکثر علاج کے بعد تھکن کی شکایت رہتی ہے تاہم تین درجن سے زائد اسٹڈیز کے بعد پتہ چلا ہے کہ اگر ایسے افراد واکنگ یا سائیکلنگ کریں تو ان کی توانائی بحال ہوسکتی ہے۔
یاد رہے کہ کینسر کے مریضوں میں ہر وقت تھکن رہنے کی ایک وجہ تو کینسر خود ہے اس کے علاوہ دیگر وجوہات میں درد اور بیماری کا علاج جیسے کیمیوتھیریپی وغیرہ شامل ہیں۔
اس سے پہلے اسٹڈیز میں کہا جاتا رہا ہے کہ تھیریپی ، غذائی مشورہ جات اور آکو پنکچر کینسر اور اس کے علاج سے ہونیوالی تھکن کو دور کرنے میں بہت ممدومعاون ہوسکتے ہیں۔ تاہم ورزش ایک ایسا طریقہ ہے کہ جس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کو آپ اپنی مرضی کے وقت پر کرسکتے ہیں اور اس پر بہت کم لاگت یا سرے سے لاگت آتی ہی نہیں۔ لیکن برسٹل میں یونیورسٹی آف ویسٹ آف انگلینڈ کی ماہر فیونا کرامپ کا کہنا ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے اور نہ ہی اس کی امید رکھتے ہیں کہ ان اسٹڈیز کے بعد لوگ اٹھیں گے اور ایک میل دوڑنا شروع کردیں گے۔
تاہم کچھ لوگ ایسے ضرور ہوں گے جو اس قابل ہوں گے کہ جاگنگ اور سائیکلنگ شروع کردیں۔ تاہم ہم لوگوں سے کہیں گے کہ وہ اس کا آغاز تھوڑے تھوڑے سے شروع کریںجیسے کہ دن میں دو مرتبہ بیس منٹ کی واک کریں۔زیادہ تر اسٹڈیز میں ان خواتین کو زیرجائزہ لایا گیا جو کہ چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہیں جبکہ ورزش کے اوقات کار بھی مختلف تھے جن میں واکنگ اور سائیکلنگ سے لیکر وزن بردار ورزش اور یوگا شامل ہے۔نصف سے زائد اسٹڈیز میں ایک سے زائد اقسام کی ورزشوں کو شامل کیا گیا یا شرکاء کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کوئی ورزش چن لیں۔
اس طرح ورزش کی مقدار کے حوالے سے کچھ افراد کو ہفتے میں دو مرتبہ اور کچھ کوروزانہ ورزش کے لیے کہا گیاجو کہ اسٹڈی کی نوعیت کے مطابق دس منٹ سے لیکر دوگھنٹے کے وقت پر محیط تھیں۔جب ان ورزش کے نتائج کو دیکھا گیا اور ان کا موازنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس سے کینسر کے مریضوں میں بیماری کے دوران اور علاج کے بعد رہنے والی تھکن میں کمی ہوئی اور توانائی میں اضافہ ہوا۔
اس کے علاوہ ایروبک ورزش جیسے واکنگ اور سائیکلنگ اس حوالے سے وزن بردار ورزش کے مقابلے میں زیادہ مفید پائی گئیں۔کرامپ کے بقول ورزش سے ایک قابل تحسین فرق پیدا ہواجس کے مطابق اوسط مریض کو جسمانی ورزش سے فائدہ ہوا۔اس طرح مختلف افراد میں تھکن میں ہونیوالی کمی بھی افراد کے مطابق تھی۔
مثال کے طور پر اسٹڈی ٹیموں نے ورزش سے ہونیوالے فائدے کو زیادہ تر چھاتی اور غدودوں کے کینسر کے مریضوں میں دیکھا اور بلڈکینسر اور ہڈیوں کے گودے کے کینسر کے مریضوں میں اتنا فائدہ نہ ہوا۔اسٹڈی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی ان کے نتائج ابتدائی نوعیت کے ہیں اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاہم مریض اگر چاہیں تو اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے ابھی سے ورزش شروع کرسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ کینسر کے مریضوں میں ہر وقت تھکن رہنے کی ایک وجہ تو کینسر خود ہے اس کے علاوہ دیگر وجوہات میں درد اور بیماری کا علاج جیسے کیمیوتھیریپی وغیرہ شامل ہیں۔
اس سے پہلے اسٹڈیز میں کہا جاتا رہا ہے کہ تھیریپی ، غذائی مشورہ جات اور آکو پنکچر کینسر اور اس کے علاج سے ہونیوالی تھکن کو دور کرنے میں بہت ممدومعاون ہوسکتے ہیں۔ تاہم ورزش ایک ایسا طریقہ ہے کہ جس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کو آپ اپنی مرضی کے وقت پر کرسکتے ہیں اور اس پر بہت کم لاگت یا سرے سے لاگت آتی ہی نہیں۔ لیکن برسٹل میں یونیورسٹی آف ویسٹ آف انگلینڈ کی ماہر فیونا کرامپ کا کہنا ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے اور نہ ہی اس کی امید رکھتے ہیں کہ ان اسٹڈیز کے بعد لوگ اٹھیں گے اور ایک میل دوڑنا شروع کردیں گے۔
تاہم کچھ لوگ ایسے ضرور ہوں گے جو اس قابل ہوں گے کہ جاگنگ اور سائیکلنگ شروع کردیں۔ تاہم ہم لوگوں سے کہیں گے کہ وہ اس کا آغاز تھوڑے تھوڑے سے شروع کریںجیسے کہ دن میں دو مرتبہ بیس منٹ کی واک کریں۔زیادہ تر اسٹڈیز میں ان خواتین کو زیرجائزہ لایا گیا جو کہ چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہیں جبکہ ورزش کے اوقات کار بھی مختلف تھے جن میں واکنگ اور سائیکلنگ سے لیکر وزن بردار ورزش اور یوگا شامل ہے۔نصف سے زائد اسٹڈیز میں ایک سے زائد اقسام کی ورزشوں کو شامل کیا گیا یا شرکاء کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کوئی ورزش چن لیں۔
اس طرح ورزش کی مقدار کے حوالے سے کچھ افراد کو ہفتے میں دو مرتبہ اور کچھ کوروزانہ ورزش کے لیے کہا گیاجو کہ اسٹڈی کی نوعیت کے مطابق دس منٹ سے لیکر دوگھنٹے کے وقت پر محیط تھیں۔جب ان ورزش کے نتائج کو دیکھا گیا اور ان کا موازنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس سے کینسر کے مریضوں میں بیماری کے دوران اور علاج کے بعد رہنے والی تھکن میں کمی ہوئی اور توانائی میں اضافہ ہوا۔
اس کے علاوہ ایروبک ورزش جیسے واکنگ اور سائیکلنگ اس حوالے سے وزن بردار ورزش کے مقابلے میں زیادہ مفید پائی گئیں۔کرامپ کے بقول ورزش سے ایک قابل تحسین فرق پیدا ہواجس کے مطابق اوسط مریض کو جسمانی ورزش سے فائدہ ہوا۔اس طرح مختلف افراد میں تھکن میں ہونیوالی کمی بھی افراد کے مطابق تھی۔
مثال کے طور پر اسٹڈی ٹیموں نے ورزش سے ہونیوالے فائدے کو زیادہ تر چھاتی اور غدودوں کے کینسر کے مریضوں میں دیکھا اور بلڈکینسر اور ہڈیوں کے گودے کے کینسر کے مریضوں میں اتنا فائدہ نہ ہوا۔اسٹڈی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی ان کے نتائج ابتدائی نوعیت کے ہیں اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاہم مریض اگر چاہیں تو اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے ابھی سے ورزش شروع کرسکتے ہیں۔