عبدالرحمن نقشبندیؒ

بعض مفاد پرستوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جسم کی مانند معاشرے کو آپس میں نہ صرف تقسیم کیا.

یہ خالق کائنات کا حسین شاہ کار ہے اور اس کا حسن ترتیب حیات سے برقرار رہ سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

اس وقت ہمارے معاشرے کے گمبھیر مسائل میں سرِفہرست جہالت ہے۔ اس کی وجہ سے غربت، پس ماندگی، بدامنی، جرائم، بے راہ روی، فتنہ و فساد اور دیگر ہر برائی معاشرے میں موجود ہے۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جہالت ہر معاشرتی برائی کی ماں ہے۔ ایسے معاشروں میں خیر کا تصوّر ہی محال ہے، لیکن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر تو بیٹھا نہیں جاسکتا۔ کمر کس کر کچھ نہ کچھ تو لازماً کرنا ہے۔ کام یہ بھی مشکل نہیں ہے، مگر اس کا کیا جائے کہ ایک قوم بیسیوں ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔

بعض مفاد پرستوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جسم کی مانند معاشرے کو آپس میں نہ صرف تقسیم کیا بلکہ اس حد تک متنفّر کردیا کہ ایک دوسرے کی جان لینے کو بھی جنت کی سند و ضمانت قرار دے دیا گیا۔ آج ملک کا امن تباہ ہوچکا ہے، کوئی ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتا، اس کے باوجود امید کی ایک کرن موجود ہے کہ انسان کے اندر لچک ہے، اگر وہ برائی کو اپنا سکتا ہے تو پھر برائی چھوڑ کر اچھائی بھی اپنا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ ایسا کرتا کیوں نہیں ہے؟ اس کا دراصل المیہ یہ ہے کہ یہ اپنے طور پر بہت ہی محدود پیمانے پر سوچتا ہے، تبدیلی لانے کے لیے اسے راہ نما کی ضرورت ہوتی ہے۔

اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے راہ نمائی کے لیے ادارۂ نبوّت قائم فرمایا، تاکہ اشرف المخلوقات کو شرف انسانی قائم رکھنے کے لیے خیر کی طرف بلایا جائے، خیر کی حدود و قیود ہیں اور وہی حدود و قیود شرف انسان کی محافظ ہیں۔ دوسری طرف شیطان کا شعبہ ہے۔ اس کی کوئی حدود و قیود نہیں ہیں۔ مگر اس میں اصل سرمایہ ہاتھ سے چلا جاتا ہے یعنی شرف انسانی سے محرومی اس کا لازمی نتیجہ ہے۔ بقول اقبال: ''شیطان اپنی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں سب کی رائے سن کر یہ حتمی فیصلہ سناتا ہے

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدﷺ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو

ان کا ڈرنا فطری بات ہے، حوالہ درست کرلیں، حضرت علامہ محمد اقبالؒ کی اس نظم کا عنوان ''ابلیس کا پیغام اپنے سیاسی فرزندوں کے نام'' ہے، جس کے دو اشعار اوپر درج کیے گئے ہیں۔ اسلام ہی دراصل انسانیت کا پاسبان ہے۔ اس لیے شیطان اسلام کے نام سے بدکتا ہے۔ اس کو قیامت تک انسانوں کو بہکانے پھسلانے کی کھلی چھٹی ہے، وہ شر اور وساوس کے ذریعے پھیلاتا رہے گا، سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کے ساتھی تو دن رات اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں، ہم کیوں تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں؟ نبوت بھی تو قیامت تک کے لیے ہے، جہالت دور کرنے اور علم کی شمع جلانے کے لیے کسی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں ہے۔ جو 'الف' جانتا ہے وہ دوسروں کو 'الف' سکھائے، جو 'ب' جانتا ہے وہ 'ب' سکھائے۔

جہالت کی تاریکی دور ہوتی جائے گی۔ علم کی شمع کی لو تیز تر ہوتی جائے گی۔ جہالت ہی ایک دوسرے سے نفرت کا سبب ہے۔ مارا کوئی بھی جائے، انسان ہی مرتا ہے، اور کوئی بھی مرے جنازہ انسان ہی اٹھاتے ہیں، کرنے کا کام یہ ہے کہ جو قاتل بن جاتے ہیں، ان کے اندر کا انسان زندہ کردیا جائے، کوئی بھی ہوش مند یہ نہیں مان سکتا کہ کوئی بلاوجہ قاتل بن سکتا ہے۔ پہلے اس کے اندر کا انسان قتل ہوتا ہے پھر وہ قاتل بنتا ہے۔ جب تک کسی کے اندر کا انسان زندہ ہو وہ جان بوجھ کر کیڑے پر بھی پاؤں نہیں رکھتا۔ مبادا کیڑے کا خون ناحق اس کی گردن پر آجائے۔ خون ناحق کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا، جس نے کسی ایک انسان زندہ رکھنے کا اہتمام تو اس نے پوری انسانیت کو زندہ رکھا۔''

مقتول اگر ظلم سے قتل کیا گیا، یعنی وہ واجب القتل نہ تھا اور اسے قتل کردیا گیا تو مقتول کے گناہ قاتل کے ذمے ہیں۔ اگر میرا یہ ایمان ہے کہ مجھے مر کر اپنے ربّ کے حضور پیش ہونے کے لیے دوبارہ جی اٹھنا ہے، اپنے اعمال کا حساب دینا ہے، اس ذاتِ کبریاء سے کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکتی تو پھر مجھے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میں تو اپنے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، کسی کو قتل کرکے اس کے گناہوں کا بوجھ کیسے اٹھاؤں گا، تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایسا شخص کسی کو ناحق قتل کرے۔ سوال یہ ہے کہ جو ناحق قتل پر اکساتے ہیں وہ پڑھے لکھے ہیں، تو پھر وہ کون سا علم ہے، قتل انسانی ہی نہیں، کیڑے کو ناحق مارنے سے روکتا ہے، وہ اس کا عطا کردہ علم ہے، یہ مخلوق جس کا کنبہ ہے اور وہی علم نور ہے۔ اسی پر عمل نجات کا ذریعہ ہے۔ اگر کوئی اس کے کنبے کو ناحق قتل کرے گا تو اس کے غضب سے کیسے بچے گا؟ چناںچہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان عورت پر فرض ہے، کوئی کچھ بھی بنے، اسے وہ علم ضرور سیکھنا اور اس پر عمل کرنا چاہیے جو ذریعۂ نجات ہے۔ اسی میں خدا کے کنبے کا تحفظ ہے۔ اسی میں ہم سب کا تحفظ ہے۔



اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر حال میں محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے اس نے بدامنی کو قتل سے زیادہ سنگین جرم قرار دیا ہے اور اس کی سزا بھی قتل سے زیادہ سخت ہے۔ اس کے باوجود کوئی اگر اس کام سے باز نہیں آتا تو پھر وہ تین میں سے ایک حالت پر ہے۔ مسلمان نہیں ہے، مسلمان ہے تو اسلام کو نہیں جانتا، اسلام کو جانتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ وہ جو آلۂ کار بنتے ہیں انہیں کسی ایک طرف کا انتخاب کر لینا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ کے کنبے کو نقصان پہنچاکر اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ لڑنا یا اس جہالت سے نکلنا ہے۔ اﷲ ہر شے کا مالک ہے۔ ہم اس کے وضع کردہ اصولوں سے انحراف تو کرسکتے ہیں۔ مگر ان اصولوں سے انحراف کے نتیجے سے نہیں بچ سکتے۔ ارشاد ربّانی ہے: '' اے جِنوں اور انسانوں کے گروہو! اگر ہمت ہے تو آسمان اور زمین کی حدوں سے نکل جاؤ، یہ ناممکن ہے جب تک اس کی طاقت نہ ہو''۔ (55/23)

اس کا مطلب یہ ہے کہ من مانی تو اس صورت میں کرو اگر تم وہاں پہنچ سکو جہاں اﷲ تعالیٰ تمہیں پکڑ نہ سکے۔ سوچ لو کیا تم میں یہ ہمت ہے، اگر ہے تو کر گزرو، اگر نہیں ہے اور بالیقیں نہیں ہے تو پھر اس کی مرضی پر چلو جس کے بس میں تمہاری ہر چیز ہے، کیوں وہ عمل کرتے ہو کہ تمہیں آگ اور دھوئیں کے عذاب میں مبتلا کردیا جائے۔ یہ فاطر فطرت، قادر مطلق، خالق اکبر کا ارشاد پاک ہے، جس میں کسی شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔

جہالت ہمارا المیہ ہے اور یہ اس سے بھی بڑا المیہ ہے کہ دعویٰ پڑھے لکھے ہونے کا ہے اور سودا کرتے ہیں خسارے کا۔ سمجھتے ہیں منافع کما رہے ہیں، اس ساری بحث کے بعد انسب معلوم دیتا ہے کہ جہالت کی تعریف بیان کردی جائے۔ 1۔ انسانی قدروں سے ناواقفیت جہالت ہے۔ 2۔ زندگی کے مقصد سے ناواقفیت جہالت ہے۔ 3۔ محتاج و محدود ہوکر متکبر ہونا جہالت ہے۔ 4۔ مالک کی مرضی کے خلاف عمل کرنا جہالت ہے۔ 5۔ مایوسی اور ناامیدی جہالت ہے۔ 6۔ ظلم کرکے رحم کی امید رکھنا جہالت ہے۔ 7۔ اﷲ کی بات سب سے اوپر ہے، اسے شیطان کے مقابل لانا یا نیچے کرنا کفر و جہالت ہے۔

اس کے علاوہ بے شمار اقوال و افعال جہالت کے زمرے میں آتے ہیں، جن کی تفصیل قرآن حکیم میں جا بجا موجود ہے۔ ہم اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہ کریں تو یہ بھی جہالت ہی ہے۔ معلوم نہیں کہ پھر ہم کس بنیاد پر سائنس کو اسلام کے مقابل لا کھڑا کرتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ سائنسی تجربات زیادہ تر غیر مسلم لوگ کرتے ہیں۔ سائنسی تجربات میں روبوٹ بنایا جاسکتا ہے، مگر اس میں جان نہیں ڈالی جاسکتی، یہ کام صرف اسلام میں ممکن ہے۔ جہاز ایک پرندہ سائنسی پرندہ ہے، جسے اڑانے کے لیے انجن اور انجن کو چلانے کے لیے ایندھن کی ضرورت ہے۔ اسلام میں پرندہ بناکر اڑانے کے لیے کسی انجن کسی ایندھن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات دیکھیں، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ دونوں میں فرق کیا ہے؟ دونوں میں ایمان و ایقان کا فرق ہے۔ جہاں ایمان ہوگا وہاں اﷲ پر توکل ہوگا، اﷲ ہر چیز پر قادر ہے، جہاں ایمان نہیں ہوگا وہاں کسی جھوٹے سہارے کی ضرورت ہوگی، جو ناقابلِ بھروسا ہوگا۔ اس لیے ہوائی جہاز تو آئے دن گرتے رہتے ہیں، مگر پرندے نہیں گرتے۔ اس لیے کہ انہیں سچّے سہارے نے تھام رکھا ہے۔

سائنسی تجربات میں بہت سے سازو سامان کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ روحانی علوم میں کسی شے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اﷲ جب کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو فرماتا ہے ''ہوجا'' تو وہ ہوجاتا ہے۔ اﷲ تو قادرِ مطلق ہے۔ وہ تو جو کہے ہوجاتا ہے۔ بندہ کیسے اس کے مقابل آسکتا ہے۔ کوئی اﷲ کے مقابل نہیں آتا۔ یہ محض گمان اور الزام ہے۔ اس پر قرآنی سند موجود ہے۔ فرمایا: ''اے ربّ! ان دونوں (میرے والدین) پر رحم فرما۔ جس طرح صغرسنی میں انہوں نے میری ربوبیّت کی''۔ سورہ یوسفؑ میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی بادشاہ کو ربّ کہلوایا''۔ انسان محدود ہے اور اﷲ نے انہی حدود میں اسے اپنی صفات سے نوازا ہے۔ اﷲ رحیم ہے، بندہ بھی رحیم ہے، اﷲ کریم ہے بندہ بھی کریم ہے۔ اﷲ کے پاس رحم و کرم کے خزانے ہیں، بندے کو بہ حیثیت نائب اس کی حد کے مطابق حصہ ملا ہوا ہے۔ یہی تو انسانی قدریں ہیں۔ اگر انہیں روبہ عمل نہیں لاتا تو پھر انسان نہیں حیوان ناطق ہے، بلکہ حیوانوں سے بھی گیا گزرا ہے۔


حضرت مولانا خواجہ عبدالرحمٰن نقشبندی رحمۃ اﷲ علیہ کی ولادت باسعادت موضع بگھار تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی میں یکم جمادی الثانی1292ھ بمطابق 1875ء 3؍جولائی کو حضرت مولانا خواجہ محمد ہاشم نقشبندی رحمۃ اﷲ علیہ کے گھر ہوئی۔ اور وہ اپنے زمانے کے بڑے مشہور عالم دین اور بلند مرتبہ نقشبندی بزرگ حضرت عثمان دامانی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ تھے۔ خود بھی بلند منصب پر فائز تھے۔ خواجہ عبدالرحمٰن کی ابتدائی تعلیم و تربیت بگھار کے علمی و روحانی مرکز میں اپنے والد بزرگوار کی زیرنگرانی ہوئی۔ اس کے بعد آپ کے والد ماجد نے آپ کو اپنے پیرو مرشد کے سپرد کردیا۔ موسیٰ زئی ان دنوں علم و تصوّف کا بہت بڑا مرکز تھا۔

مولانا شیرازی ان دنوں موسیٰ زئی کی درس گاہ میں صدر مدرس تھے، جن کا دور دور تک شہرہ تھا۔ آپ انہی سے سند فراغت لے کر فارغ التحصیل ہوئے۔ سلوک کی منازل حضرت خواجہ عثمان دامانی نے طے کروائیں۔ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا محمد ہاشم نے آپ کو خرقۂ خلافت عطا فرمایا۔ یہ نصیحت بھی فرمائی کہ سلوک کی منازل کی تکمیل کے لیے ابھی مزید کچھ وقت میرے مرشد کے صاحبزادے حضرت خواجہ سراج الدین دامانیؒ کی صحبت میں گزارو۔ چناںچہ آپ اپنے والد گرامی کے وصال کے بعد کچھ عرصے کے لیے موسیٰ زئی میں قیام پذیر رہے۔

حضرت خواجہ سراج الدینؒ کی خانقاہ طالبانِ راہِ حق سے بھری رہتی۔ بڑے بڑے طالبان طریقت حصول فیض کے لیے جمع رہتے۔ ہر کسی نے اپنے مرشد کی خدمت کے لیے کوئی نہ کوئی ذمے داری اٹھائی ہوئی تھی۔ آپ سحری کے وقت اپنے مرشد کو وضو کروایا کرتے تھے۔ ایک دن جب آپ پانی کا کوزہ لے کر حسبِ معمول اپنے مرشد کے تسبیح خانے پہنچے تو مرشد آرام کی غرض سے اندر سے کنڈی لگا کر لیٹ چکے تھے۔ آپ نے سوچا کہ اگر پانی باہر رکھا تو ٹھنڈا ہوجائے گا۔ اور اگر پانی واپس لے جاؤں تو مرشد کے طلب کرنے پر پیش نہ کرسکوں گا۔ آپ نے سخت سردی کے موسم میں جسم پر سے کمبل اتار کر اس سے کوزہ ڈھانپا اور مرشد کے دروازے پر بیٹھ گئے۔ آدھی رات کے بعد آپ کے مرشد کی والدہ محترمہ اچانک زنان خانے سے باہر تشریف لائیں۔ سخت سردی میں آپ کو باہر بیٹھے ہوئے دیکھ کر فرمایا: ''کون ہو؟'' عرض کیا: ''اماں جی! عبدالرحمٰن ہوں''۔

چوں کہ سب اہلِ خانہ آپ کے نام سے واقف تھے۔ اماں جی نے پوچھا: ''بیٹا اتنی رات سخت سردی میں یہاں کیوں بیٹھے ہو؟'' آپ نے پورا ماجرہ عرض کردیا۔ اماں جی نے اپنے بیٹے کے دروازے پر دستک دی۔ جب دروازہ کھولا تو حضرت خواجہ سراج الدین رات کے ان لمحات میں اپنی والدہ محترمہ کو موجود پاکر سخت حیران ہوئے۔ اور وہاں آنے کا سبب پوچھا کہ میرے لیے کیا حکم ہے۔ اماں جی نے فرمایا: ''بیٹا! اس وقت اگر تمہارے پاس کچھ ہے تو ابھی اور اسی لمحے میرے اس بیٹے عبدالرحمٰن کو عطا کردو۔'' حضرت خواجہ سراج الدین نقشبندی نے آپ سے پوچھا: ''مولانا وضو سے ہو؟'' عرض کیا:''جی حضور!'' فرمایا: ''اندر آجاؤ۔'' پھر سخی سراج الدینؒ دینے والے اور طالب صادق خواجہ عبدالرحمٰن لینے والے تھے۔ کیا انعامات ہوئے وہ پیر مرید جانیں۔ خرقۂ خلافت عطا فرمائی۔ صبح ہوتے ہی فرمایا:''مولانا! ہماری طرف سے آپ فارغ ہیں۔

اب آپ بگھار جائیں اور اپنے والد ماجد کی سجادگی کریں، حق کی پیاسی مخلوق کو طریقت و معرفت کا آبِ حیات پلائیں۔ اﷲ والوں کے لیے ''نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو'' کا مطلب یہ ہے کہ جو انعام ان پر ہوا ہے۔ اسے مستحقین میں تقسیم کریں۔ یہی عمر بھر آپ کے والد ماجد نے کیا، یہی آپ نے کرنا ہے۔ مرشد کے حکم سے آپ واپس اپنے گھر بگھار لوٹے اور اپنے والد ماجد کی مسجد میں مصروفِ درس و تدریس ہوگئے۔ جوں جوں آپ کے بگھار لوٹنے کی خبر پھیلتی گئی، ہر طرح کے لوگ دور و نزدیک سے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا شروع ہوگئے، ان میں زیادہ تعداد تو ذاتی اغراض و مقاصد والے سائلین کی ہوتی، کچھ سالکین اور طالبانِِ حق ہوتے۔

لوگوں کی تعداد اس قدر بڑھی کہ قدیمی مسجد چھوٹی پڑ گئی۔ آپ نے اسے شہید کرکے اس کی جگہ ایک عالیشان وسیع و عریض مسجد، اس کے اوپر طلباء کے حجرے، تسبیح خانہ اور کتب خانہ تعمیر کروایا۔ کتب خانے میں آج بھی جو کتب موجود ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ آپ کا علمی ذوق اور آپ کے مدرسے کا تعلیمی معیار کس قدر بلند تھا۔ اس نہج پر آپ نے حضرت خواجہ عثمانؒ دامانی اور حضرت خواجہ سراج الدینؒ دامانی کے روحانی فیوض کو بگھار اور اس کے اطراف و اکناف میں پھیلایا۔ اس طرح اپنے والد کریم کی سجادگی کا آپ نے حق ادا کردیا۔

آپ سلسلۂ نقشبندیہ کے پیرو اور شریعت مطہرہ کے سختی سے پابند تھے۔ عمر بھر آپ نے حضرت مجدّد الف ثانیؒ کے اس قول کو راہ نما بنائے رکھا کہ شریعت جب تقاضائے طبیعت بن جائے تو طریقت بن جاتی ہے۔ آپ پیرویٔ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں زندگی گزاردی۔

آپ کے انتہائی معتقد اور قریبی ساتھی سردار محمد اعظم خان مرحوم نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں حضرت کے ساتھ سرہند کے سفر پر نکلا۔ لاہور پہنچے تو پتا چلا کہ سرہند کی گاڑی میں چند گھنٹوں کی تاخیر ہے۔ نماز فجر ہم نے آپ کی اقتدا میں ادا کی۔ میں نے نماز سے فارغ ہوکر عرض کیا:''ہمارے بھائی سردار فتح خان جو اس وقت پنجاب اسمبلی کے رکن اور لاہور ہی میں اراکین اسمبلی کی قیام گاہ میں مقیم تھے، یہ وقت ان کے پاس گزار لیتے ہیں، تاکہ آپ کو کچھ آرام کا موقع بھی مل جائے اور سردار صاحب کو آپ کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوجائے گا۔

آپ نے اجازت دے دی تو ہم پاپیادہ سردار صاحب کی قیام گاہ کی طرف چل دیے۔ قریب پہنچے تو میں تیز قدموں سے چلتا ہوا سردار صاحب کے پاس پہنچا تاکہ سردار صاحب حضور کا استقبال کرسکیں۔ سردار صاحب اسی وقت بیدار ہوئے تھے۔ جب انہوں نے حضور کی آمد کا سنا تو ننگے پاؤں، ننگے سر باہر کی طرف استقبال کے لیے بھاگے، آپ کو سردار صاحب کے چہرے پر وضو کے آثار نظر نہ آئے تو جلال میں آکر سردار فتح محمد کے چہرے پر تھپڑ رسید کیا اور فرمایا:''صبح کی نماز کا قت ختم ہوا چاہتا ہے اور آپ نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی۔'' سردار صاحب نے اس تھپڑ کو اپنے لیے باعث برکت جانا اور عرض کیا، حضور! ابھی نماز ادا کرتا ہوں۔ آپ سردار صاحب کے کمرے میں تشریف لے گئے، فرمایا: ''پہلے نماز ادا کرو، پھر کھانے پینے کا اہتمام کرنا، آپ کا اپنے مریدین کے ساتھ شریعت کے معاملے میں یہ رویہ تھا۔

راجہ فضل داد مرحوم کا بیان ہے کہ میں کلّر سیّداں ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھا۔ چھٹی کے دن اپنے آبائی گاؤں مٹور پہنچا تو پتا چلا کہ آپ سردار محمد اعظم خان کے گھر تشریف لائے ہوئے ہیں۔ میں حاضر ہوا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد دریافت فرمایا: ''فضل داد نماز پڑھتے ہو؟'' میں نے عرض کیا ''حضور! پڑھتا ہوں، کبھی کبھی قضا ہوجاتی ہے۔'' فرمایا ''تم نماز نہ چھوڑنا، اﷲ تعالیٰ تمہیں بے سہارا نہیں چھوڑے گا''۔ راجہ فضل داد فرماتے ہیں ''وہ دن اور آج کا دن نماز کا اہتمام بفضلہ جاری و ساری ہے۔''

حاجی محمد فاضل صاحب جو کہوٹہ کے رہنے والے تھے، آپ کے ساتھ حج بیت اﷲ کے لیے تشریف لے گئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حجاز مقدس روانہ ہونے سے پہلے آپ اپنے خلیفہ مجاز قاضی محمد زمان مرحوم کی وفات کے موقع پر ان کے اہلِ خانہ سے تعزیت کرنے کے لیے ان کے گھر تشریف لے گئے۔ قاضی محمد زمان کی اہلیہ محترمہ نے آپ سے دوران ملاقات عرض کیا:''قاضی صاحب ہمارا واحد سہارا تھے۔ وہ فوت ہوگئے، آپ حج پر تشریف لے جارہے ہیں۔ مالی پریشانیاں اپنی جگہ اس کے علاوہ مجھے اپنی دو بچیوں کی شادی کرنی ہے۔ ہمارے لیے دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری مشکلات آسان فرمادے۔'' آپ نے ان کے لیے دعا بھی کی اور حاجی محمد فاضل سے فرمایا کہ میرا زادِراہ ان کے سپرد کردو، تاکہ یہ اپنی بچیوں کی شادی اچھے طریقے سے کرسکیں۔ حاجی محمد فاضل نے تمام کی تمام رقم قاضی صاحب کی اہلیہ محترمہ کو دے دی۔

وہاں سے رخصت ہوکر ہم راولپنڈی اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے۔ میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ رقم تو ساری قاضی صاحب کی اہلیہ محترمہ کو دے دی۔ اب اخراجات کا کیا انتظام ہوگا۔ انہی سوچوں میں گم تھا کہ راولپنڈی اسٹیشن پہنچ گئے، گاڑی چلنے میں کچھ تاخیر تھی، آپ ایک بینچ پر بیٹھ گئے، آپ کے مریدین آپ کے ارد گرد کھڑے تھے، اتنے میں کوٹ پتلون میں ملبوس ایک اجنبی آیا اور آپ کے ہاتھ میں ایک لفافہ دے کر چلا گیا۔ آپ نے وہ لفافہ مجھے دے دیا، میں نے ایک طرف ہٹ کر لفافہ کھولا تو اس میں وافر رقم موجود تھی۔ اﷲ کا اﷲ والوں کے ساتھ یہ معاملہ دیکھ کر ایمان تازہ ہوگیا۔ موضع مٹور تحصیل کہوٹہ کے ذیلدار راجہ سلطان محمود کے بیٹے میجر کریم داد خان پر آپ خصوصی شفقت فرماتے تھے۔

وہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم میں مجھے ایسی جگہ تعینات کیا گیا کہ میں پریشان رہنے لگا اور اسی پریشان کے عالم میں اپنے مرشد کامل حضرت خواجہ عبدالرحمٰن کی طرف متوجہ رہا اور اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا رہا، ایک شب خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے مرشد کریم تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کریم داد کیا بات ہے؟ اس قدر گھبرا کیوں گئے ہو؟ آؤ میرے ساتھ آؤ، آپ نے مجھے بغل میں لیا اور فضاء میں پرواز کرنا شروع کردی۔ دریاؤں، صحراؤں، پہاڑوں کے اوپر سے گزرتے ایک بہت خوب صورت جنت نظیر جگہ پر پہنچے تو فرمایا:''کریم داد! یہ جگہ پسند ہے؟ میں نے عرض کیا، ''حضرت! یہ تو بہت ہی خوب صورت جگہ ہے''۔ فرمایا:''پھر ٹھیک ہے۔'' اتنے میں میری آنکھ کھل گئی، چند ہی روز گزرے تھے کہ ہمیں روانگی کا حکم ملا، نئی چھاؤنی جہاں ہم پہنچے، وہی جگہ تھی جو میرے مرشد کامل نے مجھے خواب میں دکھائی تھی۔

میجر کریم داد کہتے ہیں میں ملازمت کے سلسلے میں سوئٹزرلینڈ میں تھا کہ ایک رات میرے مرشد کریم خواب میں آئے اور فرمایا: ''اچھا بھئی! کریم داد! اللہ حافظ!'' میں گھبرا کر جاگ اٹھا اور اسی پریشانی میں کافی دن گزر گئے، ایک دن گھر سے خط ملا کہ فلاں تاریخ کو شیخ کامل حضرت خواجہ عبدالرحمٰن وصال کرگئے ہیں۔ اسی رات مجھے اللہ حافظ کہا تھا۔

17 ربیع الثانی 1362ھ بمطابق 1943ء اپریل کی بائیس تاریخ کو اس عالم فانی سے کوچ کرگئے۔ مزار بگھار براستہ نارہ مٹور تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی میں واقع ہے۔ آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد یعقوب 1998ء تک سجادہ نشین رہے۔ آج کل آپ کے پوتے پروفیسر ساجد الرحمٰن انتظام سنبھالے ہوئے ہیں۔

اماں جی نے پوچھا: ''بیٹا اتنی رات سخت سردی میں یہاں کیوں بیٹھے ہو؟'' آپ نے پورا ماجرہ عرض کردیا۔ اماں جی نے اپنے بیٹے کے دروازے پر دستک دی۔ جب دروازہ کھولا تو حضرت خواجہ سراج الدین رات کے ان لمحات میں اپنی والدہ محترمہ کو موجود پاکر سخت حیران ہوئے۔ اور وہاں آنے کا سبب پوچھا کہ میرے لیے کیا حکم ہے۔

اماں جی نے فرمایا: ''بیٹا! اس وقت اگر تمہارے پاس کچھ ہے تو ابھی اور اسی لمحے میرے اس بیٹے عبدالرحمٰن کو عطا کردو۔'' حضرت خواجہ سراج الدین نقشبندی نے آپ سے پوچھا: ''مولانا وضو سے ہو؟'' عرض کیا:''جی حضور!'' فرمایا: ''اندر آجاؤ۔'' پھر سخی سراج الدینؒ دینے والے اور طالب صادق خواجہ عبدالرحمٰن لینے والے تھے۔ کیا انعامات ہوئے وہ پیر مرید جانیں۔
Load Next Story